یہ دل بھی وقفِ شیون ہے ابھی درد آشنا ہوکر - مسعود الرحمن خاں صاحب - اثر

کاشفی

محفلین
زمزمہء تغزل
(مسعود الرحمن خاں صاحب - اثر)

یہ دل بھی وقفِ شیون ہے ابھی درد آشنا ہوکر
مزا تب تھا کہ رگ رگ بول اُٹھتی ہمنوا ہو کر

وہ صورت جو کبھی کاشانہء حسرت کی زینت تھی
وہ اب تک آنکھ میں پھرتی ہے تصویر وفا ہوکر

قیامت دیکھئے کل تک جو گلزارِ تمنّا تھا
وہ افسردہ ہوا آخر دل بے مدعا ہوکر

دمِ آخر ہوا دی تھی جو تم نے اپنے دامن سے
ہوئی ہے منتشر عالم میں وہ بوئے وفا ہوکر

نگاہِ شوق سے میرا وہ تکنا روئے زیبا کو
ترا روپوش ہوجانا وہ مدہوش ِ حیا ہوکر

جسے آنکھوں نے دیکھا تھا کبھی آغازِ الفت میں
وہ اب بھی دل میں روشن ہے چراغ مدعا ہوکر

زبانِ آرزو چپ ہے تو چپ ہونے سے کیاحاصل
کہیں گی رازِ الفت میری آنکھیں مدعا ہوکر

جمالِ یار کا نظارہ محشر کا نمونہ تھا
عجب حالت ہوئی آنکھوں کی اُنکا سامنا ہوکر

یہ قسمت ہے کہ آغازِ جنوں میں رنگ لے آئیں
محبت کی نگاہیں بھی تو جرم ناسزا ہوکر

تمنا بن کے چشمِ آرزو میں جلوہ گر ہونا
پھر ان کا دل میں چھپ رہنا نشانِ مدعا ہوکر

یہ سنتے تھے انہیں ایفائے وعدہ سے محبت ہے
نہ جانے کیوں ہوا انکار اقرار وفا ہوکر

اثر کچھ یاد بھی ہے وہ زمانہ جوشِ الفت کا
یہ آنکھیں جب بچھی تھیں اُس گلی میں نقشِ پا ہوکر
 
Top