ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح - مجروح سلطانپوری

فرخ منظور

لائبریرین
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آگیا ہے دولتِ بیدار کی طرح

وہ تو کہیں ہے اور مگر دل کے آس پاس
پھرتی ہے کوئی شے نگاہِ یار کی طرح

سیدھی ہے راہِ عشق پہ لیکن کبھی کبھی
خم ہوگئی ہے گیسوئے دلدار کی طرح

اب جا کے کچھ کھُلا ہنرِ ناخنِ جنوں
زخمِ جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح

مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہلِ وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں‌ گنہگار کی طرح

(مجروح سلطان پوری جن کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا)
 

الف عین

لائبریرین
ایک تو غزل ہی مجروح کی اتنی اچھی تھی، اور جب اس کو فلم ’دستک‘ میں شامل کیا گیا تو کس حد تک اس فلم کے ماحول پر فِٹ تھی کہ بیدی کے تریٹ مینٹ پر ایمان لانا پرا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ایک تو غزل ہی مجروح کی اتنی اچھی تھی، اور جب اس کو فلم ’دستک‘ میں شامل کیا گیا تو کس حد تک اس فلم کے ماحول پر فِٹ تھی کہ بیدی کے تریٹ مینٹ پر ایمان لانا پرا۔

بہت خوب کہا اعجاز صاحب - راجندر سنگھ بیدی نے اپنی فلم کمپنی "ڈاچی فلمز" کے بینر تلے فلم "دستک" بنائی تھی کہانی بھی راجندر سنگھ بیدی کی ہی تھی - فلم کے نغمہ نگار مجروح سلطانپوری اور سنگیت "مدن موہن" نے دیا تھا-
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سر کیا اس غزل کے ارکان یہ ہیں

فعلن مفاعلن فعلاتن مفاعلن
تقطع

فعلن مفاعلن فعلا تن مفاعلن
ہم ہیں متاعِ کو چہ و با زا ر کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگا ہ خریدار کی طرح
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ کیا لاجواب کلام ہے، شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیئے۔



سر کیا اس غزل کے ارکان یہ ہیں

فعلن مفاعلن فعلاتن مفاعلن
تقطع

فعلن مفاعلن فعلا تن مفاعلن
ہم ہیں متاعِ کو چہ و با زا ر کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگا ہ خریدار کی طرح

خرم صاحب اس غزل کی بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف مخذوف ہے اور افاعیل ہیں:

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

آخری رکن میں فاعلن کی جگہ فاعلان بھی آسکتا ہے۔

یہ وہی بحر ہے جو آپ کو پریشان کر رہی ہے، یہ تھوڑی سی مشکل بحر اس لیئے ہے کہ اس میں کسی رکن کی تکرار نہیں ہے، چاروں رکن مختلف ہیں اور کئی دوسری بحروں کے ساتھ متشابہ بھی ہے اسلیئے اکثر مبتدی غلطی کر جاتے ہیں (اعجاز صاحب اکثر اس جانب اشارہ کرتے ہیں)۔


ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

ہم ہیں م - مفعول
تاع کوچہ - فاعلات
و بازار - مفاعیل
کی طَرَح - فاعلن

اٹھتی ہے - مفعول
ہر نگاہ - فاعلات
خریدار - مفاعیل
کی طَرَح - فاعلن

اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آگیا ہے دولتِ بیدار کی طرح

اس کوئے - مفعول
تشنگی میں - فاعلات
بہت ہے کہ - مفاعیل
ایک جام - فاعلان (آخری رکن میں فاعلان لانے کی مثال)

ہا تھا گ - مفعول (الف وصل کا استعمال)
یا ہے دو لَ - فاعلات
تِ بیدار - مفاعیل
کی طَرَح - فاعلن
 

Qaisar Aziz

محفلین
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ، خریدار کی طرح

اس کوئے تشنگی میں بہت ہے کہ ایک جام
ہاتھ آ گیا ہے دولتِ بیدار کی طرح

وہ تو ہیں کہیں اور مگر دل کے آس پاس
پِھرتی ہے کوئی شے نگاہِ یار کی طرح

سیدھی ہے راہِ شوق پہ یوں ہی کبھی کبھی
خم ہو گئی ہیں گیسوئے دلدار کی طرح

اب جا کے کچھ کھلا ہنرِ ناخنِ جنوں
زخمِ جگر ہوئے لب و رخسار کی طرح

مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہلِ وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح

مجروحؔ سلطانپوری
 
یہ پہلے سے ہی یہاں موجود ہے آپ کلام پوسٹ کرنے سے پہلے سرچ کر لیا کریں :)
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/ہم-ہیں-متاعِ-کوچہ-و-بازار-کی-طرح-مجروح-سلطانپوری.14941/

اور سابقہ بھی غلط دیا ہے۔ میر مہدی مجروح قدیم مجروح ہیں۔ سلطانپوری نہیں

لیجیے ہم نے اسے پچھلی پوسٹ میں ضم کردیا
 
Top