کلیم عاجز ہم نے بے فائدہ چھیڑی غم ایام کی بات ۔ کلیم عاجز

ابن جمال

محفلین
ہم نے بے فائدہ چھیڑی غم ایام کی بات
کون بیکار یہاں ہے کہ سنے کام کی بات

شمع کی طرح کھڑاسوچ رہاہے شاعر
صبح کی بات سنائے کہ کہے شام کی بات

ہم غریبوں کو توعادت ہے جفاسہنے کی
ڈھونڈہی لیتے ہیں تکلیف میں آرام کی بات


دھوپ میں خاک اڑالیتے ہیں سائے کیلئے
پیاس لگتی ہے تو کرتے ہیں مئے وجام کی بات

اب توہرسمت اندھیراہی نظرآتاہے
خوب پھیلی ہے تری زلف سیہ فام کی بات

صبح کے وقت جو کلیوں نے چٹک کرکہدی
بات چھوٹی سی ہے لیکن ہے بڑے کام کی بات

کوئی کہدے کہ محبت میں برائی کیاہے
یہ نہ توکفر کی ہے بات نہ اسلام کی بات

گرچہ احباب نے سرجوڑ کے ڈھونڈاعاجز
نہ ملی میری غزل میں روشِ عام کی بات
کلیم عاجز​
 
Top