تیسری سالگرہ ہفتۂ شعر و سخن - محفل کی تیسری سالگرہ کا جشن

فرحت کیانی

لائبریرین
اک ٹہنی پر پھولے پھلے ہیں پاکستان اور میں
ہرموسم میں ساتھ رہے ہیں پاکستان اور میں

کالی رات، ہوا طوفانی ، مولا پار اتار !
ایک ہی کشتی میں بیٹھے ہیں پاکستان اور میں

غافل بھی نہیں رہنے دیتی خوف سمے کی رات
باری باری سو لیتے ہیں پاکستان اور میں

اس کے سر پر باپ کی پگڑی، میں ہوں نافرمان
ایک ہی شخص کے دو بیٹے ہیں پاکستان اور میں

اور ابھی کچھ وقت لگے گا تھکن اتارنے میں
ہجرت کرکے آئے ہوئے ہیں پاکستان اور میں

اپنی مثال تو یوں ہے تابش جیسے دو مجذوب
اپنے آپ میں گم رہتے ہیں پاکستان اور میں


عباس تابش​
 

تیشہ

محفلین
میں بھی فرزانہ کی نیلی رگیں شئیر کر رہی ہوں جو مجھے بہت پسند ہے ، فرزانہ کی اپنی ہی آواز میں ، پیلے پیڑ ،

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=e1IqCJp4RoQ[/ame]



فرحت سنئیے گا ،

WowSmiley.gif
 

فرحت کیانی

لائبریرین
مظفر وارثی کی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے۔


ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

دعووں کی ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی
فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا

فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے
تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا

چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے
اپنی ہی کمائی کو تو لُوٹا نہیں جاتا

اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی
اور اپنے گریبان میں جھانکا نہیں جاتا

فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن
قانون سے قانون کو بدلا نہیں جاتا

ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی
شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آ جائے
ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک تو کوئی دریا نہیں جاتا

اللہ جسے چاہے اُسے ملتی ہے مظفر
عزت کو دکانوں سے خریدا نہیں جاتا

مظفر وارثی
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت بہت شکریہ سخنور! خصوصاً آج تو آپ نے سارا ہی میرا پسندیدہ کلام پوسٹ کر دیا :)

فرمائشی پروگرام ، قسط 2: سخنور میں یہاں ن۔ م۔ راشد کی نظم 'مجھے ودا کر' پوسٹ کرنا چاہ رہی تھی۔ لیکن پھر خیال آیا کہ شاید آپ نے ان کی یہ نظم محفل پر پوسٹ کی ہوگی۔ اس کا لنک یہاں دے دیں پلیز۔

بہت شکریہ فرحت کیانی، میں نے ابھی تک یہ نظم پوسٹ نہیں کی میں کلیات میں سے ڈھونڈھ کر جلد ہی پوسٹ کرتا ہوں -
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، واہ واہ لا جواب۔ سبحان اللہ،

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

کیا خوبصورت اشعار ہیں، کیا نگینے جڑے ہیں، کیا موتی پروئے ہیں، واہ واہ لا جواب، جی خوش ہوا آپ کی غزل پڑھ کر۔


اور محبت ہے آپ کی بندہ پرور کہ آپ نے اپنے کلام سے ہمیں نوازا، شکریہ آپ کا!

وارث صاحب

آپ کی محبت اور عنایت کے لئے ممنون ہوں ۔ یقیناً میں اگر چاہوں بھی تو آپ سب کی محبتوں کا قرض نہیں چکا سکتا۔

اللہ آپ کو شاد رکھے (آمین )
 

زھرا علوی

محفلین
یہ جو پلکوں پہ رم جھم ستاروں کا میلہ سا ہے
یہ جو تیرے بنا کوئی اتنا اکیلا سا ہے
میرا دل تیری یادوں سے مہکا ہوا اک شہر ہے

سب محبت کا اک پہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے

ساحلوں پہ گھروندے بنائے تھے ہم نے، تمہیں یاد ہے؟
رنگ بارش میں کتنے اڑائے تھے ہم نے، تمہیں یاد ہے؟
جانے کس لے لیے گھر سجائے تھے ہم نے، تمہیں یاد ہے؟
کوئی خوشبو کا جھونکا ادھر آ نکلتا نہیں
گم ہے نیندوں کے صحرا میں خوابوں کا رستہ کہیں
ہر خوشی آتے جاتے ہوئے وقت کی لہر ہے۔۔۔

سب محبت کا اک پہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے

زندگی دھوپ چھاؤں اک کھیل ہے، بھیڑ چھٹتی نہیں
اور اسی کھیل میں دن گزرتا نہیں، رات کٹتی نہیں
پیار کرتے ہوئے آدمی کی کبھی ، عمر گھٹتی نہیں
دل کی دہلیز پر عکس روشن ترے نام سے
رت جگے آئینوں میں کھلے ہیں کہیں شام سے
ایک چاروں طرف درمیاں بحر ہے۔۔۔۔

سب محبت کا اک پہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے



فیصل لطیف نے یہ نظم بہت خوب گائی ہے میری کوشش تو یہی تھی کے اسے پیش کروں مگر مجھے لنک پوسٹ کرنا نہیں آیا۔۔:(
 

محمداحمد

لائبریرین
منہ کا مزا بدلنے کے لئے مزاحیہ کلام پیش کر رہہہہوں پہلی بار۔۔۔ اپنا نہیں۔
کرنل کریم نگری کا

فاعلاتن فاعلاتن فاعلات​

محفلوں میں بیٹھ کر کرنا نہ بات
واہیاتُن واہیاتن واہیات
جانتا ہوں میں ترے دن اور رات
چغلیاتن چغلیاتن چغلیات
سب سے اچھا محکمہ ہے تعلیمات
تعطیلاتن تعطیلاتن تعطیلات
سب سے مہنگی عورتوں کی خواہشات
زیوراتن زیوراتن زیورات
مرد شاعر کی نکالیں گی برات
شاعراتن شاعراتن شاعرات
خوب کر بیگم کی اس میں ہے نجات
تعریفاتن تعریفاتن تعریفات
آپ سب کو بھا گئی کرنل کی بات
تسلیماتن تسلیماتن تسلیمات

اعجازعبید صاحب

واہ واہ واہ جناب، کیا مزیدار شاعری ہے
خوب ! بہت خوب! بہت ہی خوب!
 
عرصہ پہلے ایک تک بندی کی تھی مزاحیہ۔۔۔ ملاحظہ ہو:

چند سکوں کے لیے پسپائی کرکے پھنس گئے
دال، آٹا، گھی انہیں سپلائی کرکے پھنس گئے

دانت تھے اچھے بھلے پھر جانے کیا سوجھی انہیں
بے ضرورت سائنسی رگڑائی کرکے پھنس گئے

عید پر بن کر قصائی خوب لوٹا تھا مگر
سردیوں میں اپنا پیشہ نائی کرکے پھنس گئے

عقل کی یہ ہارڈ ڈسک اب بوٹ ہو پاتی نہیں
ہم تو دل پہ پاسورڈ اپلائی کرکے پھنس گئے

واہ واں کرکے نکاح اچھا پھنسا اپنا رقیب
آہ یاں عمار خود کو "بھائی" کرکے پھنس گئے​

:fun:
 

محمداحمد

لائبریرین
گذشتہ دو تین دن کچھ مصروفیات رہیں اُس دوران یہاں دوستوں نے بہت عمدہ کلام پیش کیا۔ پڑھ کر جی خوش ہوا اور بہت سا کلام ایسا ہے کہ بارہا پڑھنے کا متقاضی ہے۔ خاص طور پر فُرخ بھائی نے تو عمدہ کلام کی ایسی زنجیر بنادی ہے کہ اس کے اسیر اسی کےہو کر رہ گئے اور رہائی کے متمنی بھی نہیں۔

تمام دوستوں کا بے حد شکریہ !
 

محمداحمد

لائبریرین
منیر نیازی کی ایک غزل

غزل

آگئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی

کھل گئے شہرِ غم کے دروازے
اک ذرا سی ہو کے چلتے ہی

کون تھا تو کہ پھر نہ دیکھا تجھے
مٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی

خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہِ شب تاب کے نکلتے ہی

تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ہے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی

خون سا لگ گیا ہے ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی

منیر نیازی
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد فراز کی ایک غزل

غزل

پھر اُسی راہ گزر پر شاید
ہم کبھی مل سکیں مگر شاید

جن کے ہم منتظر رہے اُن کو
مِل گئے اور ہمسفر شاید

جان پہچان سے بھی کیا ہوگا
پھر بھی اے دوست غور کر! شاید

اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اُٹھے تری نظر شاید

زندگی بھر لہو رُلائے گی
یادِ یارانِ بے خبر شاید

جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فراز
پھر بھی تو انتظار کر شاید

احمد فراز
 

محمداحمد

لائبریرین
نظم

کس نے کہا تھا
کچی پکی دیواروں پہ ہات رکھو
کس نے کہا تھا
سایوں کے ہمراہ چلو
کس نے کہا تھا
صحرائوں میں راہیں ڈالو
بولو!
آخر کس نے کہا تھا
تن تنہا آوارہ بادل کی سیلانی چھائوں میں
سستانے بیٹھو
افراتفری کے موسم میں
کس نے کہا تھا پیار کرو

فرحت عباس شاہ
 

محمداحمد

لائبریرین
اقبال عظیم کی ایک نظم

نظم

تتلیوں کے موسم میں
نوچنا گلابوں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے

دیکھ کر پرندوں کو
باندھنا نشانوں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے

تم ابھی نئے ہو ناں
اس لئے پریشاں ہو
آسمان کی جانب
اِس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں ٹوٹنا ستاروں کا
ریت اس نگر کی
اور جانے کب سے ہے

شہر کے باشندے
نفرتوں کو بو کر بھی
انتظار کرتے ہیں
فصل ہو محبت کی
ڈھونڈنا سرابوں کا
ریت اس نگرکی ہے
اور جانے کب سے ہے

اجنبی فضائوں میں
اجنبی مسافر سے
اپنے ہر تعلق کو
دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا
مانگنا دعائوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے

خامشی مرا شیوہ
گفتگو ہنر اُن کا
میری بے گناہی کو
لوگ کیسے مانیں گے
بات بات پر جب کہ
مانگنا حوالوں کا
ریت اس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے

اقبال عظیم
 

نوید صادق

محفلین
لیجئے صاحب ایک اور غزل۔

آئنوں پر زوال کے دن ہیں
شیشہء دل ، کمال کے دن ہیں

دوست وحشت میں یوں نہیں کرتے
زخم پر اندمال کے دن ہیں

وسعتِ شہر تنگ پڑنے لگی
دشت کی دیکھ بھال کے دن ہیں

خیریت پوچھتے ہو لوگوں کی
شہرِ دل میں ملال کے دن ہیں

کوئی سمجھائے دوستوں کو نوید
مہلتِ عرضِ حال کے دن ہیں

شاعر: نوید صادق
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے وداع کر


مجھے وداع کر
اے میری ذات، مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
لوگ جو ہزار سال سے
مرے کلام کو ترس گئے؟

مجھے وداع کر،
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چُکا

میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا!

مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!

مجھے وداع کر
بہت ہی دیر _______ دیر جیسی دیر ہوگئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسوی صدی کی رات بج چُکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات

تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____
خوابِ قہوہ رنگ میں _____
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں!

مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں ____
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال ____ بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!

مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرح _____
مجھے اے میرے ذات،
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسہء گرسنگی لیے)
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____

مجھے وداع کر،
کہ اپنے آپ میں
مَیں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا
کہ حوصلہ نہیں _____

(ن، م راشد)
 

محمد وارث

لائبریرین
عرصہ پہلے ایک تک بندی کی تھی مزاحیہ۔۔۔ ملاحظہ ہو:

چند سکوں کے لیے پسپائی کرکے پھنس گئے
دال، آٹا، گھی انہیں سپلائی کرکے پھنس گئے​

دانت تھے اچھے بھلے پھر جانے کیا سوجھی انہیں
بے ضرورت سائنسی رگڑائی کرکے پھنس گئے​

عید پر بن کر قصائی خوب لوٹا تھا مگر
سردیوں میں اپنا پیشہ نائی کرکے پھنس گئے​

عقل کی یہ ہارڈ ڈسک اب بوٹ ہو پاتی نہیں
ہم تو دل پہ پاسورڈ اپلائی کرکے پھنس گئے​

واہ واں کرکے نکاح اچھا پھنسا اپنا رقیب
آہ یاں عمار خود کو "بھائی" کرکے پھنس گئے​

:fun:

کیا بات پیدا کی ہے حضور، کیا آمد ہے، کیا شوق ہے، کیا پیشہ ہے، کیا بھائی کا رول نبھایا ہے برادرم، واہ واہ لاجواب :)
 

محمد وارث

لائبریرین
لیجئے صاحب ایک اور غزل۔

آئنوں پر زوال کے دن ہیں
شیشہء دل ، کمال کے دن ہیں

دوست وحشت میں یوں نہیں کرتے
زخم پر اندمال کے دن ہیں

وسعتِ شہر تنگ پڑنے لگی
دشت کی دیکھ بھال کے دن ہیں

خیریت پوچھتے ہو لوگوں کی
شہرِ دل میں ملال کے دن ہیں

کوئی سمجھائے دوستوں کو نوید
مہلتِ عرضِ حال کے دن ہیں

شاعر: نوید صادق


لا جواب غزل ہے نوید بھائی، بہت خوب۔

آئنوں پر زوال کے دن ہیں
شیشہء دل، کمال کے دن ہیں

خیریت پوچھتے ہو لوگوں کی
شہرِ دل میں ملال کے دن ہیں

واہ واہ واہ، بہت خوبصورت اشعار ہیں، سبحان اللہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے یہ لکھتے ہوئے کہ احباب نے اس سلسلے کو بہت پذیرائی بخشی، سبھی احباب نے بہت اچھا انتخاب پیش کیا اور شعرائے کرام کے تو کیا کہنے، خاکسار اور فرخ صاحب آپ سب کی محبتوں کیلیئے آپ کے ممنون ہیں۔

یوں تو ہفتہ مکمل ہو گیا ہے لیکن سعود صاحب نے اعلان کیا تھا کہ محفل کا جشن مزید ایک ہفتہ چلے گا تو مجھے بہت خوشی ہوئی تھی کہ احباب کی محفلِ سخن مزید ایک ہفتہ سجی رہے گی۔

میری خواہش تو یہی ہے کہ اس سلسلے کو محفل کی سالگرہ کے جشن کے ساتھ ساتھ چلتے رہنا چاہیئے لیکن اگر ناظمین یہ سمجھتے ہیں کہ اب پیمانہ و صہبا کے اٹھانے کا وقت آ گیا ہے تو پھر سر تسلیم خم ہے۔
 
Top