تیسری سالگرہ ہفتۂ شعر و سخن - محفل کی تیسری سالگرہ کا جشن

فرخ منظور

لائبریرین
کیا غمِ جاں اور کیا غمِ جاناں سب کے محرمِ راز ہوئے
اب مجبورِ نوا بھی نہیں ہیں اب تو پردہء ساز ہوئے

خوئے فراق ہی آڑے آئی آخر ہم مجبوروں کے
میل ملاپ پہ قادر جب سے آپ ایسے دم باز ہوئے

لازم ہے درویش کی خاطر پردہ دنیا داری کا
ورنہ ہم تو فقیر ہیں جب سے یار زمانہ ساز ہوئے

شعر و سخن، سامانِ جنوں کیا، کوہکنی درویشی کیا
قیدِ حیات میں درد کے مارے رہے تو حیلہ ساز ہوئے

آج غزل کی صورت میں جو آپ کے سامنے آئے ہوئے
کن جتنوں سے یہ خون کے قطرے اب تک پس انداز ہوئے

(مختار صدیقی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا

اِک اِک قدم پہ اس کے ہوا سجدہ ریز میں
گزرا تھا جس جہاں کو کبھی روندتا ہوا

دیکھا تجھے تو آرزؤں کا ہجوم تھا
پایا تجھے تو کچھ بھی نہ تھا باقی رہا ہوا

دشتِ جنوں میں ریگِ رواں سے خبر ملی
پھرتا رہا ہے تو بھی مجھے ڈھونڈتا ہوا

پوچھو تو ایک ایک ہے تنہا سلگ رہا
دیکھو تو شہر شہر ہے میلہ لگا ہوا

الفاظ کے فریب کا جادو تو ہے نظر
کشتی ڈبو گیا جو خدا، ناخدا ہوا

(قیّوم نظر)
 

الف عین

لائبریرین
میں نے اپنے ہی شعر میں ٹائپو کر دی تھی، ’جب‘ کو ’جن‘ ٹائپ کر دیا تھا۔ اب درست کر دیا ہے
یہ خواب میں ہنسنے والے بچے تو سب نے دیکھے
جب آنکھ بیدار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
 

فرخ منظور

لائبریرین
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں

ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں

دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں

سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمہیں

جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں

اڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمہیں

دور گگن پر ہنسنے ولے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ، ہاتھ لگائیں تمہیں

(ظہور نظر)
 

الف عین

لائبریرین
واہ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرخ نے تو ڈھیر لگا دئے موتیوں کے۔ وہ اپنا ہی شعر یاد آ گیا گو درست موقع تو نہیں
ہم موتیوں کے ڈھیر لٹائیں یہاںوہاں
یاروں نے شاعری کی تجارت بھی کی بہت
 

فرخ منظور

لائبریرین
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میّسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں

دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں

جس طرح شعیب اس کا نام چُن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چُن رکھا ایک نام ناموں میں

(شعیب بن عزیز)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جو پُل صراطِ شعور و خرد سے گزرا ہوں
تو سچ یہ ہے کہ جنوں کی مدد سے گزرا ہوں

جب امتحانِ لب و زلف و قد سے گزرا ہوں
سمندروں کی طرح جزر و مد سے گزرا ہوں

میں خود کو کرتا تھا اربابِ ہندسہ میں شمار
سو کس عذابِ شمار و عدد سے گزرا ہوں

ہنر کی آس سی روشن ہے میرے سینے میں
یہ آگ لے کے میں شہرِ حسد سے گزرا ہوں

(شبنم رومانی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریکِ گریہء شمبنم نہ ہوں گے

ذرا دیر آشنا چشمِ کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے

زمانے بھر کا غم یا اِک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے

اگر تو اتفاقا" مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

حفیظ ان سے میں جتنا بدگماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے

(حفیظ ہوشیارپوری)
 

فرخ منظور

لائبریرین
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

یوں تو ہو میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
آنسوؤں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے

وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہو گئیں
ہم جہاں پہنچے، ہمارے ساتھ ویرانے گئے

اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے
بارہا ہم جن سے گلزاروں کے مہکانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطر کشتہء شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے

(خاطر غزنوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے

اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے

مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے

جس شام شاہزادی فقیروں کے گھر میں آئے
اُس شام وقت کو بھی ٹھہر جانا چاہیے

رِبّ وصال، وصل کا موسم تو آچکا
اب تو مرا نصیب سنور جانا چاہیے

جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور جانا چاہیے

بیٹھے رہو گے دشت میں کب تک حسن رضا
پاؤں میں جاگ اٹھا ہے سفر جانا چاہیے

(حسن عباس رضا)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا

وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں، سلگتے دن تھے، سلگتی راتیں
وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا

گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا
وہ آرزؤں کے خواب بننا وہ قصہء ناتمام لکھنا

مرے نگر کی حسیں فضاؤ! کہیں جو ان کا نشان پاؤ
تو پوچھنا یہ کہاں بسے وہ، کہاں ہے ان کا قیام لکھنا

گئی رتوں میں‌حَسن ہمارا بس ایک ہی تو مشغلہ ہے
کسی کے چہرے کو صبح لکھنا کسی کی زلفوں کی شام لکھنا

(حَسن رضوی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
سوزِ غم دے کے مجھے اُس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہء لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اب میں سو جان اس طرزِ تکلم کے نثار
"پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا"

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

(جوش ملیح آبادی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے

مے برستی ہے فضاؤں پہ نشہ طاری ہے
میرے ساقی نے کہیں جام اچھالے ہوں گے

شمع وہ لائے ہیں ہم جلوہ گہء جاناں سے
اب دو عالم میں اجالے ہی اجالے ہوں گے

جن کے دل پاتے ہیں آسائشِ ساحل سے سکوں
اِک نہ اک روز طلاطم کے حوالے ہوں گے

ہم بڑے ناز سے آئے تھے تری محفل میں
کیا خبر تھی لبِ اظہار پہ تالے ہوں گے

اُن سے مفہومِ غمِ زیست ادا ہو شاید
اشک جو دامنِ مژگاں نے سنبھالے ہوں گے

(پرواز جالندھری)
 

فرخ منظور

لائبریرین
سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سر میں اِک رنگ دھنک کا تیرے نام

جنگل جنگل رونے والے سب موسم
اور ہوا کا سبز دوپٹہ تیرے نام

ہجر کی شام اکیلی رات کے خالی در
صبحِ فراق کا درد اجالا تیرے نام

تیرے بنا جو عمر بتائی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام

جتنے خواب خدا نے میرے نام لکھے
ان خوابوں کا ریشہ ریشہ تیرے نام

(ایوب خاور، پی ٹی وی پروڈیوسر)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ماشاءاللہ یہاں پوسٹ کیا گیا سارا کلام اتنا خوبصورت ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کس کو quote نہ کیا جائے۔ سب کا بہت بہت شکریہ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عرصہ ہوا کوئی تک بندی محفل کی نذر کئے ہوئے۔ سوچا آج ایک حاضر خدمت کرتا ہوں۔ پر اس بار اسے اس کے مخصوص دھاگے میں پوسٹ نہ کرکے جشن محفل کی مناسبت سے یہاں پیش کر رہا ہوں۔ (گرچہ بلند و بالا شعرا کے کلام کے درمیان اس کا رکھنا بجائے خود بے ادبی ہے۔)

میراث

وہ اک ولائتی کتے کا پھول سا بچہ
کسی امیر کے گھر میں جو ہو گیا پیدا
عجیب ناز سے ہوتی ہے پرورش اس کی
اسے ملا ہے وراثت میں دودھ کا پیالہ!

وہ ایک جابر و ظالم امیر کا بیٹا
جوا شراب زنا قتل جس کا ہے شیوہ
کہ جس کے پاؤں کے نیچے غریب کی گردن
اسے ملا ہے وراثت میں جبر کا کوڑا!

ٹھٹھرتی رات میں فٹ پاتھ پہ پڑا بچہ
ہیں والدین کہاں اس کے یہ نہیں ہے پتہ
بدن پہ تار نہیں پیٹ میں خوراک نہیں
اسے ملا ہے وراثت میں ہاتھ پھیلانا!

وہ ایک لڑکی جو نازک تھی اک کلی کی طرح
سہانے خواب سنجوئے ہوئے جو بیٹھی تھی
جہیز جیسی بلا نے نگل لئے ارمان
اسے ملا ہے وراثت میں آنسؤں کا سفر!

اور ایک میں ہوں کہ ہر وقت سوچتے رہنا
اسی کا نام ہے میراث؟ خود سے یہ کہنا
عجب تضاد کوئی سوتا کوئی روتا ہے
مجھے ملا ہے وراثت میں سوچنے کا ہنر!

--
سعود ابن سعید

ماشاءاللہ ! سعود کتنا اچھا لکھتے ہو آپ :) ۔۔۔ لیکن اس تھریڈ میں صرف ایک پوسٹ کیوں؟؟؟ ،مزید 'تک بندیاں' کہاں ہیں؟؟ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا

دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں


رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اُس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا


میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے



کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا
ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا



سوزِ غم دے کے مجھے اُس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا




جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے

سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سر میں اِک رنگ دھنک کا تیرے نام


بہت بہت شکریہ سخنور! خصوصاً آج تو آپ نے سارا ہی میرا پسندیدہ کلام پوسٹ کر دیا :)

فرمائشی پروگرام ، قسط 2: سخنور میں یہاں ن۔ م۔ راشد کی نظم 'مجھے ودا کر' پوسٹ کرنا چاہ رہی تھی۔ لیکن پھر خیال آیا کہ شاید آپ نے ان کی یہ نظم محفل پر پوسٹ کی ہوگی۔ اس کا لنک یہاں دے دیں پلیز۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہ عجب ساعتِ رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رختِ سفر لگتا ہے

ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا
دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے

جس پہ چلتے ہوئے سوچا تھا کہ لوٹ آؤں گا
اب وہ رستہ بھی مجھے شہر بدر لگتا ہے

مجھ سے تو دل بھی محبت میں نہیں خرچ ہوا
تم تو کہتے تھے کہ اس کام میں گھر لگتا ہے

وقت لفظوں سے بنائی ہوئی چادر جیسا
اوڑھ لیتا ہوں تو سب خوابِ ہنر لگتا ہے

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے


۔۔۔عباس تابش
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی

صبح ہوتے ہی نکل آتے ہیں بازار میں لوگ
گٹھڑیاں سر پہ اٹھائے ہوئے ایمانوں کی

اپنی پوشاک سے ہشیار کہ یہ خدامِ قدیم
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی

صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی

اُن کو کیا فکر کہ میں پار لگا کہ ڈوبا
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی

مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند
کس قدر اَوج پہ تکریم ہے انسانوں کی

تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا!
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی؟

ابھی تکمیل کو پہنچا نہیں ذہنوں کا گداز
ابھی دنیا کو ضرورت ہے غزل خوانوں کی


احمد ندیم قاسمی
 
Top