تیسری سالگرہ ہفتۂ شعر و سخن - محفل کی تیسری سالگرہ کا جشن

محمد وارث

لائبریرین
مشہور ہے کہ شعراء کرام جب شعر کہتے ہیں تو جب تک سنا نہ دیں کسی کو، ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہےئ۔ اس خاکسار کے ساتھ الٹی واردات ہوئی۔
پرسوں پیر کو میرے پیٹ میں درد اور بد ہضمی کی شکایت ہع گئی تھی اور میں چھٹی پر تھا۔ اسی شام کو کچھ اشعار کا۔۔ بلکہ مکمل غزل کا نزول ہوا:
عرض کر رہا ہوں:

شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
پہاڑ یادوں کے اڑ رہے تھے چہار جانب
زمین ہموار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
وہ ڈھونڈتے تھے وفا کےصحرا میں نخل کوئی
تلاش بسیار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
تمام تیر ایک ساتھ اک سمت گر رہے تھے
بدن پہ یلغار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
یہ خواب میں ہنسنے والے بچے تو سب نے دیکھے
جن آنکھ بیدار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
جو نامکمل تھی جوٗری، کچھ فیصلہ تو ہوتا
کمی جو اس بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
عبید جب اپنی تازہ غزلیں سنا رہے تھے
جو روح سرشار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا

واہ واہ لا جواب، اعجاز صاحب، کیا خوبصورت غزل ہے، کیا لاجواب اشعار ہیں، کیا ردیف ہے، کیا تیزی ہے، کیا روانی ہے، کیا کاٹ ہے، کیا بات ہے، واہ واہ واہ۔ اس غزل کا ایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ 'حالتِ نزول' کی چیزے دیگری ہے۔ لا جواب!

(اعجاز صاحب، 'جو نامکمل تھی' کہ بعد مجھے ایک ڈبہ نظر آ رہا ہے، درست فرمادیں گے تو عین نوازش آپ کی)۔
 

نوید صادق

محفلین
سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی ایک غزل بغیر انتخاب کئے جو سامنے آ گئ۔

غزل

خود اپنی ذات کی ہیبت سے ڈر نہ جاؤں کہیں
مجھے کنویں سے نکالو، کہ مر نہ جاؤں کہیں

مرا تو کوئی نہیں اس بھری سرائے میں
میں اپنی ذات کے اندر بکھر نہ جاؤں کہیں

اگر کہے تو میں پاتال سے بھی ہو آؤں
وگرنہ تیری گلی چھوڑ کر نہ جاؤں کہیں

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں

تجھے یہ خوف تری راہ میں زمانہ ہے
مجھے یہ ڈر کہ میں خود سے گزر نہ جاؤں کہیں

نوید کوئی تماشا ہے خود میں در آنا
میں جانا چاہوں برابر مگر نہ جاؤں کہیں
(نوید صادق)
 

نوید صادق

محفلین
سعید بھائی
شکریہ
بس کچھ عرصہ طبیعت ٹھیک نہ تھی، پھر میرے پاس جو پراجیکٹ ہے وہ مہلت ہی نہیں دیتا، صبح سویرے ڈیوٹی پر جاتا ہوں اور رات گئے لوٹتا ہوں۔ خیر اب یوں سمجھیں وعدہ کرتا ہوں کہ حاضر رہوں گا۔
 
چلئے اللہ آپ کو کامیاب کرے۔ اور ہاں بر سبیل تذکرہ عرض کر دوں کہ میں سعود ابن سعید ہوں لہٰذا سعید میرے والد صاحب قبلہ کا نام ہے۔ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
السلام علیکم خواتین و حضرات۔

اردو محفل کی تیسری سالگرہ کے جشن کے سلسلے میں مختلف ایام منانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور 'ہفتۂ شعر و سخن' اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ گو کہ اسے 'یومِ شعر و سخن' ہونا چاہیئے تھا لیکن موضوع کی نوعیت اور احباب کی مصروفیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس سلسلے کو ایک ہفتے کیلیئے منانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

یہاں پر آپ کے میزبان سخنور (فرخ منظور صاحب) اور یہ خاکسار ہیں۔

کچھ دیر پہلے میری فرخ صاحب سے اس سلسلے میں بات ہوئی تھی اور ہم نے کچھ پروگرام مرتب کرنے کی کوشش کی ہے، کچھ تجاویز میں نیچے لکھ رہا ہوں اور کچھ فرخ صاحب آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

اسی سلسلے میں ہمیں آپ سب احباب کی مدد اور تعاون بھی درکار ہے امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں گے :)

ہم نے جو پروگرام مرتب کیا ہے اسکا اجمالی سا خاکہ کچھ یوں ہے:

- اس تھریڈ میں اس ہفتے ان کلاسیکی اور جدید شعراء کرام کا کلام پیش کیا جائے گا جن کا کلام ویب کی دنیا میں بہت کم کم ملتا ہے۔

- شعراء حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنی پسند کا اپنا کلام یہاں پر پیش کریں۔ اللہ کے فضل و کرم سے اردو محفل پر اس وقت بہت اچھے شعرا موجود ہیں، ان سب سے استدعا ہے کہ اپنی پسند کا اپنا کلام، کوئی تازہ، کوئی پرانا کلام، کوئی غزل، کوئی نظم، کوئی ایک شعر یہاں پیش کریں۔ خاص طور پر ان احباب سے استدعا ہے:

- جناب اعجاز عبید صاحب (الف عین)
- جناب شاکر القادری صاحب
- جناب خاور چودھری صاحب
- محترمہ فرزانہ نیناں صاحبہ
- جناب فاتح الدین بشیر صاحب
- جناب نوید صادق صاحب
- محترمہ زرقا مفتی صاحبہ
- جناب م م مغل صاحب
- جناب محمد احمد صاحب
- محترمہ زھرا علوی صاحبہ
- جناب سعود ابنِ سعید صاحب
- جناب امر شہزاد صاحب
- محترمہ جیا راؤ صاحبہ
- جناب عمار ضیا خان صاحب
- جناب خرم شہزاد خرم صاحب
- جناب ایم اے راجا صاحب
- جناب محسن حجازی صاحب

جناب فرخ منظور صاحب اور یہ خاکسار (کہ تخلص رکھ کر شہادت کا دعویدار ہے) بھی کچھ نہ کچھ آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔

- ان احباب سے جو شعر و سخن کا بہت اعلٰی ذوق رکھتے ہیں لیکن 'پسندیدہ کلام' کے زمرے میں (یعنی ہمارے غریب خانے میں :) ) کم کم تشریف لاتے ہیں ان سے استدعا ہے کہ اپنی پسند کا کوئی شعر، کوئی مصرع، کوئی غزل، کوئی نظم ہمارے ساتھ شیئر کریں، خاص طور پر ان احباب سے استدعا ہے:

- جناب نبیل نقوی صاحب
- جناب زکریا اجمل صاحب
- محترمہ سیدہ شگفتہ صاحبہ
- محترمہ ماوراء صاحبہ
- محترمہ تعبیر صاحبہ
- محترمہ بوچھی صاحبہ

- اور ان احباب سے جو شعر و شاعری کے زمرے میں فعال ہیں ان سے بھی درخواست ہے کہ یہاں اپنی پسند کا کلام پیش کریں، خاص طور پر:

- محترمہ فرحت کیانی صاحبہ
- جناب شمشاد صاحب
- جناب ظفر احمد درانی صاحب
- محترمہ سارہ خان صاحبہ
- محترمہ حجاب صاحبہ
- محترمہ زونی صاحبہ

- اور آخر میں یہ بھی کہ اگر آپ کسی شاعر کا کلام پڑھنا چاہ رہے تو یہاں پر مطلع کریں، ہم سب کوشش کریں گے کہ آپ کو آپ کا مطلوبہ کلام پڑھنے کیلیئے پیش کیا جائے۔

یہ تجاویز تو فی الوقت میرے پاس تھیں، فرخ صاحب کچھ مزید تفصیلات کے ساتھ حاضر ہونگے، اس سلسلے میں آپ احباب سے بھی استدعا ہے کہ اگر آپ کے ذہن مین اس 'ہفتے' کے سلسلے میں تجاویز ہوں تو ہمارے ساتھ شیئر کریں، عین نوازش ہوگی۔

السلام علیکم
سب سے پہلے تو اتنا اچھا سلسلہ شروع کرنے پر وارث اور سخنور آپ کو بہت بہت شکریہ۔ ایک ہی جگہ پر بہترین کلام پڑھنے کو ملے تو کیا کہنے۔ خوش رہئیے۔
باذوق لوگوں کو شاندار کلام اور انتخاب پڑھنے کے لیے تو مجھے پہلی ہی فرصت میں ایک پورا دن یہیں ٹھکانہ کرنے پڑے گا۔ :) اور میرا نام شامل کرنے کے لیے بھی بہت شکریہ۔ انشاءاللہ جلدی ہی کچھ پوسٹ کرتی ہوں۔
لیکن پہلے میری پہلی فرمائش بھی نوٹ کر لی جائے۔ اگر ممکن ہو تو 'اے دیس سے آنے والے بتا' (اختر شیرانی والی نہیں بلکہ جو احمد فراز نے لکھی ہے) پوسٹ کریں پلیز۔ مجھے ٹھیک طرح سے یاد تو نہیں آ رہا لیکن شاید یہ نظم 'تنہا تنہا' میں شامل ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی ایک غزل بغیر انتخاب کئے جو سامنے آ گئ۔

غزل

خود اپنی ذات کی ہیبت سے ڈر نہ جاؤں کہیں
مجھے کنویں سے نکالو، کہ مر نہ جاؤں کہیں

مرا تو کوئی نہیں اس بھری سرائے میں
میں اپنی ذات کے اندر بکھر نہ جاؤں کہیں

اگر کہے تو میں پاتال سے بھی ہو آؤں
وگرنہ تیری گلی چھوڑ کر نہ جاؤں کہیں

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں

تجھے یہ خوف تری راہ میں زمانہ ہے
مجھے یہ ڈر کہ میں خود سے گزر نہ جاؤں کہیں

نوید کوئی تماشا ہے خود میں در آنا
میں جانا چاہوں برابر مگر نہ جاؤں کہیں
(نوید صادق)

واہ واہ، لاجواب کیا خوبصورت غزل ہے نوید بھائی، بہت خوب اور بہت شکریہ یہاں تشریف لانے کیلیئے اور اپنی شاعری شیئر کرنے کیلیئے۔


السلام علیکم
سب سے پہلے تو اتنا اچھا سلسلہ شروع کرنے پر وارث اور سخنور آپ کو بہت بہت شکریہ۔ ایک ہی جگہ پر بہترین کلام پڑھنے کو ملے تو کیا کہنے۔ خوش رہئیے۔
باذوق لوگوں کو شاندار کلام اور انتخاب پڑھنے کے لیے تو مجھے پہلی ہی فرصت میں ایک پورا دن یہیں ٹھکانہ کرنے پڑے گا۔ :) اور میرا نام شامل کرنے کے لیے بھی بہت شکریہ۔ انشاءاللہ جلدی ہی کچھ پوسٹ کرتی ہوں۔
لیکن پہلے میری پہلی فرمائش بھی نوٹ کر لی جائے۔ اگر ممکن ہو تو 'اے دیس سے آنے والے بتا' (اختر شیرانی والی نہیں بلکہ جو احمد فراز نے لکھی ہے) پوسٹ کریں پلیز۔ مجھے ٹھیک طرح سے یاد تو نہیں آ رہا لیکن شاید یہ نظم 'تنہا تنہا' میں شامل ہے۔

بہت شکریہ فرحت، نوازش :)

میں انشاءاللہ آج رات فراز کی نظم پوسٹ کرنے کی کوشش کرونگا، ویسے ہو سکتا ہے کہ کوئی دوست پہلے ہی پوسٹ کر دے (ایسا ہوجائے تو کیا کہنے) :)
 

امر شہزاد

محفلین
مشہور ہے کہ شعراء کرام جب شعر کہتے ہیں تو جب تک سنا نہ دیں کسی کو، ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہےئ۔ اس خاکسار کے ساتھ الٹی واردات ہوئی۔
پرسوں پیر کو میرے پیٹ میں درد اور بد ہضمی کی شکایت ہع گئی تھی اور میں چھٹی پر تھا۔ اسی شام کو کچھ اشعار کا۔۔ بلکہ مکمل غزل کا نزول ہوا:
عرض کر رہا ہوں:

شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا

سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا

بہت عمدہ شانِ نزول کے ساتھ بہت پیاری غزل ہے.
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی ایک غزل بغیر انتخاب کئے جو سامنے آ گئ۔

غزل

خود اپنی ذات کی ہیبت سے ڈر نہ جاؤں کہیں
مجھے کنویں سے نکالو، کہ مر نہ جاؤں کہیں

مرا تو کوئی نہیں اس بھری سرائے میں
میں اپنی ذات کے اندر بکھر نہ جاؤں کہیں

اگر کہے تو میں پاتال سے بھی ہو آؤں
وگرنہ تیری گلی چھوڑ کر نہ جاؤں کہیں

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں

تجھے یہ خوف تری راہ میں زمانہ ہے
مجھے یہ ڈر کہ میں خود سے گزر نہ جاؤں کہیں

نوید کوئی تماشا ہے خود میں در آنا
میں جانا چاہوں برابر مگر نہ جاؤں کہیں
(نوید صادق)

نوید بھائی کیا بات ہے بہت کوب بہت اچھی غزل لکھی ہے آپ نے

مطلع بہت کمال کا ہے

خود اپنی ذات کی ہیبت سے ڈر نہ جاؤں کہیں
مجھے کنویں سے نکالو، کہ مر نہ جاؤں کہیں

اور یہ شعر بھی بہت اچھا لگا

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں

بہت خوب اور اب آپ کی طبیعت کیسی ہے
 
واہ نوید بھائی! آپ کے شاعرانہ کمال کا شاید پہلا نمونہ نظر سے گزرا ہے۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں​
اور

نوید کوئی تماشا ہے خود میں در آنا
میں جانا چاہوں برابر مگر نہ جاؤں کہیں​

کیا غضب کے اشعار ہیں۔۔۔۔!
 

محمداحمد

لائبریرین
مشہور ہے کہ شعراء کرام جب شعر کہتے ہیں تو جب تک سنا نہ دیں کسی کو، ان کے پیٹ میں درد ہوتا ہےئ۔ اس خاکسار کے ساتھ الٹی واردات ہوئی۔
پرسوں پیر کو میرے پیٹ میں درد اور بد ہضمی کی شکایت ہع گئی تھی اور میں چھٹی پر تھا۔ اسی شام کو کچھ اشعار کا۔۔ بلکہ مکمل غزل کا نزول ہوا:
عرض کر رہا ہوں:

شفق جو گلنار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
زمیں لہو بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
پہاڑ یادوں کے اڑ رہے تھے چہار جانب
زمین ہموار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
وہ ڈھونڈتے تھے وفا کےصحرا میں نخل کوئی
تلاش بسیار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
تمام تیر ایک ساتھ اک سمت گر رہے تھے
بدن پہ یلغار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
یہ خواب میں ہنسنے والے بچے تو سب نے دیکھے
جن آنکھ بیدار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
جو نامکمل تھی جوٗری، کچھ فیصلہ تو ہوتا
کمی جو اس بار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
سبھی تو بس ایک صبح کی راہ دیکھتے تھے
جو رات بیکار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا
عبید جب اپنی تازہ غزلیں سنا رہے تھے
جو روح سرشار ہو رہی تھی تو میں کہاں تھا

اعجاز عبید صاحب،

جب روح سرشار ہورہی تھی تو آپ کا تو کچھ نہیں پتہ لیکن میں‌ موجود تھا اور ہوں اور روح اب تک سرشار ہو رہی ہے۔ بہت عمدہ غزل ہے جناب! پڑھ کر واقعی بے حد لطف آیا، ہر شعر لاجواب ہے اور اتنی عمدہ ردیف آپ نے چنی اور اُتنا ہی خوب اُسے نبھایا بھی۔

ناچیز کی جانب سے داد حاضر ہے قبول کیجے۔

مخلص
محمداحمد
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ غزل کی پسندیدگی کا۔۔ نوید، میں سوچتا ہی رہ گیا کہ آپ کو ای میل کر کے بلاؤں لیکن رہ گیا۔ اچھا ہوا کہ خود ہی آگئے اور اب اتنی عمدہ غزل بھی پوسٹ کر دی۔
وارث۔۔ یہ ڈبہ۔۔۔۔۔ ایک اور مثال اس نامعقول فانٹ اردو نسخ ایشیا ٹائپ کی۔ ذرا نفیس ویب نسخ میں کر کے دیکھیں، اس میں الٹا پیش صاف نظر آتا ہے۔ یہ لفظ Jury تھا، انگریزی کا، منصفوں کی بینچ۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی ایک غزل بغیر انتخاب کئے جو سامنے آ گئ۔

غزل

خود اپنی ذات کی ہیبت سے ڈر نہ جاؤں کہیں
مجھے کنویں سے نکالو، کہ مر نہ جاؤں کہیں

مرا تو کوئی نہیں اس بھری سرائے میں
میں اپنی ذات کے اندر بکھر نہ جاؤں کہیں

اگر کہے تو میں پاتال سے بھی ہو آؤں
وگرنہ تیری گلی چھوڑ کر نہ جاؤں کہیں

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں

تجھے یہ خوف تری راہ میں زمانہ ہے
مجھے یہ ڈر کہ میں خود سے گزر نہ جاؤں کہیں

نوید کوئی تماشا ہے خود میں در آنا
میں جانا چاہوں برابر مگر نہ جاؤں کہیں
(نوید صادق)

نوید صادق صاحب

ایک عرصہ کے بعد آپ سے گفتگو کا شرف حاصل ہو رہا ہے، آپ کی مصروفیات کاحال پچھلے صفحے پر دیکھنے کو مل گیا تھا میں بھی گزشتہ کچھ عرصے کچھ مصروف رہا۔ رہی بات آپ کی غزل کی تو غزل بہت بھائی دل کو۔ تقریباً سب ہی اشعار اچھے ہیں لیکن خاص طور پر یہ دو اشعار بے حد پسند آئے۔

مرا تو کوئی نہیں اس بھری سرائے میں
میں اپنی ذات کے اندر بکھر نہ جاؤں کہیں

مری زبان صداقت کا زہر اگلنے لگی
میں اپنے آپ سے یکسر مکر نہ جاؤں کہیں

نا چیز کی جانب سے نذرانہء تحسین پیشِ خدمت ہے۔ قبول کیجے۔

مخلص
محمداحمد
 

محمداحمد

لائبریرین
اور اب وارث صاحب کے حکم پر خاکسار کی ایک معمولی کاوش جو یقیناًاعلٰی ترین انتخاب کی اس لڑی میں جچتی تو نہیں ہے لیکن وارث صاحب کا حکم سر آنکھوں پر۔


غزل

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

محبت بھی وہی، دنیا وہی تھی
وہی دریا، وہی کچے گھڑے تھے

وہ کب کا جا چکا تھا زندگی سے
مگر ہم بانہیں پھیلائے کھڑے تھے

اور اب تو موم سے بھی نرم ہیں ہم
کوئی دن تھے کہ ہم ضد پر اڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

سراسیمہ سی کیوں تھی ساری بستی
بھنور تو دور دریا میں پڑے تھے

ملا وہ، کہہ رہا تھا خوش بہت ہوں
مگر آنکھوں تلے حلقے پڑے تھے

تو کیا تم نے ہمیں دھوکے میں رکھا
وفا بھی تھی یا افسانے گھڑے تھے

خزاں پہلے پہل آئی تھی اُس دن
وہ بچھڑا تو بہت پتے جھڑے تھے

وفا، مہر و مروت اور یہ دنیا
ہماری عقل پر پتھر پڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

ہمیں احمد صبا نے پھر نہ دیکھا
کہ ہم برگِ خزاں آسا پڑے تھے

محمداحمد
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے محمد احمد صاحب - مزید کلام بھی عنایت کیجیے گا - آپ تو بہت اچھے شاعر نکلے - :)

فرخ بھائی!

بہت شکریہ! غزل آپ کو پسند آئی یہ آپ کا حسنِ ذوق ہے۔ آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں۔

اللہ آپ کو خوش رکھے (آمین)

محمد احمد
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا خوبصورت غزل ہے احمد صاحب، واہ واہ لا جواب۔ سبحان اللہ،

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

کیا خوبصورت اشعار ہیں، کیا نگینے جڑے ہیں، کیا موتی پروئے ہیں، واہ واہ لا جواب، جی خوش ہوا آپ کی غزل پڑھ کر۔


اور محبت ہے آپ کی بندہ پرور کہ آپ نے اپنے کلام سے ہمیں نوازا، شکریہ آپ کا!
 
Top