F@rzana

محفلین
گداگر

نگاہیں اس کے چہرے پر رکیں تو جم گئیں یک دم

ہوا میں محو حیرت اور نبضیں تھم گئیں یک دم

مرے رب نے اسے کتنا حسیں پیکر بنایا تھا

پھر اس کے چشم و لب رخسار کو کتنا سجایا تھا

وہ آنکھیں یا الہی ورطہء حیرت کا ساماں تھیں

سنہری اس کی زلفیں خیر سے سورج بداماں تھیں

وہ چہرہ تھا کہ گویا ایک تھا مسکن بہاروں کا

چلو کہدوں کہ وہ معبد تھا سارے چاند تاروں کا

اسے رب نے تراشا تھا کسی شہکار کی صورت

نشان حسن اپنی شان تھے آثار کی صورت

حسیں چہرہ کہ پریاں سامنے آئیں تو شرمائیں

یہ ممکن ہی نہیں لمحے جوگذرے چھو کے نہ جائیں

تھی بارہ سال اس کی عمر وہ بچی گداگر تھی

یہ مجبوری تھی اس کی ہاتھ پھیلانے کی خوگر تھی

مرے چلتے قدم روکے تھے اس پر درد منظر نے

مرا اندر ہلا کر رکھ دیا تھا اس گداگر نے

مرا دل یوں ہوا گویا زبان بے زبانی سے

مجھے تو آشنا کردے ذرا اپنی کہانی سے

ذرا دیکھو نگاہوں میں مری تھوڑا سا پانی ہے

بہت ٹوٹا ہوں اندر سے یہ درد ناگہانی ہے

خدا اتنا حسیں کر کے گدا گر پھر بناتا ہے

یہ شاید اس کی حکمت ہے ہمیں وہ آزماتا ہے

‘خبرنامے میں عراقی بچی کو دیکھ کر یہ نظم لکھی گئی‘

طالب بخاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

تیشہ

محفلین
نائس ، یہ تو میں سن چکی نہ اس دن ٹی وی پر ، مگر فرزانہ جو آپ نے اپنی سنائی تھی وہ بہت :best:

اُسے لکھنا تھا نہ ،
 
Top