کیا یورپ کی ترقی مذہب کو ترک کرنے کی مرہون منت ہے؟

سید رافع

محفلین
میرے خیال میں یہ ہے "نیو ورلڈ آرڈر آف پیس"۔


نیو ورلڈ آرڈر آف پیس


1- آج سے دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔ نہ ہی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت ہے اور نہ ہی گورے کو کالے پر کوئی برتری۔ تمام انسانوں کی جان اور مال محترم ہے اور دنیا ہر انسان کی حفاظت کے لیے اسکے ساتھ کھڑی ہے۔

2- آج سے یونائنٹڈ نیشنز کا چیرمین دنیا کا صدر ہو گا۔

3- آج سے تمام سودی کاروبار جرم ہے۔ اب ورلڈ بینک ورلڈ چیرٹی کہلائے گا۔ دنیا کے تمام بینک اب چیرٹی کہلائیں گے اور ضرورتمند انسانوں کو قرض دیں گے۔

4- آج سے تمام انشورنس کا کاروبار جرم ہے۔ اب انشورنس کمپنیاں ورلڈ کئیر کہلائیں گی اور یہ ادارہ دنیا بھر کے حادثوں سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرے گا۔

5- آج سے ماہانہ 10، 20، 30 یا 40 فیصد سیلری ٹیکس اور ہر طرح کا ٹیکس منسوخ کیا جاتا ہے سوائے دو اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس اس رقم پر جو سال کے آخر یعنی دسمبر 31 کو بچ جائے۔ یہ رقم ورلڈ چیرٹی اور ورلڈ کئیر کے تحت جمع کیا جائے گا۔

6- آج سے تمام جیلوں کو لائبریری میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ قتل کے بدلے میں قتل ہے الا یہ کہ مقتول کے وارث کچھ رقم لے کر قاتل کو معاف کریں۔

7- آج سے زنا اور شراب کی حوصلہ شکنی اور نکاح کی تعریف کی جائے گی۔

8- آج سے دنیا کی تمام فوجیں ملا کر ایک کی جاتی ہیں اور ورلڈ ملٹری بنائی جاتی ہے جو باغیوں کی سرکوبی کرے گی۔

9- آج سے دنیا کی تمام پولیس ملا کر ایک کی جاتی ہے اور ورلڈ پولیس بنائی جاتی ہے جو مجرموں کو پکڑے گی۔

10- آج سے دنیا بھر ویزا کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ جو شخص دنیا میں جہاں رہنا چاہے رہ سکتا ہے اور اسے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دنیا کے ہر شہری کو۔

11- آج سے دنیا کی تمام عدالتیں ایک کی جاتی ہیں اور وہ ایک ہی قانون کے تحت دنیا کے انسانوں کے مقدمات کے فیصلے کریں گی۔
 

سید رافع

محفلین
حل صرف ایک ہے محترم، اور وہ یہ کہ آپ بہترین آئیڈیاز لے کے آئیں اور ایسے احسن انداز میں عملی اقدامات اٹھائیں کہ دنیا آپ کو فالو کرے لیکن ابھی دور دور تک اس کے امکانات نہیں۔

نیو ورلڈ آرڈر آف پیس کا آئیڈیا لے کر جائیں گے۔ دنیا بھر میں ایک تحریک اٹھائیں گے جو کہ نیو ورلڈ آرڈر آف پیس کی تکمیل کی رپورٹ دے گی۔ اس میں آنے والے مشکلات کو حل کرے گی۔
 

سید رافع

محفلین
3، 4 اور 5 صرف جہالت پر مبنی نظریات کی وجہ سے ، غٰیر منطقی اور غیر قرانی نکات ہیں

کیوں؟؟؟

3- آج سے تمام سودی کاروبار جرم ہے۔ اب ورلڈ بینک ورلڈ چیرٹی کہلائے گا۔ دنیا کے تمام بینک اب چیرٹی کہلائیں گے اور ضرورتمند انسانوں کو قرض دیں گے۔

4- آج سے تمام انشورنس کا کاروبار جرم ہے۔ اب انشورنس کمپنیاں ورلڈ کئیر کہلائیں گی اور یہ ادارہ دنیا بھر کے حادثوں سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرے گا۔

5- آج سے ماہانہ 10، 20، 30 یا 40 فیصد سیلری ٹیکس اور ہر طرح کا ٹیکس منسوخ کیا جاتا ہے سوائے دو اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس اس رقم پر جو سال کے آخر یعنی دسمبر 31 کو بچ جائے۔ یہ رقم ورلڈ چیرٹی اور ورلڈ کئیر کے تحت جمع کیا جائے گا۔

اس نیو ورلڈ آرڈر آف پیس کی قرآن سے انسپائریشن ضرور ہے لیکن یہ نیو مسلم ورلڈ آرڈر نہیں ہے۔ جہاں تک منطقی ہونا ہے آئیں اسکا جائزہ لے لیتے ہیں۔

ون ورلڈ گورنمٹ، تاجر یا کاشتکار اور عام مرد و عورت یہ تین طرح کے لوگ ہیں جنہیں رقم کی ضرورت ہو گی۔

دو اعشاریہ پانچ فیصد یورنیوسل ٹیکس
مثال کے طور پر اگر ایک شخص 1 لاکھ بٹ کوائن (یا ڈالر) سالانہ کماتا ہے تو اسے سال کے 364 دن اپنی کل کی کل رقم میسر رہے گی۔ کوئی ماہانہ ٹیکس نہیں کٹے گا۔ چاہے تو اس سے گاڑی خریدے، چاہے تو گھر یا چاہے تو کسی کاروبار میں لگائے۔ یوں موجودہ سسٹم سے زیادہ سرمایہ دنیا کے 7 ارب لوگوں کو سال بھر میسر رہے گا۔ یہ تجارت کے فروغ کا باعث بنے گا۔ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری یا چھوٹے بزنس شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ سال کے آخر میں دو اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس اسی کی کل بچی ہوئی رقم سے کاٹ لیا جائے گا۔ سو 1 لاکھ ڈالر سے ڈھائی ہزار ڈالر رقم کاٹ لی جائے گی۔ یہ رقم ورلڈ چیرٹی اور ورلڈ کئیر کے تحت دنیا کے 7 ارب لوگوں کو میسر ہوگی۔

ورلڈ چیرٹی کی آمدن کے ذرائع
سال کے آخر میں دو اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس ورلڈ چیرٹی کی آمدن کا ایک ذریعہ ہوگا۔ لیکن لوگوں کی رقومات کو رکھنے پر سروس چارجز سے بھی آمدن ملے گی۔ تجارت کے لیے فراہم کی جانے سہولیات پر بھی سروس چارجز لیے جائیں گے۔

قرض
اگر کوئی تاجر یا کاشتکار کچھ رقم چاہتا ہے تو وہ ورلڈ چیرٹی سے قرض کے طور پر حاصل کر سکتا ہے۔ ادارہ جمع شدہ ٹیکس اور جمع شدہ رقوم جو قرضے کے لیے میسر ہیں ان سے چھان پھٹک کر لوگوں کو قرضہ دے گا۔ ادارہ مختلف رپورٹس کی مدد سے تعین کرے گا کہ کس تاجر، کس کاروبار یا کس کاشتکار کو رقم دینے میں ترجیح دینی چاہیے۔ سود کیونکہ جرم ہو گا اس لیے وہ شخص معین وقت پر رقم ورلڈ چیرٹی کے لوکل دفاتر (موجودہ بینک) کو واپس کرے گا۔ لوگوں کے ذہن میں قرض لینے کی گھن بیٹھائی جائے گی اور اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے والے کو بہتر انسان تصور کیا جائے گا اور اس بات کی خوب حوصلہ افزائی اور چرچا کیا جائے گا۔

ملٹری، پولیس، ویزہ، عدالت اور جیل
کیونکہ ون ورلڈ گورنمٹ کے زمانے میں مثال کے طور پر پاکستان، انڈیا، افغانستان، ایران، چین وغیرہ کی فوج ورلڈ ملٹری بن جائے گی تو ان کا کام بس باغی گرہوں کی سرکوبی ہو گا۔ یہی حال ورلڈ پولیس کا ہو گا کہ ون ورلڈ میں دیزہ نہیں ہو گا سو پولیس باآسانی مجرموں کا تعاقب کر سکے گی۔ کیونکہ عدالتیں ون ورلڈ کے قانون کے تحت چل رہیں ہوں گی سو پولیس تعاقب جہاں تک کرے، ملزم کو قریبی عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ جیلوں کی ضرورت محض چند دنوں یا چند ہفتوں کے لیے ہو گی کیونکہ قتل کے مقدمات ہاتھوں ہاتھ نمٹائے جائیں گے۔ باقی جرائم پر سزا کا بھی یہی حال ہو گا کہ ترجیح اس حل کو دی جائے گی جس میں مجرم کو جیل میں نہ رکھنا پڑے۔ جیل لائبریری جیسے ماحول کے ہوں گے تاکہ مجرم کچھ اچھی بات دیکھ، سن یا پڑھ سکے۔

انشورنس اور حادثے
کیونکہ انشورنس جرم ہو گا اس لیے لوگ عام حادثوں کے لیے اپنی جمع شدہ رقم استعمال کریں گے۔ اگر حادثہ بڑا ہے اور اس شخص کے پاس رقم نہیں ہے تو ورلڈ کئیر کے تحت اسکو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔ مثال کے طور پر علاج یا کار کے حادثے میں پہلےوہ شخص اپنی جمع شدہ رقم سے ہی اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ رقم کی ایک مخصوص مقدار رہ جانے کے بعد ورلڈ کئیر کے لوکل دفاتر خود بخود اسکی مدد کو پہنچ جائیں گے۔ اگر جہاز ڈوب جائیں یا کوئی علاقہ کسی قدرتی آفت یا حادثے سے تباہ ہوجائے تو وہاں کے لوگ بھی ورلڈ کئیر کے تحت مدد پائیں گے۔
 

الشفاء

لائبریرین
محترم جاسم۔ پہلے آپ نے جنت کا فیصلہ عقیدہ کو خارج کر کے محض انسانوں کے نیک اعمال پر منحصر کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے آخرت میں انسانوں کے نیک اعمال کے مطابق جنت دوزخ کا فیصلہ کرنا ہے۔ ان کے عقائد اور نظریات کے مطابق نہیں ۔
حالانکہ اعمال صالحہ بغیر ایمان کے معتبر نہیں۔
وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍO
اور جس نے نیکی کی، خواہ مرد ہو یا عورت اور مومن بھی ہو تو وہی لوگ جنّت میں داخل ہوں گے انہیں وہاں بے حساب رِزق دیا جائے گا- سورۃ الغافر، آیت نمبر 40-
اب آپ نے اعمال صالحی کے بغیر شفاعت کی نفی کر دی۔
یہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اعمال جیسے بھی ہوں لیکن اگر آپ حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں تو آپ کی شفاعت ہو جائے گی۔ جبکہ اسلام میں ایمان کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ ادا کئے بغیر شفاعت ممکن نہیں ہے
حالانکہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے کہ میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لیے ہے۔ (سنن الترمذی، سنن ابو داؤد ، صحیح الجامع)۔

تو قرآن و حدیث کے مطابق صحیح عقیدہ ( مؤمن ہونا ) بنیادی شرط ہے ، اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر نیک اعمال بھی کام آئیں گے اور شفاعت بھی، ورنہ نہیں۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
دو اعشاریہ پانچ فیصد یورنیوسل ٹیکس
مثال کے طور پر اگر ایک شخص 1 لاکھ بٹ کوائن (یا ڈالر) سالانہ کماتا ہے تو اسے سال کے 364 دن اپنی کل کی کل رقم میسر رہے گی۔ کوئی ماہانہ ٹیکس نہیں کٹے گا۔ چاہے تو اس سے گاڑی خریدے، چاہے تو گھر یا چاہے تو کسی کاروبار میں لگائے۔ یوں موجودہ سسٹم سے زیادہ سرمایہ دنیا کے 7 ارب لوگوں کو سال بھر میسر رہے گا۔ یہ تجارت کے فروغ کا باعث بنے گا۔ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری یا چھوٹے بزنس شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ سال کے آخر میں دو اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس اسی کی کل بچی ہوئی رقم سے کاٹ لیا جائے گا۔ سو 1 لاکھ ڈالر سے ڈھائی ہزار ڈالر رقم کاٹ لی جائے گی۔ یہ رقم ورلڈ چیرٹی اور ورلڈ کئیر کے تحت دنیا کے 7 ارب لوگوں کو میسر ہوگی۔

ورلڈ چیرٹی کی آمدن کے ذرائع
سال کے آخر میں دو اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس ورلڈ چیرٹی کی آمدن کا ایک ذریعہ ہوگا۔ لیکن لوگوں کی رقومات کو رکھنے پر سروس چارجز سے بھی آمدن ملے گی۔ تجارت کے لیے فراہم کی جانے سہولیات پر بھی سروس چارجز لیے جائیں گے۔
2.5 فیصد ٹیکس یا زکوٰۃ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ اہل تشیع اسے 20 فیصد یا خمسہ مانتے ہیں۔ ویسے بھی صرف ڈھائی فیصد ٹیکس یا زکوٰۃ سے ملک کی معیشت نہیں چل سکتی۔ فلاحی ریاست کے قیام کیلئے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کم از کم 50 فیصد ہونا چاہئے جیسا کہ اسکینڈینیون ممالک میں ہے۔
List of countries by tax revenue to GDP ratio - Wikipedia
 

جاسم محمد

محفلین
ہماری بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم باہمی اشتراک سے باہمی سوچ سے، ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کریں
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ دائیں اور بازوں کے سیاسی دھڑوں میں فرق اور نظریاتی اختلاف بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جب دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو بائیں بازو والے ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتے۔ اور جب بائیں بازو والے اقتدار میں ہوں تو دائیں بازو والے تعاون نہیں کرتے۔ اس واضح تضاد کیساتھ باہمی اشتراک اور سوچ کہیں پیدا ہوگی؟
 

سید رافع

محفلین
2.5 فیصد ٹیکس یا زکوٰۃ اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ اہل تشیع اسے 20 فیصد یا خمسہ مانتے ہیں۔ ویسے بھی صرف ڈھائی فیصد ٹیکس یا زکوٰۃ سے ملک کی معیشت نہیں چل سکتی۔ فلاحی ریاست کے قیام کیلئے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کم از کم 50 فیصد ہونا چاہئے جیسا کہ اسکینڈینیون ممالک میں ہے۔
List of countries by tax revenue to GDP ratio - Wikipedia

یہ ورلڈ آرڈر ہے محترم۔ مسلم یا اس سے بھی نیچے شیعہ یا اہلسنت ورلڈ نہیں۔ کیا آپ ساری دنیا کو شیعہ یا اہلسنت بنانا چاہتے ہیں؟ سود کے ساتھ تو یورپ ۵٠ فیصد ٹیکس بھی لے لے کم ہی دکھائی دے گا۔ پورا آرڈر پڑھیں جب تنخواہ لاکھ یورو میں سے ٩٨ ہزار ۵٠٠ یورو آپکو مل رہی ہے تو آپ اپنی میڈیکل اور تعلیم خود دیکھیں۔
 
پورا آرڈر پڑھیں جب تنخواہ لاکھ یورو میں سے ٩٨ ہزار ۵٠٠ یورو آپکو مل رہی ہے تو آپ اپنی میڈیکل اور تعلیم خود دیکھیں۔
آٰیسا ممکن نہیں، فردا فردا کچھ نہٰیں ہوسکتا، خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے میں
 
Top