کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہے؟؟؟

علی خان

محفلین
جناب میں تو حدیث سے 100 دفعہ ثابت کروادونگا۔ پر آپ قرآن سے ثابت کردیں کہ اپکے 20 والا حصہ تمام چیزوں پر ہے۔ پتہ نہیں کہ اپنی بنائی ہوئی فارمولوں کو اللہ اور دین اسلام کے احکامات کہنے والے کو یہ کیوں نظر نہیں آتا۔ کہ اگر سب کچھ قرآن مجید میں موجو ہوتا۔ تو پھر اسی طرح نماز صلوۃ ، نماز جنازہ اور اسی طرح کے باقی ذکر اذکار بھی پھر قرآن میں موجود ہونے چاہیے تھے۔ قرآن میں اپ کے ریفرینسز موجود ہیں۔ لیکن وضاحت کے لئے پھر ہم اخادیث و تفسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

سمجھنے والوں کے لئے ایک مثال ہے۔
جس طرح کمپنیاں دوائیاں بناتی ہیں۔ تو یہ نہیں کہ آپ کسی بھی مرض کے لئے کوئی بھی دوا لے سکتے ہیں۔ یا پھر پورا بوتل ہی ایک ہی سانس میں پی کر آپ ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اسکے لئے پھر اپکو ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنا پڑھتا ہے۔ بس اسی طرح ۔۔۔۔ مگر پتہ نہیں آپ ڈالروں کے لئے کیونکہ کر ان مسلمانوں کے خلاف صفہ آرا ہیں۔ اللہ اپکو نیکی کی ہدایت دے۔ اور میرے الفاظ کو آپ پر واضح کردے۔ آمین۔

اور کوشش کیجئے گا پھر سے یہاں اپنی راگ نہ شروع کریں۔ اگر موضوع کے مناسبت سے بات کرسکتے ہیں دلائل کے ساتھ تو کریں۔ ورنہ اس موضوع پر اپنی بے مقصد گفتگو سے اجتناب کریں۔
 
جناب میں تو حدیث سے 100 دفعہ ثابت کروادونگا۔ پر آپ قرآن سے ثابت کردیں کہ اپکے 20 والا حصہ تمام چیزوں پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈھائی فی صد زکواۃ کا اصول آپ لوگوں نے خود اپنی خواہشات کی پیروی کرکے بنایا ہے۔ یہ ڈھائی فی صد والا اصول قرآن حکیم میں پایا ہی نہیں جاتا۔

درج ذیل کا مکمل لفظ با لفظ ترجمہ فرما دیجئے، درست ترجمہ آپ کی آسانی کے لئےحاضر ہے۔ اب آپ کی باری ہے۔

8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ
اور جان لو کہ کسی بھی شے سے جو نفع تم پاؤ تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے

کہانیاں کھیلنا بند کیجئے اور اب جلدی سے ڈھائی فی صد زکواۃ والا اصول قرآن حکیم سے فراہم کیجئے۔
 
یہ ہر دھاگے میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ بمقابلہ 20 فیصد زکوٰۃ کا مسئلہ ہی کیوں آموجود ہوتا ہے۔۔دھاگے کا عنوان ہے "کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں؟" اور یار لوگ ہمیشہ کی طرح سے اپنا اپنا پسندیدہ موضوعِ گفتگو اس میں شامل کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور اچھی بھلی گفتگو کو ڈی ٹریک کرتے رہتے ہیں۔
 

علی خان

محفلین
اسکے متعلق تو میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں۔ آپ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 41 کی بات کر رہیں۔
اور اسکے متعلق میں نے دوسرے دھاگے میں آپ پر واضح کیا تھا۔ کہ یہ سورۃ جنگ بدر کے تناظر میں نازل ہوئی ہے۔ اور اسمیں مالِ غنیمت پر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ کہ مال غنیمت میں پانچواں حصہ یعنی 20 ٍفیصد اللہ کا حصہ ہے۔ اب اسمیں یہ بات کہاں سے ثابت ہوتی ہے۔ کہ پانچواں حصہ تمام قسم کے مال پر لاگو ہے کیونکہ سورۃ المائدہ میں مال غنیمت کی بات کی گئی ہے کہ مال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے۔
اب آپکی باری ہے۔ آپ کوشش کریں کہ پورے سورۃ کے مغنی اور تفسیر سے یہ ثابت کردیں۔ کہ جو کچھ آپ کہہ رہیں وہ صحیح ہے اور میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ غلط ہے۔

خان صاحب میں تو کہانیاں کھیل رہا ہوں۔ مگر آپ تو دین میں اپنے فارمولے انٹر کر رہیں ہیں۔ مگر آپکی انٹر یہاں کام نہیں کر رہی ہے اور نہ کرے گی۔ اس انٹر سے آپ اپنا دل تو بہلا سکتے ہیں مگر ثابت کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔ یہ دھاگہ تو "کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہے" کے لئے کھولا گیا ہے اس لئے اس موضوع پر بات کریں، دوسری طرف جانے سے یہ بات درمیان میں رہ جانے کا اہتمال ہے۔ اپنے ٪20 فیصد کو ثابت کرنے کے لئے آپ نے جو کھلے ہوئے دھاگے چھوڑ رکھے ہیں۔ پہلے تو انکو مکمل کرلیں۔
 

علی خان

محفلین
خان صاحب یہ رہا اپکے لئے واضح ترجمعہ اب آپ خود سے دیکھ لیں۔ کہ اپ قرآن آیات کو اپنی معنی دے رہیں ہیں یا نہیں۔ کچھ خدا کا خوف کریں، کیا آپ نے مرنا نہیں ہے۔ کیا آپ اللہ پاک سبحانُ وتّعالٰی کے سامنےبعد از مرگ اور قیامت کے دن پیش نہیں ہوگے۔ کیوں اپنی آخرت کو برباد کر رہیں اپنی ذاتی بڑائی کے لئے ورنہ اس بحث سے تو اپکو کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے۔ ہاں کل کے لئے اپنے ترازو میں بہت کچھ شامل کر رہیں ہیں۔ جو اپکے قیامت کے دن کا حساب کتاب اور قبر کے سوال و جواب مشکل ضرور کر دیں گے۔

خان صاحب تمھاری کوشش ہوتی ہے۔ کہ تم اپنے مطلب کے الفاظ ہی ظاہر کرتے ہو۔ اور اس سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہوں۔ اگر اتنے ہی باعمل ہو، تو پوری سورۃ کا ترجمعہ شئیر کردوں۔ اور پھر دیکھو کہ یہ بات کب اور کس وجہ سے بیان کی گئی ہے۔ اگر یہاں اپکے الفاظ کو دیکھا جائے تو وہی مطلب نکلتا ہے۔ جو اپ نکالنا چاہتے ہیں۔ مگر جب بندہ تحقیق میں جاکر پوری سورۃ کو دیکھتا ہے تو صورتحال پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ کہ یہ الفاظ تو مال غنیمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

درج ذیل کا مکمل لفظ با لفظ ترجمہ فرما دیجئے، درست ترجمہ آپ کی آسانی کے لئےحاضر ہے۔ اب آپ کی باری ہے۔

8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ
اور جان لو کہ کسی بھی شے سے جو نفع تم پاؤ تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے

وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول ﷺکے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
 
یہ ہر دھاگے میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ بمقابلہ 20 فیصد زکوٰۃ کا مسئلہ ہی کیوں آموجود ہوتا ہے۔۔دھاگے کا عنوان ہے "کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں؟" اور یار لوگ ہمیشہ کی طرح سے اپنا اپنا پسندیدہ موضوعِ گفتگو اس میں شامل کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں اور اچھی بھلی گفتگو کو ڈی ٹریک کرتے رہتے ہیں۔
علی خان نے یہ 20 فیص شوشہ بیچ میں شروع کیا ہے جبکہ آپ چند مراسلات پیچھے جا کر دیکھئے۔ ان کو جواب دے دیا گیا ہے۔ بلکہ جناب نے تو پورا پینڈورا باکس کھولا ہے ۔۔۔ آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے۔ معذرت چاہتا ہوں جواب دینے کی۔ واپس دین اور سیاست کی طرف۔

آخری نکتہ تھا کہ اگر دین و مذہب ، سیاست کو کنٹرول کریں گے تو کیا ہندو ممالک میں مسجدوں میں گوپیاں نچانے پر کسی کو کوئی اعتراض ہوگا؟ یا پھر کرسچین ممالک میں منبر پر ناچنے گانے پر کسی کو کوئی اعتراض ہوگا؟؟؟

کسی دین یا مذہب کے اصول مدنظر رکھنا اور ان اصولوں کے مطابق باہمی مشورے سے فیصلہ کرنا تو قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ لیکن مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوسکتی۔
 

وجی

لائبریرین
علی خان نے یہ 20 فیص شوشہ بیچ میں شروع کیا ہے جبکہ آپ چند مراسلات پیچھے جا کر دیکھئے۔ ان کو جواب دے دیا گیا ہے۔ بلکہ جناب نے تو پورا پینڈورا باکس کھولا ہے ۔۔۔ آپ کا اعتراض بالکل بجا ہے۔ معذرت چاہتا ہوں جواب دینے کی۔ واپس دین اور سیاست کی طرف۔
آخری نکتہ تھا کہ اگر دین و مذہب ، سیاست کو کنٹرول کریں گے تو کیا ہندو ممالک میں مسجدوں میں گوپیاں نچانے پر کسی کو کوئی اعتراض ہوگا؟ یا پھر کرسچین ممالک میں منبر پر ناچنے گانے پر کسی کو کوئی اعتراض ہوگا؟؟؟
کسی دین یا مذہب کے اصول مدنظر رکھنا اور ان اصولوں کے مطابق باہمی مشورے سے فیصلہ کرنا تو قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ لیکن مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوسکتی۔
دو مہذاہب ایک ملک میں کیسے رہیں گے یہ بھی ایک الگ موضوع ہے
آپ صرف اس پر بات کریں کہ دین اور سیاست ایک چیز ہے کہ نہیں
ہاں آپ چاہیں تو ہندو مذہب کی روشنی سے بھی بات کر سکتے ہیں کہ وہ مذہب اس بارے میں کیا رائے رکھتا ہے
اور اسی طرح عیسائیت و یہودیت مین اس بارے میں کیا رائے ہے ۔
 
دین یا مذہب کی ایک بہترین مثال امریکہ ہے یا ہندوستان ہے۔ جہاں زیادہ تر لوگوں کا مذہب عیسائیت یا ہندو مت ہے۔ لیکن ان کے سیاسی نظام ہندو مت یا عیسائیت کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیاست باہمی مشورے کے فیصلوں سے ہو۔ سیاست کسی فکسڈ یا ڈاگمیٹ ازم Dogmatism قسم کی اندھی تقلید یا پیراڈائم نا ہو۔ بلکہ یہ ایک کھلے دماغ سے بنائے گئے ایسے اصول ہوں جن کو وقت کی ضرورت کے لحاظ سے باہمی فائیدے عدل و انصاف اور مساوات کے سنہری اصولوں کے مطابق تبدیل کیا جاسکے یعنی اس کی بنیاد پراگمیٹزم Pragmatism ہو

اس آخری جملے کے سمجھنے کے لئے آپ کی خدمت میں ایک کہانی یا تجربہ

ایک کمرے میں 6 بندروں کو رکھا گیا ، جہاں ایک لکڑی کی سیڑھی کے اوپر کیلے ٹنگے تھے۔ جونہی کوئی بندر اس سیڑھی پر کیلوں کے لئے چڑھتا تھا، سب بندروں پر بہت ہی ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا تھا۔ ہونے یہ لگا کہ جونہی کوئی بندر سیڑھی کے پاس بھی آتا، باقی بندر ٹھنڈے پانی کے خوف سے اس کی پٹائی کرتے تھے۔ جب بندروں کا یہ سماجی رواج پکا ہوگیا تو ان میں سے ایک بندر نکال کر اس کی جگہ ایک نیا بندر رکھا گیا۔ نیا بندر سیدھا کیلوں کی طرف لپکا اور نتیجے میں باقی بندروں نے اس کی کٹ لگا دی۔ دو چار بار پٹنے کے بعد، یہ نیا بندر بھی چپ ہو گیا۔ اس وقت پھر ایک نیا بندر تبدیل کیا گیا۔ جو فوراً ان کیلوں کی طرف لپکا اور باقی بندروں نے اس کی پٹائی شروع کردی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ باقی بندروں کے ساتھ وہ بندر بھی شامل تھا جس پر کبھی پانی گرا ہی نہیں تھا۔ جب یہ سماجی رواج بھی زور پکڑ گیا تو آہستہ آہستہ کرکے سب بندروں کو تبدیل کردیا گیا ۔ کہ اس کمرے میں ایک بھی بندر ایسا نہیں تھا جس پر ٹھنڈا پانی گرا ہو لیکن کیلے حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی بھی بندر اوپر چڑھتا تھا تو اپنے سماجی رواج اور اندھا دھند تقلید (Dogmatism) یا (Paradigm) یا مذۃب یا دین کے مطابق سب بندر، سیڑھی کےپاس بھی پھٹکنے والے بندر کو مارتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اس Paradigm کی تبدیل نہیں کرنا چاہتا تھا۔

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ سابقہ قوموں نے بھی ایسے ہی رواج، رسمیں ، روایتیں یعنی Paradigm بنائے۔ اور پھر ان مذہبوں اور دینوں کی مدد سے اپنے سیاسی قوانین بنائے۔ کیا رب عظیم کو یہ پسند تھا؟ یقیناً نہیں۔ اسی لئے رب نے باہمی مشورے کے فیصلے کی اہمیت پر زور دیا اور حکم دیا کہ مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ تاکہ بندروں کی طرح لوگ کسی رواج کی اندھی دھند تقلید نا کرتے رہیں ۔ سیاست کی بنیاد Pragmatism پر ہو۔

رب کا فرمان ہے کہ مومنوں کا فیصلہ باہمی مشورے سے ہوتا ہے تاکہ بندروں کی طرح Dogmatism یعنی رسم و رواج کی اندھی تقلید سے بچا جاسکے :
سورۃ الشوری 42 ، آیت 38
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

سورۃ الشوری 42 ، آیت 38 ، بہت ہی وضاحت سے سیاست میں رسم رواج ، مذہب یا دین کی اندھی تقلید سے منع کرتی ہے اور ۔۔۔ ایمان لانے والوں کو ۔۔۔۔ باہمی مشورے سے فیصلے کرنے یعنی قوانین بنانے کا حکم دیتی ہے۔ یہ قانون ساز نماز پڑھنے والے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں۔ اور مندر جانے والے ہندو بھی ۔ کلیسا جانے والے عیسائی بھی ہوسکتےہیں اور یہودی بھی۔ ایک اچھی سیاسی حکومت کی داغ بیل مسلمان 1500 سال میں نہیں کرسکے لیکن ان قوموں نے جنہوں نے مذہب و دین کے رواجوں کی اندھی تقلید سے بچ کر باہمی مشوروں سے فیصلے کئے ، وہ قومیں آج دنیا کے بہترین سیاسی نظام کی حامل ہیں۔
 

علی خان

محفلین
علی خان نے یہ 20 فیص شوشہ بیچ میں شروع کیا ہے جبکہ آپ چند مراسلات پیچھے جا کر دیکھئے۔ ان کو جواب دے دیا گیا ہے۔ بلکہ جناب نے تو پورا پینڈورا باکس کھولا ہے ۔

سرور خان، علی خان نے یہ شوشہ شروع نہیں کیا تھا۔ علی خان نے آپکے شوشہ کا جواب دیا تھا۔ اور اسکے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ لوگوں کو گمراہ مت کریں۔ اور بات کو بھی موضوع سے ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔ اور یہ بھی کہا تھا۔ کہ جو 20 فیصد والے مراسلے آپ چھوڑ کر یہاں آگئے ہیں۔ اور اب یہاں دوبارہ سے یہاں 20 فیصد والی راگ شروع کر رہیں ہیں۔ یہ نہ کریں کیونکہ اپکے باقی والے مراسلے بھی ابھی تک نامکمل ہیں۔ پہلے وہ مکمل کر لیں۔ اور وہاں سے سرخروں ہو کر نکلیں۔

یہ تمام الفاظ میں نے تم کو بریک مارنے کے لئے لکھے تھے۔ کیونکہ تم موضوع سے ہٹ رہیں تھے۔ بلکہ موضوع کو دوسری طرف لے جا رہے تھے۔ اس لئے میں نے یاددیہانی کر دی کہ آپ اپنی راگ یہاں اب شروع مت کریں، اور اِسی موضوع پر سوال و جواب دینے کی کوشش کریں۔ کیا سمجھے سرور خان صاحب۔:D
 
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
اور جان لو کہ
جو کچھ مالِ غنیمت
تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول ﷺکے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر
(حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی
وہ دن
(جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے)
دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

درست ترجمہ ؛ اور جان لو کہ جو کچھ نفع یا غنیمت تم نے پایا ہو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول ﷺکے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پرفیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن جب دو جماعتیں ملیں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس آیت میں مال غنیمت کا لفظ کس عربی لفظ کا ترجمہ ہے؟؟؟؟ اور کیا وجہ ہے کہ غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ کے ترجمے میں مِّن شَيْءٍ کا ترجمہ غائب ہے؟؟؟
يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ میں صرف جماعتوں کے ملنے کا ذکر ہے نا کہ لشکروں کے لڑنے کا۔؟؟؟؟
اس آیت میں جنگ بدر کا تذکرہ کہاں ہے؟

سرجی ، مرضی کا ترجمہ آپ کررہے ہیں ورنہ عربی ترجمہ تو اس آیت کا بہت ہی واضح ہے پر آپ کی پسند کا نہیں ہے۔۔۔
 

رمان غنی

محفلین
دین یا مذہب کی ایک بہترین مثال امریکہ ہے یا ہندوستان ہے۔ جہاں زیادہ تر لوگوں کا مذہب عیسائیت یا ہندو مت ہے۔ لیکن ان کے سیاسی نظام ہندو مت یا عیسائیت کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔ ۔۔۔


سورۃ الشوری 42 ، آیت 38 ، بہت ہی وضاحت سے سیاست میں رسم رواج ، مذہب یا دین کی اندھی تقلید سے منع کرتی ہے اور ۔۔۔ایمان لانے والوں کو ۔۔۔ ۔ باہمی مشورے سے فیصلے کرنے یعنی قوانین بنانے کا حکم دیتی ہے۔ یہ قانون ساز نماز پڑھنے والے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں۔ اور مندر جانے والے ہندو بھی ۔ کلیسا جانے والے عیسائی بھی ہوسکتےہیں اور یہودی بھی۔ ایک اچھی سیاسی حکومت کی داغ بیلمسلمان 1500 سال میں نہیں کرسکے لیکن ان قوموں نے جنہوں نے مذہب و دین کے رواجوں کی اندھی تقلید سے بچ کر باہمی مشوروں سے فیصلے کئے ، وہ قومیں آج دنیا کے بہترین سیاسی نظام کی حامل ہیں۔



محترم !
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ہمیں سیاست کی پوری تعلیم نہیں دیتا۔ اس لیئے ہمیں کچھ چیزیں ہندوں سے، کچھ عیسائیوں سے اور اسی طرح جہاں جہاں بھی ہمیں اچھی باتیں ملتی ہوں ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیئے۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ 1500 سال۔۔۔ تو گویا صحابئہ کرام رضی اللہ عنہما اور خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا نہیں کیا اسی لیےوہ معاذاللہ ایک کامیاب ریاست نا بنا سکے۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہی ہے نا؟؟؟

اور جیسا کہ آپ قرآن کے حوالے سے دینی سیاست کو شورٰئیت پر مبنی ثابت کر رہے ہیں اور اس مشاورت میں کسی خاص دینی شخص کا تعین آپ کے لیئے ضروری نہیں ہے اس میں کسی بھی شخص کو شامل کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ ہندو ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو یا باعمل مسلمان۔
لیکن محترم! چونکہ میں عربی داں نہیں ہوں اس لیئے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اس آیت میں جس کا حوالہ آپ بار بار پیش کر رہے ہیں، بَيْنَهُمْ ۠کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ آپ کے نزدیک کیا ہونا چاہیئے۔۔۔ آپ ذرہ اس پوری آیت کو ایک بار دیکھیں



فَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْ۔فَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ
وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ
ترجمہ: جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سرو سامان ہے ، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی وہ اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔ اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔جو بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں۔ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

پھر اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بنائو۔ آل عمران 118

اصل لفظ بِطَانَةً آیا ہے۔۔ ذرہ اس پر بھی روشنی ڈالیں۔۔اور پھر ذرہ اس آیت کو بھی اپنے علم سے روشناس کریں۔۔

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا 28؀
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش ِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار اِفراط و تفریط پر مبنی ہے۔ کہف 28

اور پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ
در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔

تو پھر ہم اپنی شوریٰ میں کریموں کی جگہ لعینوں کو کیونکر شامل کریں؟؟؟
 

رمان غنی

محفلین
دین یا مذہب کی ایک بہترین مثال امریکہ ہے یا ہندوستان ہے۔ جہاں زیادہ تر لوگوں کا مذہب عیسائیت یا ہندو مت ہے۔ لیکن ان کے سیاسی نظام ہندو مت یا عیسائیت کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔ ۔۔۔


سورۃ الشوری 42 ، آیت 38 ، بہت ہی وضاحت سے سیاست میں رسم رواج ، مذہب یا دین کی اندھی تقلید سے منع کرتی ہے اور ۔۔۔ایمان لانے والوں کو ۔۔۔ ۔ باہمی مشورے سے فیصلے کرنے یعنی قوانین بنانے کا حکم دیتی ہے۔ یہ قانون ساز نماز پڑھنے والے مسلمان بھی ہوسکتے ہیں۔ اور مندر جانے والے ہندو بھی ۔ کلیسا جانے والے عیسائی بھی ہوسکتےہیں اور یہودی بھی۔ ایک اچھی سیاسی حکومت کی داغ بیلمسلمان 1500 سال میں نہیں کرسکے لیکن ان قوموں نے جنہوں نے مذہب و دین کے رواجوں کی اندھی تقلید سے بچ کر باہمی مشوروں سے فیصلے کئے ، وہ قومیں آج دنیا کے بہترین سیاسی نظام کی حامل ہیں۔



محترم !
آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ہمیں سیاست کی پوری تعلیم نہیں دیتا۔ اس لیئے ہمیں کچھ چیزیں ہندوں سے، کچھ عیسائیوں سے اور اسی طرح جہاں جہاں بھی ہمیں اچھی باتیں ملتی ہوں ان سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیئے۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ 1500 سال۔۔۔ تو گویا صحابئہ کرام رضی اللہ عنہما اور خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا نہیں کیا اسی لیےوہ معاذاللہ ایک کامیاب ریاست نا بنا سکے۔ آپ کے کہنے کا مطلب یہی ہے نا؟؟؟

اور جیسا کہ آپ قرآن کے حوالے سے دینی سیاست کو شورٰئیت پر مبنی ثابت کر رہے ہیں اور اس مشاورت میں کسی خاص دینی شخص کا تعین آپ کے لیئے ضروری نہیں ہے اس میں کسی بھی شخص کو شامل کیا جاسکتا ہے، خواہ وہ ہندو ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو یا باعمل مسلمان۔
لیکن محترم! چونکہ میں عربی داں نہیں ہوں اس لیئے میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اس آیت میں جس کا حوالہ آپ بار بار پیش کر رہے ہیں، بَيْنَهُمْ ۠کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ آپ کے نزدیک کیا ہونا چاہیئے۔۔۔ آپ ذرہ اس پوری آیت کو ایک بار دیکھیں



فَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْ۔فَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ
وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ۠ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ ۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ
ترجمہ: جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سرو سامان ہے ، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی وہ اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں۔ اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔جو بڑے بڑے گناہوں اوربے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ آ جائے تو در گزر کر جاتے ہیں۔ جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں ، ہم نے جو کچھ رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

پھر اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بنائو۔ آل عمران 118

اصل لفظ بِطَانَةً آیا ہے۔۔ ذرہ اس پر بھی روشنی ڈالیں۔۔اور پھر ذرہ اس آیت کو بھی اپنے علم سے روشناس کریں۔۔

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا 28؀
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش ِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار اِفراط و تفریط پر مبنی ہے۔ کہف 28

اور پھر اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ
در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔

تو پھر ہم اپنی شوریٰ میں کریموں کی جگہ لعینوں کو کیونکر شامل کریں؟؟؟
 

ابو معاویہ

محفلین
بات یہ ہے کہ جس جگہ سے بھی اگر دین کو ہٹا دیا جایگا تو اس میں فسادات ہی برپا ہونگے۔ دین کو سامنے رکھتے ہوئے سب کام کرے جائیں تو اسی میں سب کی کامیابی ہے۔ محمد علامہ اقبال رحمتہ الله علیہ نے اس پر بری اچھی تصور کشی کی ہے۔ عرض کرتے ہیں :

جلال پادشاہی ہو یا جمہوری تماشا
جدا ہو دین سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی

علامہ اقبال ؒ
 
دین سیاست سے جدا نہیں
آج ہماری معتبر مذہبی تحریکیں، علماء و مشائخ اور پیر خانے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کر کے بیٹھ گئے ہیں اور اپنے اوپر لیبل چسپاں کر دیا کہ ہم غیر سیاسی ہیں، ہمارا سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ارے محترم ! دین سیاست سے کب جدا ہے؟اگر تم دین کو سیاست سے الگ تھلک کر کے بیٹھ جاؤ گے تو وہ ظلم و جبر ، لوٹ گھسوٹ ، ناانصافی، بے اعتدالی و بد عنوانی کے سوا کچھ نہیں رہے گی ، اور یہ خونخوار معاشی درندے آزاد اور وحشی ہو جائیں گے اور اپنی من مانیاں کرتے پھریں گے اور معاشرہ کو گمراہی و ضلالت کی تاریکیوں میں لے ڈوبیں گے جیسا کہ آج ہے۔اوپر چند سو لوگ ہیں اور نیچے کروڑوں کی عوام ہے ۔ اگر آپ اوپر چند سو کو قابو کر لو گے تو کروڑوں کو قابو کرنا آسان ہے۔ اگر یہ چند سو سدھر جائیں اور دینی اصولوں کے مطابق چلیں اور اس کے مطابق قوانین ترتیب دیں تو معاشرہ کو سدھارنا اتنا مشکل نہیں ہے۔ سیاست سے دور رہ کر علماء ارب ہا کوششیں کر لیں وہ معاشرہ کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ اگر تم حکمرانوں پر چڑھ کے نہیں رہو گے اور ان کی لگام اپنے ہاتھوں میں نہیں لو گے تو معاشرہ کو برائیوں سے کیسے بچا پاؤ گے؟ جب تک ضلالت و گمراہی کے مراکز ، معاشرتی تباہ کاریوں اور بد اخلاقیوں پر اوپر اعلیٰ سطح سے پابندی نہ لگے اور سخت قوانین نہ بنیں ، نیچے سے آپ لاکھ کوششیں کر لیں ان کو نہیں روک پائیں گے۔
مذہبی اصولوں پر چلنے اور چلانے میں حکومت کو بڑاعمل دخل ہے۔اس کو جزا و سزا کا قانون نافذ کرنے والی قوت کہا جا سکتا ہے۔جو قرآن و حدیث اور رشد و ہدایت سے نہ بدلیں، شیطان کی راہ، فساد کی راہ پر چلیں تو ان کو قانون کا ڈنڈا، سخت قوانین کا شکنجہ سیدھا کر دے گا ۔ہمارا معاشرہ جس حد تک پستی میں جا چکا اب اسے سیدھا کرنے کیلئے صرف ڈنڈا پیر ہی کارگر ثابت ہو سکتا۔ روحانی پیر سب بے وقعت و بے اثر ثابت ہو چکے ہیں، وہ معاشرہ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکے، وہ معاشرتی برائیوں کے سامنے بند باندھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ وہ معاشرہ کی اصلاح اور پاکیزگی و پاکدامنی کو برقرار رکھنے میں کوئی کردار ادانہیں کر سکے۔ آج کتنی جماعتیں تبلیغ کر رہی ہیں؟ کتنی تحریکیں، کتنی تنظیمیں، کتنے گروہ اور ٹولے معاشرہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے ہوئے لیکن کیا معاشرہ کی اصلاح ہو رہی ہے؟ کیا معاشرہ گمراہی و ضلالت کی پستیوں سے نکل کر فلاح، نیکی اور پاکیزگی کی طرف گامزن ہے؟ وہ تو روز بروز گمراہی و ضلالت ، فسق و فجور کی گھٹا ٹوپ اندھیریوں میں گرتا جا رہا ہے۔آخر اتنی اصلاحی تحریکیں ہونے کے باوجود ایسا کیوں ہے؟معاشرہ میں تبدیلی کیوں نہیں آرہی ؟ معاشرہ کی اصلاح کیوں نہیں ہو رہی؟ اصلاحی تحریکیں کیوں مؤثر اور کارگر ثابت نہیں ہو رہیں ہیں؟ کیا اتنی تحریکوں نے مل کر کئی عشروں کی انتھک محنت سے کسی ایک معاشرتی برائی پر قابو پا یا ہے جو اس وقت معاشرہ میں نہیں پائی جاتی؟ کوئی ایک ثابت کر کے دیکھائیں کہ یہ برائی ان کی کوششوں سے معاشرہ میں موجود نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں ، گروہوں، ٹولوں اور گدی مکینوں نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کیا ہوا ہے،ان کے ہاتھ کچھ نہیں، ان کے ہاتھ اختیار سے خالی ہیں۔ ان کے ہاتھ وہ قانون اور وہ قدرت نہیں جو برے کا منہ پکڑے اور حق کی طرف موڑ دے۔یہ صرف دھیمی اور نرم بات، نرم لہجہ سے منع تو کر سکتے ہیں مگر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ان کے ہاتھ سیاست، قیادت اور اختیارو انتظام ہوتا تو ہر طرح کا عملی اقدام اٹھا سکتے تھے۔ ایسی تحریکیں، ایسے گروہ، ایسے ٹولے ، ایسے گدی مکین حکیم الامت حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول یاد رکھیں۔
جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
ڈاکٹر علامہ اقبال کا یہ شہرہ آفاق شعر بڑا با معنی اور پراثر ہے۔ چنگیزی سے مراد لا قانونیت ہے ظلم و جبر اور خون خرابہ ہے۔ اگر مسلمان قوم ملک کے نظم و نسق اور نظام چلانے میں دین سے علیحدگی اختیار کر لیں تو پھر تباہی شروع ہو جاتی ہے، ظلم و زیادتی ، ناانصافی، بے راہ روی اور خون خرابہ ہی بڑھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ آج کا ہمارا معاشرہ بے لاگا م و بے مہار ہے اور ہزار کوششوں کے باوجود نہیں سنبھالا جا رہا۔
ہنوز اندر جہان، آدم غلام است
نظامش خام و کارش نا تمام است
غلام فقر آن گیتی پناہم
کہ در دینش ملوکیت حرام است

دین سیاست سے جدا نہیں۔ نہایت جاندار اور انتہاءی فکر انگیز مضمون اس کے مکمل مطالعہ کے لیے کریں۔ بیداری ڈاٹ کام
دین سیاست سے جدا نہیں
 
مذہبی اصولوں پر چلنے اور چلانے میں حکومت کو بڑاعمل دخل ہے۔اس کو جزا و سزا کا قانون نافذ کرنے والی قوت کہا جا سکتا ہے۔جو قرآن و حدیث اور رشد و ہدایت سے نہ بدلیں، شیطان کی راہ، فساد کی راہ پر چلیں تو ان کو قانون کا ڈنڈا، سخت قوانین کا شکنجہ سیدھا کر دے گا ۔ہمارا معاشرہ جس حد تک پستی میں جا چکا اب اسے سیدھا کرنے کیلئے صرف ڈنڈا پیر ہی کارگر ثابت ہو سکتا۔

پاکستانی قوم نماز پڑھنے کی مد میں تو ایک لاکھ ایک روایات سامنے لاتی ہے لیکن زکواۃ حکومت کو ادا نہیں کرتی اور نا ہی حکومت آمدن ہونے کے وقت پر ہی کسی قسم کے ٹیکس پر یقین رکھتی ہے۔ کیا یہ ریا کاری، تکفیر احکام الہی نہیں؟
 
اسلام دنیاکا یگانہ مذہب ہے جس نے بنی نوع انسان کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ دینی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی ، سماجی ،اقتصادی غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فلاح و کامیابی کا ایک ایسا جامع رہنما اصول دیا ہے جس پر چل کر ہم دین و دنیا دونوں جہاں میں کامیاب و کامراں ہوسکتے ہیں۔اسلام نے کبھی بھی دین و دنیا کی تفریق کو روا نہیں رکھا۔اس کی نظر میں دنیاوی کام بھی اگر شریعت کی روشنی میں انجام دیئے جائیں تو وہ بھی دین ہے اس پر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اجر ملے گا۔ اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست تدبیر و حکمت اورتنظیم کا نام ہے جو افراد معاشرہ کی فلاح عامہ کیلئے کام کرتی ہے۔بہتر تدبیر و انتظام اور جامع حکمت عملی سے معاشرہ کو ایسے اصولوں پر گامزن کرنا جو ریاست مدینہ کے اصول تھے۔ اسلامی سیاست کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکے، ایک ایسی مضبوط اور لاثانی سیاسی قوت میدان عمل میں ہو جو انسانوں کے عام فائدے ، عام بہتری اور عام تنظیم کے لئے ہو۔ جس میں تمام افراد معاشرہ کو یکساں حقوق دئیے گئے ہوں، کسی پر ظلم نہ ہو ، کسی کا حق نہ دبایا جائے ، کمزوروں کو نہ ستایاجائے ، کوئی شخص اپنی طاقت، مال و جاگیر اور رعب کے نشے میں کسی کمزور پر ظلم و جبر نہ کر سکے، کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو،سبھی کے ساتھ مکمل انصاف ہو ، ہر ایک کی عزت و آبرو کا احترام کیاجائے۔ حکومت تمام افراد کی جان و مال ، عزت و آبرو کی محافظ اور نگراں ہو۔سبھی لوگوں کی طبعی ضرورتیں پوری ہوں، خوراک و لباس کی تنگی نہ ہو، رہن سہن دشوار نہ ہو، کسی پر زندگی تنگ نہ ہو، تعلیم، صحت، روزگار کے انتظامات سبھی افراد معاشرہ کے لئے ایک جیسے ہوں، مالیانے کی جمع اور مستحقین میں تقسیم، غریبوں اور بے کسوں کی خبر گیری، قرض دار کے قرضوں کی احسن ادائیگی، بے گھروں کیلئے رہائش کا اہتمام، بیواؤں کی نگرانی الغرض ہر وہ کام جسے سیاسی قرار دے کر دین سے جدا کر دیا گیا اور جس سے علماء بھی دستبر ہوگئے اور اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا وہ اسلامی تاریخ کا حصہ رہا ہے اور اسے انبیاء و علماء ہی سرانجام دیتے رہے ہیں۔اللہ کے تمام انبیاء و مرسل خود یہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ حضور نبی آخر الزماں ﷺ خود اور آپ ﷺ کے اصحاب و تابعین یہ کام سرانجام دیتے رہے ہیں۔آپ ﷺ نے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کیلئے رات دن قربانیاں دی ہیں۔
مسلمانوں کی نظریاتی اساس اسلام ہے۔ ایک مسلمان کسی ایسے سیاسی نظام کو نہیں اپنا سکتا جو مذہب کی بندش سے آزاد ہو یعنی دین کے بغیر ہم مسلمان کسی فلسفہ زندگی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں چاہے وہ معاشرت ہو یا سیاست یا تجارت۔ اسلام کا حکومت و قیادت اور سیاست سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ہوسکتا ہے۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ مذہب، سیاست و حکومت کے تعلق کو ثابت کرتا ہے۔ اللہ کریم کا زمین پر انبیاء بھیجنے کا مقصد صرف زمین تک، زمین کے باسیوں تک اپنا پیغام پہنچانا نہیں تھا بلکہ انہیں بھیجنے کا اصل مقصد زمین پر خدا کے احکامات کا عملی طور نفاذ کرنا اور کروانا تھا، منکرین کے خلاف ٹکر لینا تھا، خدا کا قانون زمین پر رائج کرنا تھااور سیاست سے دور رہ کر نفاذ اور راج ممکن ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر سیاسی نہیں تھے۔ کیا کسی حکمران کا کارکن غیر سیاسی ہو سکتا ہے؟ کیا کسی بادشاہ کے متوالے غیر سیاسی ہو سکتے ہیں؟ کائنات کا سب سے بڑا بادشاہ کون ہے؟ کائنات کا سب سے بڑا حکمران کون ہے؟ کائنات کا سب سے بڑا مدبر، تدبیر و انتظام کرنے والا کون ہے؟ یہ کائنات کے سب سے بڑے بادشاہ، مدبر و تنظیم کرنے والے کے کارکن ہو کر اپنے اوپر غیر سیاسی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں۔یہ اس سب سے بڑے بادشاہ کے کارکن ہو کر اس کی کائنات میں اس کے احکام رائج کرنے کی سیاست نہیں کرتے ۔یہ سیاست تو انبیاء کا وظیفہ رہا ہے یہ جس سے الگ تھلگ ،بے وقعت و بے اختیار ہو کر بیٹھے ہیں۔احادیث مبارکہ اور ان کی تشریحات میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست انبیاء اور علماء کا وظیفہ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے۔
کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء
’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کیا کرتے تھے‘‘۔

جتنی امتیں بھی گذری ہیں رب کائنات نے ان کی قیادت و سیاست ، امور ریاست ان کے انبیاء کے ہاتھوں میں دی تھی اور وہ انبیاء اسے خدا کے احکام و ہدایات کے مطابق سر انجام دیتے تھے گویا کہ انبیاء خدا کی کائنات میں خدا کے متعین کردہ نظام حیات و مملکت کے نفاذ کے ذمہ دار و نگران تھے۔اب کیونکہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضور نبی کریم ﷺ پر بند کر دیا گیا ، آپ ﷺ رب کی طرف سے ا س کی کائنات کے آخری منتظم و نگران ہیں اور آپ ﷺ نے تمام ذمہ داریاں احسن طریق سے سر انجام دیں، دین کی تبلیغ بھی کی، سیاست و قیادت بھی کی، جنگیں بھی لڑیں، سرحدوں کا بھی پہرہ دیا، دیکھ بھال بھی کی،معاشرہ سے برائیوں کا بھی قلع قمع کیا،عدل قائم کیا، انصاف کا بھی بول بالا کیا۔بے سہاروں ، لاچاروں کو سہارا بھی دیا۔مساوات قائم کی، اخوت پیدا کی، بھائی چارہ کو فروغ دیا، شریعت و قانون کی نظر میں سب کو ایک کیا۔ کیا یہ سب سیاسی و ریاستی امور نہیں تھے جو آپ ﷺ ساری زندگی ادا کرتے رہتے اور اپنے بعد اپنا جانشیں، اپناوارث علماء کو ٹھہرا کہ یہ میرے کام کو اسی طرح جاری و ساری رکھیں گے۔کیا علماء و مشائخ وہ جانشینی نبھا سکے؟ وہ ذمہ داریاں پوری کر سکے؟ کیا وہ سلسلہ ، وہ معاشرتی روایات، وہ معاشرتی و اخلاقی پاکیزگی ، وہ معاشرتی امن، وہ معاشرہ کی پاکدامنی اسی طرح جاری و ساری رکھ سکے جو حضور رسالت مآب ﷺ نے انہیں وارثت میں دی تھی؟ انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی وراثت میں مال اور جائیدایں نہیں چھوڑیں، علم اور قوم کی قیادت ، سیاست و سیادات چھوڑی ہے۔
 
اسلام کی تعریف کر کر کے لوگ باگ پھولے نہیں سماتے ، کیا اتنی ہی تعریف موجودہ مسلمانوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ جو حقوق العباد ادا کرنے میں بالکل ہی صفر ہیں
 

امن وسیم

محفلین
نوٹ : یہ تفصیلی بحث اپنے آرٹیکل کو نتیجہ خیز بنانے کیلیے کی گئی ہے۔ زحمت کیلیے معذرت

آیات قرآنی ( خلافت کے موضوع پر )

ذیل میں قرآن مجید میں خلافت کے موضوع کو زیر بحث لانے والی تمام آیات کا ترجمہ نقل کیا جارہا ہے۔ اس میں لفظ ’خلیفہ‘ کو بعینہٖ بغیر کسی ترجمے کے نقل کیا ہے۔ اس کا جو دل چاہے، آپ ترجمہ کر لیں۔ نتائج فکر کسی طور مختلف نہیں ہو سکتے ۔ وہ نتائج کیا ہیں، ملاحظہ فرمائیے:

پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی مقام پر بھی مجھ سے آپ سے یا کسی سے بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ تم خلافت قائم کرنے کی جدو جہد کرو یا یہ کوئی دینی کام ہے یا یہ کہ یہ سرے سے کوئی کرنے کا کام ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی چیز دین کا مطالبہ یا دین کا مقصد ہے تو اس کا حکم دیا جانا تو ضروری ہے نا۔ اس کے بغیر اس کام کے لیے لوگوں کو کس بنیاد پر اٹھایا جا سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اس کے بالکل برعکس ہر مقام پراللہ تعالیٰ افراد اور اقوام کو خلیفہ بنانے کے عمل کو سرتاسر اپنی طرف منسوب کر رہے ہیں، یعنی قرآن مجید ہر جگہ اسے ایک تکوینی امر کے طور پر پیش کرتا ہے، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے دیگر معاملات کر رہے ہیں ؛مثلاً لوگوں کو زندہ کرتے ہیں ، مارتے ہیں، رزق دیتے ہیں، اولاد دیتے ہیں، بے کس کی فریاد رسی کرتے ہیں، اسی طرح وہ خلافت کے متعلق بھی واضح کر رہے ہیں کہ لوگوں کو خلافت وہی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس معاملے کو اللہ تعالیٰ ایک تکوینی معاملہ قرار دے رہے ہیں، اس کو تشریعی معاملہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ جو اللہ کے کرنے کا کام ہے ، وہ ایک دینی فریضہ کیسے بن سکتا ہے؟

تیسرے یہ کہ کئی مقامات پر یہ صراحت کی گئی ہے کہ کفار کو بھی زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے۔ کفار قریش، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود سب کے متعلق یہ تصریح ہے کہ ان کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کفار کو بھی خلیفہ بنایا گیا تو اس معاملے کو مسلمانوں کے ساتھ کیسے خاص کیا جاسکتا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ جس جگہ پر مسلمانوں کو خلیفہ بنانے کا ذکر ہے، وہاں اسے مسلمانوں کے کسی مقصد کے طور پر بیان نہیں کیا گیا، بلکہ یہ اللہ کے وعدے کا بیا ن ہے کہ جو لوگ ایمان وعمل صالح کی شرط پر پورا اتریں گے ، یہ ان سے اللہ کا وعدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ امر موعود کو امر مقصود کیسے بنایا جاسکتا ہے، یعنی جو اللہ کا وعدہ ہے، وہ اللہ پورا کریں گے۔ ہمیں تو جو کام بتایا گیا ہے، یعنی ایمان و عمل صالح؛ ہمیں تو لوگوں کو اس کے لیے اٹھانا چاہیے۔ نہ کہ خلافت کے کسی نظریے کو مقصود دین کے طور پر پیش کرنے لگیں۔

پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ یہ کسی فقہی امر کو متعین کرنے کا معاملہ نہیں جس میں فقہا کے اقوال نقل کر کے قوم کو اس کے پیچھے دوڑا دیا جائے۔ یہ دین کے نصب العین کا معاملہ ہے۔ یہ ایک دینی فریضے کا معاملہ ہے۔ اس پر قرآن مجید کی واضح ترین صراحت چاہیے۔ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ نہ صرف قرآن مجید اسے کسی دینی فریضے کے طور پر بیان نہیں کرتا، بلکہ ہر پہلو سے اس کے متضاد بات کرتا ہے۔ ایسے میں ہماری ناقص راے میں قرآن مجید اس نقطۂ نظر کے بالکل خلاف کھڑا ہوا ہے۔

اب ذرا آیات الٰہی کا مطالعہ فرما لیجیے:


’’(کیا تمھارے یہ شرکا عبادت کے مستحق ہیں) یا وہ جو محتاج کی داد رسی کرتا ہے، جبکہ وہ اس کو پکارتا ہے اور اس کے دکھ درد دور کرتا ہے اور تم کو زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔‘‘ (النمل ۲۷: ۶۲)

’’اور ہم نے تم سے پہلے قوموں کو ہلاک کیا، جبکہ وہ ظلم کی مرتکب ہوئیں ۔ اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور وہ ایمان لانے والے نہ بنے۔ ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں مجرم قوم کو۔ پھر ہم نے ان کے بعد تم کو زمین کا خلیفہ بنایا تا کہ دیکھیں تم کیسا عمل کرتے ہو۔‘‘ (یونس۱۰: ۱۳۔۱۴)

’’وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا تو جو کفر کرے گا، اس کے کفر کا وبال اسی پر آئے گا اور کافروں کے لیے ان کا کفر، ان کے رب کے نزدیک، اس کے غضب کی زیادتی ہی کا موجب ہو گا۔ اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرے گا۔‘‘ (فاطر۳۵: ۳۹)

’’(حضرت ہود نے اپنی قوم عادسے کہا): اور یاد کرو، جبکہ اس نے تمھیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا اور جسمانی اعتبار سے تمھیں وسعت و کشادگی عطا فرمائی تو اللہ کی شانوں کو یاد رکھو تا کہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (الاعراف ۷: ۶۹)

’’(حضرت صالح نے اپنی قوم ثمودسے کہا): اور یاد کرو، جبکہ خدا نے قوم عاد کے بعد تم کو خلیفہ بنایا اور ملک میں تم کو تمکن بخشا، تم اس کے میدانوں میں محل تعمیر کرتے اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو تو اللہ کی شانوں کو یاد کرو اور ملک میں اودھم مچاتے نہ پھرو۔‘‘ (الاعراف ۷: ۷۶)

’’اور وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کے درجے دوسرے پر بلند کیے تا کہ جو کچھ اس نے تمھیں بخشا ہے، اس میں تم کو آزمائے، بے شک تیرا رب جلد پاداش عمل دینے والا بھی ہے اور وہ بخشنے والا اور مہربان بھی ہے۔‘‘ (الانعام ۶: ۱۶۵)

’’اور تیرا رب بے نیاز، رحمت والا ہے، اگر وہ چاہے تم کو فنا کر دے اور تمھارے بعد تمھاری جگہ جس کو چاہے، خلیفہ بنادے جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے۔‘‘ (الانعام ۶: ۱۳۳)

’’پس اگر تم اعراض کر رہے ہو تو میں نے تمھیں وہ پیغام پہنچا دیا جو دے کر مجھے تمھاری طرف بھیجا گیا ہے۔ اور میرا رب تمھاری جگہ اب تمھارے سوا کسی اور قوم کو خلیفہ بنائے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے۔ میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘ (ہود ۱۱: ۵۷)

’’اور یاد کرو، جبکہ تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انھوں نے کہا: کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خوں ریزی کرے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۳۰)

’’اے داؤد، ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔پس لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘ (ص ۳۸: ۲۶)

’’تو انھوں نے اس ( نوح ) کو جھٹلا دیا تو ہم نے اس کو اور جو لوگ اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور ان کو خلیفہ بنا دیا اور ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تو دیکھو کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جن کو ہوشیار کیا جا چکا تھا!!‘‘ (یونس ۱۰: ۷۱۔۷۳)

’’وہ بولے: ہم تو تمھارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اور تمھارے آنے کے بعد بھی۔ (موسیٰ نے) کہا: توقع ہے کہ تمھارا رب تمھارے دشمن کو پامال کرے گا اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا کہ دیکھے تم کیا روش اختیار کرتے ہو!‘‘ (الاعراف ۷: ۱۲۹)

’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عملِ صالح کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (النور ۲۴: ۵۵)

یہ قرآن مجید میں خلافت کے حوالے سے آنے والے کل بیانات ہیں جو بعینہٖ آپ کے سامنے ہیں۔ ان آیات کو پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ آپ ایک لمحے میں یہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر خلیفہ بنانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ اسے کسی دینی فریضے کے طور پر نہیں، بلکہ بطور آزمایش یا بطور انعام بیان کیا گیا ہے۔ یہ خلافت اہل ایمان کو دینے کا بیان ہے تو کفار کو بھی دیے جانے کا ذکر ہے۔
ان آیات سے یہ بات آخری درجہ میں واضح ہے کہ اس سے خلافت قائم کرنے کی کسی جدوجہد پر اٹھانے کا کوئی اشارہ نہیں۔ ایسا کوئی دینی حکم نہیں کہ خلافت قائم کرنے کی جدو جہد کرو، بلکہ اس کے برعکس اسے ایک تکوینی معاملے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایمان صالح کی بنیاد پر خلافت کی خوش خبری دیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے حوالے سے اگر کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو وہ یہ کہ ایمان و عمل صالح کی تحریکیں برپا کریں۔ یہ کیفیت اگر پیدا ہو گئی تو اللہ تعالیٰ خلافت عطا کر دیں گے، کیونکہ سورۂ نور کی آیت نص قطعی ہے کہ یہ امر مقصود نہیں امر موعود ہے، یعنی یہ دین کا کوئی حکم نہیں، بلکہ دین پر پوری طرح عمل کرنے کا انعام ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
قرآن نے یہی بات ’خلیفہ‘ کا لفظ استعمال کیے بغیر بھی بیا ن کی ہے۔ سورۂ اٰل عمرٰن میں جس مقام پر اس فیصلۂ الٰہی کا اعلان ہو رہا ہے کہ یہود کو منصب امامت سے معزول کیا جارہا ہے اور بنی اسماعیل کو اس منصب پر فائز کیا جا رہا ہے، وہاں یہ فیصلہ ایک دعا کی شکل میں امت کو سکھایا گیا ہے۔ اس دعا میں خلافت کی جگہ بادشاہی کے الفاظ استعمال کر کے ٹھیک یہی بات بتا دی گئی ہے:

’’دعا کرو، اے اللہ، بادشاہی کے مالک، تو ہی جس کو چاہے بادشاہی دے، جس سے چاہے بادشاہی چھینے اور تو ہی جس کو چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے۔ بے شک، تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو، رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے زندہ کو مردہ سے اور ظاہر کرتا ہے مردہ کو زندہ سے اور تو جس پر چاہتا ہے اپنا بے حساب فضل کرتا ہے۔‘‘ (اٰل عمرٰن ۳: ۲۶۔۲۷)

دیکھ لیجیے کہ یہاں بھی بادشاہی دینے اور لینے کو ایک تکوینی معاملے، یعنی فیصلۂ الٰہی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کو اس مقصد کے لیے کسی جدوجہد کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ اسے دیگر تکوینی معاملات کے ساتھ بطور قدرت الٰہی کے بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے کسی قسم کی سیاسی جدو جہد کر کے حکومت قائم کرنا کس طرح دین کا کوئی مطالبہ بن سکتا ہے۔ ایک دوسری جگہ خلافت کا ایک دوسرا ہم معنی لفظ، یعنی ’تمکن فی الارض‘ یا زمین پر اقتدار بخشنا کے الفاظ سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ اقتدار دے:

’’ یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سر زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور انجام کار کا معاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ (الحج ۲۲: ۴۱)

یہ ہے اس معاملے میں قرآن مجید کا نقطۂ نظر جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہمارا مقصود کسی کو فکری شکست دینا نہیں، اللہ کی مرضی کو کھول کر بیان کرنا ہے۔ تاکہ کل قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ پروردگار کسی نے آپ کی بات سمجھائی ہی نہیں۔ ہمیں کسی بحث میں نہیں الجھنا، صرف لوگوں سے یہ گواہی چاہیے کہ ہم نے اپنے رب کی بات بعینہٖ ان کے سامنے رکھ دی ہے۔ اب جس کا دل چاہے وہ مانے اور جس کا دل چاہے نہ مانے۔

آخری بات: دین کا نصب العین کیا ہے؟

اس ضمن میں ایک آخری سوال جس کا مختصر جواب دے کر ہم یہ گفتگو ختم کریں گے، وہ یہ ہے کہ پھر دین اپنا نصب العین کیا بیان کرتا ہے؟ ہمارے نزدیک اس معاملے میں درست بات یہی ہے کہ دین ایک فرد کے سامنے یہ مقصد رکھتا ہے کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ قرآن مجید جگہ جگہ اسی تزکیہ پر جنت کی کامیابی کو موقوف قرار دیتا ہے۔ اسی کو چار مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’کامیاب ہوا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی۔‘‘ (الاعلیٰ ۸۷: ۱۴۔۱۵)

’’قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کیا‘‘ (الشمس ۹۱: ۷۔۱۰)

’’وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے ) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (الجمعہ ۶۲: ۲)

یہی وہ تزکیہ، یعنی عقیدے ،عمل اور اخلاق کو ہر آلایش سے پاک کرنے کا وہ عمل ہے جو ایک مومن کی زندگی میں ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ تمام احکام دین اسی مقصد کے حصول کے لیے دیے گئے ہیں۔ یہی وہ تزکیہ ہے جو جنت میں داخلے کی اصل وجہ ہے، (طٰہٰ ۲۰: ۷۶) اور قرآن مجید کے مطابق اس میں کوئی کمی رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کردیں گے اور نافرمانوں کو اس سے محروم رکھیں گے (البقرہ ۲: ۱۷۴)۔
ہمارے نزدیک دور جدید کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ لوگوں نے اپنی ذات کے تزکیے کو چھوڑ کر خارج میں دوسروں پر دین نافذ کرنے اور ان پر زبردستی اسلام کو ٹھونسنے کو اصل دین بنادیا ہے، حالاں کہ قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ دوسروں کے حوالے سے ذمہ داری صرف پہنچانے اور سمجھانے کی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اس دنیا کے بارے میں یہ اسکیم ہی نہیں کہ لوگوں کو زبردستی نیک بنایا جائے۔ اسے تو اپنی جنت کے لیے ایسے لوگ چاہییں جو زبردستی اور منافقانہ طور پر نہیں، بلکہ دلیل کی بنیاد پر ایمان لاکر اپنے اختیار کو خدا کے سامنے ختم کر دیں۔ وہ کسی جبر کے بغیر نیک بن جائیں۔ اگر بالجبر لوگوں سے سچائی منوانی اور اچھے کام کروانے ہوں تو اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ ہو گا اور دنیا میں کوئی نافرمان نہ رہے گا۔ مگر پھر امتحان بھی نہیں رہے گا۔
یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اس میں خیر و شر کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔ چنانچہ اسی خیر و شر کے شعور کو زندہ رکھنے کے لیے ہدایت، شہادت حق، تواصو ابالحق ، امر بالعروف و نہی المنکر، انذار و تذکیر کا پورا سلسلہ برپا کیا گیا ہے۔ ڈرانا دھمکانا، جبر اور زبردستی اللہ کی اسکیم نہیں۔ اس حوالے سے لوگوں میں بہت غلط فہمیاں ہیں۔ مگر سردست وہ میرا موضوع نہیں ہے۔ اصل بات سمجھ لیں۔ جبر اللہ کی اسکیم کا حصہ نہیں۔ اسی کی روشنی میں دین کے ہرحکم کو سمجھنا چاہیے۔ جو اس سے ہٹ کر قرآن و حدیث میں ملے گا، وہ ایک استثنا ہو گا جس کا موقع محل جو چاہے گا ہم واضح کر دیں گے۔
 

امن وسیم

محفلین
دین کا سیاست سے اس طرح کا کوئی تعلق نہیں جس طرح اس لڑی میں مختلف میں مختلف مراسلوں میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دین اسلام کا واحد مقصد تزکیہ نفس ہے۔ الله تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہر ایک صحیح عقائد اور صحیح اعمال اختیار کر کے اپنے اوپر جنت کو واجب کر لے۔ البتہ الله تعالیٰ نے انسان کو جبلی طور پر معاشرتی حیوان بنایا ہے تو اسے کچھ اخلاقی اصول بھی دیے ہیں لہٰذا اب اسے ان اصولوں کی پابندی بھی کرنی ہے۔

انہی اخلاقی اصولوں کا اطلاق ہی ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں پر کیا گیا جن کا ذکر ہمیں قرآن و حدیث میں ملتا ہے۔

جس طرح مسلمانوں کی عبادات میں دوسرے مذاہب کے مقابلے میں انفرادیت قائم ہے اس طرح کی انفرادیت سیاست کو دینا یہ جائز نہیں۔ سیاست ایک دنیاوی معاملہ ہے، البتہ وہ اخلاقی اصول جو اسلام نے ہمیں دیے ان سے ایک حکمران بھی رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔

لیکن ان اصولوں پر تو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں عمل کرنا ہے، ہر روز، ہر لمحہ یہاں تک کہ دو دوست بھی بیٹھے گفتگو کر رہے ہوں تب بھی۔

مختصر یہ کہ اسلام ہمیں سیاست کرنا تو نہیں سکھاتا ( معذرت کے ساتھ ) البتہ کوئی شخص حکمران بن جائے تو وہ اسلام کے اخلاقی اصولوں سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
 
Top