کیا دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہے؟؟؟

رمان غنی

محفلین
محترم قارئین!
کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہب ایک انفرادی شے ہے جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر دین کو سیاست میں شامل کرتے ہیں تو دہشت گردی پھیلتی ہے۔

یہ باتیں کس حد تک صحیح ہیں، اور اگر غلط ہیں تو کیسے غلط ہیں ۔ اس پر مجھے آپ حضرات کی رائے چاہیئے۔
 

عسکری

معطل
دین لوگوں کے عقائد کا مسئلہ ہے ۔ دین کے اندر کتنے مذاہب کتنے فرقے کتنی آپپسی چپکلس ہے پہلے اس پر ہی بات کر لی جائے ۔ ماڈرن دنیا میں حکومت کے لاکھوں کام ہیں جو ملائیت کے حوالے نہیں کیے جا سکتے ۔ دین اپنی روزی روٹی دین سے ہی چلائے تو بہتر ہے حکومت کے لیے ہر چیز مختلف ہے ۔ سیاسیات اور معاشیات کو کسی ملا نے آج تک کہاں پڑھا ہے؟ ملک چلانے کے لیے ہر کام میں اس کے پروفیشنل چاہیے ۔ جیسے کہ فوج کو فوجی ائیر لائن کو ائیر لائن والے پولیس کو پولیس والے انڈسٹری کو انڈسٹیلسٹ اور فارن پالیسی کو ڈپلومیٹ اب کاموں میں دین کا کوئی لین دین نہیں ہے تو یہ کیسے کسی ملا کے حوالے کیے جا سکتے ہیںجس کا کام ہے دین ہے؟ ہر کام اس کے کرنے والے کو دے دیا جائے تو مدرسہ اور مسجد ملا کے لیے ہے وہ اپنا کام کرے ۔ سیاست کا دین سے کوئی تعلق جب بھی بنا جبر تشدد خؤن خرابہ اور مسائل ہی ہوئے ہیں تاریخ گواہ ہے جب دین نے انسانیت کو پس پشت ڈال کر لاکھوں جنگیں کی ہیں؟
 

نیلم

محفلین
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کادورخلافت ایک بہترین دور تھاجواس بات کاثبوت ہےکہ سیاست کواگرمذہب سے الگ کردیاجائےتوسیاست کاوہ حال ہوتاہےجوآج کل ہماری سیاست کاہے
ایک واقع شیئرکروں گی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ کی خلافت کے دورکا۔
وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک ہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1-گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علامہ اقبال رحمۃ اللہ نے فرمایا تھا :

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
 

شمشاد

لائبریرین
عسکری نے جو الزامات مُلا پر لگائے ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد ہیں۔
مُلا کے بغیر آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔

مجھے نیلم کی بات سے پورا پورا اتفاق ہے کہ دین سے جدا ہو کر اس وقت پاکستان میں صرف اور صرف چنگیزی ہی رہ گئی ہے۔
 

حماد

محفلین
دین اور سیاست کا ملن دیکھ کے اقبال
چنگیز کے پہلو میں پریشان کھڑا تھا
(مبارک حیدر)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ایک سنجیدہ قسم کا دھاگہ ہے۔ برائے مہربانی اس میں غیر متعلقہ باتیں نہ کی جائیں ورنہ حذف کر دی جائیں گی۔
 

عسکری

معطل
عسکری نے جو الزامات مُلا پر لگائے ہیں وہ سب کے سب بے بنیاد ہیں۔
مُلا کے بغیر آپ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔

مجھے نیلم کی بات سے پورا پورا اتفاق ہے کہ دین سے جدا ہو کر اس وقت پاکستان میں صرف اور صرف چنگیزی ہی رہ گئی ہے۔
بالکل ٹھیک پر اگر ملک سے سارے ملا ختم ہو جائین تو راوی چین ہی چین لکھے گا ۔ پاکستان میں اس وقت کی ہر چیز کو علیحدہ علیحدہ کر کے دیکھ لیتے ہیں جناب کیا مسئلہ ہے ۔ ;) ملائیت سے بڑا مسئلہ اور کوئی نہیں اقوام عالم کا آج ۔ یہ صرف پاکستان کا المیہ نہیں ہے یہ ساری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے ۔
 

عسکری

معطل
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کادورخلافت ایک بہترین دور تھاجواس بات کاثبوت ہےکہ سیاست کواگرمذہب سے الگ کردیاجائےتوسیاست کاوہ حال ہوتاہےجوآج کل ہماری سیاست کاہے
ایک واقع شیئرکروں گی
حضرت عمر فاروق رضی اللہ کی خلافت کے دورکا۔
وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک ہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن حضرت امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے دروازے پن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری ۔ بعض کہنے لگے یہ باندی حضرت کی ہے۔ آ پ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے : 1-گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔ 2-عمدہ کھانا نہ کھانا۔ 3-باریک کپڑا نہ پہننا۔ 4-حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو سزائیں دیتے۔
آپ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہسٹری ہے ۔ اوکے مجھے دکھائیں کوئی عمر جیسا کریکٹر آج یا 1000 سال پہلے تک کوئی ویسا دوسرا بنا؟ ہم لوگ 2012 میں جی رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں جو کچھ ہے ہمیں اس کی بات کرنی ہے ۔ کیا آپکو پتہ ہے سن 1900 میں دنیا کی آبادی صرف 900 ملین تھی اب 7 ارب ہو چکی ہے ؟ آپ 1400 سال پہلے کی اور ان زمانوں کی باتوں سے باہر نکلیں ۔ آج اپرن پر کھڑے ایک جہاز کو چلانے کے لیے پائلٹ چاہیے نا کہ ملا ۔ ایک مل کو چلانے کے لیے لیبر سے لے کر سی ای او چاہیے ملا نہیں آج ہمارے ملک کے ہزاروں ٹائیپ کے جہازوں میزائیلوں ٹینکوں اے پی سی شپس سب میرینز ہیلی کاپٹرز کو آپریٹ کرنے کے لیے ہزاروں انجئیئیرز اور ٹیکنیشنز کا پڑھا لکھا عملہ چاہیے نا کہ مدرسے کے مولوی ۔ آج ملک کے اندر ہر ہونے والے کام کے لیے سول انجئیرز چاہیے نا کہ مولوی ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی اور ہم کہاں پڑے ہیں چین میں تیس منزلہ عمارت 15 دن میں بنا دیتا ہے تو ہم یہ کام 60 سال میں نہیں کر پا رہے اور ہمارا اول و آخر مسئلہ یہی مذہب اور دین بچا ہے ۔ :atwitsend: اور ہم جیتے ہیں ہسٹری میں اس ملک کو ہر کام کے لیے پروفیشنل چاہیے پی ایچ ڈی چاہیے اور جس کام اسی کو ساجھے ۔ مذہب نماز روزہ حج وغیرہ جو دل کرے کریں کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے پر مذہب ہر کام میں ہاتھ نا ہی ڈالے تو بہتر ہے ۔ کیا مولوی ہماری 3 سٹاک مارکیٹس چلا لیں گے ؟ یا کامرہ میں جہاز بنانے اور اوور ہال کرنے کے ساتوں پلانٹ آپریٹ کر سکتے ہین؟ یا کے آر ایل نیسکام میں میزائیل بنا سکتے ہیں؟ کیا ٹیکسی وے پر کھڑے ایک جہاز کو لندن لے جا کر واپس لے آ سکتے ہیں؟ نہیں کیونکہ یہ ان کا کام نہیں ہے ۔ورنہ انجام افغانستان انڈر طالبان ہو گا جو ہم سب نے دیکھ لیا
 

شمشاد

لائبریرین
عمران تمہیں شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ پہلے مُلا کی تعریف ہو جائے کہ تم مُلا کس کو سمجھتے ہو؟
 

عسکری

معطل
عمران تمہیں شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ پہلے مُلا کی تعریف ہو جائے کہ تم مُلا کس کو سمجھتے ہو؟
ملائیت ہو یا ملٹری ایک ہی بات ہے جب پڑھے لکھے تجربے کا فوجی جنرل ملک چلائیں تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ تمھارا کام نہیں تم ملک کے دفاع کے لیے بنائے گئے ہو تو پھر مذہب اور مذہبی لوگوں کو کس لیے بنایا گیا ہے ؟ فارن پالیسی بنانے کے لیے؟ یا اکانومی پلان کرنے کے لیے؟
 

شمشاد

لائبریرین
عمران تم بات کو کبھی کسی طرف گھما رہے ہو اور کبھی کسی طرف۔

محمود بھائی نے صحیح بات کی ہے کہ بات دین کی ہو رہی ہے۔

ویسے تمہارے نزدیک مُلا کی جو تعریف ہے وہ میں کسی اور دھاگے میں سُننا پسند کروں گا۔
 

نیلم

محفلین
آپ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہسٹری ہے ۔ اوکے مجھے دکھائیں کوئی عمر جیسا کریکٹر آج یا 1000 سال پہلے تک کوئی ویسا دوسرا بنا؟ ہم لوگ 2012 میں جی رہے ہیں اور ہمارے ہاتھ میں جو کچھ ہے ہمیں اس کی بات کرنی ہے ۔ کیا آپکو پتہ ہے سن 1900 میں دنیا کی آبادی صرف 900 ملین تھی اب 7 ارب ہو چکی ہے ؟ آپ 1400 سال پہلے کی اور ان زمانوں کی باتوں سے باہر نکلیں ۔ آج اپرن پر کھڑے ایک جہاز کو چلانے کے لیے پائلٹ چاہیے نا کہ ملا ۔ ایک مل کو چلانے کے لیے لیبر سے لے کر سی ای او چاہیے ملا نہیں آج ہمارے ملک کے ہزاروں ٹائیپ کے جہازوں میزائیلوں ٹینکوں اے پی سی شپس سب میرینز ہیلی کاپٹرز کو آپریٹ کرنے کے لیے ہزاروں انجئیئیرز اور ٹیکنیشنز کا پڑھا لکھا عملہ چاہیے نا کہ مدرسے کے مولوی ۔ آج ملک کے اندر ہر ہونے والے کام کے لیے سول انجئیرز چاہیے نا کہ مولوی ۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی اور ہم کہاں پڑے ہیں چین میں تیس منزلہ عمارت 15 دن میں بنا دیتا ہے تو ہم یہ کام 60 سال میں نہیں کر پا رہے اور ہمارا اول و آخر مسئلہ یہی مذہب اور دین بچا ہے ۔ :atwitsend: اور ہم جیتے ہیں ہسٹری میں اس ملک کو ہر کام کے لیے پروفیشنل چاہیے پی ایچ ڈی چاہیے اور جس کام اسی کو ساجھے ۔ مذہب نماز روزہ حج وغیرہ جو دل کرے کریں کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے پر مذہب ہر کام میں ہاتھ نا ہی ڈالے تو بہتر ہے ۔ کیا مولوی ہماری 3 سٹاک مارکیٹس چلا لیں گے ؟ یا کامرہ میں جہاز بنانے اور اوور ہال کرنے کے ساتوں پلانٹ آپریٹ کر سکتے ہین؟ یا کے آر ایل نیسکام میں میزائیل بنا سکتے ہیں؟ کیا ٹیکسی وے پر کھڑے ایک جہاز کو لندن لے جا کر واپس لے آ سکتے ہیں؟ نہیں کیونکہ یہ ان کا کام نہیں ہے ۔ورنہ انجام افغانستان انڈر طالبان ہو گا جو ہم سب نے دیکھ لیا
عسکری بھائی آپ کی نظر میں مُلا ایک ان پڑھ جہل انسان ہےکیا؟آپ مُلاکسےکہتےہیں ،،صرف وہ جوافغانستان میں ہیں کیا؟
ڈاکٹر پائلٹ،،انجنیئرسب مُلاہوسکتےہیں،،آپ کودنیامیں بہت سے کامیاب انسان مل جائےگےجومُلاہیں(مُلا مطلب مذہب پہ چلنےوالا)۔۔
ہسٹری کوئی شرمندگی کاباعث نہیں ہوتی بلکہ ایک زاد راہ ہوتی ہے:)
 

ابیرٹ

محفلین
محترم عسکری صاحب!
کیا آپ اللہ کو مانتے ہیں؟ اس کے رسول کو مانتے ہیں؟ اس کی کتاب پر آپ کا ایمان ہے؟

ان سوالوں کا جواب دیں پھر میں آگے بات کرتا ہوں۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
میں عام طور پر جنگ و دجل کی مخالفت کی وجہ سے عسکری کی پوسٹس کے سخت خلاف رہتا ہوں لیکن یہاں 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ سیاست اور دین بالکل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کوئی ایک کامیاب اسلامی ریاست اس 21 ویں صدی میں نہ قائم ہوئی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ ایران اور سعودیہ جیسی اسلامی ریاستوں کا حال آپ سب کے سامنے ہے۔ ایک میں خواتین گاڑی نہیں چلا سکتیں، دوسرے میں اپنی پسند کی شادی نہیں کر سکتیں۔ ایک میں شیعوں پر مظالم ہیں تو دوسرے میں سنیوں اور بہائیوں پر۔ تمام اسلامی مملکتیں بین الاقوامی اسٹیٹس میں ناکام ریاستوں کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اور ظاہر ہے یہاں اسلامی مذہب کا کوئی قصور نہیں بلکہ ان ملاؤں کا ہے جو ملا کی دوڑ مسجد چھوڑ کر عوامی سیاست میں گھس گئے ہیں!
 

نایاب

لائبریرین
اس موضوع پر کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اگر لفظ" سیاست " کی معنوی تشریح کر لی جائے تو بہت بہتر ہوگا ۔
سیاست کسے کہتے ہیں ؟ سیاست کی مطلوبہ منزل کون سی ہوتی ہے ۔ ؟
بطور مسلم ہمیں اسلامی تاریخ میں سے " سیاست " کے بارے کیا تعلیم ملتی ہے ۔ ؟
تاریخ اسلام میں اگر سیاست اور سیاستدانوں کا ذکر ملے تو اس " سیاست " نے امت مسلمہ کو کیا فوائد حاصل ہوئے اور کیا نقصانات ۔؟
کیا " سیاست " اور " شورائیت " کو یکساں معنی میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ ؟
کیا ماضی کی اسلامی خلافتیں " سیاست " پر استوار تھیں ۔ ؟
ان سوالوں کے جواب ملنے پر یہ گتھی سلجھ سکے گی کہ " کیا دین و سیاست الگ الگ ہیں "
 
Top