کیا اللہ تعالٰی کے مبعوث کیئے ہوئے انبیاء کرام سے باالقصد خطاؤں کا صدور ممکن تھا؟؟؟

طالوت

محفلین
"دیسی دلائل" ، یہ کیا نئی چیز لائے ہو مارکیٹ میں جناب ؟ :raisedeyebrow: میرے قادری پادری پہ بہت شور شرابہ ہوا تھا اور جناب کا تو ویسے بھی ریکارڈ درست نہیں :drooling: ۔۔۔ خیر وہ مشاہدات والی بات مجھے بھی تنگ کر رہی ہے ، ذرا وقت ملے تو پہلے سارے مراسلے تفصیل سے پڑھتا ہوں ، اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اپنی ٹانگ اڑاؤں گا ، ورنہ کنی تو میں کترایا ہوا ہوں ;) تو ۔۔۔۔۔۔۔
مشتری ! ہوشیار باش !
وسلام
 

شمشاد

لائبریرین
اچھا، یعنی کہ اگر کوئی کافر جو قرآن پاک پر یا آنحضورؐ کو صرف اسلئے تسلیم نہ کر سکا کہ اسکی مذہب کی طرف توجہ نہ تھی۔ لیکن اسکے باوجود وہ ساری عمر دکھی انسانیت کی مدد کرتا رہا اور ہر ممکن طور پر حقوق العباد ادا کرتا رہا۔ یوں وہ کافر ان سب نیک اعمال کے بعد بھی دوزخی ہی ٹھہرے گا! اسکے برعکس ایک مسلمان جو ساری عمر عقائد امت مسلمہ پر ۱۰۰ فیصد قائم و دائم رہا لیکن نیک اعمال نہ کر سکا، موت کے بعد خدا کی رحمت کا حقدار بنے گا کیونکہ ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے! بہت خوب، بہت اچھی تعلیم ہے آپکے اسلام کی!

غیر مسلم کو اس کے اعمال کا صلہ دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالٰی کی وحدانیت کے انکار کی پاداش میں آخرت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں ہی رہیں گے۔

ایک مسلمان کو اس کے نیک و بد اعمال کا حساب دینا ہو گا اور اسی کے نتیجے میں دوزخ و جنت کا حقدار ٹھہرے گا۔ اللہ کی بے پایاں رحمت سے گناہگاروں کو مایوس نہ ہونا چاہیے۔ توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ سزا بھگتنے کے بعد اس کو معاف کر دیا جائے اور جنت کا حقدار ٹھہرایا جائے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
جواب: کیونکہ خود خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سی جگہوں پر فرمایا ہے کہ کائنات کی تسخیر کرو، اسمیں فہم والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عقائد کو ایک زمانے کیلئے محدود نہیں کیا بلکہ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کیلئے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ تو ہماری جہالت ہے کہ دنیا 21 ویں صدی میں‌قدم رکھ چکی ہے، جبکہ ہم مسلسل 700 عیسوی میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کی ذات کا ثبوت صرف وحی الہیٰ پر ایمان سے دینا کافی ہوتا، تو کوئی کافر ہرگز اسکو نہ مانتا جب تک کہ کوئی عمدہ دلیل نہ دی۔ خد ا کی ذات کی دلیل آنحضور ؐ نے وحی کیساتھ ساتھ قدرت الہیٰ کے مشاہدہ سے بھی فرمائی ہے۔
حجور آپ نے پھر ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیا :rolleyes: ہاں البتہ اس مرتبہ حجرت نے لفظ جواب کا اضافہ فرما کر اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ جواب ہوگیا اجی حجور اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو بات چلی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ اجی ہم نے کب کہا کہ قرآن پاک میں عقل والوں کہ لیے نشانیاں نہیں ہیں ہم تو فقط جناب سے اتنا پوچھنے کی غلطی کر بیٹھے کہ جناب کہ ہاں نقلی دلائل(جو کہ وحی الٰہی پر مشتمل ہیں ) سے بڑھ کر عقلی دلائل کو اولیت کیوں حاصل ہے اور اس فوقیت کی کیا دلیل ہے جناب کہ پاس ؟یعنی دوسرے لفظوں میں ہم یہ پوچھنا چاہ رہے کہ جناب کسی مسلمان گھر میں پیدا ہوئے اور جب عقل و شعور کو پہنچے تو کیا جناب نے پہلے اپنے پیدائشی مسلمان ہونے کا انکار فرمایا تھا ؟اور اپنے اجداد سے یہ فرمایا تھا کہ جب تک میں خود کائنات کا مشاہدہ نہ کرلوں تب تک اپنے باپ دادا کہ فرسودہ عقائد کو قبول نہیں کروں گا ؟ اب امید ہے کہ جناب میرا مدعا سمجھ گئے ہوں کہ ایک تو یہ فرمایئے کہ جناب کہ ہاں مشاہدہ اور معائنہ کو ‌وحی الٰہی (جو کہ نقلی تواتر سے ہم تک پہنچی ہے) پر ترجیح کیوں ہے ؟ یعنی وجہ ترجیح بیان کی جائے اور دوسرا جو جناب ہر جگہ عمل عمل کا راگ الاپ رہے تو اپنے عمل سے بھی واضح کریں کہ جناب نے اس باب میں کیا پہلے اپنے باپ دادا کا رد کیا یا نہیں ؟
اور یہ بھی خوب کہی کہ اسلام نے عقائد کو ایک زمانے تک محدود نہیں کیا ؟ بھلا اس بیان کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی حالانکہ یہ بات تو بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ عقائد تدریجی نہیں ہوتے ہمیشہ سے ایک ہی ہوتے ہیں اور قیامت تک وہی رہتے ہیں ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی اسی لیے اسلام میں عقائد حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک کہ لیے وہی ہیں جو کہ ہماری شریعت میں ہیں ۔ہاں البتہ شرائع میں تبدیلی واقع ہوتی رہی جو کہ فی زمانہ کہ حالات کہ مطابق تھی اور یہ تبدیلی بھی آنحضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر آکر ختم ہوگئی کہ آپ کی شریعت یونیورسل ہے ہر مسئلے کا ہر زمانے کہ حساب سے حل دیتی ہے ۔ ۔ ۔اب جناب نے جو عقائد کہ باب یہ ایک بھونڈی سی دلیل دے ماری ہے کہ جسکی اس بحث میں کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی کوئی تُک مگر جناب کی اس کارستانی سے عقدہ کھلا کہ جانب سے عقیدہ کی تعریف بھی پوچھ ہی لینی چاہیے تو کیا خیال ہے پھر؟ باقی رہ گئی اللہ پاکی ذات پر عقلی دلائل کی بات تو ہم نے کب انکار کیا عقلی دلائل سے ہم تو مانتے ہیں کہ قرآن پاک جابجا عقلی دلائل کی طرف بھی انسانیت کو متوجہ کرتا ہے اور ہم نے یہ عرض بھی کی تھی کہ ہمارے عقلی دلائل کی بھی اہمیت ہے مگر ضمن اولیت وحی الٰہی کو ہے جو کہ نقلی تواتر سے ثابت ہے اور نقلی تواتر کو جناب فرسودہ روایات سمجھتے ہیں ۔ ۔۔ لہزا ہمیں بتایا جائے کہ جناب کہ ہاں عقلی دلائل کی ترجیح کی کیا وجوہ ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟



ایمان اور اعمال کا تواتر کیساتھ آیات میں‌اکٹھے آنے سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ ایمان کو اعمال پر ترجیح ہے :confused: اگر آپکا نظریہ یہ ہے کہ کیونکہ ایمان کا لفظ پہلے اور اعمال کا بعد میں ، یوں ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے۔ تو اسکو رد کرنے کیلئے صرف ایک یہ دلیل کافی جو ہم مادی دنیا میں روزانہ دیکھتے ہیں:
فرض کریں ایک انجینیر، ڈاکٹر،ٹیکنیشن۱۵، ۲۰ سالوں کی انتھک پڑھائی کے بعد اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جب ہم کہہ سکیں کہ یہ اپنی فیلڈ میں‌مکمل ماہر ہو چکا ہے۔ لیکن اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد نہ تو اسکو اس فیلڈ میں کام ملے اور نہ ہی کوئی موقع دیا جائے تا وہ اپنے حاصل کردہ علم کو عملی جامہ پہنا سکے تو ُ آپ ہی بتائیں کیا ایسے علم کا اس شخص کو یا کسی اور کو کوئی فائدہ ہوگا؟
:
ماشاءاللہ سبحان اللہ یہ بھی خوب کہی یعنی ہم قرآن پاک سے ایمان کی اعمال پر فوقیت کی دلیل دیں اور آپ جناب عقلی ڈھکوسلوں سے اس کا رد کریں ۔ ۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ سارے قرآن میں جہاں بھی ایمان اور اعمال کا اکٹھے ذکر آیا ہے وہاں جو اللہ پاک نے ایمان کو تقدم بخشا ہے وہ آپ جناب کہ نزدیک ایمان کی اولیت کی دلیل نہیں ہے تو پھر ہمیں وہ دلیل بھی تو بتادیں ناں کہ جس کی وجہ سے جناب اعمال کو ایمان پر فوقیت دیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بالکل یہی حال اعتقادی ایمان اور اعمال کا ہے۔ ایمان کی ترغیب پہلے اسلئے کہ یہ (اسلام) وہ علم ہے جو انسانیت کی نجات کا واحد راستہ دکھلاتا ہے۔ اور انسان کو مکمل نجات تب حاصل ہوگی جب وہ اپنے حاصل کر دہ علم ’’اعتقادی ایمان‘‘ کو روز مرہ کی زندگی میں معمول کا حصہ بنائے۔ جب کہ آپ حضرت فرما رہے ہیں کہ صرف ایمان کا ہونا بہت کافی ہے اور اعمال کا نمبر دوسرا ہے! بھائی جب ایمان عملی زندگی میں کام ہی نہیں آرہا تو وہ کس قسم کا ایمان ہے
لیجیئے دروغ گو حافظہ نا باشد والی مثال ثابت ہوئی کہ یہاں آپ جناب نے خود ہی تسلیم کرلیا کہ ایمان کو اعمال پر اولیت حاصل ہے اگرچہ جناب نے اس اولیت کو ترغیبی باب میں تسلیم کیا اور ساتھ میں دلیل بھی ذکر کی جو کہ بجا طور پر بجا ہے کہ اللہ پاک نے ایمان کو اعمال پر ترجیح اس لیے دی کہ آگے جناب کہ الفاظ ۔ ۔(اسلام) وہ علم ہے جو انسانیت کی نجات کا واحد راستہ دکھلاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بریکٹ میں لفظ اسلام کی جگہ ایمان لکھنا چاہیے تھا ۔۔ ۔ ۔ اب ہم جناب سے پوچھتے ہیں کہ جب جناب کو بھی یہ تسلیم ہے کہ ایمان ہی اصل میں وہ علم ہے جو کہ انسانیت کو نجات کی راہ دکھلاتا ہے تو پھر جناب یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ انسان جو بھی کام کرئے پہلے اسے اسکا علم ہونا ضروری ہے لہزا پہلے ایمان ۔۔۔۔۔۔۔ کہ علم اس کا ایک ادنٰی درجہ ہے پھر عمل ۔ ۔ ۔ ۔کیوں کیا خیال ہے جناب کا؟؟ آگے جناب کی جو تقریر ہے وہ ہمارے موضوع سے متعلق نہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اعمال کی اہمیت کا انکاری نہیں سب مسلمان جانتے ہیں کامل نجات اول محض اللہ کہ فضل اور پھر ایمان اور اعمال کہ مجموعے سے ہی ہوگی ۔ ۔۔ لیکن یہاں مسئلہ کامل نجات کا نہیں بلکہ ایمان کی اعمال پر فوقیت کا زیر بحث تھا ۔ ۔ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اچھا، یعنی کہ اگر کوئی کافر جو قرآن پاک پر یا آنحضورؐ کو صرف اسلئے تسلیم نہ کر سکا کہ اسکی مذہب کی طرف توجہ نہ تھی۔ لیکن اسکے باوجود وہ ساری عمر دکھی انسانیت کی مدد کرتا رہا اور ہر ممکن طور پر حقوق العباد ادا کرتا رہا۔ یوں وہ کافر ان سب نیک اعمال کے بعد بھی دوزخی ہی ٹھہرے گا! اسکے برعکس ایک مسلمان جو ساری عمر عقائد امت مسلمہ پر ۱۰۰ فیصد قائم و دائم رہا لیکن نیک اعمال نہ کر سکا، موت کے بعد خدا کی رحمت کا حقدار بنے گا کیونکہ ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے! بہت خوب، بہت اچھی تعلیم ہے آپکے اسلام کی!
پھر قرآن کہ مقابلے میں عقلی ڈھکوسلے ۔ ۔ ۔ باذوق بھائی نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا بس ان سے یہی غلطی ہوگئی آپ ہی کی پیش کردہ سورہ التغابن کی آیت:10 کی طرف آپکی توجہ ،مبذول کروابیٹھے پڑھ لیں ہمت کر کے ۔۔۔۔جس میں آپ ہی کے مہیا کردہ ترجمہ کہ مطابق یہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ۔ ۔۔
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں (جو) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔
اب آپ نے جو بہت اچھی تعلیم کا عقلی فتوٰی صادر کیا ہے ناں اس کی زد میں براہ راست قرآن آرہا ہے ۔ ۔ فاعتبروا ۔ ۔۔
 

arifkarim

معطل
جناب کہ ہاں عقلی دلائل کی ترجیح کی کیا وجوہ ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اسلام دین فطرت ہے۔ یعنی ایسا دین جسکو انسانی عقل و فہم فطری طور پر قبول کرے۔ خواہ وہ انسان کسی بھی ملک، نسل و رنگ کا باشندہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے اسلام کی حقانیت پر مناظرہ کرنے سے منع نہیں فرمایا کہ جو اسلامی تعلیم کو 100 فیصد سچ مان لے وہ جنتی۔ باقی دوزخی ، بلکہ اسلامی تعلیمات پر نکتہ چینی کرنا ہر مسلمان کا اول و آخر حق ہے۔ اسکے بغیر یہ ہرگز دین فطرت نہیں کہلا سکتا۔ اسلام ہر چیز کیلئے ایک دلیل دیتا ہے۔ اور اگرکوئی شخص اس دلیل سے راضی نہ ہو تو "دین میں کوئی جبر" نہیں والی آیت پر عمل ہوگا۔
میں عقلی دلائل کو ترجیح اسلئے دیتا ہوں کہ اسلامی عقائد کی وہ چیزیں جنکو انسانی فہم و عقل تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ انسے متعلق بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ بہت سی باتیں متضاد ہوتی ہیں اور موقع اور مناسبت کے مطابق صادرہوتی ہیں۔ جبکہ ہم قرآن کو بس لکیر کی فقیری کی طرح پڑتے اور سمجھتے ہیں۔

تو پھر ہمیں وہ دلیل بھی تو بتادیں ناں کہ جس کی وجہ سے جناب اعمال کو ایمان پر فوقیت دیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میں اعمال کو ایمان پر یا ایمان کو اعمال پر فوقیت نہیں دیتا! میرے نزدیک دونوں کی ایک جتنی اہمیت ہے۔ ایمان = نیک اعمال
اگر کسی کے پاس ان میں سے صرف ایک ہو تو وہ ناکافی ہے، سچا مسلمان کہلانے کیلئے۔

لیجیئے دروغ گو حافظہ نا باشد والی مثال ثابت ہوئی کہ یہاں آپ جناب نے خود ہی تسلیم کرلیا کہ ایمان کو اعمال پر اولیت حاصل ہے۔

جی نہیں۔ میں نے تو یہ بالکل بھی تسلیم نہیں کیا کہ ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے۔ پوری پوسٹ پڑھ کر جواب پوسٹ کیا کریں۔
میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ اسلامی تعلیمات راہ نجات ہیں۔اور آگے صاف لکھا تھا کہ جب تک ان تعلیمات میں نیک اعمال کی ملونی شامل نہ ہو، اسوقت تک یہ اسلام راہ نجات نہیں بن سکتا۔ یوں آپ کس طرح میری بات کو ہیر پھیر کر اپنا مؤقف ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں اعمال کو ایمان پر یا ایمان کو اعمال پر فوقیت نہیں دیتا! میرے نزدیک دونوں کی ایک جتنی اہمیت ہے۔ ایمان = نیک اعمال
اگر کسی کے پاس ان میں سے صرف ایک ہو تو وہ ناکافی ہے، سچا مسلمان کہلانے کیلئے۔

لیجیئے مبارک ہو سب کو کہ حضرت صاحب کی طرف سے ایک اور تنزل واقع ہوا بصورت رجوع ۔ ۔ ۔ یہاں فرماتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اعمال کو ایمان پر یا ایمان کو اعمال پر فوقیت نہیں دیتا! میرے نزدیک دونوں کی ایک جتنی اہمیت ہے۔ ایمان = نیک اعمال
جبکہ اس سے پہلے اپنی ایک سابقہ رپلائی میں جو کہ صحفہ نمبر 5 رپلائی نمبر47 ہے میں حجرت یوں گویا ہوئے تھے ۔ ۔ ۔کہ ۔ ۔
جی نہیں، مجھے حق آپ سب کی طرح صدیوں پرانی کتابوں کی تقلید کرکے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زندگی میں مشاہدہ معائنہ کے بعد نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عقائد سے زیادہ اعمال پر ترجیح دیتا ہوں، اور اعمال میں بھی حقوق العبا د پہلے، حقوق اللہ بعد میں!
:applause::applause::applause:
اب کہیں یہ نہ فرما دینا کہ عقائد ایمان سے ہٹ کر کسی الگ شئے کا نام ہیں ورنہ مجھے ہنسی کا دورہ بھی پڑھ سکتا اور اسکی ساری زمہ داری جناب پر عائد ہوگی ;) باقی یہاں سچا مسلمان ، پکا مسلمان اور کچا مسلمان کی کوئی بحث ہی نہیں تھی جو جناب نے یہ توجیہ پیش کی ۔ ۔ ۔

جی نہیں۔ میں نے تو یہ بالکل بھی تسلیم نہیں کیا کہ ایمان کو اعمال پر فوقیت حاصل ہے۔ پوری پوسٹ پڑھ کر جواب پوسٹ کیا کریں۔
میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ اسلامی تعلیمات راہ نجات ہیں۔اور آگے صاف لکھا تھا کہ جب تک ان تعلیمات میں نیک اعمال کی ملونی شامل نہ ہو، اسوقت تک یہ اسلام راہ نجات نہیں بن سکتا۔ یوں آپ کس طرح میری بات کو ہیر پھیر کر اپنا مؤقف ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
دیکھیں اب ایسا نہ کہیں کہ آپ نے بالکل بھی تسلیم نہیں کیا :grin: چلیں بالکل نہ سہی ہلکا سا یعنی تھوڑا سا تو تسلیم کر ہی لیا ناں ۔ ۔ ۔ ۔ :grin: کہ آپ کہ نزدیک اللہ پاک نے ایمان کو تقدیم بطور ترغیب اس لیے بخشی کہ اسلام کہ علم پر نجات کا مدار ہے :rolleyes:
 

arifkarim

معطل
:اب کہیں یہ نہ فرما دینا کہ عقائد ایمان سے ہٹ کر کسی الگ شئے کا نام ہیں ورنہ مجھے ہنسی کا دورہ بھی پڑھ سکتا اور اسکی ساری زمہ داری جناب پر عائد ہوگی ;) باقی یہاں سچا مسلمان ، پکا مسلمان اور کچا مسلمان کی کوئی بحث ہی نہیں تھی جو جناب نے یہ توجیہ پیش کی ۔ ۔ ۔
ہنسیے، اسوقت میں بھی آپکی لگی پٹی باتوں پر ہنس رہا ہوں۔ :grin: میرے نزدیک عقائد اور ایمان میں فرق ہے۔ ایمان تو بنیادی ہے اور ۶ ہیں:
۱۔ اللہ پر
۲۔اسکے فرشتوں پر
۳۔ اسکے نبیوں پر
۴۔ اسکی کتابوں پر
۵۔ روز قیامت پر
۶۔خیر و شر کی تقدیر پر
یہ ارکان ایمان تقریبا تمام مسلمان فرقوں میں یکساں ہیں۔ اسکے بعد کی تعلیمات عقائد کہلاتی ہیں جو ان سب نے خود سے یا اختلافات کے باعث گھڑی ہوئی ہیں۔ جب آپ عقائد اور ایمان میں فرق ہی نہیں کر پا رہے تو میری پوسٹ پر ہنسی ہی آئے گی نا!
 

آبی ٹوکول

محفلین
ہنسیے، اسوقت میں بھی آپکی لگی پٹی باتوں پر ہنس رہا ہوں۔ :grin: میرے نزدیک عقائد اور ایمان میں فرق ہے۔ ایمان تو بنیادی ہے اور ۶ ہیں:
۱۔ اللہ پر
۲۔اسکے فرشتوں پر
۳۔ اسکے نبیوں پر
۴۔ اسکی کتابوں پر
۵۔ روز قیامت پر
۶۔خیر و شر کی تقدیر پر
یہ ارکان ایمان تقریبا تمام مسلمان فرقوں میں یکساں ہیں۔ اسکے بعد کی تعلیمات عقائد کہلاتی ہیں جو ان سب نے خود سے یا اختلافات کے باعث گھڑی ہوئی ہیں۔ جب آپ عقائد اور ایمان میں فرق ہی نہیں کر پا رہے تو میری پوسٹ پر ہنسی ہی آئے گی نا!
لوگو حجرت کا ایک اور تنزل ملاحظہ ہو جن لگی لپٹی باتوں سے حجرت کو چڑ تھی اب انھی لگی لپٹی باتوں کو بطور حوالہ پیش فرمانے لگے ۔ اب حجرت سے کوئی پوچھے کہ جن چیزوں کو حجرت نے ارکان ایمان بتلایا ہے مسلمانوں کہ تمام مکاتب فکر کہ حوالے سے یہ تو وہی چیزیں ہیں جنھے حجرت صاحب فرسودہ روایات قرار دیتے ہوئے اپنی سابقہ رپلائی نمبر 47صفحہ نمر 5 پر یہ کہہ کر ٹھکراتے ہیں کہ ۔ ۔۔
جی نہیں، مجھے حق آپ سب کی طرح صدیوں پرانی کتابوں کی تقلید کرکے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زندگی میں مشاہدہ معائنہ کے بعد نظر آتا ہے۔
یعنی یہ تمام چیزیں ائمہ و محدثین نے ایمان اور ایمانیات کو قرآن و حدیث سے اخذ کر کے اس کی تعلیم کو آسان اور سادہ طریقے سے سمجھانے کے لئے اپنی اپنی ان کتابوں میں جمع کی ہیں کہ جن کی تقلید حجرت صاحب کہ نزدیک حق کی راہ میں مانع ہے ۔باقی رہ گیا ایمان اور عقیدہ کا فرق تو لغوی اعتبار سےا گرچہ ان میں فرق ہے لیکن اصطلاحی طور پر یہ دونوں ایک ہی معنٰی میں استعمال ہوتے ہیں اور اگر حجرت کو نہیں تسلیم تو پھر ذرا ایمان اور عقیدہ کی الگ الگ تعریف تو فرمایئے مگر یاد رہے صدیوں پرانے علماء کی تقلید کرتے ہوئے نہیں بلکہ اپنےا س شاندار سورس یعنی مشاہدہ اور معائنہ کو استعمال کرتے ہوئے بتلائیے گا ۔ ۔ ۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
کیلئے "نیک اعمال کی ترغیب" دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیا عیسائیوں کی طرح صرف "درست" ایمان کا ہونا کافی نہ ہوتا؟

ایک کافر جو روز حشر پر یقین ہی نہیں رکھتا، لیکن نیک اعمال متواتر کرتا ہے۔ اسکے ساتھ روز محشر میں نیک اعمال تو ہوں گے لیکن "اسلامی" ایمان نہیں، جبکہ مسلمانوں کیساتھ صرف اعتقادی ایمان ہوگا، نیک اعمال نہیں۔ یعنی دونوں کا معاملہ 50/50
حجور نے تو یہاں ایک کافر جو کہ ساری زندگی نیک اعمال کرتا رہا اور ایک گناھ گار مومن کہ بروز حشر معاملے کو ففٹی ففٹی قرار دے دیا اور وہ بھی محض اپنے عقلی ڈھکوسلے کی بنیاد پر کوئی قرآنی دلیل نہیں پیش کی مگر آئیے ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس باب میں کیا کہتا ہے ۔۔۔ ۔ ملاحظہ سورہ النحل آیت نمبر 97 ۔ ۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
97. جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھےo
آپ نے دیکھا قارئین کرام اس آیت میں نیک اعمال پر اخروی اجر کو ایمان کہ ساتھ مشروط کردیا گیا یعنی اس آیت میں مومن ہونے ہونے کو بطور شرط بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لیے اس کا ذکر عمل صالح سے علیحدہ طور پر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ٹھرا کہ اگر کوئی مومن ہو مگر عمل صالح نہ بھی کرئے تو وہ مومن ہی قرار دیا جائے گا ۔جس طرح کتاب و سنت کہ دیگر نصوص میں ایک گناھگار مومن شخص پر مومن ہی کا اطلاق کیا جاتا مگر بطور فاسق یا فاجر ۔ ۔ ۔ لہزا اگر اعمال کو ایمان کا لازمی حصہ یا جز قرار دیا جائے تو لازما اس سے مراد نیک اعمال ہی ہونگے کیونکہ برے اعمال تو ایمان کا حصہ نہیں بن سکتے اور اگر نیک اعمال کو ایمان کا لازمی حصہ قرار دے دیا جائے تو پھر کسی بھی گناہ گار شخص پر مومن کا اطلاق کرنا درست نہ ہوگا اور یہ بات بدیہی طور پر بھی غلط ہے
 

arifkarim

معطل
اگر حجرت کو نہیں تسلیم تو پھر ذرا ایمان اور عقیدہ کی الگ الگ تعریف تو فرمایئے مگر یاد رہے صدیوں پرانے علماء کی تقلید کرتے ہوئے نہیں بلکہ اپنےا س شاندار سورس یعنی مشاہدہ اور معائنہ کو استعمال کرتے ہوئے بتلائیے گا ۔ ۔ ۔

حضور! ارکان اسلام والی مثال صرف عقائد اور ایمان میں فرق بتلانے کیلئے دی تھی۔ ایمان کسی بھی مذہب یا دین کا ٹھوس تنا ہوتا ہے۔ جسکی شاخوں کو آپ عقائد کہہ سکتے ہیں۔ ایمان وہی ہے جو تعلیم ہمیں رسول کریم ؐ اپنے اسوۂ حسنہ سےعطا کر گئے۔ جبکہ عقائد وہ ہیں جو بعد میں آنے والے متفکرین و مشائخ نے اسلامی تعلیمات کو اپنی سمجھ و فہم کے مطابق قلم بند کیا۔ یہی عقائد بعد میں فرقہ واریت کی بنیاد بنے۔ حالانکہ ایمان اسلام کی ابتدا کے وقت ’’ایک‘‘ تھا!
 

arifkarim

معطل
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَo
97. جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھےo
آپ نے دیکھا قارئین کرام اس آیت میں نیک اعمال پر اخروی اجر کو ایمان کہ ساتھ مشروط کردیا گیا یعنی اس آیت میں مومن ہونے ہونے کو بطور شرط بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لیے اس کا ذکر عمل صالح سے علیحدہ طور پر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ٹھرا کہ اگر کوئی مومن ہو مگر عمل صالح نہ بھی کرئے تو وہ مومن ہی قرار دیا جائے گا ۔[/color]

اس آیت میں صاف لکھا ہے کہ جو کوئی نیک اعمال کرے خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو۔ یعنی مومن کی تعریف بیان کردی کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ایمان دار ہونے کیساتھ ساتھ نیک اعمال بھی کرے۔ اسی مومن کو پاکیزہ زندگی کی بشارت ہے۔
جبکہ آپ یہاں آیت کا الٹا مطلب لے رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جو بدکار بھی ہو لیکن اسلام پر اعتقادی ایمان رکھتا ہو تو وہ مومن ہی کہلائے گا! یہ مطلب میرے نزدیک غلط ہے!
 

آبی ٹوکول

محفلین
حضور! ارکان اسلام والی مثال صرف عقائد اور ایمان میں فرق بتلانے کیلئے دی تھی۔ ایمان کسی بھی مذہب یا دین کا ٹھوس تنا ہوتا ہے۔ جسکی شاخوں کو آپ عقائد کہہ سکتے ہیں۔ ایمان وہی ہے جو تعلیم ہمیں رسول کریم ؐ اپنے اسوۂ حسنہ سےعطا کر گئے۔ جبکہ عقائد وہ ہیں جو بعد میں آنے والے متفکرین و مشائخ نے اسلامی تعلیمات کو اپنی سمجھ و فہم کے مطابق قلم بند کیا۔ یہی عقائد بعد میں فرقہ واریت کی بنیاد بنے۔ حالانکہ ایمان اسلام کی ابتدا کے وقت ’’ایک‘‘ تھا!
تو حجور یہی تو عرض ہے کہ کیوں دی تھی ان کتابوں سے مثال کہ جن کتابوں کو آپ خود فرسودہ روایات کی کتبایں اور ان کی تقلید کو حق کی راہ میں رکاوٹ قرار دےچکے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ پھر آپ کو ایسی کیا مجبوری پیش آگئی کہ آپ نے اپنا من پسند طریقہ کار (مشاہد اور معائنہ) چھوڑ کر پھر انہی فرسودہ روایات کی کتب کی طرف رجوع کیا؟؟؟؟؟؟
عقائد اور ایمان میں فرق ہے۔ ایمان تو بنیادی ہے اور ۶ ہیں:
۱۔ اللہ پر
۲۔اسکے فرشتوں پر
۳۔ اسکے نبیوں پر
۴۔ اسکی کتابوں پر
۵۔ روز قیامت پر
۶۔خیر و شر کی تقدیر پر
باقی جس طرح سے آپ نے فرق بیان کیا فرمایا ہے ایمان اور عقائد کا اس پر تو قربان جانے کو جی چاہتا ہے
یعنی موصوف کہ نزدیک اللہ پر اسکے فرشتوں پر اسکے نبیوں پر اور اسکی کتابوں پر اور دیگر پر ایمان لانا فقط ایمان ہے مگر جناب کا عقیدہ نہیں ہے یہ تو پھر جناب کا عقیدہ کیا ہے ؟
اور پھر ابھی تک جناب نے ہمارے بہت سے سوالوں کی طرح عقیدہ اور ایمان کی تعریف بھی نہیں بیان کی ؟؟؟؟؟'
 

آبی ٹوکول

محفلین
اس آیت میں صاف لکھا ہے کہ جو کوئی نیک اعمال کرے خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ وہ مومن ہو۔ یعنی مومن کی تعریف بیان کردی کہ حقیقی مومن وہی ہے جو ایمان دار ہونے کیساتھ ساتھ نیک اعمال بھی کرے۔ اسی مومن کو پاکیزہ زندگی کی بشارت ہے۔
جبکہ آپ یہاں آیت کا الٹا مطلب لے رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جو بدکار بھی ہو لیکن اسلام پر اعتقادی ایمان رکھتا ہو تو وہ مومن ہی کہلائے گا! یہ مطلب میرے نزدیک غلط ہے!
حجور ایک بار پھر آپکی فھم و فراست اور سمجھ بوجھ کہ بے اختیار قربان جانے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ حجور یہ قرآن پاک ہے کہ بڑے بڑے افصح العرب اس کے فصاحت و بلاغت کہ سامنے گُنگ ہوکر رہ گئے تھے یہ کوئی حجرت کریم صاھب کی کرامت نہیں کہ اس کا جو بھی مطلب نکل آئے ۔ ۔ ۔ ۔ آیت پاک میں ہے کہ
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى
یعنی مردوں اور عورتوں میں سے جو بھی نیک عمل کرے اس کہ بعد فرمایا
وَهُوَ مُؤْمِنٌ
اور وہ مومن ہو ۔یعنی وھو مومن کو بطور شرط ذکر کیا اور اعمال صالح کہ ساتھ مومن ہونے کی قید لگائی اور پھر آگے جاکر اس شرط کی جزا یون بیان فرمائی کہ
فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَO 97.
ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔
اب اگر حجور کا نقطہ نظر مانا جائے تو پھر آیت یوں ہونا چاہیے تھی کہ ۔ ۔۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى ۔ ۔ ۔فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَo یعنی جو کوئی بھی نیک اعمال کرے مردوں یا عورتوں میں سے تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے
یعنی آیت میں سے وھو مومن کی قید کو ہٹا دینا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔
یعنی بقول آپکے جب عمل صالح آگیا تو ایمان اس میں آٹو میٹکلی آگیا پھر اللہ پاک کو علیحدہ سے ایمان کہ ذکر کی کیا ضرورت تھی کیا اللہ پاک کا کلام عبث ہے کہ ضرورت کہ علاوہ بھی اس میں کچھ اضافی کلام پایا جاتا ہے نعوذ باللہ من ذالک ۔ ۔ ۔ ۔
یعنی اگر آپ جناب کہ نظریہ کو مانا جائے تو پھر نیک اعمال کہ بعد علیحدہ سے ایمان کہ ذکر کی کوئی ضرورت نہ تھی اللہ پاک کو مگر اللہ پاک نے وہاں علیحدہ سے ایمان کا ذکر کیا ۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

arifkarim

معطل
تو حجور یہی تو عرض ہے کہ کیوں دی تھی ان کتابوں سے مثال کہ جن کتابوں کو آپ خود فرسودہ روایات کی کتبایں اور ان کی تقلید کو حق کی راہ میں رکاوٹ قرار دےچکے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ پھر آپ کو ایسی کیا مجبوری پیش آگئی کہ آپ نے اپنا من پسند طریقہ کار (مشاہد اور معائنہ) چھوڑ کر پھر انہی فرسودہ روایات کی کتب کی طرف رجوع کیا؟؟؟؟؟؟
جناب میں نے کسی کتاب کی کوئی روایت بیان نہیں کی۔ صرف وہ ارکان ایمان بیان کیے تھے جو کہ آنحضور ؐ کے دور میں بھی رائج تھے۔ جن پر ہر مسلمان ایمان رکھتا ہے۔

یعنی موصوف کہ نزدیک اللہ پر اسکے فرشتوں پر اسکے نبیوں پر اور اسکی کتابوں پر اور دیگر پر ایمان لانا فقط ایمان ہے مگر جناب کا عقیدہ نہیں ہے یہ تو پھر جناب کا عقیدہ کیا ہے ؟
اور پھر ابھی تک جناب نے ہمارے بہت سے سوالوں کی طرح عقیدہ اور ایمان کی تعریف بھی نہیں بیان کی ؟؟؟؟؟'

میرا عقیدہ صرف اسلام ہے۔ نہ سنی نہ شیعہ نہ کوئی اور فرقہ! عقیدہ اور ایمان میں بنیادی فرق اوپر بیان کر چکا ہوں!
 

arifkarim

معطل
یعنی بقول آپکے جب عمل صالح آگیا تو ایمان اس میں آٹو میٹکلی آگیا پھر اللہ پاک کو علیحدہ سے ایمان کہ ذکر کی کیا ضرورت تھی کیا اللہ پاک کا کلام عبث ہے کہ ضرورت کہ علاوہ بھی اس میں کچھ اضافی کلام پایا جاتا ہے نعوذ باللہ من ذالک ۔ ۔ ۔ ۔
یعنی اگر آپ جناب کہ نظریہ کو مانا جائے تو پھر نیک اعمال کہ بعد علیحدہ سے ایمان کہ ذکر کی کوئی ضرورت نہ تھی اللہ پاک کو مگر اللہ پاک نے وہاں علیحدہ سے ایمان کا ذکر کیا ۔۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کیوں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جی بالکل، ظاہر سی بات ہے کہ نیک اعمال تواتر سے کرنے کے بعد خدا تعالیٰ ایک کافر کو ایمان کی روشنی دکھاتا ہے جبکہ ایک مومن کے ایمان کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ آپنے یقینا اس کافر کا قصہ سنا ہوگا جو بغیر کسی غرض کے محض ہمدردی کے باعث روزانہ چڑیوں کو دانا دنکا ڈالتا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اسکو اسکے فعل کے عوض مسلمان ہونے کی توفیق دی۔ اگر وہ یہ نیک عمل نہ کرتا تو یقینا ساری زندگی کافر ہی رہتا اور اندھیروں میں مرتا!
میں کسی طور پر قرآنی آیات کی نفی نہیں کر رہا۔ بلکہ آپ پیش کردہ حرف با حرف تراجم کی نفی کرتا ہوں جو کہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
جناب میں نے کسی کتاب کی کوئی روایت بیان نہیں کی۔ صرف وہ ارکان ایمان بیان کیے تھے جو کہ آنحضور ؐ کے دور میں بھی رائج تھے۔ جن پر ہر مسلمان ایمان رکھتا ہے۔
!
تو حجرت وہی تو پوچھ رہا ہوں کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ یہ ارکان ایمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ دور میں رائج تھے کیا آپ نے خود اس دور کا مشاہدہ اور معائنہ فرمایا ہے یا کہیں سے پڑھا سنا ہے ؟ باقی اب اس کا کای کریں کہ آپ ہر بار بہت سے سوالات کہ جواب گول کرجاتے ہیں؟
 
مجھے عارف کریم صاحب کی پوسٹس میں بہت سی باتوں سے اختلاف ہے ۔ کچھ سے سرسری اور کچھ سے بنیادی مگر دوسری طرف دوسری آراء کو ماننے والے افراد سے بھی گذارش ہے کہ عارف کریم صاحب سے بدظن ہونے میں جلد بازی کی بجائے اتمام حجت کو ہی سہی انکی باتوں کو انکے نقطہ نظر سے دیکھیں جانچیں اور پھر انکی رائے اس موضوع پر وضاحت سے پوچھیں اور پھر انکے متعلق کوئی رائے قائم کریں ۔ جلد بازی میٰں ایک ساتھی پر شک اچھا نہیں ہوتا
 

ابن جمال

محفلین
میری تمام ارکان محفل سے جو اس بحث میں‌حصہ لے رہے ہیں اورخصوصی طورپر ابن حسن صاحب سے گزارش ہے کہ علم کلام میں انبیائ کی عصمت کے بارے میں کیاکہاگیاہے اورمتکلمین نے اس بارے میں کیاعرض کیاہے اوران کے درمیان اس سلسلے میں کیااختلافات ہیں۔ ذرا دلائل کے ساتھ واضح کریں۔ اسے سے بہت سے لوگوں کی جو عصمت انبیائ پر ایک حرف پڑھے ہوئے نہیں ہیں بس صرف بھڑکنا جانتے ہیں ان کی کم علمی کا پول کھل جائے گا۔والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
میں دوسروں کی طرح بھڑکا تو ضرور ہوں ۔ مگر ۔۔۔ خیر ۔۔۔۔انتہائی تحمل کے ساتھ تم سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ انبیاء کرام کی کسی بھی غلطی کی طرف نشان دہی کردو ۔ ابھی کچھ کہنا نہیں چاہتا مگر پھر بھی مختصراً کہتا چلوں کہ انبیاء کرام ہمارے اور تمہارے ووٹوں سے چُنے نہیں‌جاتے ۔ اللہ تعالی ان کو بہت آزمائش اور امتحان کے بعد نبوت کے عہدے پر فائز کرتا ہے ۔ ہاں میرا سوال نہیں بھولنا ۔۔۔۔ :shameonyou:

انبیاء کرام بےشک گناہوں سے پاک ہیں ہاں البتہ غلطیاں ان سے اگر ہوئی ہیں تو اس میں اللہ کی طرف سے کچھ مصلحت ہوتی ہے۔
ثبوت کے طور پر آدم علیہ السلام کی دعا (ربنا ظلمنا انفسناوالم تغفرلنا لنکوننا من الظلمین( کی تفسیر ملاحظہ کیجئے
 
Top