کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں؟

کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں؟

  • ہاں

    Votes: 2 9.1%
  • نہیں

    Votes: 8 36.4%
  • کبھی کبھی

    Votes: 12 54.5%

  • Total voters
    22

محمداحمد

لائبریرین
آج ایک شخص کو دیکھا جو پہلے درزی کا کام کرتا تھا کسی وجہ سے اُس کی آنکھیں چلی گئی جوان تھا گھر والوں نے بھی برداشت نہ کیا اور اُسے باہر نکال دیا آج دیکھتا ہوں اُسے تو کبھی کہیں اگر بتی بیچ رہا ہوتا ہے تو کہیں بھیک مانگ رہا ہوتا ہے پر لوگ جوان ہونے کی وجہ سے اُسے بھیک بھی نہیں دیتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ اندھے ہونے کا ڈرامہ کر رہا ہے ۔

جو لوگ اُسے ذاتی طور پر اُسے جانتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ اُس کی مدد کریں۔ کیونکہ پیشہ ور بھکاریوں نے آج کل ہر سوالی کا اعتبار اُٹھا دیا ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آج ایک شخص کو دیکھا جو پہلے درزی کا کام کرتا تھا کسی وجہ سے اُس کی آنکھیں چلی گئی جوان تھا گھر والوں نے بھی برداشت نہ کیا اور اُسے باہر نکال دیا آج دیکھتا ہوں اُسے تو کبھی کہیں اگر بتی بیچ رہا ہوتا ہے تو کہیں بھیک مانگ رہا ہوتا ہے

گھر والوں کا سب سے پہلا یہ فرض تھا کہ اُس کے برے وقت پر اُس کے کام آتے۔ اتنا زیادہ غرض کا بندہ ہونا بالکل بھی اچھا نہیں ہوتا۔
 

جاسمن

لائبریرین
آج ایک جاننے والے نے سڑک کنارے مختلف پکے گھر دکھائے کہ یہ فقیروں کے ہیں اور ان میں سے چند فقیروں نے ان سے تین ایکڑ زرعی زمین پینتالیس لاکھ کی خریدی اور ایک گھنٹے میں رقم ادا کر دی۔
 
آج ایک جاننے والے نے سڑک کنارے مختلف پکے گھر دکھائے کہ یہ فقیروں کے ہیں اور ان میں سے چند فقیروں نے ان سے تین ایکڑ زرعی زمین پینتالیس لاکھ کی خریدی اور ایک گھنٹے میں رقم ادا کر دی۔
ہمیں بھی چاھئیے کہ دیکھ بھال کر دیں مستحق لوگ محروم نا رہیں ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
مانگنے والے کو دے ہی دینا چاہئے۔ معلوم نہیں کسی کے کیا حالات ہوں۔ ہاں البتہ کسی سے مانگتے ہوئے ہزار بار سوچنا چاہیے۔
؎ جو رہی خودی تو شاہی
نہ رہی تو روسیاہی
 

جاسمن

لائبریرین
فرض کریں کہ میں نے اپنی زکوات پچیس ہزار روپے نکالنی ہے۔ راستے میں چوک پہ پیشہ ور فقیروں نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور میری جیب سے کافی کچھ نکل گیا۔ رمضان کے دن ہیں اور ایسے فقیروں کی بھرمار ہے۔ گلی میں خاتون نے بیوہ ہونے کا کہہ کے کچھ پیسے لے لیے۔ گھر آتے آتے سب پیسے ختم۔
یہ سب وہ تھے جو پیشہ ور تھے۔ جو پیشہ ور نہیں تھے، انھوں نے تو مانگا ہی نہیں۔ پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی حدیث کے مطابق انھیں بس ان کے چہروں سے پہچانا جا سکتا ہے۔ وہ پکڑ پکڑ کے نہیں مانگتے۔ جھوٹ نہیں بولتے۔ ڈرامے نہیں کرتے۔
لوگ بہت بہت بہت پریشان ہیں۔ ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس دو نوجوان ایسے ہیں جنھیں ہم جامعہ میں پڑھا رہے ہیں۔۔ یہ مستقل ہیں۔ جبکہ وقتاً فوقتاً کچھ دوسرے طلباء کی مدد بھی ہوتی ہے۔ کتنی بیوائیں ایسی ہیں اپنے بچوں کے ساتھ کہ ان کا کوئی نہیں کمانے والا۔ اتنی بے کسی اور بے بسی ہے۔۔۔ جبکہ ان کے بچوں میں سے کوئی بیمار بھی ہو۔ اس مزدور کے بچے کی آنکھیں چوٹ لگنے سے بینائی جانے کا خطرہ۔۔ چھے سال کا ہے بس۔ بہن پرائیویٹ سکول میں چھے ہزار کماتی ہے۔ ہم نے اسے وکٹوریہ اور نشتر سے چیک کرایا ہے۔ پہلے بیچارے خود ہی کچھ کرتے رہے اور وقت ضائع ہو گیا اور ہماری زکواتیں پیشہ وروں پہ لگتی رہیں۔
وہ سید گھرانہ جو کسی سے نہیں کچھ کہتے۔ سفید پوش۔ تین بچیوں کا ساتھ۔ ماں باپ دونوں بے حد بیمار۔ اور ہم رسول کے امتی۔ درود پڑھتے آنکھوں کو چومتے۔ عقیدت سے سرشاری کبھی انھیں تحفہ بھیجتے ہیں؟
اور وہ آٹھ سال کا یتیم بچہ ۔۔۔ دونوں آنکھوں کے ساتھ اسے ایک اور پیچیدہ مسئلہ ہے کہ جس کا آپریشن لازمی کرانا ہو گا۔۔۔ اور وہ بغیر والدین کے نو سالہ بچی جو ڈپریشن کے ساتھ فزیکلی بھی ایک مسئلہ کا شکار ہے اور اس کے ضروری ٹیسٹ ہونے ہیں لیکن ہماری زکواتیں وہاں تک پہنچ ہی نہیں رہیں۔۔۔ وہ تو راستے میں ہی لوٹ لی جاتی ہیں۔
یہ لوٹنا ہی تو ہے۔۔۔ ڈرامے کر کے لوگوں کو جذباتی کرنا اور پیسے بٹور لینا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی مرضی سے دے رہے ہیں جبکہ یہ ان کا پیشہ ہے۔
ہم ٹھگوں کے بارے میں پڑھتے تھے۔۔ تو یہ فقیر ٹھگ ہی تو ہیں۔
بھیک/خیرات دینا ہی احسن فعل نہیں ہے بلکہ ضرورت مند کی تلاش بھی ایک بہت بڑا سماجی فلاح کا کام ہے۔ اس میں محنت لگتی ہے۔ تحقیق کرنی ہوتی ہے۔ جانا پڑتا ہے۔ فون کرنے پڑتے ہیں۔ اور جن کے پاس پیسے ہیں، ان کے پاس اس محنت کے لیے وقت نہیں۔
کون فون کرے!
کون کچی آبادیوں کے چکر لگائے!
کون کسی کو لے کے چیک اپ کراتا پھرے!
تحقیق کارے دارد!
سب سے آسان کام ہے کہ جس نے مانگا، اسے دے دیا جائے۔۔۔ وہ اپنے ارمان پورے کرے۔ موبائل خریدے۔۔ اللے تللے کرے۔ اور ہم خود کو یہ کہہ کر مطمئن کریں کہ اس نے "جس" کے نام پہ مانگا، ہم نے تو اسے دیا۔ اللہ نیتوں کو جانتا ہے۔
یہ جسٹیفیکیشن ہے۔ خدارا! وقت اور محنت صرف کریں۔ ایک بار کسی ہسپتال کا چکر لگا لیں تو کتنے ضرورت مند مل سکتے ہیں۔ کسی ایسے شخص کے ساتھ وابستہ ہو جائیں جو پہلے ہی سے ایسے کام کر رہا ہے۔ کسی فلاحی کام کرنے والے ڈاکٹر کے ساتھ مل جائیں۔ میں نے تجربہ کیا ہے کہ ہسپتالوں میں فلاحی کام کبھی ختم نہیں ہوتے۔ بے حد، بے حد ضرورت مند لوگ ہوتے ہیں وہاں۔ کسی پہ اعتبار نہیں تو اس سے ان ضرورت مندوں کی فہرست اور پتے لے کے خود تحقیق کر لیں۔ کسی کو کاروبار کرا دیں۔ اس نابینا کو کوئی کام شروع کرایا جا سکتا ہے۔ اور بہت سے پراجیکٹس کیے جا سکتے ہیں۔
اگر کسی کو میری باتیں بری لگیں تو معذرت خواہ ہوں لیکن مجھے اس نظریے کی وجہ سے اصل حق داروں کی حق تلفی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
اگر کسی کو میری باتیں بری لگیں تو معذرت خواہ ہوں لیکن مجھے اس نظریے کی وجہ سے اصل حق داروں کی حق تلفی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔
بالکل صحیح باتیں کیں ہیں بٹیا آپ نے بھلا پھر کیسی معذرت ۔حق بات کہنا بھی جہاد ہے ۔۔بس حق داروں کی حق تلفی نہیں ہونا چاہیے ۔۔آج آپ سے ایک بات شئیر کریں گے ۔۔ہمارے مسلک میں زکوٰت خیرات صدقات کے علاوہ خمس بھی دیتے ہیں ۔۔
پارہ ۸ سورہ انفال آیت نمبر ۴۱ ترجمہ:-- اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے،، کنزالایمان۔
اور خمس سادات کرام کے لئے بھی جائز ہے۔تو ہماری ایک کزن کینیڈا سے ایک خاندان کی مدد کرتی ہیں ۔اور پچھلی دس سال سے کررہی ہیں اس سال اُِنھوں نے یکمشت ایک خطیر رقم کا تقاضا کیا تو ہماری کزن نے پوچھا اتنے پیسے کس لئے چاہیے ہیں تو معلوم ہوا اے سی لگانا ہے ۔۔۔۔🥲🥲
 
ہمیں چاھئیے اگر کسی مسئلے میں سمجھ نہیں آرہی تو قرآن اور حدیث کی طرف لوٹا دیں پھر جو رائے ہو قرآن اور حدیث کے مطابق عمل کریں۔
سائل کا حق ہے اس پر جس سے وہ سوال کرے ،اگر چہ وہ سائل گھوڑے پر سوار آئے یعنی اگر گھوڑے کا سوار سوال کرے اسکو بھی دینا چاہیئے اس لئے کہ ایسا شخص بظاہر کسی مجبوری سے سوال کریگا ،یہ خیال نہ کرے کہ اس کے پاس تو گھوڑاہے ،سو یہ کیسے محتاج ہوسکتاہے، پھر ہم اس کو کیوں دیں، ہاں اگر کسی قوی قرینہ سے معلوم ہوجائے کہ یہ شخص حقیقت میں محتاج نہیں ہے ،بلکہ اس نے کھانے کمانے کا یہی پیشہ اختیار کرلیاہے ،بھیک مانگتاہے ،تو ایسے شخص کو خیرات دینا حرام ہے اور اسکے لئے مانگنا بھی حرام ہے ۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ہمیں چاھئیے اگر کسی مسئلے میں سمجھ نہیں آرہی تو قرآن اور حدیث کی طرف لوٹا دیں پھر جو رائے ہو قرآن اور حدیث کے مطابق عمل کریں۔
سائل کا حق ہے اس پر جس سے وہ سوال کرے ،اگر چہ وہ سائل گھوڑے پر سوار آئے یعنی اگر گھوڑے کا سوار سوال کرے اسکو بھی دینا چاہیئے اس لئے کہ ایسا شخص بظاہر کسی مجبوری سے سوال کریگا ،یہ خیال نہ کرے کہ اس کے پاس تو گھوڑاہے ،سو یہ کیسے محتاج ہوسکتاہے، پھر ہم اس کو کیوں دیں، ہاں اگر کسی قوی قرینہ سے معلوم ہوجائے کہ یہ شخص حقیقت میں محتاج نہیں ہے ،بلکہ اس نے کھانے کمانے کا یہی پیشہ اختیار کرلیاہے ،بھیک مانگتاہے ،تو ایسے شخص کو خیرات دینا حرام ہے اور اسکے لئے مانگنا بھی حرام ہے ۔
دیکھیے۔۔۔ یہ نظریہ کہ جو بھی سوال کرے گا، وہ حاجت مند ہو گا تب ہی سوال کرے گا۔۔۔ یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم یہ نہ فرماتے کہ آپ انھیں ان کے چہروں سے پہچان لو گے اور وہ پکڑ پکڑ کر نہیں مانگتے۔
آپ کی بات درست ہے کہ بسا اوقات گھوڑے پہ بیٹھا شخص بھی حاجت مند ہو سکتا ہے لیکن جب ایک سامنے کی حقیقت ہو تو آنکھیں کیوں چرائی جائیں؟
سڑکوں، چوکوں پہ پھرتے تقریباً سب مانگنے والے پیشہ ور ہوتے ہیں۔
پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے ارشادات کے مطابق مومن بے وقوف نہیں ہوتا۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ پھر ہم ایسے لوگوں کے ہاتھوں "جان بوجھ" کے بے وقوف کیوں بنیں؟
کیوں نہ ضرورت مند لوگوں کو تلاش کریں؟ یہ تلاش، یہ جستجو، یہ تحقیق ، ٹیلی فون، خود سے جانا، سوال، پوچھ پڑتال۔۔۔ کیا یہ اللہ کی نظر میں کم درجے کے کام ہیں؟ پیسا خرچ کرنے والا تو آسان کام کر رہا ہے۔ یہ سب محنت کے کام ہیں جو وقت، محنت، لگن نجانے کیا کیا مانگتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
بالکل صحیح باتیں کیں ہیں بٹیا آپ نے بھلا پھر کیسی معذرت ۔حق بات کہنا بھی جہاد ہے ۔۔بس حق داروں کی حق تلفی نہیں ہونا چاہیے ۔۔آج آپ سے ایک بات شئیر کریں گے ۔۔ہمارے مسلک میں زکوٰت خیرات صدقات کے علاوہ خمس بھی دیتے ہیں ۔۔
پارہ ۸ سورہ انفال آیت نمبر ۴۱ ترجمہ:-- اور جان لو کہ جو کچھ غنیمت لو تو اس کا پانچواں حصہ خاص اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا ہے،، کنزالایمان۔
اور خمس سادات کرام کے لئے بھی جائز ہے۔تو ہماری ایک کزن کینیڈا سے ایک خاندان کی مدد کرتی ہیں ۔اور پچھلی دس سال سے کررہی ہیں اس سال اُِنھوں نے یکمشت ایک خطیر رقم کا تقاضا کیا تو ہماری کزن نے پوچھا اتنے پیسے کس لئے چاہیے ہیں تو معلوم ہوا اے سی لگانا ہے ۔۔۔۔🥲🥲
بالکل درست۔۔۔ لیکن سیدوں کی ضروریات کی تحقیق بھی کر لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ دو گھرانے سید ہیں۔ ایک کو پنکھا لگانا ہے اور دوسرے کو شدید بیماری میں دوا لینی ہے اور ہمارے پاس پیسے محدود ہیں تو ہمیں ظاہر ہے کہ دوسرے گھرانے کی مدد کرنی چاہیے۔
نیز ایک ایسا گھرانہ کہ جسے اپنے پاؤں پہ کھڑا کیا جا سکتا ہے، اسے مستقل محتاج مت بنائیں۔ ایک کو اس کی شدید ضرورت کو پورا کرتے ہوئے مزید اس کے لیے کوئی کام سیٹ کرنے میں مدد دے کر اگلا کیس ڈھونڈیں۔
ہم بس ایک ہی بندے/خاندان کو نوازتے ہوئے اسے بالکل محتاج بنا چھوڑتے ہیں بلکہ اسے مانگنے کی عادت ڈال دیتے ہیں۔ وہ اب خود سے کام کرنے کی بجائے سہل پسند ہو جائے گا۔
 
آج کل بھکاری پین ، ٹشو پیپرز سنی پلاسٹ اور دیگر اشیاء فروخت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی چیزوں کو فروخت کرنے کے بجائے بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں۔لیکن ان میں بھی سب ایسے نہیں ہوتے ۔میں ایک دن کہیں جارہا تھا تو ایک شخص سنی پلاسٹ بیچ رہا تھا میں سمجھا یہ بھی ویسا ہی ہوگا میں نے اُسے پیسے دئیے کچھ تو اُس نے مجھے سنی پلاسٹ دے دئیے پر میں نے کہا کہ آپ یہ پیسے رکھ لیں مجھے سنی پلاسٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔

لیکن اُس شخص نے کہا کہ میں یہ پیسے ایسے نہیں رکھوں گا میں یہ سنی پلاسٹ بیچ رہا ہوں لہذا آپ مجھ سے یہ لے کر اِس کی قیمت ادا کردیں مجھے بڑی حیرانی ہوئی کے ایسے بھی لوگ ہیں پہلی بار کسی نے اس طرح کیا تھا۔ لیکن خوشی بھی ہوئی کہ خود دار لوگ بھی ہیں اِن میں ۔ کبھی کبھی ہم لوگ صحیح لوگوں کو بھی بھیک دے کر بھکاری بنا دیتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص کوئی چیز بیچ رہا ہو تو اُس سے وہ چیز خرید کر پھر اُسے پیسے دینے چاھئیے تاکہ وہ اپنی چیزیں بیچنے پر دھیان دے نا کہ بھکاری بن جائے۔
 

جاسمن

لائبریرین
آج کل بھکاری پین ، ٹشو پیپرز سنی پلاسٹ اور دیگر اشیاء فروخت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی چیزوں کو فروخت کرنے کے بجائے بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں۔لیکن ان میں بھی سب ایسے نہیں ہوتے ۔میں ایک دن کہیں جارہا تھا تو ایک شخص سنی پلاسٹ بیچ رہا تھا میں سمجھا یہ بھی ویسا ہی ہوگا میں نے اُسے پیسے دئیے کچھ تو اُس نے مجھے سنی پلاسٹ دے دئیے پر میں نے کہا کہ آپ یہ پیسے رکھ لیں مجھے سنی پلاسٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔

لیکن اُس شخص نے کہا کہ میں یہ پیسے ایسے نہیں رکھوں گا میں یہ سنی پلاسٹ بیچ رہا ہوں لہذا آپ مجھ سے یہ لے کر اِس کی قیمت ادا کردیں مجھے بڑی حیرانی ہوئی کے ایسے بھی لوگ ہیں پہلی بار کسی نے اس طرح کیا تھا۔ لیکن خوشی بھی ہوئی کہ خود دار لوگ بھی ہیں اِن میں ۔ کبھی کبھی ہم لوگ صحیح لوگوں کو بھی بھیک دے کر بھکاری بنا دیتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص کوئی چیز بیچ رہا ہو تو اُس سے وہ چیز خرید کر پھر اُسے پیسے دینے چاھئیے تاکہ وہ اپنی چیزیں بیچنے پر دھیان دے نا کہ بھکاری بن جائے۔
میرا بھی یہی تجزیہ ہے۔ ان میں سے کچھ بھکاری ہوتے ہیں اور ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں اور کچھ واقعی ضرورت مند اور خوددار ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کے لوگوں سے سودا ضرور خریدنا چاہیے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
۔ دو گھرانے سید ہیں۔ ایک کو پنکھا لگانا ہے اور دوسرے کو شدید بیماری میں دوا لینی ہے اور ہمارے پاس پیسے محدود ہیں تو ہمیں ظاہر ہے کہ دوسرے گھرانے کی مدد کرنی چاہیے۔
سڑکوں، چوکوں پہ پھرتے تقریباً سب مانگنے والے پیشہ ور ہوتے ہیں۔
پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے ارشادات کے مطابق مومن بے وقوف نہیں ہوتا۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ پھر ہم ایسے لوگوں کے ہاتھوں "جان بوجھ" کے بے وقوف کیوں بنیں؟
صد فی صد درست کہا آپ نے ۔۔۔۔
 
Top