کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں؟

کیا آپ پیشہ ور گداگروں کو بھیک دیتے ہیں؟

  • ہاں

    Votes: 2 9.1%
  • نہیں

    Votes: 8 36.4%
  • کبھی کبھی

    Votes: 12 54.5%

  • Total voters
    22

سید عمران

محفلین
بیس برس قبل کا سچا واقعہ جب فقیر بھی نسبتاً شریف ہوتے تھے۔۔۔
چھوٹا بھائی دوست کے آفس میں تھا کہ ایک پرمنینٹ فقیر آگیا جو آفس کا مستقل گراہک تھا۔۔۔
بھائی نے ایسے ہی گفتگو چھیڑ دی۔۔۔
درمیان میں فقیر بولا: ’’بھائی صاحب مجھے ہلکا مت لینا۔ میرے اکاؤنٹ میں پچیس ہزار ابھی بھی پڑے ہیں۔‘‘
بتائیے بیس سال قبل پچیس ہزار کی کیا حیثیت ہوگی۔۔۔
اب تو فقیر ایسے ڈھیٹ اور بدتمیز ہوگئے ہیں کہ آپ کے پیچھے آتے رہتے ہیں، آتے رہتے ہیں۔ جب تک سختی سے منع نہ کرو پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔

اللہ تعالیٰ ان لپٹنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰىہُمْ لَا یَسْ۔َٔ۔لُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ (البقرہ :۲۷۳)

(مال خرچ کرنے کا بہترین مصرف )ان نادار لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے (یعنی دین کی نشر و اشاعت یا جہاد اور خدمت میں مشغولی کی وجہ سے ان کے پاس مال کمانے کا وقت نہیں ہے جس کے لیے) وہ زمین میں چل پھر سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے (یعنی پرانا لباس، صحت کی کمی، خشک اور پژمردہ جلد وغیرہ سے)۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔

ان سڑک چھاپ لوگوں کو ایک بھی پیسہ نہیں دینا چاہیے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنی جھونپڑیوں میں شراب، چرس، گانجا، تاش جوا، زنا، دنگا فساد حتیٰ کہ قتل و غارت گری تک کرتے ہیں۔۔۔
اپنی جائز آمدنی ان ناپاک حرکتوں میں اڑانے کے لیے نہ دیں۔ آس پاس ضرورت مند دیکھیں۔ اپنے پڑوس میں، رشتہ داروں میں یا گھر اور دفتر کے ملازمین کی ٹوہ لیں جیسا ان میں عیب اور خامی نکالنے کے لیے ٹوہ لیتے ہیں۔ وہ ٹوہ لینا حرام اور یہ عین جائز بلکہ ضروری ہے۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں پوچھنے پر آپ دیکھیں گے کہ ان میں ہی کتنے ضرورت مند نکل آئیں گے جن کے پاس سردیوں کے لیے گرم کپڑے اور رضائی، گرمیوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا کولر، پنکھا اور عید جیسے خوشی کے تہوار کے لیے نئے یا اچھے کپڑے نہیں ہیں۔۔۔
اور کچھ سمجھ میں نہ آئے تو مسجد یا مدرسہ کے خادمین، اساتذہ یا طلبہ بہترین مصرف ہیں جیسا کہ آیت بالا سے ظاہر ہے!!!
 
بیس برس قبل کا سچا واقعہ جب فقیر بھی نسبتاً شریف ہوتے تھے۔۔۔
چھوٹا بھائی دوست کے آفس میں تھا کہ ایک پرمنینٹ فقیر آگیا جو آفس کا مستقل گراہک تھا۔۔۔
بھائی نے ایسے ہی گفتگو چھیڑ دی۔۔۔
درمیان میں فقیر بولا: ’’بھائی صاحب مجھے ہلکا مت لینا۔ میرے اکاؤنٹ میں پچیس ہزار ابھی بھی پڑے ہیں۔‘‘
بتائیے بیس سال قبل پچیس ہزار کی کیا حیثیت ہوگی۔۔۔
اب تو فقیر ایسے ڈھیٹ اور بدتمیز ہوگئے ہیں کہ آپ کے پیچھے آتے رہتے ہیں، آتے رہتے ہیں۔ جب تک سختی سے منع نہ کرو پیچھا نہیں چھوڑتے۔۔۔

اللہ تعالیٰ ان لپٹنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰىہُمْ لَا یَسْ۔َٔ۔لُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ (البقرہ :۲۷۳)

(مال خرچ کرنے کا بہترین مصرف )ان نادار لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے (یعنی دین کی نشر و اشاعت یا جہاد اور خدمت میں مشغولی کی وجہ سے ان کے پاس مال کمانے کا وقت نہیں ہے جس کے لیے) وہ زمین میں چل پھر سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے (یعنی پرانا لباس، صحت کی کمی، خشک اور پژمردہ جلد وغیرہ سے)۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ۔

ان سڑک چھاپ لوگوں کو ایک بھی پیسہ نہیں دینا چاہیے۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنی جھونپڑیوں میں شراب، چرس، گانجا، تاش جوا، زنا، دنگا فساد حتیٰ کہ قتل و غارت گری تک کرتے ہیں۔۔۔
اپنی جائز آمدنی ان ناپاک حرکتوں میں اڑانے کے لیے نہ دیں۔ آس پاس ضرورت مند دیکھیں۔ اپنے پڑوس میں، رشتہ داروں میں یا گھر اور دفتر کے ملازمین کی ٹوہ لیں جیسا ان میں عیب اور خامی نکالنے کے لیے ٹوہ لیتے ہیں۔ وہ ٹوہ لینا حرام اور یہ عین جائز بلکہ ضروری ہے۔۔۔
باتوں ہی باتوں میں پوچھنے پر آپ دیکھیں گے کہ ان میں ہی کتنے ضرورت مند نکل آئیں گے جن کے پاس سردیوں کے لیے گرم کپڑے اور رضائی، گرمیوں کے لیے ٹھنڈے پانی کا کولر، پنکھا اور عید جیسے خوشی کے تہوار کے لیے نئے یا اچھے کپڑے نہیں ہیں۔۔۔
اور کچھ سمجھ میں نہ آئے تو مسجد یا مدرسہ کے خادمین، اساتذہ یا طلبہ بہترین مصرف ہیں جیسا کہ آیت بالا سے ظاہر ہے!!!
بہت ہی اچھی رائے ہے لیکن جب تک آپ کے سامنے یہ لوگ ایسی حرکتیں نہ کریں جب تک کوئی منفی رائے نہ رکھیں اِن کےلئے بھی۔ واللہ عالم
 

علی وقار

محفلین
آپ نے میرے دوسرے پوائنٹ پر غور نہیں کیا اُس میں صاف لکھاہوا ہے کہ ٰ اور پھر اِنہیں کسی نہ کسی کام میں لگا کر بھکاری بننے سے بچایا جا سکتا ہے ۔
ہاں، مگر میں نے انہیں پہلے پوائنٹ پر روک لیا کہ ہمارا قومی بجٹ اس بار کا متحمل نہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مانگنے والے چھین کر لے جانے والوں سے بہتر ہیں کہ ہمیں یہ اختیار دیتے ہیں کہ دے جاؤ تو بھی بھلا، نہ دو تو بھی بھلا۔
یہ تو کچھ "مثبت رپورٹنگ" قسم کی بات معلوم ہوتی ہے۔

بھائی مانگنے والوں کا مقابلہ لوٹنے والوں سے کریں گے تو پھر تو وہ بہتر ہی لگیں گے۔

یعنی اگر کوئی شخص راہ چلتے آپ کو پکڑ کر مارنا شروع کر دے اور ساتھ کھڑے لوگ یہ کہیں کہ چلو کم از کم اُس نے تمہیں قتل تو نہیں کیا۔ :) :)

ویسے اس کا اندازہ ہو ہی جاتا ہے کہ کون ضرورت مند ہے اور کون پیشہ ور

اگر اندازہ ہو جائے تو پھر کیا مشکل ہے۔
اکثر اندازہ نہیں ہوتا۔ جس کے باعث خلش جنم لیتی ہے کہ "دے کر غلط کیا" یا "نہ دے کر غلط کیا"۔

مگر مدد دونوں کی ہی کر دینی چاہیے اگر کچھ وسعت ہو کیونکہ جنہیں ہم پیشہ ور بھکاری سمجھتے ہیں، ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو اور حقیقتاً اس کے الٹ معاملہ ہو۔

جی! لیکن جن کے بارے میں آپ کو اچھا خاصا اندازہ ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو اُن کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دکھ کی بات تو ہی ہے کہ کچھ لوگوں نے واقعی اس کو پیشہ بنالیا ہے اور عجیب ڈھیٹ قسم کی ہڈی پائی ہے نہ شرماتے ہیں نہ حیا آتی ہے انھیں اور نہ کسی کا لحاظ کرتے ہیں ایک مانگتے ہیں اور پھر ڈھٹائی سے۔
یہ کچھ لوگ دن بہ دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔

اب تو بعض اوقات کسی کو جیب خالی ہونے پر معذرت کی جائےتو الٹا سننی پڑجاتی ہیں اور بندہ سوچتا رہ جاتا ہے۔

جو دے اُس کا بھی بھلا، جو نہ دے اُس کا نہ بھلا :)
 

فاخر

محفلین
اس سلسلے میں راقم کا تجربہ نہایت ہی تلخ ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ ہر کسی گداگر کو ایک چونی ہی سہی کچھ بھی پیسے نہ دیئے جائیں۔۔۔
ابھی موبائل سے آن لائن ہوں، کمپوٹر سسٹم سے جس وقت آن لائن ہوؤں گا، تو ان شاءالله اس سلسلے میں اپنے کئی تلخ تجربے شیئر کروں گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک مسئلہ سگنل پر موجود خواجہ سرا ہیں جہاں گاڑی رکی تالی پیٹتے چلے آئے اور عموما کھڑکی سے کہنی ٹکاتے ہیں ،اکیلے ہونے کی وجہ سے پہلا کام تو جلدی جلدی شیشے چڑھانے کا کرتی ہوں ، بت بنی انکی سنتی رہتی ہوں پھر وہ "دعا "دے کر چلتے بنتے ہیں

جی! یہ بھی اگرچہ بھکاری نہیں ہوتے لیکن بھکاریوں کی ایک قسم ضرور ہوتے ہیں۔

اور شنید ہے کہ ان میں سے اکثر شوقیہ ہوتے ہیں۔

اور بھکاریوں کا تو مشاہدہ ہے کہ صبح ان کو ٹھٹھ کے ٹھٹھ رکشوں سے لاکر دھندوں والی جگہوں پر ڈراپ کیا جاتا ہے

بلاشبہ!

بہت سی عورتیں مختلف چوراہوں پر بھیک مانگتی ہیں۔ ان کی گود میں ایک بچہ ہوتا ہے جسے بے ہوش کرکے لایا جاتا ہے۔ یہ بچے ذرا سی بھی حرکت نہیں کرتے۔

ان میں وہ بھی شامل ہیں جنکے ہاتھوں میں ازار بندھ،پین یا ڈرائینگ کتابیں ہوتی ہیں کہ باجی یہ لے لو اور نہ لو توکچھ مدد کردو

یہ ایک اور مسئلہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ کچھ بیچنا نہیں چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ بس انہیں ایسے ہی پیسے مل جائیں۔

آج کل ایک نئی قسم اسمارٹ بھکاریوں کی بھی آگئی ہے
یہ وضع و قطع سے نفیس حلیے میں ہوتے ہیں کہ جب وہ مانگتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے ،اے ہے یہ فقیر ہیں ، حلیے سے تو بالکل نہیں لگے

یہ خود کو مجبور ظاہر کرتے ہیں۔

ایسے ہی ایک شخص سے میں ایک ہی کہانی چھ ماہ کے فاصلے سے دو بار سن چکا ہوں۔ پہلی بار تو سچ سمجھا۔

لیکن دوسری بار بھی جب ان صاحب سے بلا کسی ترمیم کے میں نے وہی کہانی سُنی تو پھر میں نے معذرت کرلی۔ چونکہ ان کا یہ معمول ہوگا اس لئے وہ مجھے پہچانے ہی نہیں ہوں گے۔

میرے نزدیک سب سے زیادہ مستحق ہمارے وہ رشتہ دار ، دوست احباب ہیں کہ جنکی تنخواہیں قلیل ہیں، بے روزگار ہیں یا ایسے بیمار ہیں کہ مہنگا علاج کروارہے ہیں
یقین جانیے بہت مشکل بھی ہوجاتا ہے ان کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر ان تک رقم پہنچانا ۔

متفق!

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حقداروں کی مدد کرنے والا بنائے۔ آمین۔
 
اس سلسلے میں راقم کا تجربہ نہایت ہی تلخ ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ ہر کسی گداگر کو ایک چونی ہی سہی کچھ بھی پیسے نہ دیئے جائیں۔۔۔
ابھی موبائل سے آن لائن ہوں، کمپوٹر سسٹم سے جس وقت آن لائن ہوؤں گا، تو ان شاءالله اس سلسلے میں اپنے کئی تلخ تجربے شیئر کروں گا۔
یہ بات تو صدقہ خیرات کی ہے آگے زکوۃ بھی ہے وہ تو لازمی دینی ہی ہوتی ہے پھر بھی آپ کو اِن حقداروں کو ڈھونڈنا ہوگا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پیشہ ور تو پاکستان بھی ہے پھر بھی دیگر ممالک اور ادارے قرض دیتے رہتے ہیں۔

پاکستان تو خیر کرپٹ حکومتوں اور عالمی سود خوروں کے درمیان پس گیا ہے۔ ورنہ نہ تو پاکستان پیشہ ور ہے اور نہ ہی پاکستانی۔

پاکستانی تو اپنی کمائی سے حکومتوں کو محصول دیتے ہیں جو اُن کی کرپٹ حاکموں کی عیاشیوں کی نظر ہو جاتی ہیں اور اُنہیں بدلے میں کچھ نہیں ملتا۔ جب ان کرپٹ لوگوں کا پیٹ ملکی ٹیکس کے پیسوں سے بھی نہیں بھرتا تو یہ دوسرے ملکوں سے قرضے لے لے کر اپنے محل بناتے ہیں اور ملک کو سود خور اداروں کے جال میں پھنسا دیتے ہیں۔
 

فاخر

محفلین
ہ بات تو صدقہ خیرات کی ہے آگے زکوۃ بھی ہے وہ تو لازمی دینی ہی ہوتی ہے پھر بھی آپ کو اِن حقداروں کو ڈھونڈنا ہوگا۔
جى ! بالکل حق داروں اور مستحقین کو تلاش کرنا ہوگا
لیکن میری رائے پیشہ ور بھکاریوں کے متعلق ہے۔
 

فاخر

محفلین
اس سلسلے میں راقم کا تجربہ نہایت ہی تلخ ہے۔
میری رائے یہ ہے کہ ہر کسی گداگر کو ایک چونی ہی سہی کچھ بھی پیسے نہ دیئے جائیں۔۔۔
ابھی موبائل سے آن لائن ہوں، کمپوٹر سسٹم سے جس وقت آن لائن ہوؤں گا، تو ان شاءالله اس سلسلے میں اپنے کئی تلخ تجربے شیئر کروں گا۔

تو میں یہ عرض کرر ہا تھا کہ پیشہ ور بھکاریوں کے تعلق سے میرے کئی تلخ تجربات ہیں ان میں سے 3 واقعہ کو عرض کرتا ہوں۔

چونکہ میں نئی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقہ میں رہتا ہوں؛ ا س لئے ایسے واقعات کا تجربہ ہوا ہے۔ اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہی کثیر تعداد میں بھکاری نظر آتے ہیں، البتہ ہندؤں کی اکثریتی آبادی والے علاقوں میں شاذ و نادر ہی بھکاری نظر آتے ہیں ۔رمضان المبارک میں ان کی بھیڑ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ملک کے گوشہ گوشہ سے بھکاری نئی دہلی، ممبئی ، چنئی ، بنگلور اور کولکاتہ جیسے بڑے شہروں کا رُخ کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں اپنے دو تجربات و مشاہدات شیئر کرتا ہوں:

1:
میں نے اپنی آنکھوں سے سنا اور دیکھا کہ ایک پیشہ ور بھکاری دوسرے پیشہ ور بھکاری سے کہہ رہا تھا کہ ’’آج کمائی نہیں ہوئی‘‘ دوسرا والا پوچھتا ہے ’آج کتنا کمائے ہو؟ ‘‘ پہلا والا کہتا ہے ’وہی 800 کے قریب‘‘ (خیال رہے کہ یہ 800 روپے انڈین کرنسی کے ہیں) جب کہ ہندوستان میں عام مزدوری کرنے والا شخص دِن بھر میں 300 یا 350 روپے ہی کماپاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھکاری ہر ماہ 30 سے 35 ہزار انڈین روپے جمع کرلیتے ہیں۔
2:
میرے ایک دوست ہیں وہ بھی نئی دہلی میں ہی مقیم ہیں ،اُن کے پڑوس میں واقع کرایہ کی بلڈنگ میں ایک پیشہ ور بھکاری رہتا ہے، جو دِن بھر تو بھیک مانگتا پھرتا ہے اور شام میں مرغ مسلّم ، حلیم بریانی ،شاہی ٹکڑے حتیٰ کہ شراب کے بھی مزے لیتا ہے۔
میرا دوست اس بھکاری کے بارے کہہ رہا تھا کہ:’ ایک دن میں نے بھکاری کو فون پر اپنے گھر والوں سے بات کرتےہوئے سنا، بھکاری فون پر کہہ رہا تھا’’ وہ فرش ہے نا اس پر راجستھانی عمدہ سی ٹائل لگوادو، چھت تو ڈھل ہی گئی ہے، اور چھت میں نقش نگاری کا کام باقی ہے، وہ بھی دو چار ہفتےکے اندر کر والو، پیسے کی ’چِنتا‘ فکر مت کرنا ، میں جلدہی بھیج رہا ہوں‘‘ ۔

اَب ان دونوں واقعات کی کڑی آپس میں ملائیں، پیشہ ور گداگری کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ ہمیں تو یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش پیشہ ’’گداگری ‘کا ہی ہے۔


اَلحمد للٰہ اس بار رمضان المبارک میں سو پچاس کے علاوہ تمام مد کی رقومات قابل بھروسہ مند ادارہ کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیا۔
خیال رہے کہ جو واقعی مستحق ، نادار ، مفلوک الحال اور زکوٰۃ و صدقات و عطیات کے مستحق ہیں، ان تک از خود پہنچ کر اُن کی مدد کرنا اور عید کی خوشی میں انہیں بھی شامل کرنا ضروری ہے، البتہ جو پیشہ ور گداگر ہیں، ان کی حوصلہ شکنی ضروری ہیں۔
 

فاخر

محفلین
جتنے بھی پیشہ ور بھکاری ہیں ، اُن کی حوصلہ شکنی لازمی ہے۔
یہ بسا اوقات بہت ہی ڈھیٹ اڑیل بھی ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ اسی لڑی میں کسی نے کہا کہ بھیک نہ دینے پر گاڑی کا شیشہ توڑ دیا گیا۔

اِن کا باضابطہ ایک گروہ ہوتا ہے ، جو کسی بھی مشکل کی گھڑی میں متحد ہو جاتا ہے۔ اور فریق مخالف کو سخت نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتا۔

یہ بھکاری ہر طرح کے جرائم کے عادی ہوتے ہیں، شراب، بھانگ ،افیون، چرس ، بدکاری زنا کاری، لوٹ کھسوٹ، ڈکیتی حتیٰ کہ قتل بھی ، غرض کہ جتنی بھی برائیاں ہیں ، ان کے دلدادہ اور عادی ہوتے ہیں ۔
یہ عمومی طور پر ٹوپی لگا کر اپنے کٹے ہاتھ پاؤں کو نمایاں کرکے لاؤڈ اسپیکر سے بھیک مانگتے ہوئے ملتے ہیں ۔ اِن میں اکثر غیر مسلم یعنی ہندو میں ہوتے ہیں جو بسا اوقات مسلم علاقے میں پکڑے جاتے ہیں اور پولیس کے حوالے کردیئے جاتے ہیں ۔
بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم لباس میں آر ایس ا یس ہندؤں سے بھیک منگواتا ہے، اور اس سے ملنے والے پیسے مسلمانوں کے خلاف استعمال کئے جاتےہیں۔ بعض مقامات پر ہونے والے مسلم مخالف دنگوں یعنی کہ ابھی حالیہ دنگے 2020 کا دہلی فساد، ایم پی کے کھرگون اور راجستھان کے کرولی نامی علاقہ میں ہونے والے فساد میں مسلمانوں کو املاک کو چن چن کر نقصان پہنچایا گیا، اس سلسلے میں ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ مسلمانوں کے املاک و دوکان کی نشاندہی مسلم بھکاریوں کے بھیس میں آر ایس ایس کے کارندوں نے ہی کی تھی ۔
 

یاقوت

محفلین
ایک بار کسی عزیز کی دکان پر ان کی غیر موجودگی میں بیٹھا ہوا تھا ایک بزرگ آگئے آتے ہی مجھے اپنے پاس بلایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوئے
" لا بچہ بابا کا حق بابا کو دے"
میری جیب خالی تھی اور عزیز سے بغیر اجازت کے انکے پیسے استعمال نھیں کر سکتا تھا جو اس دن ان بزرگ سے سنیں الامان الحفیظ آج بھی کانوں سے دھواں نکلتا ہے۔
 
Top