میر کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا

کوئی فقیر یہ اے کاشکے دعا کرتا
کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا

کبھو جو آن کے ہم سے بھی تو ملا کرتا
تو تیرے جی میں مخالف نہ اتنی جا کرتا

چمن میں پھول گل اب کے ہزار رنگ کھلے
دماغ کاش کہ اپنا بھی ٹک وفا کرتا

فقیر بستی میں تھا تو ترا زیاں کیا تھا
کبھو جو آن نکلتا کوئی صدا کرتا

علاج عشق نے ایسا کیا نہ تھا اس کا
جو کوئی اور بھی مجنوں کی کچھ دوا کرتا

قدم کے چھونے سے استادگی مجھی سے ہوئی
کبھو وہ یوں تو مرے ہاتھ بھی لگا کرتا

بدی نتیجہ ہے نیکی کا اس زمانے میں
بھلا کسو سے جو کرتا تو تو برا کرتا

تلاطم آنکھ کے صد رنگ رہتے تھے تجھ بن
کبھو کبھو جو یہ دریاے خوں چڑھا کرتا

کہاں سے نکلی یہ آتش نہ مانتا تھا میں
شروع ربط میں اس کے جو دل جلا کرتا

گلی سے یار کی ہم لے گئے سر پر شور
وگرنہ شام سے ہنگامہ ہی رہا کرتا

خراب مجھ کو کیا دل کی لاگ نے ورنہ
فقیر تکیے سے کاہے کو یوں اٹھا کرتا

گئے پہ تیرے نہ تھا ہم نفس کوئی اے گل
کبھو نسیم سے میں درد دل کہا کرتا

کہیں کی خاک کوئی منھ پہ کب تلک ملتا
خراب و خوار کہاں تک بھلا پھرا کرتا

موئی ہی رہتی تھی عزت مری محبت میں
ہلاک آپ کو کرتا نہ میں تو کیا کرتا

ترے مزاج میں تاب تعب تھی میرؔ کہاں
کسو سے عشق نہ کرتا تو تو بھلا کرتا

ربط
 
کاش کہ. کاشکے معنی کے اعتبار سے دونوں اک ہو تو لکهنے میں ایسے یا ویسے

کہہ کہ کہہ مطلب بول دیجئے کہ بولتے ہوئے آپ
اپنی بات میں رک جاتے ہیں

اب کاشکے.

کاش کے. اس کے دل کے کے مطلب اشارہ

رک جاتا ہے سمجهہ تو تبصرہ کر لیتے ہیں ہوسکتا ہے سمجهہ آئے جو میں نے کہا
میرا کہنا ہے کاشکے لفظ اور کاش کہ معنی کے اعتبار سے الگ ہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
عنوان میں "کاش کے" کے بجائے "کاش کہ" نہیں آئے گا؟؟؟؟

محمد وارث محمد تابش صدیقی
یہ بھی وہی مسئلہ ہے جو 'نہ' اور 'نے' کا ہے۔ ویسے تو اصل فارسی لفظ "کاشکے" یا "کاشکہِ" کا مطلب ہے "ایسا ہو جاتا"، لیکن ہمارے ہاں یہ "کاش کہ" کے معنوں ہی میں استعمال ہوتا ہے یا صرف "کاش" کے معنوں میں۔ نیچے فارسی اردو لغت اور فرہنگِ آصفیہ کے عکس ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ نے تو صاف لکھ دیا ہے کہ "دیکھو کاش"، لیکن لفظ کے استعمال کی سند ایک شعر کی صورت میں درج کر دی ہے۔

اصل میں بعض اوقات شعری ضرورت "کاش کہ" لکھنے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ "کہ" کے وزن کا اپنا مسئلہ ہے سو ایسے موقعوں پر "کاشکے" کام آتا ہے، جیسے میر کے اس شعر میں۔ اس سے وزن بھی پورا ہو جاتا ہے، مطلب بھی ادا ہو جاتا ہے، اور "کاش کے" یعنی جدا املا لکھنے سے سے جو مطلب خبط ہوتا ہے وہ پرابلم بھی دور ہو جاتی ہے، سو اس کو ایک واحد لفظ "کاشکے" کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ (نے بھی اسی طرح 'نہ' کی مدد کرتا ہے)۔ :)

Fullscreen-capture-18-01-2019-83839-AM.jpg


Fullscreen-capture-18-01-2019-83721-AM.jpg
 
Top