یوسفی کراچی اور کوئٹہ کا موسم

یاسر حسنین

محفلین
کراچی کا موسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

● کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

● کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خُوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ایئر کنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔

● یہ خوبی صرف کراچی کے متلون مزاج موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نِکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔

● لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان کے سے بچاؤ کے لیے بالُو کی بُھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ اُن کے بچّے بھی انھیں پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اُونی کنٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

● کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔

● 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسم گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر ہو تو ظاہر ہے جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

● کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے ۔ ہر ایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔

کوئٹہ اور قندھار کا موسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
● اُدھر کوئٹہ میں جب دستانے، کمبل، مفلر اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہو جائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی اک گلاب کی سی یے، تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھیراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈّو لٹکتے ہیں، گوالے گائے کے تھنوں سے آئس کریم دوہتے ہیں اور سردی سے تھر تھر کانپتے ہوئے انسان کے دِل میں خود کو واصلِ جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تو اہلیانِ قندھار کمبل سے چمٹ کر ہمسایہ ملک کی طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

● چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔

● صبح اس وقت نہیں ہوتی جب سورج نکلتا ہے۔ صبح اس وقت ہوتی ہے جب آدمی جاگ اٹھے۔
___________________________________
سبق یہ تھا پہلا کتابِ رِبا کا
زرگزشت از مشتاق احمد یوسفی
انتخاب : یاسر حسنین
نوٹ : جملے یوسفی صاحب کے ہیں۔ البتہ عنوانات میں نے اپنے حساب سے دیئے ہیں۔
 

مزمل اختر

محفلین
*مشتاق احمد یوسفی نے اپنی ایک تحریر میں دو ، دو شعرا کے کلام کو یکجا کر کے مزاح کا نیا رنگ تخلیق کیا*
*مثال کے طور پر:*

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
اقبال / فیض

وہ کہتی ھے سنو جاناں ، محبت موم کا گھر ہے.
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی..
آتش/ جون

جَھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جَھپٹنا
ساری مستی شراب کی سی ہے
اقبال/ میر

جان تم پر نثار کرتا ہوں
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب/ مومن

اس کے پہلو سے لگ کر چلتے ہیں
شرم تم کو مگر نہیں آتی

غالب /جون

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو کسی روز میرے گھر میں اتر ، شام کے بعد

علامہ اقبال / فرحت عباس

موت آئے تو دن پھریں غالب
قرض ہے تم پر چار پھولوں کا
ساغر / غالب

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

پروین / ساغر
 
*مشتاق احمد یوسفی نے اپنی ایک تحریر میں دو ، دو شعرا کے کلام کو یکجا کر کے مزاح کا نیا رنگ تخلیق کیا*
*مثال کے طور پر:*

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
اقبال / فیض

وہ کہتی ھے سنو جاناں ، محبت موم کا گھر ہے.
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی..
آتش/ جون

جَھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جَھپٹنا
ساری مستی شراب کی سی ہے
اقبال/ میر

جان تم پر نثار کرتا ہوں
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب/ مومن

اس کے پہلو سے لگ کر چلتے ہیں
شرم تم کو مگر نہیں آتی

غالب /جون

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو کسی روز میرے گھر میں اتر ، شام کے بعد

علامہ اقبال / فرحت عباس

موت آئے تو دن پھریں غالب
قرض ہے تم پر چار پھولوں کا
ساغر / غالب

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

پروین / ساغر
یہ یوسفی کی کس کتاب میں ہے؟
 
Top