غالب کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے - غالب

کاشفی

محفلین
غزل
(غالب رحمتہ اللہ علیہ)

کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں گر آجائے ہے مُجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد شرما جائے ہے مُجھ سے

خُدایا جذبہء‌دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھنچتا جائے ہے مُجھ سے

وہ بَد خُو اور میری داستانِ عشق طولانی
عبارت مختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے مُجھ سے

اُدھر وہ بدگمانی ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پوچھا جائے ہے اُس سے، نہ بولا جائے ہے مُجھ سے

سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی، کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھُوٹا جائے ہے مُجھ سے

ہوئے ہیں‌پانوء ہی پہلے نَبرد ِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مُجھ سے

قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہم سفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
 
Top