طارق شاہ
محفلین

غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں تم سے بڑھ کر حَسِیں کُچھ بھی جگ میں
حَسِیں سےحَسِیں تر مِثالوں میں تم ہو
ہو تُم تِیَرگی کے تنزُّل کے موجِب
نمایاں کِرن سب اُجالوں میں تم ہو
تمھیں بُھول جانا نہیں یُوں بھی مُمکِن
مُسلسل ہمارے خیالوں میں تم ہو
کہاں جی سے جائے، نہ پانا تمھارا
نمایاں، ہمارے ملالوں میں تم ہو
رہاہوشِ ہستی، نہ فکرِ زمانہ
مُقیّد کئے یُوں خیالوں میں تم ہو
گلِے سب خلؔش تُم سے یُوں بھی رَوا ہیں
مُحَرِّک مُقدّر کے چالوں میں تم ہو
شفیق خلشؔ
آخری تدوین: