ڈاکٹر یونس بٹ

نیلم

محفلین
ویسے شاعروں کو ضرور شادی کرنی چاہیے اگر بیوی اچھی مل گئی تو زندگی اچھی ہو جائے گی اور بیوی اچھی نہ ملی تو شاعری اچھی ہو جائے گی -

از ڈاکٹر یونس بٹ " شیطانیاں "
 

نیلم

محفلین
دنیا کی وہ عورت جسے آپ ساری زندگی متاثر نہیں کر سکتے وہ بیوی ہے - اور وہ عورت جسے آپ چند منٹوں میں متاثر کر سکتے ہیں وہ بھی بیوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر دوسرے کی -

از ڈاکٹر یونس بٹ
 

مہ جبین

محفلین
دنیا کی وہ عورت جسے آپ ساری زندگی متاثر نہیں کر سکتے وہ بیوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن آپکی :heehee:

مرد حضرات تو اس سے متفق ہونگے لیکن ہم خواتین نہیں ۔۔۔۔۔۔:)
اس لئے کہ بیویاں تو وفا شعار ہوتی ہیں ، لیکن شوہر حضرات میں یہ جوہر ذرا کم پایا جاتا ہے

اسی لئے تو بزرگ کہتے ہیں کہ مرد کو بچے اپنے اور بیوی دوسرے کی اچھی لگتی ہے :laugh:
 

نیلم

محفلین
شاعری ، گلوکاری ، اور اداکاری کی طرح عشق کرنا بھی فنون لطیفہ میں سے ہے -

دنیا میں تین قسم کے عاشق ہیں -

ایک وہ جو خود کو عاشق کہتے ہیں -

دوسرے وہ جنھیں لوگ عاشق کہتے ہیں -

اور تیسرے وہ جو عاشق ہوتے ہیں -

میرا دوست " ف " کہتا ہے عاشق در اصل " آ شک " ہے کہ وہ اتنا محبوب سے پیار نہیں کرتا جتنا شک کرتا ہے -

ہمارے ہاں جتنے بھی اچھے عاشق ملتے ہیں وہ کتابوں میں ہیں یا قبرستانوں میں -

کامیاب عاشق وہ ہوتا ہے جو عشق میں ناکام ہو ، کیونکہ جو کامیاب ہو جائے وہ عاشق نہیں خاوند کہلاتا ہے -

شادی سے پہلے وہ بڑھ کر محبوبہ کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنی محبّت کے لیے -

جب کہ شادی کے بعد وہ بڑھ کر بیوی کا ہاتھ پکڑتا ہے اپنے بچاؤ کے لیے -

کہتے ہیں عاشق خوبصورت نہیں ہوتے ، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو خوبصورت ہوتے ہیں وہ عاشق نہیں ہوتے ، لوگ ان پر عاشق ہوتے ہیں -

عاشق ، شاعر اور پاگل ان تینوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ یہ خود کسی پر اعتبار نہیں کرتے -

اس دنیا میں جس شخص کی بدولت عاشق کی تھوڑی بہت عزت ہے وہ رقیب ہے جب رقیب نہیں رہتا تو اچھے خاصے عاشق اور محبوب میاں بیوی بن جاتے ہیں -

میرا دوست " ف " ایک ہی نظر میں عاشق ہوجاتا ہے کہتا ہے

" میرے ساتھ کوئی دوشیزہ مخلص نہیں نکلی ، جو مخلص نکلی وہ دوشیزہ نہیں نکلی - "

اس کی کلاس میں تیس لڑکیاں تھیں ، ان میں سے ایک لڑکی اس لیے ناراض رہتی کہ وہ اسے توجہ نہ دیتا ، اور باقی انتیس اس لیے کہ وہ توجہ دیتا -

از ڈاکٹر یونس بٹ
 

نیلم

محفلین
شیطان کائنات کا سب سے پہلا صحافی ہے ، جس نے الله تعالیٰ کو خبر دی کہ انسان زمین پر جا کر کیا کریگا - !

یہی نہیں وہ پہلا وکیل بھی ہے ، جس نے آدم کو مشورہ دیا پھل کھا لو ، پھر کوئی تم سے جنت کا قبضہ نہ لے سکے گا ، ہمیشہ کے لئے یہیں رہو گے ، اور فیس مشورے میں جنت لے لی -

اپنی غلطی تسلیم کرنا در اصل خود کو انسان ماننا ہے -

کیونکہ وہ صرف شیطان ہے جس نے آج تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کی شید اسی لئے ہم بھی آج کل اپنی غلطی نہیں مانتے -

از ڈاکٹر یونس بٹ شیطانیاں
 

یوسف-2

محفلین
سدا بہار موضوعات پہ سدا بہار اور مزیدار اقوال شیئر کرنے کا شکریہ۔
انسان وہ واحد ”حیوان“ ہے، جسے ہنسنا اور مسکرانا آتا ہے۔ جسے یہ بھی نہیں آتا، وہ نرا حیوان ہے۔
دوسروں پر ہنسنے اور مسکرانے کا لطف اسی وقت آتا ہے، جب آپ خود اپنے اوپر ہنسنے اور مسکرانے سے محظوظ ہونا جانتے ہوں۔
مزاح کے ساتھ طنز اسی صورت میں قابل قبول ہوتا ہے جب طنز لطیف بھی ہو اور اپنے اندر اصلاح کا پہلو بھی لئے ہوئے ہو۔
طنز ، مزاح کے بغیر ایسا ہی ہے جیسے تیزمرچ کی چٹنی، نمک اور کھٹائی کے بغیر ۔ کھانے اور کھلانے والے دونوں تکلیف میں مبتلا:D
 

نیلم

محفلین
سدا بہار موضوعات پہ سدا بہار اور مزیدار اقوال شیئر کرنے کا شکریہ۔
انسان وہ واحد ”حیوان“ ہے، جسے ہنسنا اور مسکرانا آتا ہے۔ جسے یہ بھی نہیں آتا، وہ نرا حیوان ہے۔
دوسروں پر ہنسنے اور مسکرانے کا لطف اسی وقت آتا ہے، جب آپ خود اپنے اوپر ہنسنے اور مسکرانے سے محظوظ ہونا جانتے ہوں۔
مزاح کے ساتھ طنز اسی صورت میں قابل قبول ہوتا ہے جب طنز لطیف بھی ہو اور اپنے اندر اصلاح کا پہلو بھی لئے ہوئے ہو۔
طنز ، مزاح کے بغیر ایسا ہی ہے جیسے تیزمرچ کی چٹنی، نمک اور کھٹائی کے بغیر ۔ کھانے اور کھلانے والے دونوں تکلیف میں مبتلا:D

بہت شکریہ
متفق:)
 

نیلم

محفلین
صحافی نے سیاست دان سے پوچھا 'پچھلے سالوں میں آپ نے ملک میں کیا تعمیری کام کیا۔۔؟
تو وہ بولے' آپ میرے سالوں کو بیچ میں مت لائیں، اور جہاں تک تعمیری کاموں کا تعلق ہے تو میں اپنی کوٹھی تعمیر کروا رہا ہوں۔۔
”لیکن میرا خیال ہے سیاست دان کوٹھیاں نہیں الو بنا رہے ہیں۔۔صحافی نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔
سیاست دان بولا۔۔ویسے الّو بنانا اتنا آسان کام بھی نہیں'ڈرائینگ کے ماسٹر مجھے ہمیشہ کہتے 'الّو بناؤ”مگر مجھ سے نہ بنتا۔۔تو غصے سے کہتے ”کبھی الو دیکھا ہے“۔۔ میں شرم سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔۔تو کہتے” ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو ،میری طرف دیکھو۔۔!

(افرااتفریح ،از ڈاکٹر یونس بٹ)
 

نیلم

محفلین
عید ملنا
مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا، اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللّہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچّے اتنے تھے کے بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا سکول میں آگیا ہے۔ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب بچّے یوں نہاتے رہتے کہ وہ تالاب میں 500 گیلن پانی بھرتے اور سات دن میں 550 گیلن نکالتے۔وہ مجھے بھی اپنے بچّوں کی طرح سمجھتے یعنی جب انہیں مارتے تو ساتھ مجھے بھی پیٹ ڈالتے، انہیں بچّوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حلانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کے مسلمان بچّے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ایک روز ہم لڑ رہے ھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچّوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اتنے میں مرزا صاحب آگئے۔
” کیوں لڑ رہے ہو “

ہم چپ ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے، ” چلو گلے لگ کر صلح کرو “۔ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے لوگوں کو عید ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔
عید کے دن گلے ملنا، عید ملنا کہلاتا ہے۔پہلی بار انسان اس دن گلے ملا، جب خُدا نے اسے ایک سے دو بنایا۔ یوں آج بھی گلے ملنے کا عمل دراصل انسان کے ایک نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسرے جانوروں سے مماز کرتا ہے کہ وہ گلے پڑ تو سکتے ہیں، گلے مل نہیں سکتے۔

ہمارے یہاں عید ملنا، عید سے بہت پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ دکاندار گاہکوں سے کلرک سائلوں سے اور ٹریفک پولیس والے گاڑی والوں کو روک روک کر ان سے عید ملتے ہیں۔بازاروں میں عید سے پہلے اتنا رش ہوتا ہے کہ وہاں سے گزرنا بھی عید ملنا ہی لگتا ہے۔ کچھ نوجوان تو لبرٹی اور بانو بازار میں عید ملنے کی ریہرسل کرنے جاتے ہیں۔

عید کے دن خوشبو لگا کر عیدگاہ کا رُخ کرتا ہوں۔ واپسی پر کپڑوں سے ہر قسم کی خوشبو آرہی ہوتی ہے سوائے اس خوشبو کے جو لگا کر جاتا ہوں۔عید مل مل کر وہی حال ہو جاتا ہے جو سو میٹر کی ھرڈل جیتنے کے بعد ہوتا ہے۔ اوپر سے گوجرانوالہ کی عید ملتی مٹی ایسی کہ جب واپس آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں تو گھر والے گردن نکال کر کہتے ہیں
” جی ! کس سے ملنا ہے “

سیاستدان تو عید یوں ملنے نکلتے ہیں، جیسے الیکشن کمپین پہ نکلے ہوں۔ جیتنے سے پہلے وہ عید مل کر آگے بڑھتے ہیں اور جیتنے کے بعد عید مل کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔پنجاب کے ایک سابق گورنر کا عید ملنے کا انداز نرالہ ہوتا تھا۔ ان کا حافظہ ہمارے ایک ادیب دوست جیسا تھا جو ایک ڈاکٹر سے اپنے مرضِ نسیان کا علاج کروا رہے تھے، دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد ایک دن ڈاکٹر نے پوچھا
” اب تو نہیں بھولتے آپ “
” بالکل نہیں، مگر آپ کون ہیں اور کیوں پوچھ رہے ہیں ”

وہ سابق گورنر بھی عید پر معززیں سے عید ملنا شروع کرتے، ملتے ملتے درمیان تک پہنچتے تو بھول جاتے کہ کس طرف کے لوگوں سے مل لیا اور کس طرف کے لوگوں سے ابھی ملنا ہے۔ یوں وہ پھر نئے سرے سے عید ملنے لگتے۔ ایسے ہی ایک صاحب تیز دریا عبور کرنے کی کوشش میں تھے مگر عین دریا کے درمیان سے واپس پلٹ آئے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے، دراصل جب میں دریا کے درمیان پہنچا تو بہت تھک گیا سو واپس لوٹ آیا۔

شاعر وہ طبقہ ہے جو خوشی غمی دونوں موقعوں پرشعر کہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سکھ کرپان کے بغیر، بنگالی پان کے بغیر اور شاعر دیوان کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا۔ اس لئے شاعر عید ملنے کے لئے بھی مشاعرے ہی کرتے ہیں۔ یوں مشاعروں کو لفظوں کا عید ملنا کہہ لیں اگرچہ وہ ہوتی تو لفظوں کی ہاتھاپائی ہے۔

بچّے پیار سے عید کو عیدی کہتے ہیں۔ اس لئے ان کو عیدی ملنا ان کا عید ملنا ہے۔ عورتیں بھی اکٹھی ہو کر عید ملتی ہیں، لیکن جہان چار عورتیں اکٹھی ہوں ویاں وہ ایک دوسرے سے نہیں، پانچویں سے خوب خوب ملتی ہیں۔ اور کوئی وہاں سے اٹھ کر اس لئے نہیں جاتی کہ جانے کے بعد وہاں بیٹھی رہنے والیاں اس سے ” عید ملنا ” نہ شروع کر دیں۔

عید کے روز امام مسجد سے عید ملنے کا یہ طریقہ ہے کہ اپنی مُٹھی مولوی صاحب کی ہتھیلی پر یوں رکھیں کہ ان کے منہ سے جزاک اللّہ کی آواز نکلے۔ چھوٹے شہروں میں نوجوانوں کی اکثریت سینما گھروں میں بھی عئد ملنے جاتی تھی۔ بکنگ کے سامنے وہ عید ملن ہوتی ہے کہ جو سفید سوٹ پہن کر آتا ہے وہ براؤن سوٹ بلکہ کبھی کبھی تو کالے سوٹ میں لوٹتا ہے، اکثر بنیان میں بھی واپس آتے ہیں۔ عید ملنا وہ ورزش ہے جس سے وزن بہت کم ہوتا ہے۔ میرا ایک دوست بتاتا ہے کہ بیرونِ ملک میں نے عید پر سو پاؤنڈ کم کئے۔

ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب ” افراتفریح ” سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
صرف عبادت گزار اور چور ہی رات کے بدن میں دھڑک رہے ہوتے ہیں -

عبادت گزار کے سامنے اس کا مصلیٰ ہوتا ہے اور چور کے سامنے اس کا مسئلہ -

عبادت گزار اندر کے سفر پر روانہ ہوتا ہے اور چور باہر کے سفر پر نکل پڑتا ہے -

وہ اپنے جوتے اتار کر بڑا با ادب ہو کر مختلف گھروں میں یوں داخل ہوتا ہے جیسے کسی مقدس مقام کی زیارت کو آیا ہو -

اگر اس کی آہٹ سے خلق خدا کی نیند میں خلل پڑتا تو وہ شرم کر مارے منہ چھپا کر بھاگ اٹھتا ہے -

کیونکہ ہر چور جانتا ہے کہ اگر وہ سامنے آگیا تو چور کے رتبے سے گر کر ڈاکو اور لٹیرا بن جائیگا -

اسی لیے تو جس گاؤں میں چور کا چکر لگ جائے وہاں کے سیانے اس کے پاؤں کے نشان سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں -

چور اتنا وضعدار اور رکھ رکھاؤ والا ہوتا ہے کہ کچھ مل جائے تو ٹھیک ورنہ چپ چاپ الٹے پاؤں لوٹ جائے گا -

ظاہر ہے وہ رشتےدار تو ہے نہیں کہ کہے اگر تمہارے پاس کچھ دینے کو نہیں تو کسی سے قرض لے دو -

از ڈاکٹر یونس بٹ " شیطانیاں " صفحہ ٩١
 

نیلم

محفلین
لڑکیاں بدلہ بھی بہت بُرا لیتی ہے۔۔
کالج کے زمانے میں ایک دفعہ میں الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔۔ میرے مقابلے میں ایک لڑکی کھڑی تھی، میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر اس کے پرس میں ایک نقلی چھپکلی رکھ دی۔۔ جب وہ تقریر کرنے ڈائس پر آئی اور تقریر والا کاغذ نکالنے کے لئے پرس میں ہاتھ ڈالا تو ٹھیک ساڑھے چار سیکنڈ اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئ، اور پھر اچانک پوری ذمہ داری سے غش کھا کر گرگئ۔۔
اس بات کا بدلہ اس ظالم نے یوں لیا کہ میرے الیکشن والے پوسٹروں پر راتوں رات، جہاں جہاں بھی "نامزد امیدوار" لکھا تھا، وہاں وہاں "نامزد" میں سے 'ز' کا نقطہ اُڑا دیا۔۔ میں آج تک اس کی "سیاسی بصیرت" پر حیران ہوں۔۔۔۔۔۔

یونس بٹ کتاب شیطانیاں سے اقتباس
 

سویدا

محفلین
ایک مبتدی قاری کے لیے ڈاکٹر یونس بٹ کے مضامین مشتاق احمد یوسفی کو سمجھنے کے لیے ایسے ہی مددگار ثابت ہوتے ہیں جیسے نونہال رسالہ عمران سیریز کے لیے
 
Top