چھ سالہ بچے کی معلم کے ھاتھوں موت

sadia saher

محفلین
ابھی ٹی وی پہ خبر دیکھی ایک چھ سالہ بچے کو معلم نے تشدد کر کے مار دیا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے اپنا سبق یاد نہین کیا تھا کیا یہ اتنا بڑا قصور ھے جس کی سزا میں ایک چھوٹے سے بچے کے ڈنڈے گھونسے لاتیں مار مار کر جان سے ھی مار دیا جائے
بچے کے ایک ساتھی سے کہا گھر والوں سے کہے کہ بچے کو خون کی الٹی آئی تھی جس کی وجہ سے اس کی موت ھو گئ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ھو چکے ھیں کئ بار قرآن کی تعلیم دینے والے مولوی حضرات کے بارے میں پتا چلا وہ بچوں سے زیادتی کرتے رھے ھیں بہت کم واقعات میڈیا کے سامنے آتے ھیں جو واقعات سامنے آتے ھیں انھیں بھی نظر انداز کر دیا جاتا ھے
کیا یہ واقعات اس قابل ھیں کہ انھیں نظر انداز کر دیا جائے ؟؟؟
کیا کسی غریب بچے کی جان کی کوئ حیثیت نہیں ؟؟؟
کسی معلم کی قابلیت چیک کرنے کا کیا معیار ھے اگر کسی مولوی یا کسی ملا کے بارے میں کچھ کہا جاتا ھے تو بہت سے حضرات لٹھ لے کر کھڑے ھو جاتے ھیں ان کا فرمانا ھے یہ مولوی نہ ھوتے تو کون پیدائش کے بعد کان میں آذان دیتا کون قرآن کی تعلیم دیتا کون مسجدوں میں اذان دیتا کون مرنے کے بعد جنازہ پڑھاتا پھر بھی لوگ ان کی عزت نہیں کرتے
کیا کوئ بھی قرآن پڑھانا شروع کر دے اس کو چیک کرنا ضروری نہیں اکثر ایسے لوگوں کی بہت تعظیم کی جاتی ھے اگر ان کے بارے میں کوئ بات سنیں بھی تو کہا جاتا ھے وہ تو قرآن پڑھاتے ھیں نیک انسان ھیں
کیا سب پہ آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنا چاھیے جب کوئ ایسا واقعہ ھوتا ھے وقتی شور اٹھتا ھے مگر کیا کچھ بھی نہیں جاتا اس خبر پہ بھی ایک دن تبصرہ کیا جائے گا ٹی وی والے چند بار دیکھائینگے پھر نئ خبروں میں یہ خبر بھی گم ھو جائے گی
معذرت میں ھرمولوی یا ھر داڑھی والے کو قابل ِ احترام نہیں سمجھتی اسلام دل میں ھوتا ھے داڑھی میں نہیں
 

فاتح

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بے انتہا دکھ ہو رہا ہے یہ پڑھ کر۔ جہالت، درندگی، سفاکی اور ظلم کی انتہا ہے۔
ایسے دو چار درندوں کو اس قتلِ عمد پر سزائے موت دی جائے تو شاید باقی بے رحم ظالموں کی سفاکی دب جائے۔:(:(:(
 

شمشاد

لائبریرین
اس سے پہلے بھی ایک بچے کو جو کہ چھٹی جماعت کا طالبعلم تھا، اس کو اس کے استاد نے جان سے مار دیا تھا۔

لیکن کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔
 

ساجد

محفلین
اللہ تعالی اس معصوم کے درجات بلند فرمائے۔
پاکستان میں ایک چلن ہے کہ جس کو کوئی نوکری ملنے کا امکان کم ہو تو وہ پولیس میں بھرتی ہو جاتا ہے یا پھر ماسٹر جی بن جاتا ہے۔ اپنے تجربہ کی بنیاد پہ کہتا ہوں کہ پرائمری درجہ کے 90 اور مڈل درجہ کے 60 فیصد مرد اساتذہ کو تدریس کے بنیادی اصولوں سے بھی واقفیت نہیں ہے۔
میں نے ایک بار محکمہ تعلیم کے افسران کو یہ تجاویز بہ نفس نفیس دی تھیں کہ وہ حکومت سے درخواست کریں کہ پرائمری درجہ کی تدریس کے لئیے مرد اساتذہ کو ہرگز نہ رکھا جائے اور سکولوں کی برطانوی وقت کی درجہ بندی بحال کی جائے کہ جس کے تحت پرائمری ، مڈل (اس وقت کے نارمل( اور ہائی اسکولوں کو الگ الگ کیا جائے۔
یہاں اس پہ بات کرنا مناسب نہیں لیکن جس طریقہ سے پاکستان میں تعلیم زوال پذیر ہے وہ مایوس کن ہے اور اس کا ایک سبب ایسے قصائی نما استاد بھی ہیں ۔
 

سویدا

محفلین
ایسے آدمی کو تو معلم کہنا بھی روا نہیں‌اور حکومت کو چاہیے کہ ایسے شخص کو سخت سے سخت سزا دے

تاکہ اوروں‌کے لیے بھی عبرت بنے
 

عثمان رضا

محفلین
ہمارے ہاں پاکستان میں مارپیٹ بہت عام ہے پڑھائی کے لیے ۔۔ساتھ یہ بھی سنا جاتا ہے اس کے بغیر بچے پڑھتے نہیں ۔۔
جبکہ یورپ میں معاملہ بالکل الٹ ہے ۔۔۔
 

sadia saher

محفلین
پاکستان میں کئ بار سنا ھے جو بچہ ماں باپ کے قابو میں نہیں آتا اسے مدرسے میں‌ بھیج دیا جاتا ھے کیا پتا سدھر جائے
جو اچھا ذہین ھوتا ھے اسے اسکول بھیجا جاتا ھے امید کی جاتی ھے وہ ڈاکٹر یا انجئینر بنے گا
ایک لطیفہ یاد آرھا ھے
ایک فقیر ایک پھلوں کی دکاندار سے کہتا ھے اللہ کے نام پہ کچھ دے دو
وہ اسے ایک سڑا ھوا کیلا دیتا ھے
قفیر اسے دس روپے دیتا ھے کہتا ھے مجھے ایک کیلا دو
دوکاندار اسے چن کے ایک اچھا کیلا دیتا ھے
فقیر آسمان کی طرف منہ کر کے کہتا ھے اے اللہ دیکھ لے اس نے تئجھے کیا دیا اور مجھے کیا دیا

جب تک اللہ کو فضول مال دیتے رھیں گے اور نکمے لوگ علم دیں گے ھمارے مدارس میں یہ ھوتا رھے گا
 

سویدا

محفلین
اس میں‌مدارس کا قصور نہیں‌ہے اس آدمی کا قصور ہے جس نے مارا ہے
کتنے ڈاکٹرز کی وجہ سےانسانی جانیں‌موت کا شکار ہوجاتیں ہیں‌ہسپتال کو برا نہیں‌کہاجاتا اور نہ ہی ڈاکٹرز کو علی العموم برا کہا جاتا ہے بلکہ خاص اس ڈاکٹر کو
برا کہا جاتا ہے اسی طرح‌تمام مدارس کو برا نہیں‌کہہ سکتے جہاں‌جو شخص غلط ہو اس کو غلط کہا جائے
ورنہ تو یہ دنیا ہی ختم ہوجانی چاہیے اور سب کو مرجانا چاہیے
 
اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، اساتذہ ہمیں‌بھی مارتے تھے اور آج بھی ہم انکی قسم سے دل کی اتھا گہرائیوں سے عزت کرتے ہیں۔ ماسٹر سلیم صاحب کا تھپڑ میں آج تک نہیں بھولا ہوں مگر جب پاکستان جاتا تو اسے ملاقات کرنے ضرور جاتا۔ ماسٹر خادم صاحب کی سوٹیاں بھی یاد ہیں مگر ابھی بھی انکو سائیکل پر جاتا دیکھتا ہوں تو پاؤں خود بخود بریک پر پڑ جاتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
ہمارے ہاں پاکستان میں مارپیٹ بہت عام ہے پڑھائی کے لیے ۔۔ساتھ یہ بھی سنا جاتا ہے اس کے بغیر بچے پڑھتے نہیں ۔۔
جبکہ یورپ میں معاملہ بالکل الٹ ہے ۔۔۔

جی ہاں۔ یورپ میں اساتذہ بیشک نرسری کے ہی کیوں نہ ہوں۔ کم از کم بیچلر لیول تک تعلیم مکمل کرنا ایک فرض ہے۔ جسکی بدولت مار پیٹ والا کلچر اپنے آپ بہتر رہنمائی اور ایکسپیرنس سے بدل جاتا ہے۔ اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ اساتذہ کو تعلیم آگے دینے کے گر آتے ہوں۔
یہاں ناروے میں جو بچے دسویں جماعت تک بھی عام تعلیم سے بیزاری کا اظہار کریں انکے لئے پیشہ ورانہ زندگی اگلے چار سالوں تک خود ورکر کالجز میں کروائی جاتی ہے۔ باقی لائق فائق والوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا راستہ اپنی مرضی کی بنیاد پر ہے۔
 

تیشہ

محفلین
پرسوں ترسوں انگلینڈ میں کیرولہ میں میری کزن کی ڈیڑھ سالہ بیٹی کو خونخوار گھر کا پالتو کتا کھا گیا مرگئی ہے بچاری ۔
چیر پھاڑ گیا کتا ُ اسے ُ ۔ :(
 
Top