چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے

چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے
میں نہیں پہنچا ہوں اب بھی اپنے گھر، کہنا اُسے

لوٹ آنے کی امیدیں ٹوٹ پائی ہی نہیں
بند اب بھی ہو نہیں پائے ہیں در، کہنا اُسے

تھم گیا طوفان لیکن سب پرندوں نے ابھی
اوڑھ رکھے ہیں سروں پہ اپنے پر، کہنا اُسے

پڑ گئے پَیروں پہ چھالے ، اب تلک دِکھتا نہیں
جسکا وعدہ تھا وہ خوشیوں کا نگر، کہنا اُسے

ہجر کا پودا جو احمدنے لگایا تھا کبھی
ہو گیا ہے اب تناور وہ شجر، کہنا اُسے

(ملک عدنان احمد)
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے
میں نہیں پہنچا ہوں اب تک اپنے گھر، کہنا اُسے
بہت خوب جناب ۔۔۔ ابھی اس زمین سے ملتی جلتی غزل پر تبصرہ کرکے آرہا ہوں ۔
مقطع بہت پسند آیا ۔ باقی استاتذہ کرام ہی اس غزل کود یکھیں گے ۔
 
چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے
میں نہیں پہنچا ہوں اب تک اپنے گھر، کہنا اُسے
بہت خوب جناب ۔۔۔ ابھی اس زمین سے ملتی جلتی غزل پر تبصرہ کرکے آرہا ہوں ۔
مقطع بہت پسند آیا ۔ باقی استاتذہ کرام ہی اس غزل کود یکھیں گے ۔
بہت شکریہ ظفری بھائی :)
 

ابن رضا

لائبریرین
چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے
میں نہیں پہنچا ہوں اب تک اپنے گھر، کہنا اُسے
بہت خوب جناب ۔۔۔ ابھی اس زمین سے ملتی جلتی غزل پر تبصرہ کرکے آرہا ہوں ۔
مقطع بہت پسند آیا ۔ باقی استاتذہ کرام ہی اس غزل کود یکھیں گے ۔
عمدہ کوشش عدنان بھائی ، باقی آپ جانیں اور اساتذہ اکرام :)
ظفری بھائی آپ کو مطلع بہت پسند آیا ہے اور وہی آپ نے دہرایا بھی۔ لیکن لکھ مقطع دیا؟؟؟ :idontknow:
 

الف عین

لائبریرین
واہ، اچھی غزل ہے۔ لیکن
تھم گیا طوفان لیکن سب پرندوں نے ابھی
اوڑھ رکھے ہیں سروں پہ اپنے پر، کہنا اُسے
۔۔سروں پر پر اوڑھنا کون سا محاورہ ہے؟

پڑ گئے پَیروں پہ چھالے ، اب تلک دِکھتا نہیں
جسکا وعدہ تھا وہ خوشیوں کا نگر، کہنا اُسے
÷÷شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے
 
واہ، اچھی غزل ہے۔ لیکن
تھم گیا طوفان لیکن سب پرندوں نے ابھی
اوڑھ رکھے ہیں سروں پہ اپنے پر، کہنا اُسے
۔۔سروں پر پر اوڑھنا کون سا محاورہ ہے؟

پڑ گئے پَیروں پہ چھالے ، اب تلک دِکھتا نہیں
جسکا وعدہ تھا وہ خوشیوں کا نگر، کہنا اُسے
÷÷شعر دو لخت محسوس ہو رہا ہے
1۔محاورہ تو نہیں بس سہمے ہونے کی کیفیت کے اظہار کے لیے اس ترکیب کا استعمال کیا، اگر درست نہیں تو اسکا کوئی متبادل تجویز کر دیجئے۔:(
2۔پہلےمصرعے میں "،" سے فرق ڈالنے کا مقصد یہی تھا کہ باقی کا آدھا مصرعہ اگلے مصرعے سے منسلک ہے۔ اور پیروں میں چھالے مطلب چل چل کر ہیں پڑگئے لیکن وہ نگر نہیں آیا۔ پورے موضوع کو سمیٹنا مشکل ہو رہا تھا اسلیے کچھ نتیجہ پڑھنے والے پہ چھوڑ دیا۔ :rolleyes:
آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، رہنمائی کر دیجیئے، میں تصحیح کی کوشش کرتا ہوں:oops:
 

شمشاد

لائبریرین
برادران َ گرامی مزمل شیخ بسمل، @مغزل، اسدقریشی ، @مہدی نقوی حجاز، @محمد اسامہ سرسری، محمد وارث، @محمد عاطف بٹ تبصرہ فرمائیں تو مشکور ہوں گا۔۔۔ :)
ملک صاحب ایک تو مکمل طور پر @ کے بعد بغیر کوئی وقفہ دیئے وہی نام لکھنا ہے جو اردو محفل اُس رکن کی پہچان ہے، دوسرا نام کے فوراً بعد وقفہ دینا ہے، کوئی نقطہ یا کوما نہیں لگانا، تب ہی اُس رکن کو اطلاع جائے گی۔
 
ملک صاحب ایک تو مکمل طور پر @ کے بعد بغیر کوئی وقفہ دیئے وہی نام لکھنا ہے جو اردو محفل اُس رکن کی پہچان ہے، دوسرا نام کے فوراً بعد وقفہ دینا ہے، کوئی نقطہ یا کوما نہیں لگانا، تب ہی اُس رکن کو اطلاع جائے گی۔
رہنمائی کے لیے مشکور ہوں شمشاد بھائی :)
 
جناب میں سمجھا نہیں ؟:confused:
مجھے شاید تفصیلی بات کرنی ہو گی؟ اشعار اور لفظیات پر ذرا سا اور غور کیا ہوتا تونہ صرف یہ کہ لسانیاتی اور محاوراتی اشکال دور ہو سکتے تھے، بلکہ اظہار کی جمالیاتی سطح بھی بلند ہو سکتی تھی۔ ایک نظر شعر بہ شعر دیکھ لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے، نا؟ یہ اس لئے کہا کہ کچھ دوست برا مان جاتے ہیں، اور پھر دکھ ہوتا ہے کہ یار، میں نے کہا ہی کیوں!

چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے ۔۔۔۔ راستے میں
میں نہیں پہنچا ہوں اب بھی اپنے گھر، کہنا اُسے ۔۔۔۔ ابھی تک

لوٹ آنے کی امیدیں ٹوٹ پائی ہی نہیں ۔۔۔۔ یہ محلِ نظر ہے، اس میں بین السطور اس خواہش کا اظہار ہے کہ امیدوں کو ٹوٹ جانا چاہئے، حالانکہ مقصود یہ نہیں۔
بند اب بھی ہو نہیں پائے ہیں در، کہنا اُسے ۔۔۔ گویا دروازہ بند کرنا مقصود تھا؟ جو نہیں ہو سکا؟
اس صورتِ حال کو عجزِ بیان کا نام بھی دیتے ہیں، کہ جوکہنا مقصود تھا، وہ پورے طور پر کہا نہیں جا سکا۔

تھم گیا طوفان لیکن سب پرندوں نے ابھی
اوڑھ رکھے ہیں سروں پہ اپنے پر، کہنا اُسے ۔۔۔ اس پر اعجاز عبید صاحب کا کہا بہت مناسب ہے۔ تجویزیں کئی ہو سکتی ہیں، یہاں بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ یہ مصرع پھر سے کہیں۔

پڑ گئے پَیروں پہ چھالے ، اب تلک دِکھتا نہیں ۔۔۔ اعجاز عبید صاحب بہتر بتا سکتے ہیں کہ مقبول اور راجح کیا ہے: پیروں پہ چھالے پڑنا۔۔ یا۔۔۔ پیروں میں چھالے پڑنا۔
جسکا وعدہ تھا وہ خوشیوں کا نگر، کہنا اُسے ۔۔۔ اعجاز عبید صاحب نے اشارہ کر دیا ہے، لگتا ہے درمیان میں کوئی کڑی رہ گئی ہے، جو دونوں مصرعوں کو مضبوطی سے جوڑ دے
’’جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے
‘‘

دیکھئے، ابلاغ کا مسئلہ بڑا عجیب مسئلہ ہوتا ہے۔ میں ایک شعر، غزل، نظم کہتا ہوں؛ اب جہاں جہاں میرا وہ کلام پہنچتا ہے، میرے لئے وہاں وہاں پہنچنا ممکن نہیں۔ لہٰذا شعر، غزل، نظم میں کم از کم ایسی کوئی بات نہ ہو کہ قاری اس چکر میں پڑجائے کہ جنابِ شاعر کا مطمعِ اظہار کیا ہے۔ شعر کی معنوی تہ داری بالکل مختلف بات ہے۔ زبان اور محاورے کی فروگزاشت شعر پر اچھا اثر نہیں رکھتی۔ کئی قاری تو زبان کی غلطی دیکھیں تو شعر کو پڑھتے ہی نہیں۔

یہ جن باتوں کی طرف میں نے اشارے کئے ہیں، یہ کوئی بہت بڑے مسائل نہیں ہیں کہ حل نہ ہو سکیں۔ بس تھوڑی سی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ میں نے ایک غزل کہی ہے تو پہلے میں خود اس کے ساتھ کچھ وقت گزاروں، اس کے بعد کسی فورم پر پیش کروں۔ کوئی فن پارہ، پختہ ہو یا خام ایک بار کسی بھی فورم پر پیش کر دیا گیا تو صاحبِ کلام کو ہو سکتا ہے کچھ ناگوار باتیں بھی پڑھنے سننے کو ملیں۔

میں نے کوشش کی ہے کہ بالکل غیر شخصی انداز میں اپنا نکتۂ نظر بیان کر دوں، اس کو جزوی یا کلی طور پر رد کر دینا یا اختیار کر لینا شاعر کی صواب دید ہے اور اس کا استحقاق ہے۔

جناب ملک عدنان احمد
جناب الف عین
 

ایوب ناطق

محفلین
عرصے بعد ایک حقیقی تنقید دیکھنے کو ملی۔۔۔ شاعر کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے قارئین کو بھی بے حد فائدہ ہوا ۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔۔۔
 
عرصے بعد ایک حقیقی تنقید دیکھنے کو ملی۔۔۔ شاعر کے ساتھ ساتھ مجھ جیسے قارئین کو بھی بے حد فائدہ ہوا ۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔۔۔

اصولاً مجھے اس توجہ پر آپ کا ممنون ہونا چاہئے، اور وہ میں ہوں!
اس سے زیادہ اصولی بات یہ ہے کہ میری مندرجہ بالا گزارشات شاید تنقید کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہیں، یہ اس کا صرف تاثراتی پہلو ہے۔
یہ حقیقت ہے، میں کسی کسرِنفسی سے کام نہیں لے رہا۔
 
مجھے شاید تفصیلی بات کرنی ہو گی؟ اشعار اور لفظیات پر ذرا سا اور غور کیا ہوتا تونہ صرف یہ کہ لسانیاتی اور محاوراتی اشکال دور ہو سکتے تھے، بلکہ اظہار کی جمالیاتی سطح بھی بلند ہو سکتی تھی۔ ایک نظر شعر بہ شعر دیکھ لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے، نا؟ یہ اس لئے کہا کہ کچھ دوست برا مان جاتے ہیں، اور پھر دکھ ہوتا ہے کہ یار، میں نے کہا ہی کیوں!

چل دیا جو بیچ رستے چھوڑ کر، کہنا اُسے ۔۔۔ ۔ راستے میں
میں نہیں پہنچا ہوں اب بھی اپنے گھر، کہنا اُسے ۔۔۔ ۔ ابھی تک

لوٹ آنے کی امیدیں ٹوٹ پائی ہی نہیں ۔۔۔ ۔ یہ محلِ نظر ہے، اس میں بین السطور اس خواہش کا اظہار ہے کہ امیدوں کو ٹوٹ جانا چاہئے، حالانکہ مقصود یہ نہیں۔
بند اب بھی ہو نہیں پائے ہیں در، کہنا اُسے ۔۔۔ گویا دروازہ بند کرنا مقصود تھا؟ جو نہیں ہو سکا؟
اس صورتِ حال کو عجزِ بیان کا نام بھی دیتے ہیں، کہ جوکہنا مقصود تھا، وہ پورے طور پر کہا نہیں جا سکا۔

تھم گیا طوفان لیکن سب پرندوں نے ابھی
اوڑھ رکھے ہیں سروں پہ اپنے پر، کہنا اُسے ۔۔۔ اس پر اعجاز عبید صاحب کا کہا بہت مناسب ہے۔ تجویزیں کئی ہو سکتی ہیں، یہاں بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ یہ مصرع پھر سے کہیں۔

پڑ گئے پَیروں پہ چھالے ، اب تلک دِکھتا نہیں ۔۔۔ اعجاز عبید صاحب بہتر بتا سکتے ہیں کہ مقبول اور راجح کیا ہے: پیروں پہ چھالے پڑنا۔۔ یا۔۔۔ پیروں میں چھالے پڑنا۔
جسکا وعدہ تھا وہ خوشیوں کا نگر، کہنا اُسے ۔۔۔ اعجاز عبید صاحب نے اشارہ کر دیا ہے، لگتا ہے درمیان میں کوئی کڑی رہ گئی ہے، جو دونوں مصرعوں کو مضبوطی سے جوڑ دے
’’جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے
‘‘

دیکھئے، ابلاغ کا مسئلہ بڑا عجیب مسئلہ ہوتا ہے۔ میں ایک شعر، غزل، نظم کہتا ہوں؛ اب جہاں جہاں میرا وہ کلام پہنچتا ہے، میرے لئے وہاں وہاں پہنچنا ممکن نہیں۔ لہٰذا شعر، غزل، نظم میں کم از کم ایسی کوئی بات نہ ہو کہ قاری اس چکر میں پڑجائے کہ جنابِ شاعر کا مطمعِ اظہار کیا ہے۔ شعر کی معنوی تہ داری بالکل مختلف بات ہے۔ زبان اور محاورے کی فروگزاشت شعر پر اچھا اثر نہیں رکھتی۔ کئی قاری تو زبان کی غلطی دیکھیں تو شعر کو پڑھتے ہی نہیں۔

یہ جن باتوں کی طرف میں نے اشارے کئے ہیں، یہ کوئی بہت بڑے مسائل نہیں ہیں کہ حل نہ ہو سکیں۔ بس تھوڑی سی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ میں نے ایک غزل کہی ہے تو پہلے میں خود اس کے ساتھ کچھ وقت گزاروں، اس کے بعد کسی فورم پر پیش کروں۔ کوئی فن پارہ، پختہ ہو یا خام ایک بار کسی بھی فورم پر پیش کر دیا گیا تو صاحبِ کلام کو ہو سکتا ہے کچھ ناگوار باتیں بھی پڑھنے سننے کو ملیں۔

میں نے کوشش کی ہے کہ بالکل غیر شخصی انداز میں اپنا نکتۂ نظر بیان کر دوں، اس کو جزوی یا کلی طور پر رد کر دینا یا اختیار کر لینا شاعر کی صواب دید ہے اور اس کا استحقاق ہے۔

جناب ملک عدنان احمد
جناب الف عین
جناب سب سے پہلے تو بے حد مشکور ہوں اس درجہ تفصیلی رہنمائی کے لیے، جو کہ اس کلام کو فورم پر پوسٹ کرنے کا اصل مقصد تھا۔ آپکے تاثرات بالکل درست ہیں۔ میں چونکہ ایسے ماحول میں پلا بڑھا ہوں جہاں اردو کا استعمال اور پڑھنے پڑھانے کا مقصد ماسوائے تعلیمی نصاب میں اردو کا مضمون پاس کرنے کے اور کوئی نہیں۔ اسلیے محاوراتی اور لسانیاتی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے یقیناََ آپ حضرات کی صحبت ہی کام آئے گی اور آ رہی ہے۔ جہاں تک بات اپنے کلام کو دوبارہ پڑھ کر خود تصحیح کرنے کی ہے تو میں ذاتی طور پر اس سے مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ اس میں self review threatآجاتا ہے۔ لہٰذا میرے پاس اسے سوائے فورم پر پوسٹ کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ جہاں تک بات مثبت تنقید اور تاثرات کی ہے تو ان سے میں قطعاََ نہیں گھبراتا بلکہ آپ حضرات کی توجہ اور رہنمائی میرے لیے حوصلہ افزا ہوتی ہے ۔
ایک بار پھر آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ :)
 

الف عین

لائبریرین
اصل میں میرے پاس وقت کے ساتھ صبر کی بھی کمی ہوتی ہے، اس لئے اتنی توجہ سے نہیں دیکھتا جیسے آسی بھائی دیکھتے ہیں۔ اس لئے پیروں پہ چھالے کی غلطی صرف نظر ہو گئی۔ جن اغلاط پر فوراً نظر جاتی ہے، ان کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
 
اصل میں میرے پاس وقت کے ساتھ صبر کی بھی کمی ہوتی ہے، اس لئے اتنی توجہ سے نہیں دیکھتا جیسے آسی بھائی دیکھتے ہیں۔ اس لئے پیروں پہ چھالے کی غلطی صرف نظر ہو گئی۔ جن اغلاط پر فوراً نظر جاتی ہے، ان کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
اس قدر مصروفیت میں بھی مجھ جیسے کو آپکی توجہ کا حاصل ہونا کسی شرف سے کم نہیں چچا جان! :)
 
Top