چار اشعار سخن ورانِ محفل کی نذر

مغزل

محفلین
بہت مرجھا گئے ہوں، پھر بھی خوشبو کم نہیں ہوتی
بہت سے پھول ایسے اپنی الماری میں رہتے ہیں

مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں

ہوائے فصلِ گل باہر سے چھو کر گزرے تو گزرے
کہ ہم بند اپنے دکھ کی چار دیواری میں رہتے ہیں


کیا بات ہے بابا جانی۔۔ مزا آگیا ۔۔ کھیتوں کی بل کھاتی پگڈنڈیوں کی طرح بحر۔۔۔
اور اس پر سلاست ، بلاغت و فصاحت ۔۔۔ شعری قالب میں جوں کوزہ میں سمندر
مجھے امید ہے کہ میرے تاخیر سے آنے کو صرفِ نظر کیجئے گا۔
داد دینے کو سزاوار نہیں کہ ۔۔ میری کم علمی اور بے مائیگی آڑے آتی ہے۔
سو صمیمِ قلب سے دعا کہ مالک آپ کو باصحت و عافیت عمرِ خضر عطا فرمائے
آپ کو تازہ دم رکھے کہ آپ ایسی بہت نابغہ روزگار ہستیاں ہم سے اٹھ چکی ہیں
نتیجے میں نئی نسل کو خلا کا سامنا ہے۔

آپ سے گزارش کہ اپنے دیگر کلام سے مستفیذ فرمائیں۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
بابا جانی میں یہ مراسلہ آج پھر دیکھے کو آیا ہوں ، کہ کہیں ’’ انتظار میں سوکھ تو نہیں گیا ‘‘
وہ کیا ہے افضل خان (کبیر والا ، پاکستان) کا شعر کہ :

یہ پتھر ہے آدمی تھا کبھی
اس کو کہتے ہیں انتظار میاں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت مرجھا گئے ہوں، پھر بھی خوشبو کم نہیں ہوتی
بہت سے پھول ایسے اپنی الماری میں رہتے ہیں
مرصع تخت کے پایوں کو دیمک کھا چکی لیکن
مگر شاہانِ قوم اپنی طرحداری میں رہتے ہیں

بہت خوبصورت !!! اعجاز بھائی ! کیا آج کل شعر گوئی ترک کی ہوئی ہے ؟ کچھ تازہ عنایت کیجئے ۔
 
Top