پوشیدہ سبق

رباب واسطی

محفلین
زندگی بہت خوبصورت ہے
سچ تو یہ ہے کہ انسان ہی انسان کی دوا ہے
اگر کوئی دُکھ دیتا ہے تو کوئی سکون بن جاتا ہے
کوئی نفرت کرتا ہے تو کوئی محبت دے کر حساب برابر کر دیتا ہے
کوئی رلاتا ہے ،تو کوئی مسکرانے کی وجہ بن جاتا ہے
کوئی ٹھوکر لگا کر گِرا دیتا ہے تو کوئی انتہائی محبت سے سہارا بن جاتا ہے
 

رباب واسطی

محفلین
انسان کو اپنی جگہ پہ لگا ھوا دانت چھوٹا سا محسوس ھوتا ھے مگر جب وہ دانت گرتا ھے تو دو دانتوں جیسا بڑا خلاء چھوڑ جاتا ھے اور انسان وہاں انگلی رکھ رکھ کر تصدیق کرتا ھے کہ "ہیں!! واقعی ایک دانت گِرا ھے.؟."
اسی طرح کچھ رشتے جب پاس ھوتے ھیں تو اتنے اھم نہیں لگتے مگر جب چلے جاتے ھیں تو اتنا بڑا خلاء چھوڑ جاتے ھیں کہ کئی انسان مل کر بھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکتے
 
زندگی بہت خوبصورت ہے
سچ تو یہ ہے کہ انسان ہی انسان کی دوا ہے
اگر کوئی دُکھ دیتا ہے تو کوئی سکون بن جاتا ہے
کوئی نفرت کرتا ہے تو کوئی محبت دے کر حساب برابر کر دیتا ہے
کوئی رلاتا ہے ،تو کوئی مسکرانے کی وجہ بن جاتا ہے
کوئی ٹھوکر لگا کر گِرا دیتا ہے تو کوئی انتہائی محبت سے سہارا بن جاتا ہے
آپ نے انسانی زندگی کا بہت اچھا تجزیہ کیا ہے- مثبت سوچ رکھی جائے تو واقعی زندگی بہت خوبصورت ہے- کیونکہ جیسے آپ نے کہا اللہ کی طرف سے انسانی زندگی میں توازن رہتا ہے- اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ صرف دکھ دینے نفرت کرنے یا ٹھوکر لگانے والوں کو یاد کرکے کڑھتا ہے یا سکون اور محبت دینے والوں کو یاد کرکے خوش ہوتا ہے-
 
انسان کو اپنی جگہ پہ لگا ھوا دانت چھوٹا سا محسوس ھوتا ھے مگر جب وہ دانت گرتا ھے تو دو دانتوں جیسا بڑا خلاء چھوڑ جاتا ھے اور انسان وہاں انگلی رکھ رکھ کر تصدیق کرتا ھے کہ "ہیں!! واقعی ایک دانت گِرا ھے.؟."
اسی طرح کچھ رشتے جب پاس ھوتے ھیں تو اتنے اھم نہیں لگتے مگر جب چلے جاتے ھیں تو اتنا بڑا خلاء چھوڑ جاتے ھیں کہ کئی انسان مل کر بھی اس خلا کو پُر نہیں کر سکتے
یہ انسانی فطرت کا المیہ ہے کہ اس کے پاس بہت سی نعمتیں اور رشتے ہوتے ہیں لیکن ان کے ہونے کا احساس وہ نہیں کر پاتا اور ناشکرے پن میں مبتلا رہتا ہے- لیکن جب یہی چیزیں اس سے چھن جائیں تو تب اسے احساس ہو تا ہے کہ وہ کیسی نعمتوں سے اور کیسے رشتوں سے محروم ہوگیا ہے-اللہ ہمیں اپنا شکر گذار بندہ بنائے-
 
مثالی شخصیت
ایک حکایت ہے کہ ایک بزرگ تھے جو حکیم صاحب کے نام سے مشہورتھے۔ حکمت کرتے تھے۔ لوگوں کا دکھ سکھ میں ساتھ دیتے تھے۔ سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دنیاوی مال و اسباب ان کے پاس بہت کم تھا لیکن اس کے باوجود ان کے گھر والے، رشتہ دار اور محلے کے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔
ایک دوسرے بزرگ بھی اسی محلے میں رہتے تھے وہ بھی چاہتے تھے کہ سارے لوگ ان کی عزت کریں لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیسے ہو۔ ایک دن وہ حکیم صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حکیم صاحب مجھے بھی وہ طریقہ بتائیں جس پر میں عمل کروں اور سارے لوگ میری بھی اسی طرح عزت کریں جیسی وہ آپ کی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا کہ بہت آسان طریقہ ہے میں ابھی آپ کو بتا دیتا ہوں۔
حکیم صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کو آواز دی ۔ وہ بڑے احترام سے حاضر ہو گیا تو حکیم صاحب نے کہا کہ باورچی خانے سے گھی کا نیا ڈبہ اٹھا کے لاؤ۔ وہ گیا ڈبہ اٹھاکے لایا۔ حکیم صاحب کو دیا اور ادب سے کھڑا ہوگیا۔حکیم صاحب نے کہا کہ اسے کھولو اور گھی باہر جاکر ضائع کردو۔بیٹے نے ایسا ہی کیا تو حکیم صاحب نے اسے گھر واپس بھیج دیا۔
اس کے بعد حکیم صاحب نے بزرگ کو کہا کہ بس یہی نسخہ ہے۔ بزرگ بہت خوش ہو گیا کہ یہ تو بہت ہی سستا نسخہ ہے صرف ایک گھی کے ڈبے کا خرچہ ہے۔ میں ابھی اس کو آزماتا ہوں۔

وہ خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ گھر جاکر اس نے اپنے بڑے بیٹے کو آواز دی کہ جلدی سے میرے پاس آؤ۔ اس نے کہا ابا میں ایک ضروری کام میں مصروف ہو ں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بزرگ نے کہا کہ چھوڑو ضروری کام تم بس جلدی سے آجاؤ۔ تھوڑی دیر بعد بیٹا منہ بناتا ہوا آیا اور کہا کہ کیا مصیبت آگئی ہے۔ جلدی بتائیں مجھے دیر ہورہی ہے میں نے اپناضروری کام کرنا ہے۔ بزرگ نے کہا بیٹا ! بس تھوڑی دیر کا کام ہے اس کے بعد تم چلے جانا۔ ایسا کرو کہ جاؤ اور باورچی خانے سے گھی کا نیا ڈبہ اٹھا کے لاؤ۔ بیٹے نے کہا کہ کیوں اس کا کیا کرنا ہے۔ بزرگ نے کہا بیٹے تم بس جاؤ اور ڈبہ لے آؤ۔ بہر حال بیٹا ڈبہ لے آیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ لیں ڈبہ اب میں جاؤں۔ بزرگ نے کہا کہ بس تھوڑی دیر اور۔ اب تم ایسا کرو کہ ڈبہ کھولو اور گھی باہر جاکر ضائع کردو۔ بیٹے نے کہا ابا جی یہ آپ کیا کہ رہےہیں۔ میں کیوں خواہ مخواہ گھی ضائع کردوں۔بزرگ نے کہا کہ بیٹا میں کہ رہا ہوں نا بس تم اسے ضائع کردو پھر چلے جانا۔ بیٹے نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتنا مہنگا گھی ہے جو اتنی مشکل سے پیسہ کما کے میں لایا ہوں میں کیوں اسے ضائع کردوں۔
بزرگ نے سوچا یہ تو میرا کام خراب کررہاہے۔ اس نے سختی سے بیٹے کو کہا کہ جو میں کہ رہا ہوں وہ کرو۔ بیٹے نے اپنی ماں کو بلایا اور کہا کہ اباجی کو سمجھائیں یہ آج کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ بزرگ کی بیوی نے جب ساری بات سنی تو وہ بھی بزرگ کو ڈانٹنے لگی کہ میاں تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ یہ تم کیا کہ رہے ہو۔ بزرگ نے پھر سختی سے کام لینا چاہا تو بیٹے اور بیوی نے شور مچا کر محلے والوں کو بلا لیا اور ان کو ساری بات بتائی۔ محلے والوں نے بزرگ کو سمجھانا چاہا تو وہ ان سے بھی لڑنے لگے کہ میں ان کا بڑا ہوں میرے گھر والے میری بات کیوں نہیں مان رہے۔ آپ ان کو سمجھائیں۔ لوگوں نے کہا کہ واقعی بڑے میاں کے دماغ پر کوئی اثر ہوگیا ہے اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ انہیں کسی حکیم کے پاس لے جائیں۔
گھر والے بزرگ کو اسی حکیم صاحب کے پاس لے گئے جن کے نسخے پر عمل کرتے کرتے بزرگ کا یہ حال ہوا تھا۔حکیم صاحب نے گھر والوں کو یہ کہ کے واپس بھیج دیاکہ آپ کے بزرگ ٹھیک ہوکر واپس آجائیں گے۔ ان کے جانے کے بعد حکیم صاحب نے بزرگ کا حال پوچھا تو بزرگ نے ساری کہانی ان کے گوش گذار کردی۔ حکیم صاحب نے بزرگ کو سمجھایا کہ جو میں نے تمہارے سامنے کیا تھا وہ تو علامتی تھا۔ اصل نسخہ تومیری اس زندگی میں ہے جو میں نے اب تک گذاری ہے۔ گھر والوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ میرے اب تک کے رویے نے ان کو یقین دلادیا ہے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ہمیشہ ان کی بھلائی کے لیے کروں گا اس لیے سارے لوگ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور میری عزت کرتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
لوگوں کا دکھ سکھ میں ساتھ دیتے تھے۔

سادہ زندگی گزارتے تھے۔

دنیاوی مال و اسباب ان کے پاس بہت کم تھا

عموماً اس قسم کے بزرگوں سے اُن کے گھر والے بیزار ہی ہوتے ہیں۔ :)

اور اُن کے نزدیک بزرگوار کے اس قسم کے رویّے کے باعث اُنہیں تنگی اور عسرت کا سامنا ہے۔

کہانی والے بزرگ کچھ زیادہ ہی پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
 
عموماً اس قسم کے بزرگوں سے اُن کے گھر والے بیزار ہی ہوتے ہیں۔ :)

اور اُن کے نزدیک بزرگوار کے اس قسم کے رویّے کے باعث اُنہیں تنگی اور عسرت کا سامنا ہے۔

کہانی والے بزرگ کچھ زیادہ ہی پہنچے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
یہی تو ان کا کمال تھا کہ وہ صرف خود ہی ان خوبیوں کے مالک نہیں تھے بلکہ انہوں نے نہایت حکمت کے ساتھ گھر والوں کو بھی انہی خوبیوں کا معترف اور مالک بنایا تھا۔ یا یوں سمجھیں کہ ان کے اخلاص کی وجہ سے اللہ پاک کا ان پہ انعام تھا کہ گھر والے بھی ان خوبیوں کو پسند کرتے تھے۔
 
کچھوے اور خرگوش کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی

ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ کچھوے اور خرگوش میں دوڑ کا مقابلہ ہوتا ہے۔ دوڑ کے آغاز میں ہی ہے خرگوش اپنی تیز رفتاری کی بنا پرکچھوے سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ مگر ہدف پر پہنچنے سے قبل خرگوش کو خیال آتا ہے کہ کچھوا تو ابھی بہت زیادہ پیچھے ہے ، اس لیے اسے کچھ دیر درخت کے سائے میں لیٹ کرسَستالینا چاہیے۔لہٰذا وہ آرام کرنے لیٹتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ کچھوا بغیر رکے آہستہ آہستہ چلتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ وہ سوئے ہوئے خرگوش سے آگے نکل جاتا ہے اور پھر ہدف تک پہنچ جاتا ہے۔ جب خرگوش کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ دوڑ کر ہدف تک پہنچتا ہے تودیکھتا ہے کہ کھچوا وہاں پہلے سے موجود ہے۔ اس طرح خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باوجود یہ دوڑ ہار جاتا ہے۔

سبق نمبر1 : خرگوش کی طرح انسان کو کبھی غیر ضروری طور پر خود اعتمادی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ،
سبق نمبر2 : کسی کے مزاج کے فرق کی وجہ سے اس کی صلاحیت کو کم ترنہیں سمجھنا چاہئے۔
سبق نمبر3 : مستقل مزاجی اور ہمت ایک بہت بڑ ی صفت ہےجوکامیابی کازینہ ہے، جس کا مظاہرہ کچھوے نے کیا۔

لیکن یہ کہانی یہاں پہر ختم نہیں ہوتی بلکہ دوڑ ہارنے کے بعد اپنی ہار سے سبق سیکھتے ہوئے خرگوش دوبارہ مقابلہ رکھتا ہے اور اس دفعہ بغیر رکے دوڑ تا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ ایک بڑ ے فرق سے کچھوے کو شکست دے دیتا ہے۔

سبق نمبر 4 :اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ مستقل مزاجی اور اپنے مقصد سے لگاؤہوتو انسان اپنے مقصد میں کامیاب ہوتاہے۔
سبق نمبر 5: اپنی ہار سے دلبرداشتہ ہونے کی بجائے سبق سیکھتے ہوئے دوبارہ میدان میں اترنے والے آخر کار جیت جاتے ہیں۔

کہانی ابھی بھی ختم نہیں ہوئی ۔کچھوا سوچتا ہے کہ رفتار میں وہ خرگوش کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ اپنی صلاحیتوں پر غور کرتا ہے ۔ پھر وہ ایک ایسا میدان دریافت کرتا ہے جس کے راستے میں ندی نالے ہوں اور اس میدان میں خرگوش کو دوڑنے کا چیلنج کرتا ہے۔ دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک دفعہ پھر خرگوش عزم کے ساتھ بھاگتا ہے کہ وہ ہدف سے پہلے ہرگز نہیں رکے گا۔ مگر دوڑ تے دوڑ تے اچانک اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سامنے ایک چوڑی ندی ہے۔وہ پریشان ہوکر پل تلاش کرتاہے اور پل سے ندی پار کرکے پھر دوڑنے لگتا ہے۔ اسی طرح سارے ندی نالے پار کرنے کے لیے پہلے وہ پل پر جاتا ہے اور پھر واپس آکر دوڑ شروع کرتا ہے۔ لیکن کچھوا تمام ندی نالے تیر کر پار کر لیتا ہے اور ہدف پر پہلے پہنچ جاتا ہے۔ اور خرگوش مستقل مزاجی اور بھاگنے کی اعلیٰ صلاحیت کے باوجود ہار جاتا ہے۔

سبق نمبر 6 :انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ غور و فکر کی صلاحیت کو استعمال کر کے اپنے لئے ایسا میدان تلاش کرنا چاہئے جو اس کے حالات و ماحول اورمزاج کےموافق ہوتو زندگی کی دوڑ میں یہ بہت آگے نکل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نےانسان میں لازماً ایسی کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہےجس کو بروئے کار لاکروہ کامیاب ہوسکتا ہے۔
سبق نمبر7 : اعلی صلاحیت اور مستقل مزاج شخص بھی زندگی میں غلط میدان کا چناؤ کرکے ناکام ہوجاتا ہے۔

تاہم یہ کہانی ابھی بھی ختم نہیں ہوئی۔اب کچھوا اور خرگوش فیصلہ کرتے ہیں کہ کیوں نہ ہم مل کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر ہدف تک پہنچیں۔ دونوں مل کر دوڑتے ہیں۔ جہاں میدان ہوتا ہے خرگوش کچھوے کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے دوڑتا ہے اور جہاں پانی ہوتا ہے کچھوا خرگوش کو اپنے اوپر اٹھا کر تیر تا ہے۔ یہاں تک کہ دونوں بہت جلد اپنے ہدف تک پہنچ جاتے ہیں۔


سبق نمبر 8 : مل جل کر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مشکل ہدف کو بھی آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔


تحریر: محمد مختار حسن (تھوڑی سی ترمیم کے بعد)​
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
یہ واقعہ تقریباً آج سے بیس بائیس برس قبل کا ہے۔ میرا ایک دوست ہے۔ وہ انتہائی شریف اور بے ضرر سا انسان ہے۔ ایک مرتبہ میں اس کی دُکان پر گیا، اُس دن اُس کا مزاج بالکل بدلا ہوا تھا۔ میں نے سلام کیا تو اُس نے بے دلی اور دھیمی آواز میں سلام کا جواب دیا۔ اور اپنے چھوٹے بھائی کو کاؤنٹر پر بِٹھا کر چلتا بنا۔ مجھے اُس کے رویے پر غصہ آنے کی بجائے حیرت ہوئی۔ کیونکہ میں نے اسے ایسا رویہ کسی غیر سے بھی روا رکھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اس کے چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو وہ کہنے لگا مجھے بھی کچھ علم نہیں ہے۔ بس بھائی نے کسی کو کال کی تو اس کے بعد سے یہی حال ہے۔ میں بھی پھر واپس گھر کی طرف چل دیا۔ ابھی اس واقعہ کو ایک گھنٹہ ہی گزرا ہو گا کہ اس کی کال آئی۔ میں نے اوکے کا بٹن دبایا ہی تھا کہ مسلسل اس کی طرف سے معذرت کی تکرار شروع ہو گئی۔ کہنے لگا یار! میں ذرا ڈسٹرب تھا۔ تو مجھے معاف کر دو۔ میں نے کہا معافی تلافی کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے۔ کہنے لگا اگر زحمت نہ ہو تو میری دُکان پر کل صبح تشریف لائیے گا۔ وہیں بیٹھ کر بات کریں گے۔
اگلے دن میں پھر اس کی دُکان پر پہنچا۔ رسمی سلام دعا کے بعد اس نے مجھے بتانا شروع کیا کہ "ماہ رمضان (جس کو گزرے تقریباً تین ماہ ہو چکے تھے) کا ستائیس کا روزہ تھا۔ اور ابھی افطاری سے تقریباً آدھا گھنٹہ رہتا تھا کہ میرے پاس ایک فیملی آئی۔ دیکھنے سے انتہائی سلجھے ہوئے فیملی تھی۔ جن میں ایک مرد اور ایک عورت شاید میاں بیوی ہوں گے۔ اور ایک لڑکی پندرہ سولہ برس کی ہو گی۔ اور ایک لڑکا تقریباً پانچ برس کا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ ہم حضرت سخی سرور رح ( ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے تقریباً پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کی طرف جاتے ہوئے) کے مزار پر حاضری کے لیے گئے تھے۔ وہاں ہمارے پیسے کھو گئے۔ اب وہاں سے یہاں شہر تک کسی کی منتیں کر کے پہنچ گئے ہیں۔ لیکن ہمارا گھر اسلام آباد میں ہے۔ ہم نے واپس جانا ہے۔ تو براہِ کرم آپ ہماری مدد فرمائیں۔ ہم اسلام آباد پہنچتے ہی آپ کو پیسے بھجوا دیں گے۔
چونکہ بہت سے فراڈی لوگ مارکیٹ میں گھومتے پھرتے دکھائی دے جاتے ہیں۔ جن کی کہانی بھی اسی قسم کی ہوتی ہے۔ میں نے انہی اندیشوں کے وجہ سے ان سے معذرت کر لی۔ جیسے ہی وہ فیملی جانے لگی۔ اس فیملی کے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ ساتھ میرے دل میں جیسے کوئی ضربیں لگا رہا تھا کہ تو نے ان مجبور مسافروں کا لحاظ نہ کیا جس کا حق اللہ نے تیرے مال میں رکھ دیا ہے۔ ماہ رمضان کا لحاظ نہ کیا۔ ستائیسویں روزے کا لحاظ نہ کیا۔ افطاری کا وقت ہونے والا ہے اس کا لحاظ نہ کیا۔ غرض ہر بات میرے نفس پر ایک تازیانے کی طرح پڑ رہی تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا اور ان کے قدم بڑھتے جا رہے تھے۔ آخر میں نے تمام اندیشوں کو پسِ پشت ڈالا اور ان کو بلایا۔ چونکہ افطاری کا وقت تقریباً ہونے والا تھا۔ کسی قسم کا شور شرابا نہ تھا۔ وہ میری آواز سن کر پلٹے اور میرے بلانے کا اشارہ پا کر واپس میری دکان پر آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کتنی رقم درکار ہے تو اس آدمی نے اندازے سے کہا کہ پانچ ہزار سے کام چل جائے گا (تب ڈیرہ غازی خان سے لاہور کی ائیر کنڈیشنڈ بس کی ٹکٹ اڑھائی سو کی آیا کرتی تھی) حالانکہ انہوں نے رقم ضرورت سے زیادہ بتائی تھی لیکن میرے دل کی کیفیت جس وجہ سے بدلی ہوئی تھی۔ میں نے پروا نہ کی۔ آناً فاناً انہیں پیسے دے دئیے۔ اس آدمی نے اپنا موبائل نمبر مجھے دیا اور میرا نمبر لے لیا۔ کہنے لگا کہ ہم گھر واپس پہنچتے ہی آپ کے پیسے واپس بھیج دیں گے۔
میں نے ان سے ایک ماہ تک کوئی رابطہ نہیں کیا کہ ممکن ہے کہ ان کے پاس ابھی پیسے نہیں ہوں گے۔ وہ فرصت سے بھیج دیں گے۔ پھر دوسرے مہینے میں ایک مرتبہ میں نے کال کی تو کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آج جب میں نے کال کی تو انہوں نے مجھے وہ گالیاں دیں کہ الحفیظ الامان۔ میرے زندہ مردہ کسی رشتے کو انہوں نے نہ بخشا۔ میں نے کال بند کر دی۔ میرے کانوں میں جیسے نے سیسا پگھلا کے ڈال دیا ہو۔ مجھے چکر سے آنے لگے۔ ابھی یہ کیفیت طاری تھی کہ آپ آ پہنچے جس وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے بے اعتنائی برتنی پڑی کیونکہ مجھے خود سے لڑنے کے لیے وقت درکار تھا۔"
میں سوچتا ہوں کہ ایک دھوکے باز کے دھوکے نے ناجانے کتنے ہی حق داروں کا حق مارا۔ اب کسی کو حقیقتاً ضرورت ہو گی تب بھی یہ آدمی کیسے کسی پر اعتبار کر پائے گا۔ اللہ پاک میرے اس دوست کے دل کو مطمئن اور اپنی رضا پر راضی رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اور اُس دھوکے باز کو بھی اس بات کا ادراک ہو جائے کہ یہ دنیا ایک دھوکے کا گھر ہے۔ اس کا مال و متاع سب دھوکہ ہے۔ اور ایسی روش سے باز رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
یہی واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آچکا ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اس طرح کے واقعات سے بندہ دل برداشتہ ہوتا ہے اور نتیجہ یہ کے اکثر مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اسطرح افسوسناک پہلو یہ بنتا ہے کہ حق دار اور مستحق بندہ رہ جاتا ہے ۔۔۔مندر جہ بالا سے ایک واقہ مجھے بھی یاد آیا میں ایک جگہ سے آ رہا تھا ایک خاتون نے مجھے راشن کی مدد کے لیے کہا کہ اس کے گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہیں کچھ بھی نہیں ہے کچھ راشن دلا دو بھلے پیسے نہ دو ۔۔میری بھی تنخواہ اس زمانے میں اتنی نہیں تھی مگر مدد کے جذبے کے تحت میں نے جو ممکن ہو سکا دکان سے لے دیا ۔۔اور آگے بڑھ گیا پھر اتفاق سے کسی وجہ سے مجھے فوری واپس اسی جگہ پلٹنا پڑا دیکھا وہی خاتون جسے میں نے راشن دلایا تھا دکان دار کو واپس کر رہی تھی۔۔اسی طرح ایک بس میں ایک بابینا صاحب کے ہاتھ پر کچھ رپے رکھے وہ لے کر دروازے سے اتر گیا میری نظر بے اختیار کھڑکی سے باہر گئی تو وہ صاحب نوٹ چیک کر رہے تھے کہ کتنے کتنے کے ہیں ۔۔۔:D۔اب بتائیں کیا کیا جائے ایسی صورتحال میں۔۔۔:unsure:
 
اس طرح کے واقعات سے بندہ دل برداشتہ ہوتا ہے اور نتیجہ یہ کے اکثر مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اسطرح افسوسناک پہلو یہ بنتا ہے کہ حق دار اور مستحق بندہ رہ جاتا ہے ۔۔۔مندر جہ بالا سے ایک واقہ مجھے بھی یاد آیا میں ایک جگہ سے آ رہا تھا ایک خاتون نے مجھے راشن کی مدد کے لیے کہا کہ اس کے گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہیں کچھ بھی نہیں ہے کچھ راشن دلا دو بھلے پیسے نہ دو ۔۔میری بھی تنخواہ اس زمانے میں اتنی نہیں تھی مگر مدد کے جذبے کے تحت میں نے جو ممکن ہو سکا دکان سے لے دیا ۔۔اور آگے بڑھ گیا پھر اتفاق سے کسی وجہ سے مجھے فوری واپس اسی جگہ پلٹنا پڑا دیکھا وہی خاتون جسے میں نے راشن دلایا تھا دکان دار کو واپس کر رہی تھی۔۔اسی طرح ایک بس میں ایک بابینا صاحب کے ہاتھ پر کچھ رپے رکھے وہ لے کر دروازے سے اتر گیا میری نظر بے اختیار کھڑکی سے باہر گئی تو وہ صاحب نوٹ چیک کر رہے تھے کہ کتنے کتنے کے ہیں ۔۔۔:D۔اب بتائیں کیا کیا جائے ایسی صورتحال میں۔۔۔:unsure:
دل برداشتگی کے ان سب واقعات کے باوجود حق دار اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے کا فرض ساقط نہیں ہوجاتا۔
 

حماد علی

محفلین
جنات کے وجود پر تو مجھے یقین ہے لیکن میں کبھی ان روایتی باتوں کا قائل نہیں رہا کہ جنات کا کسی انسان پر سایہ وغیرہ ہو جاتا ہے اور یہ تعویذ وغیرہ کے معاملات ۔
میری والدہ خاصی پریکٹیکل اور سمجھدار قسم کی خاتون ہیں ، روایتی ماؤں اور روایتی پاکستانی خواتین سے خاصی مختلف ۔
میرے چھوٹے بھائی کی عمر اس وقت پانچ برس ہے ، مجھ سے سولہ برس چھوٹا ہے عمر میں ۔
اس کی پیدائش کے بعد سے گھر کے حالات کچھ عجیب و غریب ہو رہے تھے ، پتا نہیں کیوں میری والدہ کو لگنے لگا کے ان معاملات کا تعلق جادو وغیرہ کے معاملات سے ہے ۔
خیر ، والدہ نے قرآنی وظائف وغیرہ شروع کر دیے گھر میں، جس سے کچھ بہتری آئی معاملات میں ۔
انہیں دنوں ہماری پڑوسن خاتون کا انتقال ہو گیا ۔
مہمان کافی زیادہ تھے ان کے سو ہم نے انہیں اپنے گھر کا کچھ حصہ استعمال کے لیے دے دیا ۔
مہمانوں میں، اس علاقے کی مسجد کے امام صاحب بھی شامل تھے، خاصے نیک نام۔
میرے والد سے انہوں نے کہا کے تنہائی میں سب گھر والوں کو اکٹھا کر لیں تو انہیں کچھ بات کرنی ہے ۔
ہم گھر والے بیٹھے ان کے ساتھ تو صاحب کہنے لگے:" آپ کے گھر میں داخل ہو کر مجھے خاصہ بھاری پن محسوس ہوا ، آپ کے گھر کے ساتھ کچھ سفلی معاملات ہیں ، کیا آپ لوگ کچھ ایسا محسوس کرتے ہیں؟"
والدہ نے جواباً ساری بات کہ سنائی ، امام صاحب کہنے لگے: "دیکھیں جی یہ جس طرح کے معاملات آپ لوگوں کے ساتھ چل رہے ہیں قرآنی وظائف سے حل نہیں ہونے والے! اتنے سخت سفلی معاملات کا توڑ صرف 'سفلی' سے ہو سکتا ہے ۔ میں نوری اور سفلی دونوں علوم جانتا ہوں ، اگر آپ لوگ کہیں تو 'اللہ کے حکم' سے علاج کر دونگا"۔
خیر خاصی طویل گفتگو ہوئی ، میں تو خاموش ہی رہا ، شکر الحمداللہ! والدین نے بڑے سلیقے سے امام صاحب کو چلتا کیا ۔
اس واقعے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ ذہن نے کہا ایسا ممکن ہی نہیں نوری اور سفلی علوم ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں جس کا تعلق سفلی سے ہے اس کا نوری معاملات سے کیا تعلق؟ لیکن میرے لیے حیرت ناک بات یہی تھی کہ جامعہ مسجد کا امام جو نمازیں پڑھاتا ہے لوگوں کو، خطبے دیتا ہے ممبر پر اور لوگ جس پر بھروسہ کرتے ہیں... ایسے شخص کے بارے کون یقین کرے گا کہ سفلی علوم میں ملوث ہے ، جب کہ یہی لوگ ممبر پر بیٹھے، بتاتے ہیں کے کالا جادو کرنے والا جہنمی ہے !
 

حماد علی

محفلین
یہ واقعہ تقریباً آج سے بیس بائیس برس قبل کا ہے۔ میرا ایک دوست ہے۔ وہ انتہائی شریف اور بے ضرر سا انسان ہے۔ ایک مرتبہ میں اس کی دُکان پر گیا، اُس دن اُس کا مزاج بالکل بدلا ہوا تھا۔ میں نے سلام کیا تو اُس نے بے دلی اور دھیمی آواز میں سلام کا جواب دیا۔ اور اپنے چھوٹے بھائی کو کاؤنٹر پر بِٹھا کر چلتا بنا۔ مجھے اُس کے رویے پر غصہ آنے کی بجائے حیرت ہوئی۔ کیونکہ میں نے اسے ایسا رویہ کسی غیر سے بھی روا رکھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے اس کے چھوٹے بھائی سے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو وہ کہنے لگا مجھے بھی کچھ علم نہیں ہے۔ بس بھائی نے کسی کو کال کی تو اس کے بعد سے یہی حال ہے۔ میں بھی پھر واپس گھر کی طرف چل دیا۔ ابھی اس واقعہ کو ایک گھنٹہ ہی گزرا ہو گا کہ اس کی کال آئی۔ میں نے اوکے کا بٹن دبایا ہی تھا کہ مسلسل اس کی طرف سے معذرت کی تکرار شروع ہو گئی۔ کہنے لگا یار! میں ذرا ڈسٹرب تھا۔ تو مجھے معاف کر دو۔ میں نے کہا معافی تلافی کو چھوڑو، یہ بتاؤ کہ معاملہ کیا ہے۔ کہنے لگا اگر زحمت نہ ہو تو میری دُکان پر کل صبح تشریف لائیے گا۔ وہیں بیٹھ کر بات کریں گے۔
اگلے دن میں پھر اس کی دُکان پر پہنچا۔ رسمی سلام دعا کے بعد اس نے مجھے بتانا شروع کیا کہ "ماہ رمضان (جس کو گزرے تقریباً تین ماہ ہو چکے تھے) کا ستائیس کا روزہ تھا۔ اور ابھی افطاری سے تقریباً آدھا گھنٹہ رہتا تھا کہ میرے پاس ایک فیملی آئی۔ دیکھنے سے انتہائی سلجھے ہوئے فیملی تھی۔ جن میں ایک مرد اور ایک عورت شاید میاں بیوی ہوں گے۔ اور ایک لڑکی پندرہ سولہ برس کی ہو گی۔ اور ایک لڑکا تقریباً پانچ برس کا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ ہم حضرت سخی سرور رح ( ہمارے شہر ڈیرہ غازی خان سے تقریباً پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کی طرف جاتے ہوئے) کے مزار پر حاضری کے لیے گئے تھے۔ وہاں ہمارے پیسے کھو گئے۔ اب وہاں سے یہاں شہر تک کسی کی منتیں کر کے پہنچ گئے ہیں۔ لیکن ہمارا گھر اسلام آباد میں ہے۔ ہم نے واپس جانا ہے۔ تو براہِ کرم آپ ہماری مدد فرمائیں۔ ہم اسلام آباد پہنچتے ہی آپ کو پیسے بھجوا دیں گے۔
چونکہ بہت سے فراڈی لوگ مارکیٹ میں گھومتے پھرتے دکھائی دے جاتے ہیں۔ جن کی کہانی بھی اسی قسم کی ہوتی ہے۔ میں نے انہی اندیشوں کے وجہ سے ان سے معذرت کر لی۔ جیسے ہی وہ فیملی جانے لگی۔ اس فیملی کے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ ساتھ میرے دل میں جیسے کوئی ضربیں لگا رہا تھا کہ تو نے ان مجبور مسافروں کا لحاظ نہ کیا جس کا حق اللہ نے تیرے مال میں رکھ دیا ہے۔ ماہ رمضان کا لحاظ نہ کیا۔ ستائیسویں روزے کا لحاظ نہ کیا۔ افطاری کا وقت ہونے والا ہے اس کا لحاظ نہ کیا۔ غرض ہر بات میرے نفس پر ایک تازیانے کی طرح پڑ رہی تھی۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا اور ان کے قدم بڑھتے جا رہے تھے۔ آخر میں نے تمام اندیشوں کو پسِ پشت ڈالا اور ان کو بلایا۔ چونکہ افطاری کا وقت تقریباً ہونے والا تھا۔ کسی قسم کا شور شرابا نہ تھا۔ وہ میری آواز سن کر پلٹے اور میرے بلانے کا اشارہ پا کر واپس میری دکان پر آ گئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کتنی رقم درکار ہے تو اس آدمی نے اندازے سے کہا کہ پانچ ہزار سے کام چل جائے گا (تب ڈیرہ غازی خان سے لاہور کی ائیر کنڈیشنڈ بس کی ٹکٹ اڑھائی سو کی آیا کرتی تھی) حالانکہ انہوں نے رقم ضرورت سے زیادہ بتائی تھی لیکن میرے دل کی کیفیت جس وجہ سے بدلی ہوئی تھی۔ میں نے پروا نہ کی۔ آناً فاناً انہیں پیسے دے دئیے۔ اس آدمی نے اپنا موبائل نمبر مجھے دیا اور میرا نمبر لے لیا۔ کہنے لگا کہ ہم گھر واپس پہنچتے ہی آپ کے پیسے واپس بھیج دیں گے۔
میں نے ان سے ایک ماہ تک کوئی رابطہ نہیں کیا کہ ممکن ہے کہ ان کے پاس ابھی پیسے نہیں ہوں گے۔ وہ فرصت سے بھیج دیں گے۔ پھر دوسرے مہینے میں ایک مرتبہ میں نے کال کی تو کسی نے جواب نہ دیا۔ پھر آج جب میں نے کال کی تو انہوں نے مجھے وہ گالیاں دیں کہ الحفیظ الامان۔ میرے زندہ مردہ کسی رشتے کو انہوں نے نہ بخشا۔ میں نے کال بند کر دی۔ میرے کانوں میں جیسے نے سیسا پگھلا کے ڈال دیا ہو۔ مجھے چکر سے آنے لگے۔ ابھی یہ کیفیت طاری تھی کہ آپ آ پہنچے جس وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے بے اعتنائی برتنی پڑی کیونکہ مجھے خود سے لڑنے کے لیے وقت درکار تھا۔"
میں سوچتا ہوں کہ ایک دھوکے باز کے دھوکے نے ناجانے کتنے ہی حق داروں کا حق مارا۔ اب کسی کو حقیقتاً ضرورت ہو گی تب بھی یہ آدمی کیسے کسی پر اعتبار کر پائے گا۔ اللہ پاک میرے اس دوست کے دل کو مطمئن اور اپنی رضا پر راضی رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اور اُس دھوکے باز کو بھی اس بات کا ادراک ہو جائے کہ یہ دنیا ایک دھوکے کا گھر ہے۔ اس کا مال و متاع سب دھوکہ ہے۔ اور ایسی روش سے باز رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
اس سے ملتا جلتا ایک چھوٹا سا واقعہ ابھی چند مہینے قبل ہی میرے ایک خاصے پرانے دوست کے ساتھ ہوا ۔
تعلیم کے سلسلے میں ہماری رہائش پنڈی شہر میں ہے۔ ابھی پنڈی گئے ہمیں بمشکل ایک ماہ ہوا تھا ، ایک دن اکیڈمی سے واپس ہاسٹل پہنچا تو دوست بتانے لگا کہ آج اکیڈمی سے گھر آتے ایک بائک والا ملا ، کوئی برقعہ پوش خاتون بھی تھیں اس کے ساتھ۔ کہنے لگا کہ پیٹرول ختم ہو چکا ہے اور بٹوہ بھی کہیں گر گیا ہے، کچھ پیسے دے دیں میں واپس پہنچ کر آپ کو ایزی پیسہ کر دونگا ۔ دوست بیچارے کے پاس کھلے پیسے نہیں تھے انہوں نے ہزار روپے کا نوٹ تھما دیا ۔
یہ واقعہ سن میں تو بہت ہنسا کیونکہ میرے ساتھ پہلے اس سے ملتا جلتا کچھ ہو چکا تھا ( بس 300 روپے کا نقصان اٹھا کر اچھا سبق مل گیا تھا مجھے) ۔
خیر دوست کو بتایا کہ یہاں پنڈی شہر میں ایسے بہت سے فراڈ موجود ہیں۔ بیچارہ کہنے لگا کہ خاتون اس کے ساتھ تھیں تو مجھے لگا کہ واقعی کوئی مصیبت زذہ فیملی ہے!
 

سیما علی

لائبریرین
میری بھی تنخواہ اس زمانے میں اتنی نہیں تھی مگر مدد کے جذبے کے تحت میں نے جو ممکن ہو سکا دکان سے لے دیا ۔۔اور آگے بڑھ گیا پھر اتفاق سے کسی وجہ سے مجھے فوری واپس اسی جگہ پلٹنا پڑا دیکھا وہی خاتون جسے میں نے راشن دلایا تھا دکان دار کو واپس کر رہی تھی۔۔
بھیا پروردگار کو ایسے لوگ بہت پسند ہیں جو اپنے تھوڑے میں سے بھی دیتے ہیں اور اُسکے بندوں کا خیال رکھتے ہیں بارہا ایسا ہو ا پر شکرُ ہے اُس پاک ذات کا کہ اُس نے ہمارا دل ایسا بنا یا کہ ہمیں لوگوں کا درد محسوس ہوتا ہے ۔۔۔
؀تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
اسی لئے تو آپ ہمارے بھیا ہیں !!!!!آپکی نیکی پرودگار کی بارگاہ میں آپکی نیت سے قبول ہوگئی !!!!
 
جنات کے وجود پر تو مجھے یقین ہے لیکن میں کبھی ان روایتی باتوں کا قائل نہیں رہا کہ جنات کا کسی انسان پر سایہ وغیرہ ہو جاتا ہے اور یہ تعویذ وغیرہ کے معاملات ۔
میری والدہ خاصی پریکٹیکل اور سمجھدار قسم کی خاتون ہیں ، روایتی ماؤں اور روایتی پاکستانی خواتین سے خاصی مختلف ۔
میرے چھوٹے بھائی کی عمر اس وقت پانچ برس ہے ، مجھ سے سولہ برس چھوٹا ہے عمر میں ۔
اس کی پیدائش کے بعد سے گھر کے حالات کچھ عجیب و غریب ہو رہے تھے ، پتا نہیں کیوں میری والدہ کو لگنے لگا کے ان معاملات کا تعلق جادو وغیرہ کے معاملات سے ہے ۔
خیر ، والدہ نے قرآنی وظائف وغیرہ شروع کر دیے گھر میں، جس سے کچھ بہتری آئی معاملات میں ۔
انہیں دنوں ہماری پڑوسن خاتون کا انتقال ہو گیا ۔
مہمان کافی زیادہ تھے ان کے سو ہم نے انہیں اپنے گھر کا کچھ حصہ استعمال کے لیے دے دیا ۔
مہمانوں میں، اس علاقے کی مسجد کے امام صاحب بھی شامل تھے، خاصے نیک نام۔
میرے والد سے انہوں نے کہا کے تنہائی میں سب گھر والوں کو اکٹھا کر لیں تو انہیں کچھ بات کرنی ہے ۔
ہم گھر والے بیٹھے ان کے ساتھ تو صاحب کہنے لگے:" آپ کے گھر میں داخل ہو کر مجھے خاصہ بھاری پن محسوس ہوا ، آپ کے گھر کے ساتھ کچھ سفلی معاملات ہیں ، کیا آپ لوگ کچھ ایسا محسوس کرتے ہیں؟"
والدہ نے جواباً ساری بات کہ سنائی ، امام صاحب کہنے لگے: "دیکھیں جی یہ جس طرح کے معاملات آپ لوگوں کے ساتھ چل رہے ہیں قرآنی وظائف سے حل نہیں ہونے والے! اتنے سخت سفلی معاملات کا توڑ صرف 'سفلی' سے ہو سکتا ہے ۔ میں نوری اور سفلی دونوں علوم جانتا ہوں ، اگر آپ لوگ کہیں تو 'اللہ کے حکم' سے علاج کر دونگا"۔
خیر خاصی طویل گفتگو ہوئی ، میں تو خاموش ہی رہا ، شکر الحمداللہ! والدین نے بڑے سلیقے سے امام صاحب کو چلتا کیا ۔
اس واقعے نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ ذہن نے کہا ایسا ممکن ہی نہیں نوری اور سفلی علوم ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں جس کا تعلق سفلی سے ہے اس کا نوری معاملات سے کیا تعلق؟ لیکن میرے لیے حیرت ناک بات یہی تھی کہ جامعہ مسجد کا امام جو نمازیں پڑھاتا ہے لوگوں کو، خطبے دیتا ہے ممبر پر اور لوگ جس پر بھروسہ کرتے ہیں... ایسے شخص کے بارے کون یقین کرے گا کہ سفلی علوم میں ملوث ہے ، جب کہ یہی لوگ ممبر پر بیٹھے، بتاتے ہیں کے کالا جادو کرنے والا جہنمی ہے !
میرے خیال میں اللہ پر یقین رکھنے والے ( کہ وہی قادر مطلق ہے) کسی بندے کا مافوق الفطرت یعنی نہ سمجھ میں آنے والے واقعات کے بارے میں کسی آج کے شخص پر یہ یقین رکھنا کہ وہ ان کو رونما کرنے یا ان کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ بھی نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ نوری اور سفلی کی بحث تو بعد میں شروع ہوتی ہے۔
ضعیف الاعتقاد لوگ ہی ایسے ڈھونگیوں کے چکر میں آتے ہیں۔ آپ لوگوں کے ساتھ یہ واقعات ہو رہے تھے لیکن پھر بھی آپ امام صاحب کی باتوں میں نہیں آئے اور مجھے یقین ہے کہ کچھ دنوں بعد آپ کے حالات ٹھیک بھی ہوگئے ہونگے۔
ایسے لوگ یا ان کے مرید اپنی دکانداری چلانے کے لیے پہلے لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ تمہارے ساتھ کوئی الٹا چکر ہے۔ پھر اس کی مدد کے لیے اپنی خدمات پیش کردیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ کسی کو کچھ لکھ کردیتے ہیں کہ جا کر اپنے دشمن کو پلادو۔ لکھنے والی سیاہی میں کوئی کیمیکل ملا دیتے ہیں ۔ پینے والا جب اسے پیتا ہے تو کیمیکل اپنا اثر دکھاتا ہے۔ پھر یہ مریض کو کسی دوسرے کیمیکل ملی سیاہی سے لکھا ہوا تعویز پلاتے ہیں تو پہلے والے کیمیکل کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔
مسلمان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اللہ قادرِ مطلق پر یقین رکھے۔
 

حماد علی

محفلین
میرے خیال میں اللہ پر یقین رکھنے والے ( کہ وہی قادر مطلق ہے) کسی بندے کا مافوق الفطرت یعنی نہ سمجھ میں آنے والے واقعات کے بارے میں کسی آج کے شخص پر یہ یقین رکھنا کہ وہ ان کو رونما کرنے یا ان کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ بھی نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ نوری اور سفلی کی بحث تو بعد میں شروع ہوتی ہے۔
ضعیف الاعتقاد لوگ ہی ایسے ڈھونگیوں کے چکر میں آتے ہیں۔ آپ لوگوں کے ساتھ یہ واقعات ہو رہے تھے لیکن پھر بھی آپ امام صاحب کی باتوں میں نہیں آئے اور مجھے یقین ہے کہ کچھ دنوں بعد آپ کے حالات ٹھیک بھی ہوگئے ہونگے۔
ایسے لوگ یا ان کے مرید اپنی دکانداری چلانے کے لیے پہلے لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ تمہارے ساتھ کوئی الٹا چکر ہے۔ پھر اس کی مدد کے لیے اپنی خدمات پیش کردیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ کسی کو کچھ لکھ کردیتے ہیں کہ جا کر اپنے دشمن کو پلادو۔ لکھنے والی سیاہی میں کوئی کیمیکل ملا دیتے ہیں ۔ پینے والا جب اسے پیتا ہے تو کیمیکل اپنا اثر دکھاتا ہے۔ پھر یہ مریض کو کسی دوسرے کیمیکل ملی سیاہی سے لکھا ہوا تعویز پلاتے ہیں تو پہلے والے کیمیکل کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔
مسلمان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اللہ قادرِ مطلق پر یقین رکھے۔
بالکل ایسا ہی ہے ، مجھے خود اس طرح کی باتوں پر یقین نہیں ، حالانکہ گھر میں عجیب و غریب چیزیں ہوتی دیکھی ہیں لیکن اس بات پر کبھی یقین نہیں آیا کہ کوئی انسان ایسا کچھ کر سکتا، والدہ کے ساتھ اکثر یہی گفتگو ہوا کرتی تھی کہ جو بھی معاملات ہیں اللہ کریم کی منشا سے ہیں ۔
اور صد شکر کے ہمارے والدین بھی خاصے سمجھدار نکلے اس معاملے میں ، کسی جعلی پیر فقیر اور نوسرباز کے چکر میں نہیں پڑے !
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
اس سے ملتا جلتا ایک چھوٹا سا واقعہ ابھی چند مہینے قبل ہی میرے ایک خاصے پرانے دوست کے ساتھ ہوا ۔
تعلیم کے سلسلے میں ہماری رہائش پنڈی شہر میں ہے۔ ابھی پنڈی گئے ہمیں بمشکل ایک ماہ ہوا تھا ، ایک دن اکیڈمی سے واپس ہاسٹل پہنچا تو دوست بتانے لگا کہ آج اکیڈمی سے گھر آتے ایک بائک والا ملا ، کوئی برقعہ پوش خاتون بھی تھیں اس کے ساتھ۔ کہنے لگا کہ پیٹرول ختم ہو چکا ہے اور بٹوہ بھی کہیں گر گیا ہے، کچھ پیسے دے دیں میں واپس پہنچ کر آپ کو ایزی پیسہ کر دونگا ۔ دوست بیچارے کے پاس کھلے پیسے نہیں تھے انہوں نے ہزار روپے کا نوٹ تھما دیا ۔
یہ واقعہ سن میں تو بہت ہنسا کیونکہ میرے ساتھ پہلے اس سے ملتا جلتا کچھ ہو چکا تھا ( بس 300 روپے کا نقصان اٹھا کر اچھا سبق مل گیا تھا مجھے) ۔
خیر دوست کو بتایا کہ یہاں پنڈی شہر میں ایسے بہت سے فراڈ موجود ہیں۔ بیچارہ کہنے لگا کہ خاتون اس کے ساتھ تھیں تو مجھے لگا کہ واقعی کوئی مصیبت زذہ فیملی ہے!
اس طرح کے واقعات اکثر و بیشتر فیملی کو ساتھ لے جا کر ہی کیے جاتے ہیں کیونکہ اس طرح ہمدردی مل جاتی ہے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
مثالی شخصیت
ایک حکایت ہے کہ ایک بزرگ تھے جو حکیم صاحب کے نام سے مشہورتھے۔ حکمت کرتے تھے۔ لوگوں کا دکھ سکھ میں ساتھ دیتے تھے۔ سادہ زندگی گزارتے تھے۔ دنیاوی مال و اسباب ان کے پاس بہت کم تھا لیکن اس کے باوجود ان کے گھر والے، رشتہ دار اور محلے کے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔
ایک دوسرے بزرگ بھی اسی محلے میں رہتے تھے وہ بھی چاہتے تھے کہ سارے لوگ ان کی عزت کریں لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیسے ہو۔ ایک دن وہ حکیم صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حکیم صاحب مجھے بھی وہ طریقہ بتائیں جس پر میں عمل کروں اور سارے لوگ میری بھی اسی طرح عزت کریں جیسی وہ آپ کی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے کہا کہ بہت آسان طریقہ ہے میں ابھی آپ کو بتا دیتا ہوں۔
حکیم صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کو آواز دی ۔ وہ بڑے احترام سے حاضر ہو گیا تو حکیم صاحب نے کہا کہ باورچی خانے سے گھی کا نیا ڈبہ اٹھا کے لاؤ۔ وہ گیا ڈبہ اٹھاکے لایا۔ حکیم صاحب کو دیا اور ادب سے کھڑا ہوگیا۔حکیم صاحب نے کہا کہ اسے کھولو اور گھی باہر جاکر ضائع کردو۔بیٹے نے ایسا ہی کیا تو حکیم صاحب نے اسے گھر واپس بھیج دیا۔
اس کے بعد حکیم صاحب نے بزرگ کو کہا کہ بس یہی نسخہ ہے۔ بزرگ بہت خوش ہو گیا کہ یہ تو بہت ہی سستا نسخہ ہے صرف ایک گھی کے ڈبے کا خرچہ ہے۔ میں ابھی اس کو آزماتا ہوں۔

وہ خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ گھر جاکر اس نے اپنے بڑے بیٹے کو آواز دی کہ جلدی سے میرے پاس آؤ۔ اس نے کہا ابا میں ایک ضروری کام میں مصروف ہو ں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بزرگ نے کہا کہ چھوڑو ضروری کام تم بس جلدی سے آجاؤ۔ تھوڑی دیر بعد بیٹا منہ بناتا ہوا آیا اور کہا کہ کیا مصیبت آگئی ہے۔ جلدی بتائیں مجھے دیر ہورہی ہے میں نے اپناضروری کام کرنا ہے۔ بزرگ نے کہا بیٹا ! بس تھوڑی دیر کا کام ہے اس کے بعد تم چلے جانا۔ ایسا کرو کہ جاؤ اور باورچی خانے سے گھی کا نیا ڈبہ اٹھا کے لاؤ۔ بیٹے نے کہا کہ کیوں اس کا کیا کرنا ہے۔ بزرگ نے کہا بیٹے تم بس جاؤ اور ڈبہ لے آؤ۔ بہر حال بیٹا ڈبہ لے آیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ لیں ڈبہ اب میں جاؤں۔ بزرگ نے کہا کہ بس تھوڑی دیر اور۔ اب تم ایسا کرو کہ ڈبہ کھولو اور گھی باہر جاکر ضائع کردو۔ بیٹے نے کہا ابا جی یہ آپ کیا کہ رہےہیں۔ میں کیوں خواہ مخواہ گھی ضائع کردوں۔بزرگ نے کہا کہ بیٹا میں کہ رہا ہوں نا بس تم اسے ضائع کردو پھر چلے جانا۔ بیٹے نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اتنا مہنگا گھی ہے جو اتنی مشکل سے پیسہ کما کے میں لایا ہوں میں کیوں اسے ضائع کردوں۔
بزرگ نے سوچا یہ تو میرا کام خراب کررہاہے۔ اس نے سختی سے بیٹے کو کہا کہ جو میں کہ رہا ہوں وہ کرو۔ بیٹے نے اپنی ماں کو بلایا اور کہا کہ اباجی کو سمجھائیں یہ آج کیسی بہکی بہکی باتیں کررہے ہیں۔ بزرگ کی بیوی نے جب ساری بات سنی تو وہ بھی بزرگ کو ڈانٹنے لگی کہ میاں تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ یہ تم کیا کہ رہے ہو۔ بزرگ نے پھر سختی سے کام لینا چاہا تو بیٹے اور بیوی نے شور مچا کر محلے والوں کو بلا لیا اور ان کو ساری بات بتائی۔ محلے والوں نے بزرگ کو سمجھانا چاہا تو وہ ان سے بھی لڑنے لگے کہ میں ان کا بڑا ہوں میرے گھر والے میری بات کیوں نہیں مان رہے۔ آپ ان کو سمجھائیں۔ لوگوں نے کہا کہ واقعی بڑے میاں کے دماغ پر کوئی اثر ہوگیا ہے اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گھر والوں کو مشورہ دیا کہ انہیں کسی حکیم کے پاس لے جائیں۔
گھر والے بزرگ کو اسی حکیم صاحب کے پاس لے گئے جن کے نسخے پر عمل کرتے کرتے بزرگ کا یہ حال ہوا تھا۔حکیم صاحب نے گھر والوں کو یہ کہ کے واپس بھیج دیاکہ آپ کے بزرگ ٹھیک ہوکر واپس آجائیں گے۔ ان کے جانے کے بعد حکیم صاحب نے بزرگ کا حال پوچھا تو بزرگ نے ساری کہانی ان کے گوش گذار کردی۔ حکیم صاحب نے بزرگ کو سمجھایا کہ جو میں نے تمہارے سامنے کیا تھا وہ تو علامتی تھا۔ اصل نسخہ تومیری اس زندگی میں ہے جو میں نے اب تک گذاری ہے۔ گھر والوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ میرے اب تک کے رویے نے ان کو یقین دلادیا ہے کہ میں جو کچھ بھی کروں گا ہمیشہ ان کی بھلائی کے لیے کروں گا اس لیے سارے لوگ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں اور میری عزت کرتے ہیں۔
اس سے ملتا جلتا واقعہ بھگت کبیر کے بارے میں بھی سنا ہوا ہے۔
 
Top