پوشیدہ سبق

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت 13 میں فرماتا ہے:

’’تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا جو (بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے، مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔
دیدۂ بینا رکھنے والوں کیلئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔
جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائل جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جارہا ہے کہ واقعہ کو غور دے دیکھو تو تمھیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں ۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائل جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحۂ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی، رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ، دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں ۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیص نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لئے لاٹھیاں تیار کی تھیں ۔ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپؐ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔
جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے، وہ اپنی قلت تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

صاحب تفہیم القرآن سورہ آل عمران کی آیت 13 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دوگنا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ہمیں تو شاعری سے کوئی خاص لگاو نہیں ، اِس کا مطلب کے میں کیا سخت دل ہوں:(
ہمیں بھی کوئی لگاؤ نہیں (شاعری سے) ...
لیکن پھر بھی ذرا سخت دل نہیں...
جہاں کوئی حسین شکل دیکھی دل فورا پسیج جائے...
یہ سخت دلی کی علامت تو نہیں ہے ناں؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
اتنا تو ضرور کہ جس شاعر کو آپ کے اس تبصرے کے متعلق پتہ چلے گا، وہ آپ کو سخت دل ہی سمجھے گا، یہ سمجھنے کی کوشش کم ہی لوگ کریں گے کہ آپ نے شاید شاعری کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر اس سے دلچسپی نہ رکھنا آپ کا فطری حق ہے ۔۔۔ جیسے سب لوگ کسی نعت، منقبت یا گیت سے ایک ہی طرح سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے، اسی طرح شاعری بھی اظہار کا ایک طریقہ ہی ہے۔۔۔ پھر بھی شاعر لوگ اسے اس سے کہیں زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
واہ کیا معتدل بات کی ہے...
ورنہ منہ چڑھے شاعر منہ کھول کر بدذوق ہونے کا طوق مقابل کے گلے ڈال دیتے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
جن گھرانوں کے سربراہ پردیس میں ہیں اور اُنکی نصف بہتر کس حال میں ہیں ۔۔۔صرف پیسے ہی ہر چیز کا بدل نہیں ہیں۔ کاش یہ ہمیں سمجھ میں آنے لگے ۔۔
شادی سے پہلے بندہ بھلے باہر جاکر کمالے لیکن شادی کے بعد بیوی بچوں کو ساتھ رکھے. واقعی پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا. گھر کا آرام سکون راحت پیسے سے کہیں بڑھ کر ہے. پیسہ جتنا قسمت میں ہے مل کر رہے گا. کہیں نہیں جانے والا. نہ کوئی خدا سے کسی کا رزق چھین سکتا ہے!!!
 
ہمیں بھی کوئی لگاؤ نہیں (شاعری سے) ...
لیکن پھر بھی ذرا سخت دل نہیں...
جہاں کوئی حسین شکل دیکھی دل فورا پسیج جائے...
یہ سخت دلی کی علامت تو نہیں ہے ناں؟؟؟
شاعری سے لگاؤ نہیں لیکن وجہِ شاعری سے لگاؤ ہے تو ثابت ہوا کہ شاعری کے جراثیم ہیں آپ میں۔
 
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے سورہ آل عمران کی آیت 13 میں فرماتا ہے:

’’تمہارے لئے ان دو گروہوں میں ایک نشان عبرت تھا جو (بدر میں ) ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے۔ ایک گروہ اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا۔ دیکھنے والے بچشم سر دیکھ رہے تھے کہ کافر گروہ مومن گروہ سے دو چند ہے، مگر (نتیجے نے ثابت کر دیا کہ) اللہ اپنی فتح و نصرت سے جو چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔
دیدۂ بینا رکھنے والوں کیلئے اس میں بڑا سبق پوشیدہ ہے‘‘۔
جنگ بدر کا واقعہ ہے۔ کفار کو اپنی عددی برتری اور وسائل جنگ کی فراوانی پر ناز تھا۔ یہی دونوں چیزیں ہمیشہ جنگ میں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں اور یہی دونوں چیزیں کافروں کے پاس بہتات کے ساتھ تھیں اور مسلمان اس سے تہی دامن تھے۔ بدر کے واقعے سے انھیں بتایا جارہا ہے کہ واقعہ کو غور دے دیکھو تو تمھیں صاف معلوم ہوگا کہ جن چیزوں کو تم نے کامیابی کی ضمانت سمجھ رکھا تھا، بدر میں وہ دونوں چیزیں کام نہیں آئیں ۔ اس جنگ میں قریش کا لشکر ساڑھے نو سو (950) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا اور وسائل جنگ کی ان کے پاس فراوانی تھی۔ اسلحۂ جنگ کی کوئی کمی نہ تھی، رسد اور کمک کے انتظامات مکمل تھے اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ان کی صفوں میں صرف تین سو تیرہ (313) آدمی تھے۔ اسلحہ جنگ میں ان کے پاس صرف آٹھ تلواریں ، دو گھوڑے اور چھ زرہیں تھیں ۔ اللہ کے ان عظیم بندوں میں ایسے بھی تھے جن کے تن پر قمیص نہ تھی۔ اکثریت کے ہاتھوں میں شمشیریں یا کمانیں تھیں اور بعض ایسے مجاہد بھی تھے جو بالکل خالی ہاتھ تھے اور انھوں نے درختوں سے تنے توڑ کر اپنے لئے لاٹھیاں تیار کی تھیں ۔ ایک صحابیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہاتھ ہونے کی شکایت کی تو آپؐ نے ایک لکڑی کا تختہ اٹھا کے دیا جو ان کے ہاتھ میں پہنچ کر ایک چمکتی ہوئی تلوار بن گیا۔ اس بے سرو سامانی کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو قلت کثرت پر غالب آگئی۔
جن کا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پہ ہوتا ہے، وہ اپنی قلت تعداد اور بے سرو سامانی کے باوجود ہراساں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے بھروسے پر میدان میں استقامت دکھاتے ہیں اور ان کا استقلال اور توکل اللہ سے انعام لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

صاحب تفہیم القرآن سورہ آل عمران کی آیت 13 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’اگر چہ حقیقی فرق سہ چند تھا، لیکن سرسری نگاہ سے دیکھنے والا بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ کفار کا لشکر مسلمانوں سے دوگنا ہے۔
واقعی مومن کو بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر رکھنا چاہیے اسی میں اس کی کامیابی ہے چاہے وہ دنیاوی اعتبار سے کامیاب ہے یا ناکام لیکن اللہ کے ہاں کامیابی ہی اس کا مقدر ہوگی۔ مومن کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہونا چاہیے ۔دنیاوی کامیابی اس کا مقصد نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ایک کام کا اللہ نے حکم دیا ہے تو وہ کرنا ہے چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ پھر چاہے نتیجے میں دنیا کے اعتبار سے ہار بھی ہو جائے تو بھی اللہ کے نزدیک وہ مومن کامیاب ہے۔ اور جب مومن اپنا ہر کام اسی جذبے سے کرتا ہے تو اللہ اس کو دنیا اور آخرت میں عزت اور سرخروئی عطا فرماتا ہے۔
 
ماسلو کی ضروریاتِ انسانی کی تھیوری میری نظر میں
ماسلو ایک امریکی ماہرِ نفسیات تھا۔ اس نے انسانی ضروریات کی درجہ بندی کرتے ہوئےایک پیرامڈ بنائی۔ اس میں اس نے بتایا کہ انسان کی سب سے پہلی ترجیح اس کی جسمانی ضروریات ہوتی ہیں جیسا کہ
پانی، خوراک، لباس، گھر، سواری وغیرہ
شروع میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کی یہ ضروریات پوری ہوجائیں تو وہ اطمینان سے زندگی بسر کرے گا۔ زیادہ تر لوگ زندگی کے خاتمے تک اسی درجے پر رہتے ہوئے جدوجہد کرتے رہتے ہیں

جو لوگ ان ضروریات کو حاصل کرلیتے ہیں تو پھر ان کی اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہوجاتی ہیں اور وہ ہیں محفوظ زندگی گذارنا۔انہیں لگتا ہے کہ دل ابھی مطمئن نہیں کیونکہ جدوجہد کرتے ہوئے میں نے اپنی صحت پر توجہ نہیں دی تو اب مجھے اپنی صحت پر دھیان دینا چاہیے۔ گھر تو بنالیا لیکن یہ محفوظ نہیں ہے اب اسے محفوظ بنانا چاہیے۔ مجھے اپنی حفاظت کے لیے گارڈ رکھنے چاہیں وغیرہ۔ ان لوگوں میں سے زیادہ تر پوری زندگی اسی جدوجہد میں گذاردیتے ہیں۔

جو لوگ ان ضروریات کو پورا کرلیتے ہیں تو وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہوتے اور ان کی اس سے اگلے درجے کی ضروریات بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھلا پیار محبت، دوست احباب اور سماجی زندگی میں مقام بنائے بغیر بھی بندہ مطمئن ہوسکتا ہے۔ اور پھر وہ اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اسی جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔

جو خوش نصیب یہ بھی حاصل کرلیتے ہیں تو دلی اطمینان ان کو بھی نہیں ہوتا اور وہ اگلے درجے کی ضروریات سے متعارف ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم تو بہت باصلاحیت ہیں ہم کوشش کریں تو سماج میں اعلیٰ مقام بنا سکتے ہیں۔ زندگی ہوتو ایسی کہ دنیا ہمیں یاد رکھے۔ اور ہمارا نام عزت سے لیا جائے۔ پھر وہ نام بنانے کی اس جدوجہد میں لگ جاتے ہیں اور اسی میں اپنی زندگی تمام کردیتے ہیں۔

ان میں سے چند خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جو یہ مقام بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن افسوس کہ دلی اطمینان اب بھی نہیں ملتا۔ پھر اپنے دل کے اطمینان کے لیے یہ لوگ روحانیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ذات سے ہٹ کر انسانیت کے بارے میں سوچتے ہیں اور انسانی فلاح و بہبود کے کام کرنے لگتے ہیں۔ اور اب شاید انہیں اطمینان حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
---------------------------------------
ماسلو کی یہ دلچسپ تھیوری ہمیں ایک سبق دیتی ہے اور وہ یہ کہ
مادی چیزوں میں اطمینان نہیں ہے۔انسان جدوجہد کرتے ہوئے اگر خوش قسمتی سے دنیا کی ساری چیزیں حاصل کرلے تو اسے اطمینان کی بجائے جو گیان حاصل ہوتا ہے آسمانی مذاہب وہ گیان بندے کو اللہ پر ایمان لاتے ہی عطا کردیتے ہیں کہ اصل اطمینان کہاں ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ماسلو کی یہ دلچسپ تھیوری ہمیں ایک سبق دیتی ہے اور وہ یہ کہ
مادی چیزوں میں اطمینان نہیں ہے۔انسان جدوجہد کرتے ہوئے اگر خوش قسمتی سے دنیا کی ساری چیزیں حاصل کرلے تو اسے اطمینان کی بجائے جو گیان حاصل ہوتا ہے آسمانی مذاہب وہ گیان بندے کو اللہ پر ایمان لاتے ہی عطا کردیتے ہیں کہ اصل اطمینان کہاں ہے۔
ہم کو باقی سب باتوں سے زیادہ اس پر اتفاق ہے کہ ؀
جب انسان ان تمام ضروریات کی سطح سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔۔ تو میسلو کے مطابق خود شناسی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے وہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے ؀
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اور بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پا لیتے ہیں اور ان ضروریات کے گورکھ دھندے سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اگر کوئی اس مقام تک پہنچ جاتا ہے۔۔میسلو کی تھیوری کے مطابق وہ ایک کامیاب انسان ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ماسلو کی یہ دلچسپ تھیوری ہمیں ایک سبق دیتی ہے اور وہ یہ کہ
مادی چیزوں میں اطمینان نہیں ہے۔
یہاں اکثر لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں...
کچھ سمجھتے ہیں مادی اسباب اختیار کرنا مادیت پرستی ہے سو وہ تارک الدنیا ہوجاتے ہیں رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں...
دوسرے لوگ اسباب کو ہی منزل مقصود سمجھ کر ہر طریقے سے انہیں اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں...
چونکہ اسباب مادی حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ دولت ہے، دولت مل گئی تو سب اسباب مل جاتے ہیں لہذا مال جمع کرنے کے لیے ہر حد پار کرجاتے ہیں ہر ظلم روا رکھتے ہیں. دوسروں کا مال ہتھیاتے ہیں. بہن بھائیوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے حتی کہ باپ مرجاتا ہے تو ماں بھی اس کے گھر پر قابض ہوکر بیٹھ جاتی ہے اولاد میں بھی میراث تقسیم نہیں کرتی...
ان دونوں راہوں کے درمیان معتدل راہ وہ ہے جو اللہ تعالی نے ارشاد فرمائی ہے...
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ
مزین کردی گئی لوگوں کے لیے عورتوں سے محبت اور بیٹوں سے اور سونے چاندی کے ڈھیر سے اور نشان لگے گھوڑوں اور چوپائیوں سے اور کھیتی سے. یہ سب دنیا کی پونجی ہے...
یعنی مذکورہ بالا چیزوں کی محبت خود اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے. اگر ان چیزوں کی کشش اور محبت نہ ہو تو نہ کوئی شادی کرے نہ نسل آگے چلے. نہ سونا چاندی یعنی مال و دولت کمائے نہ کھیتی باڑی کرے نہ جانور پالے...
اب سوچیے ان سب کے بغیر کیسی ہوتی دنیا. بلکہ ہوتی ہی کہاں یہ دنیا. آگے خود اللہ تعالی نے فرمادیا کہ یہ سب اسباب دنیا کی پونجی ہیں. یعنی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں...
تین دن روٹی نہ ملے تو دنیا پر لات مارنے کے لیے لات بھی نہ اٹھے گی...
لہذا اسباب جائز وسائل کے ساتھ حاصل کرنا بہت ضروری ہیں اور دل و دماغ کے سکون کا بہت بڑا سبب بھی. پیسہ نہ ہو تو کھانے کو دال روٹی بھی نہ ملے گی بیمار پڑجائے گا تو ڈھنگ سے علاج بھی نہ کروا سکے گا...
لیکن یہ مال حرام طریقے سے کمایا تو آخرت کی سزا جو ہوگی سو ہوگی دنیاوی زندگی میں بھی جسم بیماریوں کا گڑھ اور دماغ بے سکونی کا اڈہ بن جائے گا...
دوڑا لیں اپنے آس پاس نظر اور دیکھ لیں فرق حلال اور حرام کمانے والوں کی زندگیوں میں...
بس معتدل راہ یہی ہے کہ نہ اسباب کمانے میں ہر حد سے گزر جائیں اور نہ یہ سمجھ کر حلال بھی نہ کمائیں کہ پیسے سے کچھ نہیں ہوتا...
مگر راہ اعتدال پر چلنے والے کم ہی رہ گئے ہیں!!!
ہم نہیں چاہتے بار بار اپناتذکرہ کریں...
لیکن آپ لوگ بھی ناں!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
دوڑا لیں اپنے آس پاس نظر اور دیکھ لیں فرق حلال اور حرام کمانے والوں کی زندگیوں میں...
بس معتدل راہ یہی ہے کہ نہ اسباب کمانے میں ہر حد سے گزر جائیں اور نہ یہ سمجھ کر حلال بھی نہ کمائیں کہ پیسے سے کچھ نہیں ہوتا...
مگر راہ اعتدال پر چلنے والے کم ہی رہ گئے ہیں!!!
درست صد فی صد درست ۔۔۔حلال کمائی کا ایک دانہ بھی ضائع نہیں جاتا جبکہ حرام کی تو ساری کمائی ہی ردی ہے ۔
حرام میں وہ نہیں لطف جو حلال میں ہے
کہ مرغ و ماہی کی لذت ہماری دال میں ہے
سچ ہے زندگی نام ہے معتدل رہنے کا ۔۔معاملات کو قبول کرنے کے معاملے میں بھی اعتدال پسندی میں رہنے میں ہی بھلائی ہے ۔۔۔فی زمانہ اکثریت انکی ہے جو اپنے آپ سے بھئ مطمین نہیں اور بہت کچھ کرنے کی چاہ میں وہ بھی نہیں کر ہاتے جو وہ آسانئ سے کر سکتے ہیں ۔۔اس لئے مایوسی کا شکار نہیں ہونا ہے۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
دوڑا لیں اپنے آس پاس نظر اور دیکھ لیں فرق حلال اور حرام کمانے والوں کی زندگیوں میں...
بس معتدل راہ یہی ہے کہ نہ اسباب کمانے میں ہر حد سے گزر جائیں اور نہ یہ سمجھ کر حلال بھی نہ کمائیں کہ پیسے سے کچھ نہیں ہوتا...
مگر راہ اعتدال پر چلنے والے کم ہی رہ گئے ہیں!!!
درست صد فی صد درست ۔۔۔حلال کمائی کا ایک دانہ بھی ضائع نہیں جاتا جبکہ حرام کی تو ساری کمائی ہی ردی ہے ۔
حرام میں وہ نہیں لطف جو حلال میں ہے
کہ مرغ و ماہی کی لذت ہماری دال میں ہے
سچ ہے زندگی نام ہے معتدل رہنے کا ۔۔معاملات کو قبول کرنے کے معاملے میں بھی اعتدال پسندی میں رہنے میں ہی بھلائی ہے ۔۔۔فی زمانہ اکثریت انکی ہے جو اپنے آپ سے بھئ مطمین نہیں اور بہت کچھ کرنے کی چاہ میں وہ بھی نہیں کر ہاتے جو وہ آسانئ سے کر سکتے ہیں ۔۔اس لئے
 
یہاں اکثر لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں...
کچھ سمجھتے ہیں مادی اسباب اختیار کرنا مادیت پرستی ہے سو وہ تارک الدنیا ہوجاتے ہیں رہبانیت اختیار کرلیتے ہیں...
دوسرے لوگ اسباب کو ہی منزل مقصود سمجھ کر ہر طریقے سے انہیں اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں...
چونکہ اسباب مادی حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ دولت ہے، دولت مل گئی تو سب اسباب مل جاتے ہیں لہذا مال جمع کرنے کے لیے ہر حد پار کرجاتے ہیں ہر ظلم روا رکھتے ہیں. دوسروں کا مال ہتھیاتے ہیں. بہن بھائیوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے حتی کہ باپ مرجاتا ہے تو ماں بھی اس کے گھر پر قابض ہوکر بیٹھ جاتی ہے اولاد میں بھی میراث تقسیم نہیں کرتی...
ان دونوں راہوں کے درمیان معتدل راہ وہ ہے جو اللہ تعالی نے ارشاد فرمائی ہے...
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ
مزین کردی گئی لوگوں کے لیے عورتوں سے محبت اور بیٹوں سے اور سونے چاندی کے ڈھیر سے اور نشان لگے گھوڑوں اور چوپائیوں سے اور کھیتی سے. یہ سب دنیا کی پونجی ہے...
یعنی مذکورہ بالا چیزوں کی محبت خود اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے. اگر ان چیزوں کی کشش اور محبت نہ ہو تو نہ کوئی شادی کرے نہ نسل آگے چلے. نہ سونا چاندی یعنی مال و دولت کمائے نہ کھیتی باڑی کرے نہ جانور پالے...
اب سوچیے ان سب کے بغیر کیسی ہوتی دنیا. بلکہ ہوتی ہی کہاں یہ دنیا. آگے خود اللہ تعالی نے فرمادیا کہ یہ سب اسباب دنیا کی پونجی ہیں. یعنی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں...
تین دن روٹی نہ ملے تو دنیا پر لات مارنے کے لیے لات بھی نہ اٹھے گی...
لہذا اسباب جائز وسائل کے ساتھ حاصل کرنا بہت ضروری ہیں اور دل و دماغ کے سکون کا بہت بڑا سبب بھی. پیسہ نہ ہو تو کھانے کو دال روٹی بھی نہ ملے گی بیمار پڑجائے گا تو ڈھنگ سے علاج بھی نہ کروا سکے گا...
لیکن یہ مال حرام طریقے سے کمایا تو آخرت کی سزا جو ہوگی سو ہوگی دنیاوی زندگی میں بھی جسم بیماریوں کا گڑھ اور دماغ بے سکونی کا اڈہ بن جائے گا...
دوڑا لیں اپنے آس پاس نظر اور دیکھ لیں فرق حلال اور حرام کمانے والوں کی زندگیوں میں...
بس معتدل راہ یہی ہے کہ نہ اسباب کمانے میں ہر حد سے گزر جائیں اور نہ یہ سمجھ کر حلال بھی نہ کمائیں کہ پیسے سے کچھ نہیں ہوتا...
مگر راہ اعتدال پر چلنے والے کم ہی رہ گئے ہیں!!!
ہم نہیں چاہتے بار بار اپناتذکرہ کریں...
لیکن آپ لوگ بھی ناں!!!
سر!آپ نے درست فرمایا ۔ میں نے بھی یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ساری چیزیں اورمال و دولت جو اللہ نے حلال کیے ہیں انسان کے لیے اور ان کو حاصل کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے اسی پر چل کر حاصل کی جائیں اور استعمال یا خرچ کی جائیں تو ان میں اطمینان ہے انسان کے لیے۔ورنہ اگر اللہ کے بتائے راستے سے ہٹ کر صرف چیزوں کے حصول میں اطمینان ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ حاصل نہیں ہوگا۔
 
Top