پشتو اشعار مع اردو ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» (رح) کا شہر «پِشاور» اور اُن کا وطن «پختونخوا» (حَفِظَهُ الله!) تھا، جو تاریخی طور پر «خُراسان» اور «ہِندوستان» کہے جانے والے دِیاروں کے درمیان واقع تھا۔ ان کی ایک جیسے مضمون والی دو پشتو ابیات دیکھیے جِن میں اُنہوں نے اپنے وطن کی مغربی و مشرقی سَمت میں موجود مذکورہ دِیاروں کا نام لِیا ہے۔ کلاسیکی فارسی و تُرکی و پشتو شاعری میں «ہِندوستان» کو سِیاہ رنگ کے ساتھ نِسبت دی جاتی رہی ہے، اور اُس کے مُقابِل میں «عبدالرّحمان بابا» نے اِن ابیات میں سفید رنگ (اور سفیدرنگ رُخسار) کو «خُراسان» کے ساتھ نِسبت دی ہے (اگرچہ یہ نِسبت‌دِہی ہماری شعری روایت میں رائج نہیں رہی)۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جب وہ اپنے معشوق کی سیاہ زُلف کو یاد کرتے ہیں تو گویا اُن کی رُوح «ہِندوستان» کا سفر کرنے لگتی ہے، اور جب وہ اپنے معشوق کے سفید رُخسار کو ذہن میں لاتے ہیں تو گویا وہ خود کو «خُراسان» میں پاتے ہیں۔ بہ علاوہ، جب سے اُن کے دل میں اُن کے معشوق کی سِیاہ زُلف و سفید رُخسار کا خیال منقوش ہے، اُن کی خلوَت «ہِندوستان» و «خُراسان» میں تبدیل ہو گئی ہے، کیونکہ ہر عاشقِ صادقِ دیگر کی مانند اُن کو بھی خلوَت میں ہر وقت فقط خود کا معشوق نظر آتا ہے۔

ستا په زلفو په رخسار پسې رحمان یم بې وطنه
مسافر د هندوستان و خراسان دی زما روح
(عبدالرّحمان بابا)


[اے معشوق!] تمہاری زُلف و رُخسار کے لیے مَیں «رحمان» بےوطن ہوں۔۔۔ [اور] میری رُوح ہِندوستان و خُراسان کی مُسافِر ہے۔۔۔

چې د یار زلفې رخسار مې په زړه نقش شو
خپل خلوت مې خراسان و هندوستان شه
(عبدالرّحمان بابا)


جب میرے دِل پر میرے یار کی زُلفیں و رُخسار منقوش ہوا، تو میری اپنی خلوَت «خُراسان» و «ہِندوستان» ہو گئی۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» ایک پَندآمیز بَیت میں زِندگی کی بےوفائی پر رَوشنی ڈالتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب وہ کِسی اِنسان سے ناگہاں جُدا ہونے کو آتی ہے تو صدسالہ رفاقت و دوستی کو بھی ایک لمحے میں ختم و فراموش کر دیتی ہے:

په ساعت د سلو کالو یاري پرې کا
بې وفا دی هسې رنګه یار د عمر
(عبدالرّحمان بابا)


اگر تمہاری زندگی کے دَوران تمہاری عُمر تمہاری یار ہونے کا دعویٰ کرے اور تمہارے ساتھ یاری دِکھائے تو اُس سے فِریب مت کھانا اور اُس کی یاری پر یقین و اعِتِماد مت کرنا، کیونکہ "عُمْر" نامی وہ یار تو اِس طرح کی بےوفا و عہدگُسِل و بدپَیمان ہے کہ اگر تمہارا اُس کے ساتھ صدسالہ رفاقت و ہم‌دمی کا بھی تعَلُّق ہو تو تب بھی وہ بِالآخِر ایک ہی لمحے میں اُس رفاقت کے دھاگے کو کاٹ کر دُور پھینک دیتی ہے، اور اُس دیرینہ مُرافقت و مُلاطفت کو فوراً ہی کُلّاً فراموش کر دیتی ہے جو تمہارے ساتھ وہ ایک وقت رکھا کرتی تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی ایک پَندآمیز بَیت:

د عمل په ځای به دا پوښتنه نه وي
چې ته زوی یې یا نمسی یې د فلانا
(عبدالرّحمان بابا)


تم سے تمہارے عمل کی پُرسِش ہو گی، اُس کی بجائے یہ نہیں پُوچھا جائے گا کہ تم فلاں کے پِسَر یا فلاں کے پوتے ہو۔۔۔ (یعنی تم سے تمہارے اَب و جَد اور تمہارے نسَب کے بارے میں نہیں، بلکہ تمہارے اعمال کے بارے میں سوال ہو گا۔)
 

حسان خان

لائبریرین
میں شہرِ «پِشاور» میں واقع «عبدالرّحمان بابا» کے مقبرے کے بارے میں یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ رہا تھا اور اُس مقبرے کی مجازی سَیر کر رہا تھا۔ مجھ کو ویڈیو‌ میں نظر آیا کہ مقبرے کی بیرونی دیوار پر ایک بینر پر اُن کی یہ بَیت لِکھ کر آویزاں کی گئی ہے:

که چا لار د عاشقۍ وي ورکه کړې
زه رحمان د ګمراهانو رهنما یم
(عبدالرّحمان بابا)


اگر کِسی شخص نے عاشقی کی راہ کو گُم کر دیا ہو تو مَیں «رحمان» گُم‌راہوں کا رہ‌نُما ہوں۔۔۔ (یعنی گُم‌کردَگانِ راہِ عشق کو رہ‌نُمائی کے لیے میرے نزد آنا چاہیے کیونکہ مَیں اُس طرح کے گُم‌راہوں کو راہ دِکھاتا ہوں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
همېشه د بېلتانه له غمه لولم
زه رحمان نَعُوذُ بِاللهِ مِنْهَا
(عبدالرّحمان بابا)


مَیں «رحمان» جُدائی کے غم کے باعث ہمیشہ [یہ] پڑھتا ہوں: "نَعُوذُ بِاللهِ مِنْهَا!" (یعنی ہم غمِ فِراق سے خُدا کی پناہ مانگتے ہیں!)۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» ایک پشتو بَیت میں کہہ رہے ہیں کہ "صاحِب‌نظر" اُس شخص کو کہنا چاہیے جِس کی نظریں ہمیشہ اپنے محبوب کے چہرے پر رہیں اور اُس کو دیکھتی رہیں، اور چونکہ وہ خود بھی ہمہ وقت رُخِ یار کو دیکھتے رہنے کے کار پر کاربند ہیں، اِس لیے اُن کا خیال ہے کہ اگر اُن کو بھی کوئی شخص "صاحِب‌نظر" پُکارے تو مُناسِب و سزاوار ہے۔

که رحمان صاحب نظر باله شي ښایي
چې مدام د یار په مخ لري نظر
(عبدالرّحمان بابا)


اگر «رحمان» کو صاحِب‌نظر اور اہلِ بصیرت پُکارا جائے تو زیب دیتا ہے۔۔۔ کیونکہ وہ ہمیشہ یار کے چہرے پر نظر رکھتا ہے، یعنی اُس کی نِگاہ ہر لمحہ اپنے یار کے چہرے پر رہتی ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی ایک بَیت میں «ذوالفقار» کا ذِکر:

هر مژګان یې په ما هسې چارې کاندي
وایم عینِ ذوالفقار دی نور څه نشته
(عبدالرّحمان بابا)


اُس معشوقِ زیبا کی ہر مِژہ میرے ساتھ ایسا سُلوک کرتی ہے، اور ایسی تیزی و بُرَّندَگی کے ساتھ مجھ عاشق کے دِل کو چِیرتی کاٹتی ہے کہ مجھ کو یہی کہنا پڑتا ہے کہ وہ بِعَیِنِہِ «ذوالفقار» ہے، کوئی دیگر چیز نہیں ہے۔۔۔ (مِژہ = پلک کا بال)
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کے دیوانِ اشعار کے مُطالعے کے اَثنا میں معلوم ہوا ہے کہ اُن کے شہر «پِشاور» کا ایک قدیم نام «باگْرام» تھا، اور یہ نام شاعر کی ایک غزل کے مَقطَع میں نظر آیا ہے:

هم نغمې کاندي هم رقص کا هم خاندي
د رحمان په شعر ترکې د باګرام
(عبدالرّحمان بابا)


«رحمان» کی شاعری پر «باگرام/پِشاور» کی "تُرکَنیں" (یعنی زنانِ زیبا) نغمے بھی گاتی ہیں، رقص بھی کرتی ہیں، اور ہنستے ہوئے نِشاط و شادمانی بھی کرتی ہیں۔۔۔

(بَیت میں "تُرکَنوں/زنانِ تُرک" سے مُراد شہرِ «پِشاور» کے کوئی تُرکان نہیں ہیں، کیونکہ اُس شہر میں کبھی تُرکوں، تُرکی‌گویوں، یا مُغلوں کی لائقِ ذِکر آبادی نہیں رہی، بلکہ اِس سے وہاں کی مُؤَنَّث خُوبان و معشوقان مُراد ہیں، اور کلاسیکی فارسی شعری روایت کی پَیرَوی میں کلاسیکی پشتو شاعری میں "تُرک/تُرکه" بارہا مجازاً دِلبَرِ زیبا کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔)

=============

«عبدالرّحمان بابا» کی مُندَرِجۂ بالا پشتو بَیت کو دیکھ کر «حافظِ شیرازی» کی یہ مشہور فارسی بَیت ذہن میں آئی تھی، اور یقیناً یہ فارسی بَیت «عبدالرّحمان بابا» کے پیشِ نظر بھی ہو گی:

به شعرِ حافظِ شیراز می‌رقصند و می‌نازند
سِیه‌چشمانِ کشمیری و تُرکانِ سمرقندی
(حافظ شیرازی)


«حافظ شیرازی» کی شاعری پر سِیاہ‌چشمانِ کشمیری و تُرکانِ سمَرقَندی رقص کرتے اور ناز کرتے ہیں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
زبانِ پشتو میں «دریا» کو «سیند» کہتے ہیں، اور «دریائے سِندھ» کا پشتو نام «اباسیند/اباسین» ہے، جِس کے بارے میں ایک فرہنگ میں نظر آیا ہے کہ اُس کا لفظی معنی "دریاؤں کا پدر" ہے۔ «عبدالرّحمان بابا» نے ایک پشتو بَیت میں «اباسیند» کا بھی نام لِیا ہے:

لکه سیند د اباسیند په غورزی درومي
هسې یون دی په تلوار تلوار د عمر
(عبدالرّحمان بابا)


جس طرح «دریائے سِندھ» شِتاب کے ساتھ تلاطُم کرتے ہوئے اور جوش کے ساتھ موج مارتے ہوئے گُذرتا ہے، ہماری عُمر کی حرَکت و روانی بھی اُسی طرح تیز تیز ہے، اور بھی وہ اُسی طرح سُرعَت و عَجَلت کے ساتھ زُود ہی گُذر جاتی ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی ایک غزل کا مَطلَع اور مَقطَع:

========

چې کوتلی وي په تېغ ستا د چشمانو
سرحلقه دی د جمله ؤ شهیدانو
(عبدالرّحمان بابا)


اے یار! جو شخص تمہاری چشموں (آنکھوں) کی تیغ سے ذِبح ہوا ہو، وہ تمام شہیدوں کا سرخَیل و رئیس ہے۔۔۔

========

ماسوا له یاره هر چې دي رحمانه
واړه کفر دی په دین د عاشقانو
(عبدالرّحمان بابا)


اے «رحمان»! یار کے ماسِوا جو کوئی بھی ہے اور جو کچھ بھی ہے، وہ عاشِقوں کے دین کے رُو سے سب کُفر ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
د هجران په توره شپه کې زه وېرېږم
چې یې نه وینم د وصل سپین سپوږمی
(عبدالرّحمان بابا)


مَیں ہِجر کی سِیاہ شب میں [اِس] خَوف میں رہتا ہوں کہ مَیں اُس کے وصل کا سفید قمر نہیں دیکھ پاؤں گا۔۔.
1f641.png
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی ایک غزل کی اِبتِدائی دو ابیات:

څو جفا قبوله نه کړې د اغیار
و به نه وینې په سترګو مخ د یار
چې اول یې خار زرغون شي په پهلو کې
غنچه هله شګفته شي په ګلزار
(عبدالرّحمان بابا)


جب تک تم اغیار کی جفاؤں‌ کو قَبول نہ کرو گے، تب تک تم اپنی آنکھوں سے یار کا چہرہ نہ دیکھو گے اور اُس کے دیدار و وصل سے دُور رہو گے۔۔۔ کیونکہ گُل‌زار میں غُنچہ بھی اُسی وقت شِگُفتہ ہوتا (کِھلتا) ہے کہ جب اوّلاً اُس کے پہلو میں خار کِھل چُکا ہو، اور غُنچہ کِھلنے سے قبل خار کِھلتا ہے، اور باغ‌بان کو غُنچے کے ساتھ اُس خار کی ہم‌سایگی و ہم‌پہلوئی با دِلِ ناخواستہ تحَمُّل کرنا پڑتی ہے، کیونکہ جِِس وقت تک خار نہیں نِکل آتا، اُس وقت تک غُنچہ بھی کِھل کر گُل میں تبدیل نہیں ہو جاتا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ «لاہور» اپنے اطراف کے خِطّوں کے بیش‌تر شہروں سے بُزُرگ‌تر و آبادتر شہر رہا ہے، اور لہٰذا روزمرّہ زندگی کا شور و غَوغا و ہنگامہ و ولوَلہ بھی اُس شہر میں ہمیشہ سے نِسبَتاً زیادہ رہا ہے، اور اِس چیز کے لیے وہ شہر مشہور بھی رہا ہے۔ اور یہ بھی بدیہی ہے کہ گُذشتہ صدیوں میں «پشتونستان» کے دیہی و کوہستانی مُعاشرے کے کسی شخص کو وہاں کے شہر و قریے پُرسُکون و خاموش و بےحرَکت، جبکہ شہرِ «لاہور» پُرصدا و پُرآشوب و پُرغَوغا محسوس ہوتا ہو گا۔ یہی سبب ہے کہ جب «پختونخوا» اور «پِشاور» کے ایک ارجمند‌ترین شاعر «عبدالرّحمان بابا» (رح) نے محبوب کے فِراق کے غم میں اپنے سر میں موجود آشوب و جنجال و ہنگامہ کی تَوصیف کرنا چاہی ہے تو اُس کو اُنہوں نے شہرِ «لاہور» کے شور و غَوغا سے تشبیہ دی ہے:

ستا له غمه مې په سر کښې هسې شور دی
ګویا میشت مې په سر ښهر د لاهور دی
(عبدالرّحمان بابا)


[اے یار!] تمہارے غم سے میرے سر میں ایسا شور و غَوغا و آشوب ہے کہ گویا میرے سر پر/میں شہرِ لاہور مُقیم ہے۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
راشه یو ځله مې هسې مست خراب کړه
چې خبر نه شم له حاله د هېڅ شی
(عبدالرّحمان بابا)


اے ساقی! آؤ، ایک بار مجھ کو اِس طرح مدہوش و سِیاہ‌مست کر دو کہ مَیں کِسی بھی شَے کے حال احوال سے آگاہ نہ ہو پاؤں!۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ما رستم د زمانې ولید په سترګو
چې د یار له جوره ژاړي لکه کونډه
(عبدالرّحمان بابا)


میں نے زمانے کے «رُستَم» کو [اپنی] آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ کہ وہ [بھی] یار کے جَور و سِتم کے باعث بیوہ کی مانند روتا ہے۔۔۔ (یعنی اگر مَیں کم‌زور و ضعیف‌دِل شخص اپنے یار کے سِتم کے باعث گِریہ کرتا ہوں تو مجھ پر ملامت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ میں نے تو زمانے کے «رُستَم» کو بھی یار کی جفا سے محزون ہو کر بیوہ کی مانند روتے دیکھا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
زه چې پروت یم د هجران په تناره کې
د وصال له گلستانه وایم څه
(عبدالرّحمان بابا)


مَیں، کہ جو ہِجراں کے تندور میں پڑا [جل رہا] ہوں۔۔۔ مَیں وصل کے گُلِستان کے بارے میں [آخِر] کیا کہوں؟۔۔۔ (یعنی ہِجر کے تندور میں اذِیّت پاتا ہوا میرے جیسا شخص آخِر وصل کے گُلِستان کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے، اور کیسے اُس جگہ کا وصف بیان کر سکتا ہے؟)
(شاعر نے ہِجراں کو تندور، اور وِصال کو گُلِستان کے ساتھ مُشابِہ ٹھہرایا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی ایک بَیت میں «شاه‌نامهٔ فِردَوسی» کے اہم‌ترین پہلوان و قہرَمان «رُستَم» کا ذِکر:

اې رحمانه پیري هسې عاجزي ده
که رستم وي زړه پرې سوی شي په پیرۍ کې
(عبدالرّحمان بابا)


اے «رحمان»! پِیری (بُڑھاپا) ایسی عاجِزی و درماندَگی ہے، اور اِنسان کو اِس قدر بدحال و ناتوان و عاجِز کر دیتی ہے، کہ اگر تم «رُستَم» جیسے جنگجو و دِلاور پہلوان کو بھی اُس کی پِیری کے زمانے میں دیکھ لو تو تمہارا دِل اُس کے حالِ زار پر جلنے لگے اور رحم کھانے لگے۔۔۔
1f641.png
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» نے اپنے دیوانِ اشعار کا آغاز حمدِ خُداوند پر مُشتَمِل غزل سے کِیا تھا۔ اُس کی ایک بَیت میں وہ کہتے ہیں:

نه یې هېڅ حاجت په چا باندې موقوف دی
نه د هېچا مِنّت بار دی رب زما
(عبدالرّحمان بابا)


نہ تو کِسی شخص کے ساتھ میرے رب کی کوئی بھی اِحتِیاج وابستہ ہے (یعنی نہ تو اُس کو کِسی بھی اِنسان سے کوئی بھی حاجت ہے)، اور نہ وہ کِسی بھی شخص کا ممنونِ اِحسان ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«عبدالرّحمان بابا» کی لِکھی مشہور نعت کا مطلع دیکھیے، جو میرا گُمان ہے کہ ہر پشتون نے اور پشتو سے آشنائی رکھنے والے شخص نے سُن رکھا ہو گا:

که صورت د محمد نه وی پېدا
پېدا کړې به خدای نه وه دا دنیا
(عبدالرّحمان بابا)


اگر حضرتِ محمّد (ص) کی صورت و ہستی خَلق نہ ہوئی ہوتی تو خُدا اِس دُنیا کو [بھی] خَلق نہ کرتا۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
خدای دې هسې تنها نه کا څوک په غم کښې
لکه زه د یار په غم کښې یم تنها
(عبدالرّحمان بابا)


جِس طرح یار کے غم میں مَیں تنہا ہوں، خُدا کِسی شخص کو غم میں اُس طرح تنہا مت کرے!۔۔۔
 
Top