پرانی کتابوں کا اتوار بازار ۔18 اگست، 2013-ملاقات مسیحا و خضر

راشد اشرف

محفلین
پرانی کتابوں کا اتوار بازار ۔18 اگست، 2013-ملاقات مسیحا و خضر
احوال سے قبل اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں سے منتخب کردہ اوراق کی پی ڈی ایف فائل کے لیے کارآمد لنک پیش خدمت ہے




چند ماہ قبل کویت سے تشریف لائے ہمارے دوست جناب محمد حینف(ابن صفی ڈاٹ انفو والے) اور ہمارے کرم فرما فاروق ا حمد(اشتیاق احمد کے ناشر) کی ملاقات کا تصویر ی احوال یہاں ” ملاقات مسیحا و خضر“ کے عنوان سے پیش کیا گیا تھا۔ 18 اگست کو ایک مرتبہ پھر مسیحا کویت سے آئے اور ہم سے کہا کہ منجانب رہائش گاہ ِ خضر لے چلیےع
زخمی ہوں میں اس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے


فاروق احمد صاحب کے پاس آخر ایسا کیا ہے ؟ یا یوں کہیے کہ کیا نہیں ہے۔ طواف کوئے ملامت کو بار بار جانے کی آرزو دل آخر کیوں رکھتا ہے ؟

سید معراج جامی صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی اس مرتبہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں کہ کچھ تو ذکر یار چلے اور بار بار چلے یہاں ایک مرتبہ پھراستاد ذوق ہی یاد آرہے ہیں:
وہ خلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہے شاخِ ثمردار میں گل پہلے ثمر سے


حنیف صاحب سے پہلی مڈ بھیڑ اتوار بازار میں ہوئی جہاں وہ اس وقت آئے جب ہم کتابوں کی خریداری کے فرض سے ’سبکدوش ‘ہو کر انہی کا انتظار کرتے تھے۔ پھر شہر کراچی میں چشم فلک نے بادلوں کی اوٹ سے دیکھا کہ وہ آئے اور ہماری معیت میں سیدھا قصد کیا اپنی منزل کا:
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے


محفل کی گفتگو ہمہ جہت رہی۔اولین موضوع ِگفتگو دلی سے شائع ہوئی ” ابن صفی ادبی مشن اور کارنامہ“ کے گرد گھومتا رہا اور ساتھ ساتھ تکلف آمیز ماحول سے کوسوں دور گفتنی و ناگفتنی ، ہر طرح کی بات ہوتی رہی۔ جامی صاحب نے اپنے اسفار ہند کے تذکرے چھیڑے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا۔ قیام بمبئی کی دلچسپ باتیں، میزبانوں کا حسن سلوک، کوکنی تہذیب کے قصےاستدعا کی کہ حضرت! یہ تاریخی قصے ہیں تو کیوں نہ تحریر کی شکل میں محفوظ کردیے جائیں۔
پھر تمام احباب منجاب ِ میزبان ، لذت کام و دہن کی آزمائش کے مرحلے سے گزرے ۔اور پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے کہ جب زبانیں رواں ہوئیں تو یک لخت احساس ہوا کہ وقت ملاقات تو قریب الختم ہے۔

٭٪٭

اس مرتبہ پرانی کتابوں کے اتوار بازار کے احوال میں پہلے چند تصاویر شامل کی گئی ہیں اور اس کے بعد کتابوں کا تعارف اور منتخب کردہ اوراق پیش خدمت ہیں۔ سردار جعفری کی ”مخدوم محی الدین “ نامی کتاب کا تحفہ فاروق احمد صاحب سے ملا۔ یہ کتاب 1948 میں بمبئی سے شائع ہوئی تھی اور فاروق صاحب اسے اپنے تایا مرحوم کے ذخیرہ کتب سے چند روز قبل ہی لائے تھے، سو اسے بھی مذکورہ احوال ہی میںضم کردیا گیا ہے۔فاروق احمد کی والدہ صاحبہ کے انتقال (2013 کے رمضان کے مہینے میں)کے تیسرے ہی روز ان کے تایا کا انتقال ہوا تھا ۔ جن کے سفر آخرت کا تذکرہ سن کر راقم ششدر رہ گیا تھا۔ آخری وقت تک چاق و چوبند ہوش و حواس تاب و تواں سبھی کچھ ساتھ ہی تھا۔ سانس کی تکلیف محسوس کی تو اپنے ڈاکٹر داماد کو بلایا جو ان کو گاڑی میں بٹھا کر اسپتال کے طرف چلے تھے۔ عقبی نشست پر فاروق احمد کے تایا اپنے ڈاکٹر داماد کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اچانک مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھادیا
” اچھا میاں! تو خدا حافظ . . . ہم چلتے ہیں“
یہ فقر ہ ادا کیا اور روح آنا ًفاناً خدا کے حضور پہنچ گئی ، جسد خاکی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں میں رہ گیا۔
اللہ تعالی دونوں مرحومین کو جنت نصیب کرے۔

٭٪٭
اتوار کتب بازار سے ایک حیرت انگیز کتاب ”شب و روز“ کے عنوان سے ملی۔ مصنف ادبی دنیا کے لیے ایک گمنام شخص ۔ ۔ ۔ ۔ نام محمد شریف ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب میں تعارف ڈاکٹر جمیل جالبی کا تحریر کردہ
۔ ۔ ۔ ۔ صفحات 155 ۔ ۔ ۔ ۔ اشاعت کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن متفرق یادداشتوں پر مشتمل مضامین ایسے کہ وہ لکھے اور پڑھا کرے کوئی۔ ۔۔۔کون تھے، کہاں سے آئے۔۔۔کیا ہوئے ۔۔خدا جانے لیکن 50 برس بعد فٹ پاتھ سے ملنے والی ”شب و روز“ نے نہال کردیا۔ کتاب کے مطالعے سے یہ علم ضرور ہوتا ہے کہ موصوف ایک بینکار تھے۔ مذکورہ کتاب سے تین عدد مضامین اور ایک خط زیر نظر انتخاب میں شامل کیے گئے ہیں۔

”شب و روز“ کے مصنف کی زبان و بیان پر گرفت اور اسلوب کے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
۔ایک وسیع بیابان نما میدان اس تاریخی مقام کا یوں محاصرہ کیے ہوئے ہیں جیسے کسی جابر و قاہر تاجور کے محل شاہی کے اردگرد دیو ہیکل فصیل۔
۔بہت ہی ہیریں شعلہ بداماں، نشہ شباب میں مست، عشوہ و ادا سے معرا، ایک عجیب شان بے نیازی سے محو خرید و فروخت تھیں۔
۔کارگاہ قدرت کے ستم ظریف عامل نے نہ جانے کس جذبہ نفرت و حقارت کے ماتحت میانوالی کا محل مقام منتخب کیا تھا۔

محمد شریف ایک جگہ اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”غور کرنے سے مجھے تو عمر طبعی بس پچاس سے ستر سال تک معلوم ہوتی ہے۔ اس بیس برس کے عرصہ میں جو دنیا سے اٹھ گیا وہی خوش نصیب۔ ورنہ ناممکن ہے کہ ستر برس کے بعد زندگی متواتر اجیرن نہ ہوتی چلی جائے۔ میں طویل عمر پانے والے انسان کا تصور کرتا ہوں تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔ جب دوست نہ رہے، ہم عصر نہ رہے، پڑوسی نہ رہے، ماں باپ نہ رہے تو وہ غریب یہاں رہ کر کیا کرے گا اور کس سے دل بہلائے گا۔ مجھے تو اس کی مثال ایک ایسے اجنبی کی سی لگتی ہے جو اچانک کسی غیر ملک اور اجبنی معاشرہ میں دھکیل دیا جائے۔ وہ جدھر جائے گا اسے کوئی نہیں پہچانے گا۔ وہ جس بازار سے گزرے گا اسے اجنبی دکھائی دیں گے۔ بال بچوں کا رشتہ اول تو بیٹوں ہی تک ہے اور نہیں تو زیادہ سے زیادہ پوتوں اور نواسوں تک۔ اس سے پیچھے آنے والوں کو دادا اور پڑدادا سے کیا سروکار ؟ پنجابی کی مثل ہے ’ پڑ پیا اور رشتہ گیا‘۔اور شاید اقبال کی نظر بھی ایسی ہی صورت حال پر تھی جس اس نے کہا تھا:
تھا جنہیں ذوق تماشا وہ تو رخصت ہوئے
لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا
رفتہ رفتہ وہ پرانے بادہ آشام اٹھ گئے
ساقیا محفل میں تو آتش بہ جام آیا تو کیا


غالبا یہ محمد شریف ہی تھے جنہوں نے کتاب میں متوفین کے تذکرے میں دو مختلف مقامات پر تھامس گرے کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ راقم ایسا کہنے میں اس لیے حق بجانب ہے کہ ”شب و روز“ میں محمد شریف کی شاعری کے نمونے بھی جابجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ کتاب کے مطالعے سے ان کا تصور ایک سنجیدہ اور انتہائی حساس طبیعت و مزاج کے حامل شخص کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتا ہے
:
چھوڑ دے اس کے محاسن کا نہ کر اب تذکرہ
بعد مرگ اس کے معائب بھی نہ کر اب بے نقاب
نیکیاں بدیاں لیے اپنی پڑا ہے چین سے
دست ِقدرت نے تھپک کر کردیا ہے محو ِخواب

٪
رفتہ رفتہ بھول جاتے ہیں سبھی بعد فنا
کون ہے پر جسم فانی کو خوشی سے چھوڑتا
کون ہے جو زندگی کے لطف سے ہوتا ہے سیر
کون وقت کوچ ہے مڑ مڑ نہیں جو دیکھتا


محمد شریف کہنے کو تو بینکار تھے لیکن شاید ان کے اندر ایک بے چین روح تھی جو ہر آن انہیں سوچنے پر آمادہ کیے رکھتی تھی۔ ”شب و روز“ میں انہوں نے اسی سوچ کو جابجا الفاظ کے قالب میں اس طور ڈھالا ہے کہ تمام مفہوم واضح ہو کر قاری کے سامنے عیاں ہوجاتا ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں:

مرنے والا تو شاید موت کو ایک معمولی واقعہ سمجھتا ہو گا۔اس کے لیے تو شاید یہ ایک بستی سے دوسری کا سفر ہو اور بس۔ لیکن پس ماندگان کے لیے یہ ایک سانحہ ِشدید ہوتا ہے۔ انہیں تو در و دیوار کاٹنے کو آتے ہیں جن میں انہوں نے مرحوم کے ساتھ دن گزارے ہوں۔ ان کو ہزار تسلیاں دیجیے کہ صاحب پریشان نہ ہو جئے۔یہ تو چند روز کی جدائی ہے ، تم بھی عنقریب وہیں پہنچنے والے ہو لیکن وہ کسی کی نہیں سنتے۔ خدا معلوم یہ قدرت کی فیاضی ہے یا ستم ظریفی کہ دنیا کا ہر زندہ انسان یہی سمجھتا ہے کہ جانے والا گیا تو گیا۔ لیکن اسے خود کو ایک مدت دراز تک یہیں بسنا ہے۔ یہ تو قدرت کا بنی نوع انسان پر ایک عظیم احسان ہے کہ موت سے پہلے ہم میں سے اکثر ایک غنودگی کے عالم میں مبتلا کردیے جاتے ہیں اور کوچ کے وقت انہیں ایک نیند کا سا احساس ہوتا ہے۔ ورنہ اگر ہوش و حوا س قائم رہتے تو ہم میں سے کتنے تھے جو اس عالم رنگ و بو کو خوشی خوشی الوداع کہہ سکتے ؟آپ غور فرمائیں کہ قدرت نے انسان کو یہ دو چیزیں ۔۔۔حافظہ او ر تصور۔۔۔ کتنی عجیب و غریب دے رکھی ہیں۔ان کے فیض سے ایک پریشاں حال انسان مطمعئن و پرسکون بھی ہے اور ایک مطمعئن و پرسکون انسان افسردہ و پریشان بھی۔ یہ چاہیں تو ایک ہنستے اور چہچہاتے ہوئے انسان کو دم بھر میں رلا دیں اور چاہیں تو ایک جنازہ بردوش ماتمی کو کسی محفل ِ رقص و سرور میں پہنچا دیں ۔ان کی مدد سے انسان بیٹھے بٹھائے دور دراز ممالک کی سیر کرسکتاہے۔ تنہائی کا قفس توڑ کر دوستوں کی رنگین محفلوں میں شریک بادہ نوشی ہوسکتا ہے۔ فراق کی کلفتوں کو عیش ِ وصل سے بدل سکتا ہے اور آن ِواحد میں مجلس غم کو محفل طرب کے سانچہ میں ڈھال سکتا ہے۔ اسی حافظہ اور تصور کی برکت سے بڑھاپے کی نامرادیاں شباب کی شوخیاں اور بچپن کی بے نیازیاں بن جاتی ہیں اور نوحہ و ماتم کی آوازیں نغمہ و سرور کا لباس پہن لیتی ہیں۔ غم وہم کی قیود ، تصور ایک جست میں پھاند سکتا ہے اور یہ جابر و قاہر تاجداروں کو کئی کئی روز تک دماغ کی ایک چھوٹی سی کال کوٹھری میں مقید رہنے پر مجبور کرسکتا ہے ۔ماحول اس کی پرواز میں حائل نہیں ہوتا۔ شہنائیوں کے نغموں پر رقص کرتی برات میں ایک ایسا براتی بھی ہوسکتا ہے جو حافظہ اور تصور کے سبب ڈھول اور باجہ کی گھن گھرج میںکسی پرانے اجڑے ہوئے قبرستان میں ہڈیوں کے کسی کہنہ اور سڑے ہوئے ڈھانچہ کے سرہانے اپنے آنسوؤں کے تیل سے چراغ ِمزا ر روشن کرنے میں مصروف ہو۔مومن نے تصور کی یہ کہہ کر تصویر کشی کی تھی کہ:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
(شب و روز۔ از محمد شریف
محمد شریف نے پسرور کے گورنمنٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہ بات تھی سن 1938 کی۔ بہت برسوں بعد ایک مرتبہ جب وہ اپنی پرانی درس گاہ کو دیکھنے گئے تو ان کے ذہن میں کئی یادیں گھوم کر رہ گئیں۔ بالخصوص کالج کا وہ مشاعرہ محمد شریف کو بہت یاد آیا جس میں انہوں نے اپنی پہلی غزل سنائی تھی۔ کالج بورڈ پر دو ہفتے قبل یہ مصرع طرح لکھ دیا گیا تھا:
نہیں شکوہ مجھے کچھ آسمان سے

پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے پسرور شہر کے کالج میں تعلیم پانے والے نوعمر محمد شریف مجمع کے درمیان ہانپتے کانپتے پہنچے اور لزرتے ہاتھوں سے کاغذ کو تھام، یوں گویا ہوئے:

مجھے بہتر ہے عمر جاوداں سے
نہ اٹھوں مر کے بھی اس آستاں سے
پھنسیں گے حلقہ گیسو میں وہ بھی
کسے امید تھی پیر مغاں سے
وہ کہتے ہیں ہمیں ملنے نہ آؤ
جگر لاؤں کہاں سے دل کہاں سے
امید آمد فصل بہاری
بندھے جب کہ ہوائے گل فشاں سے
جو باغ آرزو اپنا بھی ہو خشک
ہمیں الفت نہ ہو پھر کیوں خزاں سے
یہ میرا آشیان خشک واللہ
جلا ہے گرمی آہ و فغاں سے
ہوا ہوں دشمن جاں آپ اپنا
نہیں شکوہ مجھے کچھ آسماں سے
وطن آدم کا جب باغ جناں تھا
ہمیں نفرت نہ ہو پھر کیوں یہاں سے
شریف اس دار فانی سے نہ لپٹو
مکاں اپنا ملالو لامکاں سے


٭٪٭

مالک رام کی ”ذکر غالب‘ ‘ سے کون واقف نہیں ہے۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن اپریل 1938 میں شائع ہوا تھا جبکہ راقم کو ملنے وا لا نسخہ جنوری 1955 میں دہلی سے شائع ہوا تھا۔ قیمت 3 پیسے درج ہے۔ یہ کتاب اور اس کے مصنف، دونوں مرزا نوشہ پر ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں ۔ مذکورہ کتاب سے کئی اوراق شامل کیے گئے ہیں۔ مرزا غالب کی وفات کے بیان میں مالک رام رقم طراز ہیں:

آخر وہ دن آہی گیا جس کی انہیں ایک مدت سے تمنا تھی۔چوں کہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب میں پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہوسکتا اس لیے اکثر اپنا یہ مصرع پڑھا کرتے:

اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے
یہ شعر بھی عموماً ورد زبان رہتا تھا:
دم واپسیں برسر راہ ہے
عزیزو، اب اللہ ہی اللہ ہے


مرض کی شدت کے باعث موت سے چند دن پہلے متواتر غشی کے دورے پڑتے رہے۔ موت سے ایک دن پہلے کچھ افاقہ ہوا تو کھانے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ پھر ملازم سے کہا کہ میرزا جیون بیگ (یعنی میرزا باقر علی خاں کامل کی سب سے بڑی صاحبزادی) کو بلاؤ۔ یہ عموما ً انہی کے پاس کھیلتی رہتی تھیں۔ کلو ملازم انہیں بلانے کے لیے محل سرا آیا تو یہ آرام کررہی تھیں۔ ان کی والدہ بگا بیگم نے کہا کہ سو رہی ہے، جونہی جاگتی ہے، بھیجتی ہوں۔ ملازم نے واپس جا کر یہی کہہ دیا۔ اس پر فرمایا کہ بہت اچھا ،جب وہ آئے گی، ہم کھانا کھائیں گے۔ اس کے بعد جونہی گاؤ تکیے پر سر رکھا بے ہوش ہوگئے۔ فورا ً حکیم محمود خاں اور حکیم احسن اللہ خاں کو اطلاع دی گئی۔ انہوں نے تشخیص کی کہ دماغ پر فالج گرا ہے۔ تمام کوششیں اور علاج کیے گئے مگر بے سود۔ انہیں ہوش نہیں آیا ، نہ ہی اس کے بعد انہوں نے کوئی بات کی۔ اسی حالت میں اگلے دن 15 فروری1869 ء(مطابق2 ذی قعدہ 1285 ء) روز دو شنبہ، دوپہر ڈھلے (بوقت ظہر) اس باکمال کا انتقال ہوگیا جس نے اگر ایک طرف اس ملک میں علم و ادب ِفارسی کو نقطہ معراج تک پہنچادیا تو دوسری طرف اردو نظم ونثر کو تقلید کی زنجیروں سے آزاد کرکے ایک نئے رنگ کی بنیاد ڈالی جس کی پیروی تو بہتوں نے کی مگر کامیابی کسی کو نصیب نہ ہوئی۔ الا ماشاءاللہ۔“ (ذکر غالب )

٭٪٭
اتواربازار سے ملنے والی تمام کتابوں کی مختصر اشاعتی تفصیل یہ ہے

۔مخدوم محی الدین ۔سردار جعفری ۔ اشاعت: کتب پبلشر لمیٹڈ، بمبئی1948
۔ذکر غالب ۔مالک رام۔جنوری 1955 ۔مکتبہ جامعہ دہلی۔
۔شب و روز ۔سوانحی مضامین ۔محمد شریف۔ لارک بک کلب، کراچی ۔اشاعت: 1963
۔22 دن پاکستان میں۔سفرنامہ ۔ عاشق جعفری۔ ملٹی میڈیا افئیر، لاہور۔ 2009
۔غالب کے تخلیقی سرچشمے۔ تحقیق۔ حامدی کاشمیری۔ یونین پرنٹنگ پریس، دہلی ۔مئی 1969
 

تلمیذ

لائبریرین
اس مرتبہ بھی کتابیں اچھی ہیں۔ محمد شریف صاحب کے بارے میں تفصیلی تعارف دلچسپ ہے۔
جزاک اللہ، جناب۔
جیہ ۔آپ کی دلچسپی کی دو کتابیں موجود ہیں۔
@محمد خلیل الرحمن
نایاب
 

جیہ

لائبریرین
اس مرتبہ بھی کتابیں اچھی ہیں۔ محمد شریف صاحب کے بارے میں تفصیلی تعارف دلچسپ ہے۔
جزاک اللہ، جناب۔
جیہ ۔آپ کی دلچسپی کی دو کتابیں موجود ہیں۔
@محمد خلیل الرحمن
نایاب
شکریہ بھیا۔ کیا کروں کراچی کیسے پہنچوں ان کتابوں کے لئے
 
شکریہ بھیا۔ کیا کروں کراچی کیسے پہنچوں ان کتابوں کے لئے
کراچی پہنچنے کی ضرورت ہی نہیں ، بس راشد اشرف بھائی سے درخواست کیجیے ، وہ آپ کے لیے ان کتابوں کو اسکین کرکے اپ لوڈ کردیں گے، بشرطیکہ کتابیں ضخیم نہ ہوں۔
 

جیہ

لائبریرین
مگر مجھے آن سکرین کتابیں پڑھنا بور کر دیتا ہے۔

میرا کتاب پڑھنے کا بھی عجب ہنجار ہے۔ بستر پر تین تکیے نہ ہوں، میں نیم دراز نہ ہوں، بستر کے پاس پانی کا گلاس میری دسترس میں نہ ہو، کمرے کی بتیاں گل نہ ہوں، سائڈ لیمپ روشن نہ ہو تو کس کافر کو پڑھنے میں مزا آتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
باہر بارش ہو رہی ہو، کھڑکی سے اس کی آواز آ رہی ہو۔ پانی کے گلاس کے ساتھ ساتھ گرما گرم چائے کی پیالی رکھی ہو، تو سونے پر سہاگے والی بات ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مگر مجھے آن سکرین کتابیں پڑھنا بور کر دیتا ہے۔

میرا کتاب پڑھنے کا بھی عجب ہنجار ہے۔ بستر پر تین تکیے نہ ہوں، میں نیم دراز نہ ہوں، بستر کے پاس پانی کا گلاس میری دسترس میں نہ ہو، کمرے کی بتیاں گل نہ ہوں، سائڈ لیمپ روشن نہ ہو تو کس کافر کو پڑھنے میں مزا آتا ہے

باہر بارش ہو رہی ہو، کھڑکی سے اس کی آواز آ رہی ہو۔ پانی کے گلاس کے ساتھ ساتھ گرما گرم چائے کی پیالی رکھی ہو، تو سونے پر سہاگے والی بات ہے۔
درج بالا شرائط کے مطابق تو ہم کافر ہی ٹھہرتے ہیں۔۔۔ :confused::eyerolling:
 

تلمیذ

لائبریرین
شکریہ بھیا۔ کیا کروں کراچی کیسے پہنچوں ان کتابوں کے لئے
نہیں، @راشداشرف صاحب کی بنائی ہوئی پی ڈی ایف سے آپ 'دیگ میں سے چند چاولوں' کا ذائقہ تو چکھ سکتی ہیں۔ویسے بھی یہ کتابیں آپ کو ملنے سے رہیں کیونکہ یہ کراچی میں پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے حاصل کی گئی ہیں، جناب راشد صاحب جہاں کے مستقل اور باقاعدہ زائر ہیں اور وہاں سے اب تک انمول خزاے سمیٹ چکے ہیں۔
 

جیہ

لائبریرین
تو یہ بات ہے۔ خیر اس کا بھی حل ہے۔ یہ جو پرنٹر گھر میں پڑا دھول میں نہاتا ہے، وہ کس دن کام آئے گا۔ ابھی نکالتی ہوں پرنٹ اور بھیجتی ہوں جلد ساز کے پاس۔

ویسے میں نے بھی چند کتابیں پنڈی کے فٹ پاتھ پر خریدی تھیں۔ اس میں اہم ترین اور نایاب کتاب "تاریخ اردو ادب" باتصویر ہے۔ جس کے مؤلف بابو رام سکسینہ ہیں۔ یہ غالبا 1940 میں چھپی تھی۔ اصل کتاب انگریزی میں ہے جس کا یہ اردو ترجمہ 1940 سے قبل کیا گیا تھا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مگر مجھے آن سکرین کتابیں پڑھنا بور کر دیتا ہے۔
میرا کتاب پڑھنے کا بھی عجب ہنجار ہے۔ بستر پر تین تکیے نہ ہوں، میں نیم دراز نہ ہوں، بستر کے پاس پانی کا گلاس میری دسترس میں نہ ہو، کمرے کی بتیاں گل نہ ہوں، سائڈ لیمپ روشن نہ ہو تو کس کافر کو پڑھنے میں مزا آتا ہے
انٹر نیٹ میڈیا کی پیپر لیس دنیا ایسے کفار بد کردار و شب بیدار سے بھری ہوئی ہے۔ایمان کو سنبھال کر رکھیے گا۔:laughing:
 

زبیر مرزا

محفلین
ہمیں تو اس خزانے تک راشد اشرف صاحب لے گئے تھے - جب بھی کراچی جانا ہوتا ہے یہاں جانا اولین ترجیحات میں شامل
ہوتا ہے - کتابیں ایسی کے جی چاہے سب خرید لیں لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ آدھی سے زیادہ کتابیں کراچی چھوڑکے آنی پڑتی ہیں کہ یہاں سے
کبھی اچار کے 5 کلو ہری مرچیں تو کبھی گُڑ لانے کا حکم نامہ آیا ہوتا ہے -
اچار کے لیے ساتھ نہ لاؤں میں کتابیں
جینا مجھے اس طرح گوارا تو نہیں تھا
پچھلے بار ہمارا بھتیجا علی ساتھ گیا ہے اور بچوں کی کتابیں وہ ٹافیوں کی طرح لیتا گیا :)
تو کتابیں خریدتا جا
قیمت میرے ذمے
اس بات کو وہ بخوبی جان گیا تھا لہذا اصل استفادہ اتوار کُتب بازار سے اُس نے ہی حاصل کیا -
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
تلمیذ

اتوار بازار کے احوال میں جن فاروق احمد کا ذکر ہے، ان کی والدہ کا انتقال جیسا کہ میں نے لکھا ہے، حال ہی میں ماہ رمضان میں ہوا ہے۔ ان کی والدہ کی دس ماہ کی شدید علالت کے دوران میں کئی مرتبہ فاروق احمد کے گھر گیا تھا۔ وہ ساری ساری رات والدہ کے پلنگ کی پٹی سے لگے بیٹھے رہتے تھے۔ صبح 6 بجے چند گھنٹوں کے لیے سوتے تھے اور 11 بجے دفتر چلے جاتے تھے، اسی کیفیت میں دس ماہ گزر گئے۔ بیماری لاعلاج اور انتہائی تکلیف دہ تھی جس میں مریض کی رگیں پیروں کی جانب سے سوکھنا شروع ہوتی ہیں اور مرض دھیرے دھیرے جسم کے اوپری حصے کی جانب وار کرتا ہے اور بالاآخر اعضائے رئیسہ کو ناکارہ کردیتا ہے۔ اس بیماری کا مغربی ممالک میں بھی کوئی علاج نہیں ہے اور یہ لاکھوں میں کسی ایک کو ہوتی ہے۔ فاروق احمد صاحب حیثیت ہونے کے اور والدہ کا ہر علاج کا بہترین علاج کرانے کے باوجود اپنی آنکھوں کے سامنے انہیں جاتا دیکھتے رہے تھے۔ انتقال سے ایک رات قبل فاروق احمد کو احساس ہوگیا تھا کہ ماں جانے والی ہے .... سو وہ کئی گھنٹوں تک ان سے باتیں کرتے رہے ۔ ۔پرانی باتیں ، اپنے بچپن کی باتیں، پرانے قصے اور وہ وقت گویانی سے محروم ہونے کے باوجود آنکھوں کے اشاروں سے جواب دیتی رہیں اور باوجود شدید تکلیف کے، آنکھوں ہی کی مدد سے اثبات میں جواب دیتی رہیں، مسکراتی رہیں۔ وہ ایک بلند حوصلہ خاتون تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد فاروق احمد کی پرورش عمدگی سے کی تھی۔ "نیک اور صالح اولاد" کی اصطلاح کا عملی مظاہرہ ہم نے یہاں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کی والدہ کو بھی احساس تھا کہ ان کے پاس وقت کم رہ گیا ہے۔ رات بھر کی گفتگو کے بعد صبح اپنے چہیتے بیٹے کو الوادع کہا۔
یہ تفصیل بتاتے وقت فاروق احمد کی اپنی آنکھیں تو خشک تھیں لیکن سننے والوں کی آنکھیں برس رہی تھیں۔


تعزیت کے لیے گیا تو عرض کیا کہ بھائی! جانا تو سبھی نے ہے لیکن آپ تو دنیا ہی میں جنت کما گئے۔

ہمارے معاشرے میں اخلاقی قدریں زوال پذیر ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ سنتے اور پڑھتے تھے کہ مغربی ممالک میں "اولڈ پیپل ہومز" کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ والدین ان میں پڑے رہتے ہیں اور بچوں کی جانب سے کرسمس پر کارڈ آجاتے ہیں۔ ایک روز وہیں سے سفر آخرت پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ اولاد کی جانب سے انتظامیہ کو ایک تعزیتی کارڈ مزید آجاتا ہے۔

ہمارے یہاں بھی ادھر جند برسوں سے یہ انہونی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس معاملے میں اب ہم بھی خود کفیل ہوگئے ہیں۔....مولانا ایدھی کو صورت حال سے نمٹنے کے لیے "اولڈ پیپل ہاؤس" بنانا پڑگیا ہے۔ اکثر و بیشتر میڈیا والے ادھر جانکلتے ہیں اور ان ضعیف والدین کی داستانیں سامنے آتی ہیں جن کو ان کی اولادیں چپ چپاتے رات کی تاریکی میں وہاں چھوڑ گئی ہوتی ہیں۔ اس عید پر بھی ایک ٹی وی چینل ادھر جانکلا تھا۔ اسی, اسی برس کے میاں بیوی، بہو کی ان سے مصالحت نہ ہوسکی اور بیٹا انہیں وہاں "جمع" کراگیا۔ خاتون رپورٹر نے ان کی زبانی ساری داستان سنی ۔ ۔ ۔ دونوں نے دل کے داغ عیاں کردیے۔ خاتون رپورٹر آخر میں پوچھا کہ " کیا آپ اپنے بیٹے کے لیے بدعا کرتے ہیں " ?
اس سوال پر تڑپ کر دونوں میاں بیوی بول اٹھے تھے "ہرگز نہیں بلکہ ہم تو اس کے لیے دعا کرتے ہیں"۔
ایک ایسی ضعیف خاتون تھی جو پنجاب کے کسی شیر سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا معاملہ بھی وہی تھا جو ان دونوں بوڑھے میاں بیوی کا تھا۔ بتانے لگی کہ " ایک روز بیٹے نے گاڑی میں بٹھایا اور کہا اماں! اسپتال چلتے ہیں، تمہارا چیک اپ کراؤں گا، بیمار جو رہنے لگی ہو"
وہ خوش خوش گاڑی میں بیٹھی اور بیٹا اسپتال کے دروازے پر اتار کر گاڑی دوڑاتا ہوا لے گیا۔ اتنا موقع بھی نہ مل سکا کہ وہ اسے روک پاتی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو وہ ایدھی سینٹر تھا۔ ایک لحظے میں ساری بات سمجھ میں آگئی۔ گھر واپس جاسکتی تھی لیکن سر جھکا کر اندر داخل ہوئی اور خود کو حالات کے سپرد کردیا۔ دو سال وہاں گزرے اور پھر ایک روز انتظامیہ نے کہا کہ اماں کو کراچی کے ایدھی سینٹر منتقل کردیا جائے۔
کراچی کے ایدھی سینٹر سے اس کا انٹرویو ایک برس قبل نشر ہوا تھا۔ "بدقسمتی" سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔
وہی روایتی اس سے بھی سوال کیا گیا "اماں! بیٹے کے لیے بدعا کرتی ہو


لیکن ماں بیٹے کے لیے بھلا کب بدعا کرتی ہے ؟
 

تلمیذ

لائبریرین
کیسا دردناک موضوع چھیڑ دیا ہے آپ نے جناب راشد اشرف صاحب۔

مادیّت کی دلدل میں پھنسے ہوئے اس بے حِس معاشرے میں قدروں کی یہ پامالی فی زمانہ اتنی شدید اور عام ہو گئی ہے کہ کیا کہیں۔
والدین اور اولاد کا رشتہ جو پیار و محبت اور عزت و احترام کے اصولوں پر استوار ہونا چاہئے، اب بالکل بے توقیر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ضِمن میں اپنے ارد گرد کی مثالیں دیکھ دیکھ کر دل بے حد پریشان ہوتا ہے۔ بچوں (لڑکوں) کی شادی سے پہلے والدین کو ان سے کم ہی شکایت ہوتی ہے لیکن آگے یہ نصیبوں کی بات ہے۔ اگر آنے والی بھاگوان کے دل میں اللہ تعالےٰ نے شوہر کے والدین کے مقام کی پہچان ڈال رکھی ہے تو پھر تو ان کی زندگی کا آخری حصہ کچھ بہتر گذرنے کی کچھ امید کی جا سکتی ہے ورنہ وہی کچھ ہوتا ہے جس کا ذکر آپ نے کیا ہے۔ والدین جنہوں نے خالقِ کائنات سے گڑا گڑا کر بچے حاصل کئے ہوتے ہیں وہ تو ان سب کو پال لیتے ہیں لیکن یہ بوڑھے جب ناتواں ہو جاتے ہیں تو یہ سارے بچے مل کر بھی ان دو بندوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ پھر جب یہ اولاد خودبڑھاپے کے دور میں داخل ہوتی ہے تو عموماً ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو انہوں نے اپنے والدین کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور یہ Vicious Cycle یوں ہی ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔

مغرب میں اولڈ ہومز کا چلن کئی سال پہلے متعارف ہوا تھا جہاں پر بوڑھوں کو داخل کروا دیا جاتا ہے۔ ان معاشروں میں اب یہ اولڈ ہوم ایک عمومی طور طریقہ ہے۔ اور بوڑھوں کا وہاں رہنا کچھ اتناعجیب نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی نجی شعبے میں چند اولڈ ہوم شروع ہو گئے ہیں جن سے سرِ دست اہل ثروت ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہاں پر رہنے والے بزرگوں کی روز مرہ ضروریات تو بطریقِ احسن پوری ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن ان کے احساسات اور جذبات کی تسکین کہاں سے ہو؟ نہ جانے وہ اپنا وقت وہاں پر کیسے گزارتے ہیں اور ذہنی کرب و اذیت کے کس المناک دور سے گذرتے ہیں۔ یہ تو ان کا دل یا پھرخدا ہی جانتا ہوگا۔

بہر حال والدین کی یہ ناقدری اور اولاد کی طرف سے عدم توجہی ہمارے معاشرے کا ایک ایسا دردناک المیہ ہے جو کئی سوال اٹھاتا ہے۔ ایسے میں فاروق احمد جیسے خوش قسمت بیٹے درخشندہ ستارے ہیں جن سے سبق حاصل کرتے ہوئے شاید کچھ لوگ اپنے معمر والدین کی قدر کرنا سیکھ جائیں اور اور اپنی عاقبت سنوار لیں۔

دکھی کر دینے والے اس موضوع پر محترمہ رئیس فاطمہ اور عامر خاکوانی نے بھی کئی کالم تحریر کئے ہیں۔

شراکت اور ٹیگ کرنے کے لئے شکرگذاری، جناب۔

محمد خلیل الرحمٰن فلک شیر نیرنگ خیال
سید شہزاد ناصر سید زبیر نایاب
زبیر مرزا عاطف بٹ
 
آخری تدوین:

فلک شیر

محفلین
فاروق احمد صاحب جیسے بیٹوں کے لیے اور کیا کہوں کہ
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہیں ہوں گے مگر ایسے بھی ہیں​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
تلمیذ سر۔۔۔۔۔
راشد اشرف صاحب نے جو فرمانبردار بیٹے کی بابت لکھا۔۔۔۔ اب ایسے سچے عکس کہاں دل کے آئینے پر بنتے ہیں۔۔۔ کہیں کوئی خال خال۔۔۔۔ کہیں کوئی بھولی بھٹکی مثال۔۔۔۔ جنتوں کے امیں دنیا میں واضح کر دیتا ہے سچا رب ایسے لوگوں کی صورت۔۔۔

جہاں تک دوسرا معاملہ ہے بوڑھے لوگوں کی قیام گاہوں کا۔۔۔۔ میں کہاں اس قابل ہوں کہ اس بابت کچھ کہنے لکھنے کی ہمت کرسکوں۔۔۔ جب جسم ہی سارا جلتا ہو۔۔۔ پھر دامن دل کو بچائیں کیا۔۔۔
پہلی بار جب احمد جاوید صاحب کی زبانی سنا
"ہم ایک منحوس دلدل پر بننے والے بلبلوں سے زیادہ کچھ نہیں رہ گئے"
تو پریشان ہوگیا۔۔۔ بڑی دیر اسی سوچ میں گزر گئی۔۔۔ یہ کیا کہہ دیا سر نے۔۔۔ اتنی بڑی بات۔۔۔ کیسے مگر کیسے۔۔۔
سوال خام تھا۔۔ کر نہ سکا۔۔۔ جواب سمجھ آیا نہیں۔۔۔ لیکن وقت کے ڈھلتے سائے بہت کچھ اپنے ساتھ لپیٹتے جاتے ہیں۔۔۔ اور میں بےبسی سے ان کو سمٹتا دیکھتا جاتا ہوں۔۔۔ ذہن، سوچ، دائرہ خیالات، الفاظ ہر چیز کا قحط ہے میرے پاس۔۔۔ شاید کبھی کوئی ایسا موڑ آئے کہ میں بھی اس ضمن میں آپ کی طرح کچھ الفاظ لکھنے کا اہل پاؤں خود کو۔۔۔ فی الوقت تو خود کو قاصر پاتا ہوں۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
اللہ تعالی محترم فاروق صاحب کی والدہ کی مغفرت فرمائے آمین ۔۔۔
ماں باپ جو کہ بچوں کے لیئے ٹھنڈی چھاؤں فراہم کرتے ساری زندگی دھوپ کی سختی برداشت کرتے ہیں ۔ ان والدین کے ساتھ بیتنے والا یہ تلخ سچا المیہ ۔۔۔۔۔۔۔ جانے کب سے جاری ہے اور کب تک چلے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے نے روز بیوی کی شکایتیں جو کہ باپ کی معذوری اور بڑھاپے سے منسلک تھیں ۔ سن سن کر اک دن ارادہ کیا کہ باپ کو دریا میں پھینک آئے گا ۔ تاکہ روز روز کی چخ چخ سے نجات ملے ۔ باپ کو کندھوں پر اٹھا دریا کے کنارے جا پہنچا ۔اک مناسب جگہ دیکھ جب پھینکنے کا ارادہ کیا تو باپ نے سر کو جھکا کر بیٹے کے کان کے قریب کپکپاتی آواز میں کہا کہ ۔۔۔۔ بیٹا تھوڑا آگے کر کے پھینک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں میں نے اپنے باپ کو پھینکا تھا اسے ڈوبتے دیر لگی تھی ۔ اور اس کی چیخ و پکار مجھے آج تک ستاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top