پاکستان کے نصاب میں صدر بش کی قصیدہ خوانی

سیفی

محفلین
السلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ بوریت کو پڑھتے ہوئے ایک دلچسپ چیز ہاتھ لگی ہے۔۔۔سوچا آپ کو بھی شریک کر لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دی لیڈر: نصابی کتاب میں جارج بش پر نظم

مبشر زیدی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد




ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی شخصیت اور ان کی پالیسیوں پر بحث جاری ہے پاکستان کی حکومت نہ صرف ان کے خیالات سے اتفاق کرتی ہے بلکہ ان کو ایک عظیم رہنما قرار دے رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسل کو بھی یہی بات پڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزارت تعلیم سے منظور شدہ گیارہویں جماعت کے لئے شائع کی گئی انگریزی کی نئی کتاب میں امریکی صدر کی شان میں ایک قصیدہ لکھا گیا ہے جس میں ان کو ایک سچا رہنما قرار دیا گیا ہے۔ گو اس نظم میں، جس کا عنوان ’دی لیڈر‘ ہے، صدر جارج بش کا نام نہیں دیا گیا مگر اس نظم کے تمام مصرعے انگریزی کے ان حروف سے شروع ہوتے ہیں جن کو اگر اوپر سے نیچے کی طرف پڑھا جائے تو وہ ’پریذیڈنٹ جارج ڈبلیو بش‘ بنتا ہے۔

وزارت تعلیم سے منظور شدہ اس کتاب کو نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے۔ اس سال اکتوبر میں شائع ہونے والی یہ کتاب اب بازار میں دستیاب ہے اور کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی وزارت تعلیم گزشتہ تین برسوں سے نصاب پر نظر ثانی کر رہی ہے اور صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز نے کئی مواقع پر کہا ہے کہ نصاب کو جدید طرز پر استوار کیا جائے گا۔

’دی لیڈر‘ نامی یہ نظم اس کتاب کے صفحہ دو سو چھبیس پر شائع کی گئی ہے۔اس نظم کے تمام استعارے امریکی صدر کی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس نظم میں کوئی ربط نہیں ہے۔ پہلی رباعی میں چار مصرعے ہیں، دوسری میں پانچ، تیسری میں پھر چار، چوتھی میں صرف دو، جبکہ پانچویں میں پانچ مصرعے ہیں۔

لگتا یوں ہی ہے کہ لکھنے والے نے صرف صدر بش کا نام پورا کرنے کے لئے اس نظم کی مختلف رباعیوں میں اپنی مرضی کا ردو بدل کیا ہے۔

نظم لکھنے والے کا نام گمنام لکھا گیا ہے مگر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ’گمنام‘ امریکی ہے یا کوئی پاکستانی ’اتحادی‘۔

نظم کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے:

صابر اور ثابت قدم رہتا ہے سب کچھ برداشت کر کے
تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے
طرز عمل میں نرم ہے مگر سٹیل کی طرح مضبوط بھی ہے
ایمان کا پکا ہے خوشگوار طور پر اصلی ہے

ڈرتا نہیں ہے تجویز کرنے میں جو جرات مندی کا تقاضہ ہے
عام سانچے میں ڈھلتا نہیں ہے
آنکھیں ایسی جو دور تلک دیکھ سکیں، جہاں تک عام نظر نہ پہنچ پائے
پیچھے نہیں ہٹتا جب وہ سچ کو دیکھ لیتا ہے
نہ صرف کہتا ہے سب سچ بلکہ اس کو پورا بھی کرتا ہے

آگے چلتا ہے سمجھ کر کہ وہ صحیح ہے
اس وقت بھی جب اس پر شبہہ ہو کہ وہ کیوں لڑنا چاہتا ہے
بار بار وہ اپنا کیس واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے
ان لوگوں تک بھی پہنچتا ہے جو اس کو نہیں سنتے

مزید مضبوط ہو رہا ہے اور لڑکھڑائے گا نہیں
خود پر یقین ہے اور اپنے قول کا پکا ہے

دنیا سے چاہتا ہے کہ وہ اس کی ثابت قدمی کا ساتھ دے
جنگ کے لئے تیار ہے مگر امن کا دعا گو ہے
بدی کو مٹانے میں اپنی قوت لگا رہا ہے
لیڈر کی طرح اور اعتماد کے قابل
کھڑا ہے ایک شخص جو کرے گا وہ جو اسے کرنا چاہئے

اس نظم کے بارے میں وفاقی وزارت تعلیم کے ایک عہدیدار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ یہ نظم امریکی صدر جارج بش کے بارے میں ہی ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم جنرل جاوید اشرف قاضی سے جب اس بارے میں رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو بتایا گیا کہ وہ چین کے دورے پر ہیں اور جمعرات کی شب کسی وقت واپس آئیں گے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سیکریٹری اسلم راؤ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ اس نظم کے تمام مصرعوں کے پہلے حروف کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو وہ امریکی صدر کا نام بن جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ نظم لیڈر کے بارے میں ہے اور اس کی خوبیوں کو بیان کرتی ہے۔
 
خون کے آنسو

یشنل بک فاؤنڈیشن کے سیکریٹری اسلم راؤ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ اس نظم کے تمام مصرعوں کے پہلے حروف کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو وہ امریکی صدر کا نام بن جاتا ہے۔

واللہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
غلام حکمران ہیں۔
ممکن ہے اس کا فائدہ ہو کہ جوانوں میں خود سوچ بچار کرنے کا ہوش جاگ جائے۔ اس کے بعد غلام حکمرانوں کی خیر نہیں۔
 
’اماں جی‘ نصابی کتابوں میں
20051130144340mush_mom.jpg


بیکن ہاؤس سکول نے جنرل مشرف کی والدہ مسز زریں مشرف کا انٹرویو نصابی کتابوں میں شامل کیا ہے۔
پاکستان میں نجی سکولوں کے سب سے بڑے ادارے بیکن ہاؤس نے چوتھی جماعت کے طلبہ کو پڑھائے جانے والے مضمون معاشرتی علوم میں صدر جنرل پرویز مشرف کی والدہ زریں مشرف کا انٹرویو شامل کیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ برسر اقتدار حکمران خاندان کے کسی فرد کا انٹرویو کسی درسی کتاب میں شائع ہوا ہے۔

معاشرتی علوم کی اس انگریزی کتاب کا نام سوشل سٹڈیز ورک بک ٹو ہے۔اس کے صفحہ نمبر سات پر مسز زریں مشرف کے تعلیمی ریکارڈ کے علاوہ ان کے خاندان کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں۔

دو صفحات پر مشتمل اس باب میں زریں مشرف کی دو تصاویر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے صفحہ نمبر اٹھارہ پر دوبارہ زریں مشرف کا ایک اور انٹرویو ہے جس میں انہوں نے تقسیم کے زمانے میں پہنے جانے والے کپڑوں کے متعلق زریں مشرف کے خیالات اور ان کے خاندان کی تصاویر بھی شائع کی ہیں۔

واضح رہے کہ بیکن ہاؤس سکول سسٹم وفاقی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے خاندان کی ملکیت ہے اور وہ اور ان کی اہلیہ اس ادارے کی ڈائریکٹر اور مالک ہیں۔

اس باب کے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ اس کتب میں صدر پرویز مشرف کی والدہ کا انٹرویو اس لیے شائع کیا گیا ہے تاکہ برصغیر کی تقسیم کے وقت کے حالات کو سمجھا جا سکے۔

بشکریہ بی بی سی اردو ڈات کام

اور اب آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
 
اس دفعہ غلطی سے کتاب میں نام چھپ گیا ہے ۔۔۔۔
اگلی دفعہ غلطی سے نوٹ پر تصویر چھاپ دیں گے ۔۔۔۔
آخر انسان غلطی کا پُتلا ہے ۔۔۔۔ آفرین ہے بھئی!

pak_100_rs.jpg
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم

انصاف کے نام پر چند گذارشات پیش کرنا چاہتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ حضرات اختلاف رائے کے نام پر ان گذارشات کو قبول کریں گے۔

پورا آرٹیکل پڑھنے کے بعد جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے:

1۔ یہ نظم صدرِ پاکستان، یا وزیر اعظم پاکستان کے حکم سے شائع نہیں ہوئی ہے۔

2۔ جنہوں نے یہ نظم شائع کی ہے، ان کا بھی کہنا ہے کہ انہیں پتا نہیں کہ اس کے ابتدائی حروف سے جارج بش بنتا ہے، بلکہ انہوں نے اتفاقیہ طور پر اسے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔

3۔ جب یہ شبہ پیدا ہوا کہ اس نظم کا تعلق جارج بش سے ہو سکتا ہے، تو یہ نظم نصاب سے نکال دی گئی۔ (یعنی جو نئے ایڈیشن شائع ہوں گے، ُاس میں یہ شامل نہیں ہو گی)۔

ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں آپ حضرات کے کسی حد تک EXTREME تبصروں سے اتفاق نہیں کر پا رہی ہوں۔

۔ پہلا یہ کہ آپ لوگ اسے واقعی اتفاقی حادثہ کیوں نہیں تسلیم کر لیتے، جبکہ ملزم صاف طور پر کہہ رہا ہے کہ اس نظم کو اس بنیاد پر شائع نہیں کیا گیا ہے کیونکہ وہ جارج بش پرستی میں مبتلا ہے۔

۔ کیا آپ لوگ دلوں کا حال جاننے کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ کو پتا ہے کہ ملزم نے کس نیت سے یہ نظم چھاپی؟

۔ ملزم پر الزام دینے کے لیے آپ کے پاس سوائے اپنے Conjecture کے کچھ نہیں ہے۔

۔ کیا آپ کو یہ بات مضحکہ خیز معلوم نہیں ہو رہی ہے کہ جان بوجھ کر ایسی نظم چھاپی جائے کہ جس میں جارج بش کو کھوجنے کے لیے انسان کو سپر انٹیلیجنٹ ہونا پڑے۔
اور اگر کوئی کھوج لے تو اُس کا فائدہ ہونے کی بجائے الٹا ملزمان کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔
اس لیے آپ مجھے ایک تسلی بخش جواب دیں کہ ہ ملزمان اس نظم کو چھاپ کر کیا فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے؟

صدرِ پاکستان میرے رشتہ دار نہیں ہیں، لیکن مجھے آپ سے اختلاف اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ میں آپ کے تبصروں کو انصاف کے معیار سے نیچے دیکھ رہی ہوں۔

کیا آپ کو علم نہیں کہ امریکہ نے پاکستان پر کتنا دباؤ ڈالا تھا کہ پاکستان عراق میں اپنی فوج بھیجے، مگر موجودہ صدرِ پاکستان نے اس سے انکار کر دیا تھا؟

میں تسلیم کرتی ہوں کہ ہمارے حکمران غلام ہیں، مگر یہ اُن کے نفس نہیں ہیں جو غلام ہیں، بلکہ یہ اُن کی مجبوریاں ہیں جو انہیں غلام بناتی ہیں
(میری یہ رائے خصوصی طور پر موجودہ حکمران کے لیے ہے، کیونکہ ماضی حکمرانوں کی بات کرنا وقت کا ضیاع ہے)۔

اور جس طرح میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ جب غلام حکمرانوں کی بات اٹھائیں، تو ہمیں چاہیے کہ پہلے ہم اُس غلام عوام کی بات کریں جو رشوت و سفارش اور کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ غلام عوام جو ماضی قریب تک اپنی سوئی تک خود نہیں بناتی تھی۔ وہ غلام عوام جو "میڈ ان پاکستان" پر ہمیشہ "میڈ ان فارن" کو ترجیح دیتی آئی ۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ ایک غلام قوم کی غلامانہ ذہنیت کا اور کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟؟؟

ہمارے حکمران اور کچھ نہیں ہیں سوائے ہمارے اپنے عکس کے (اللہ نے ہمارے حکمران آسمان سے نازل نہیں فرمائے، بلکہ وہ ہم میں سے ہی ہیں)۔


والسلام۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم مہوش۔ آپ کی پوسٹ کی طوالت پر نظر ڈال کر تاثر ملتا ہے کہ آپ نے اس موضوع کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اسی لیے ایک تفصیلی پوسٹ لکھی ہے۔ میں نے اس تھریڈ کا جائزہ لیا ہے تو ایک دو پوسٹس کے علاوہ باقی سب ون لائنر ہیں اور وہ بھی صورتحال سے لطف اندوز ہونے کے لیے۔ کم از کم مجھے کوئی تبصرہ ایسا نہیں نظر آیا جسے extreme قرار دیا جا سکے۔ جہاں تک زیر موضوع نظم ڈاؤنلوڈ کرنے اور اسے نصاب میں شامل کرنے والے صاحب کی نیت کا جائزہ لینے کا تعلق ہے تو یہ کام یقیناً ان صاحب سے پوچھ گچھ کرنے والے کر سکتے ہیں۔ اگر کسی نے واقعی جان بوجھ کر یہ نظم نصاب میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے تو نہایت حماقت کا ثبوت دیا ہے۔

کسی بھی سطح کے نصاب تعلیم کی ترتیب کافی محنت اور توجہ طلب کام ہے۔ لگتا ہے کہ گوگل نے ہمارے ملک میں ماہرین تعلیم کی مشکل آسان کر دی ہے۔ نجانے اور کتنا انٹرنیٹ سے ڈاؤنلوڈ شدہ مواد موجود ہے ہمارے نصاب تعلیم میں۔

پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہیں۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ملک پر فوجی اور سول بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ مسلط ہے۔ موجودہ حکمران اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
 
Top