پاکستانی انجینئر نے پانی سے گاڑی چلا دی

رانا

محفلین
31 مرد اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کروانے کے ساتھ ساتھ کوئی بیرون ملک ستر کانفرنسوں میں شریک ہوئے ۔
کوئی ایجاد نظر سے نہیں گزری ۔


کیا ان کے تحقیقی مقالات سے کہیں پاکستان کا بھی بھلا ہوا ہے یا بین الاقوامی جرائد ہی مستفید ہوتے رہے ہیں ۔ ؟
ہمارے انجینئرز نے صرف مقالات ہی لکھے کیا ۔ ؟


محترم! موجد حضرات کی اکثر ایجادات سائنسدانوں کے مقالات کی ہی مرہون منت ہوتی ہیںِ۔ چشم تصور سے ذرا دیکھیں کہ اگر آج سائنسدان ریسرچ بند کردیں تو ایجادات کا گراف ایکس اور وائی ایکسس کے وصال پر محدب عدسہ رکھ کر دیکھنا پڑے گا۔

31 مردوں اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کرادینا کوئی معمولی بات ہے کیا؟ ان میں سے اگر بعد میں کوئی ایجاد کرتا ہے تو اس میں اس ڈاکٹریٹ کے دور میں حاصل کیا گیا علم ایک بنیاد کی حیثیت رکھے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کے تحقیقی مقالات سے پاکستان کا بھی کہیں بھلا ہوا ہے یا نہیں۔ تو اگر تو آپ کی مراد مادی اور ڈالری بھلے سے ہے تو اس سوچ کے ساتھ سائنس کبھی پروان نہیں چڑھتی۔ اگر قرآن خدا کا قول ہے تو سائنس خدا کا فعل۔ اور خدا کا فعل اپنی تمام مخلوق کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے نہ کہ کسی خاص علاقے کے لوگوں کےلئے۔ جہاں کہیں جو بھی خدا کے فعل پر غور و فکر کرے گا نہ صرف خود اسکا فائدہ اٹھائے گا بلکہ تمام بنی نوع انسان تک اسکے فوائد پہنچتے ہیں۔

قرآن نے کائنات پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہیں بھی اس نیت کا ذکر نہیں کیا کہ کوئی ملکی فائدہ مدنظر ہو۔ بلکہ کھلی دعوت عام ہے۔ اس لئے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ جس چیز پر تحقیق کررہا ہے وہ آئندہ کب اور کسطرح انسانیت کے کام آئے گی۔ ڈھیروں ایسی تحقیقات ہیں جن سے اس وقت انسان نے فائدہ اٹھایا جب تحقیق کرنے والا بھی دنیا سے گزر چکا تھا۔ ڈاکٹر عطاالرحمان یا دوسرے پاکستانی سائنسدانوں کی تحقیقات کیا معلوم کب کہاں کن مفید کاموں میں استعمال ہوجائیں۔

ایٹم کی اندرونی ساخت پر صدیوں سے تحقیق جاری ہے۔ ہر بعد میں آنے والے سائنسدان نے پہلے سے کئے گئے کام کو ہی بنیاد بنا کر اپنی تحقیق جاری رکھی لیکن کسی کو بھی نہیں علم تھا کہ اس تحقیق کا فائدہ کب اور کیسے ہوگا۔ بس علم کی پیاس اور تحقیق کی لگن تھی۔ صدیوں بعد وہ تحقیق آج اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ اب جبکہ آئندہ کچھ عرصے تک توانائی کا ایک بڑا ذخیرہ یعنی تیل ختم ہونے کو ہے تو اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی نیوکلئیر توانائی انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے۔ ذرا تصور تو کریں اگلے آنے والے کچھ برسوں کا کہ اگر تیل آپ کی زندگی میں ہی ختم ہوجاتا اور کسی نے ایٹم پر تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی ہوتی تو توانائی کا کیسا خطرناک بحران جنم لیتا۔ پاکستان میں ہمیں تو یہ سب دیکھنے کے لئے چشم تصور کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور پھر یہی صدیوں سے ہونے والی تحقیق ہی آج پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناگئی ہے۔ اس تحقیق کو ذرا صفحہ ہستی سے مٹادیں اور پھر اپنے کسی انجینئر سے کہیں کہ اب ایٹم بم کا صرف خاکہ ہی بناکردے۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا کیا گیا کام آج سرن میں گاڈ پارٹیکل کی دریافت میں مددگار ثابت ہوا ہے اور انہوں نے اسکا کھل کر اعتراف کیا ہے اور پاکستان کا نام بھی اس گاڈ پارٹیکل کی تحقیق کے ساتھ لیا گیا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس کا فائدہ کیا ہے تو یہ ایسا ہی سوال ہوگا جیسا کہ کوئی صدیوں پہلے ایٹم کی تحقیق پر کام کرنے والے کسی سائنسدان سے کہتا کہ بھائی کیوں وقت برباد کررہے ہو اسکا فائدہ تو بتاؤ۔
 

ساجد

محفلین
انہوں نے پانی "سے" گاڑی چلائی ہے، میں پانی "میں" گاڑی چلانے کا منصوبہ بنا رہا ہوں۔ پانی کے اندر پانی سے گاڑی چلے گی، کیا بات ہے میری۔ واہ واہ۔
یوں کہئے نا ، شمشاد بھائی ، کہ پانی میں مدھانی چلائیں گے جیسی آج کل پاکستان میں ہر شعبے میں چلائی جا رہی ہے ۔ پانی میں جتنی بھی مدھانی چلا لیں مکھن نہیں نکلے گا :)۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جب سائنسی تعلیم و تربیت کے اداروں اور نصاب تعلیم پر توجہ نہیں دی جائے گی تو پھر سائنسی ترقی کہاں سے ہو گی؟۔مجھے یاد ہے کہ میرے لڑکپن میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر سائنسی تحقیق پر مبنی پاکستانی و عالمی یونیورسٹیوں کے کام پر ہفتہ وار پروگرام پیش کئے جاتے تھے۔ ایک رسالہ ہوا کرتا تھا سائنس میگزین کے نام سے جو اس قدر سہل انداز میں لکھا ہوتا تھا کہ سائنسی تکنیک سے بالکل نا بلد افراد بھی اسے سمجھ سکتے تھے اور ان کے اندر سائنس کے بارے میں دلچسپی پیدا ہو جاتی تھی۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ اداروں میں ہی سائنسی تعلیم پر زوال آ چکا ہے تو عامۃ الناس کے لئے کون اس تعلیم کو عام کرے گا؟۔ اب تو عاملوں ، جوتشیوں ، نجومیوں اور حکیموں کے اشتہارات و پروگرامز ٹی وی اور ریڈیو پر ملتے ہیں سائنسی تحقیق کی بات عنقا ہوئی۔
 

محمدصابر

محفلین
اس ساری گفتگو کو پڑھ کر اک سوال ذہن میں ابھرا ہے کہ
1947 سے لیکر آج 2012 تک پاکستان نے کتنے انجینئرز پیدا کیئے ۔
اور ان انجینئرز نے پاکستان کے لیئے کیا کیا ایجادات کی ہیں ۔ ؟
عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ یہ انجینئرز صرف مینٹی نینس اور پاکستان میں درآمد ہونے والی مشینز کی نقالی ہی میں مصروف رہتے ہیں ۔
ابھی ڈاکلٹر عطا الرحمن کا بائیو ڈاٹا دیکھا ۔
31 مرد اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کروانے کے ساتھ ساتھ کوئی بیرون ملک ستر کانفرنسوں میں شریک ہوئے ۔
کوئی ایجاد نظر سے نہیں گزری ۔
میں نے ابھی ان کا وکی پیج دیکھا ہے یہاں کوئی اٹھارہ پیٹنٹس کا ذکر ہے۔ تفصیل کے لئے شاید دوبارہ گوگل کرنا پڑے۔

Academic career

Atta ur Rahman started his career in 1964 as a Lecturer at University of Karachi. He remained Fellow at Kings College, Cambridge between 1969 to 1973. In 1977, he became Co-Director of Hussain Ebrahim Jamal Research Institute of Chemistry at University of Karachi to become Director in 1990. He has over 852 publications in leading international journals in several fields of organic chemistry including 662 research publications, 18 patents, 110 books and 59 chapters in books published by major U.S. and European presses. Seventy sıx students have completed their Ph.D. degrees under his supervision.
 

کامل خان

محفلین
کامل خان صاحب اس پوسٹ کو پر مزاح ریٹ کرنے کے پیچھے کیا حکمت ہے؟ کہیں اوپر والی پوسٹ کا ریٹ غلطی سے نیچے تو نہیں کردیا آپ نے؟:)
ابھی کل ہی ایک صاحب بتا رہے تھے کہ قرآن کی سات سو کے قریب آیات ایسی ہیں جن میں اللہ نے کائنات پر غوروفکر کرنے کی طرف انسان کو بار بار توجہ دلائی ہے۔
مذہب اندھی تقلید کا مطالبہ کرتا ہے۔ غوروفکر اور اس سے اٹھنے والے منطقی سوالات کا مذہب کے پاس کوئ جواب نہیں۔ اگر کوئ ایسی غلطی کرتا ہے تو اسکی سزا موت ہے۔
ان صاحب نے محض ایک شرلی چھوڑی اور آپ نے مان لی۔ اسلئے مجھے یہ پر مزاح معلوم ہوئ۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
کامل خان صاحب مجھے آپ سے اختلاف ہے۔ مذہب اندھی تقلید کا تقاضہ کبھی نہیں کرتا، یہ نادر کلیہ آپ نے کہا سے لے لیا؟مذہب آپکو غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور اپنے ہر سوال کا شافی جواب پانے کے بعد ہی آپ مذہب کی طرف آتے ہیں۔ قال اللہ تعالٰی:
اللہ تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس حال میں کہ وہ انصاف کا حاکم ہے اور فرشتے اور علم والے بھی گواہی دیتے ہیں کہ اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ سورۃ: 3 آیہ: 18 رکوع: 2
اشارہ شاید کافی ہو آپ کے لیے۔۔۔۔!
 

دوست

محفلین
مجھے یہ سن کر انتہائی دکھ محسوس ہو رہا ہے کہ سائنس کو امب پکانے والا مصالحہ خیال کیا جا رہا ہے۔ امب ہوں، ان میں مصالحہ رکھا جائے اور چوبیس گھنٹے میں امب پک کر مٹھے ہو چکے ہوں۔ یہاں لوگوں کو مرنے کے بعد نوبل پرائز ملے، ساٹھ ساٹھ سال، پچاس پچاس سال لگ گئے ان کی دریافت کو پذیرائی ملتے ہوئے۔ آپ کی مہربانی ہے پانی سے گڈی چلانے اور ساٹھ ستر لوگوں کو پی ایچ ڈی کروانے والے کو ایک ہی ڈنڈے سے نہ ہانکیں۔ آپ نے کھوتا گھوڑا برابر سمجھ لیا ہے۔ میں کسی پانی سے گڈی چلانے والے سائنسدان کی مخالفت نہیں کر رہا۔ لیکن براہ کرم سائنس کے سلسلے میں اپنی سوچ کو ذرا امب پکانے والے مصالحے سے ہٹا کر سوچیں۔ تحقیق کا نتیجہ ہمیشہ 24 گھنٹے بعد پکے امبوں کی شکل میں سامنے نہیں آتا۔ اگر سارے ایسا ہی سوچنے لگیں کہ میری اس تحقیق کا قلیل مدتی فیدہ تے ہے کوئی نئیں، تے فیر کی فیدہ۔ تو ساری دنیا ہتھ پر ہتھ رکھ کر بیٹھی رہے۔ امب پکانے والا مصالحہ قسم کی تحقیقات بھی ہوتی ہیں جیسی گراہم بیل کی تھی، لیکن اس کے علاوہ تحقیقات بھی ہوتی ہیں جیسی آئن اسٹائن کی تھی۔ یہاں انجینئر صاحب کی گڈی ہی پانی سے چلوائیں، سائنس کی لت کیوں توڑتے ہیں۔
 

رانا

محفلین
مذہب اندھی تقلید کا مطالبہ کرتا ہے۔ غوروفکر اور اس سے اٹھنے والے منطقی سوالات کا مذہب کے پاس کوئ جواب نہیں۔ اگر کوئ ایسی غلطی کرتا ہے تو اسکی سزا موت ہے۔
یہاں مذہب کی جگہ "مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار" کے الفاظ لکھ دیں تو یہ سو فیصدی غلط جملہ ایک حقیقت میں بدل جائے گا۔ ویسے میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ آپ نے اس اٹل حقیقت کو ہی بیان کیا ہے۔ شائد ٹھیکیداروں سے نالاں ہونے کے باعث انداز کچھ طنزیہ ہوگیا ہے۔:)

ان صاحب نے محض ایک شرلی چھوڑی اور آپ نے مان لی۔ اسلئے مجھے یہ پر مزاح معلوم ہوئ۔

میں صاحبان شرلیوں کی ایسی شرلیوں سے بیر نہیں رکھتا جن کا نفس مضمون اٹل حقیقت ہو۔ سات سو کے لفظ پر شائد آپ کو اعتراض ہو کہ میں نے خود تحقیق نہیں کی کہ کم زیادہ ہوسکتی ہیں کیونکہ نفس مضمون سے میں پوری طرح متفق ہوں کہ جتنا قرآن نے بار بار انسان کو تخلیق کائنات پر تحقیق کے لئے اکسایا ہے یہ تو خود مغربی سائنسدانوں کے لئے بھی حیران کن ہے۔
یہاں سورہ الملک کی صرف دو آیات کا حوالہ دوں گا جو سویڈن کے سٹاک ہوم میں نوبل انعام کی تقریب میں ڈاکٹر عبدالسلام نے تلاوت کیں۔ ان چوٹی کے سائنسدانوں کے جھرمٹ میں جب موقع محل کی مناسبت سے یہ آیات تلاوت کی گئیں تو آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہر ایک کو یہی محسوس ہوتا ہوگا کہ شائد ان آیات میں خدا براہ راست ان سے ہی مخاطب ہے۔

"وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تُو رحمان (خدا) کی تخلیق میں کوئی رخنہ نہیں دیکھتا۔ اور تُو اپنی آنکھ کو (ادھر ادھر) پھیر کر اچھی طرح سے دیکھ لے۔ کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے؟ پھر بار بار نظر کو چکر دے، وہ آخر تیری طرف ناکام ہوکر لوٹ آئے گی۔ اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔ (اور کوئی رخنہ نظر نہ آئے گا) "
(سورہ المک آیات 3 تا 4)
 

نایاب

لائبریرین
محترم ، تحقیق و ایجاد کا سائنسی عمل اس قدر سطحی نہیں کہ روزمرہ کی مستعمل اشیاء کی بنا پر اس کی درجہ بندی کی جائے۔ میں آپ کو نیوٹن اور آئن سٹائن کی مثالیں دے چکا ہوں جن کے نام سے کوئی ایجاد منسوب نہیں لیکن جدید سائنس ان عظیم سائنسدانوں کی تحقیق و دریافت کی مرہون منت ہے۔ کوئی بھی ایجاد محض ایک شخص کے راتوں رات کئے گئے عمل کے نتیجہ میں آپ تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کے پیچھے سائنسی تحقیق و تشکیک کا ایک طویل عمل موجود ہوتا ہے۔
نیز کسی بھی محقق کا کام کسی قوم ، نسل یا مذہبی گروہ کی خدمت کرنا نہیں بلکہ ان کا نصب العین تخلیق علم اور اس کا فروغ ہے جس سے وہ بالواسطہ کل بنی نوع انسان کے اجتماعی حصول علم کو آگے بڑھانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ :)
محترم بھائی ۔ آپ کی دلیل سے متفق ہوتے عرض یہ ہے کہ
نیوٹن اور آئن سٹائن نے زمانے کے سامنے کچھ نظریات اپنے پورے یقین کے ساتھ پیش کئے تھے ۔
اور یہ نظریات اک عرصہ تک زیر تجربہ رہے ۔ اور تجربوں کی کسوٹی سے گزر "اصول و قانون " کا درجہ پائے ۔
اور یہ نظریات " اصول و قانون " کا مقام پانے سے پہلے زمانے میں عام گفتگو کا موضوع بنے رہے ۔
کیا کسی پاکستانی سائنسدان نے بھی کوئی ایسا نظریہ پیش کیا ہے جس پر گفتگو ہوتی ہو ۔ ؟
صاف سیدھی بات کہ عبدالقدیر خان کو چھوڑ کر پاکستانی کی زمین پر
جنم لینے سائنسدانوں نے پاکستان کے لیئے کچھ نہیں کیا ۔
کھاد سے لیکر سوئی تک درآمد ہوتی ہے پاکستان میں ۔
اگر کچھ کیا تو پاکستان کے پیسے پر بیرون ممالک کانفرنسز
اندرون ملک پاکستان میں دوسروں کی ایجاد کی نقالی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





محترم! موجد حضرات کی اکثر ایجادات سائنسدانوں کے مقالات کی ہی مرہون منت ہوتی ہیںِ۔ چشم تصور سے ذرا دیکھیں کہ اگر آج سائنسدان ریسرچ بند کردیں تو ایجادات کا گراف ایکس اور وائی ایکسس کے وصال پر محدب عدسہ رکھ کر دیکھنا پڑے گا۔

31 مردوں اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کرادینا کوئی معمولی بات ہے کیا؟ ان میں سے اگر بعد میں کوئی ایجاد کرتا ہے تو اس میں اس ڈاکٹریٹ کے دور میں حاصل کیا گیا علم ایک بنیاد کی حیثیت رکھے گا۔




جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کے تحقیقی مقالات سے پاکستان کا بھی کہیں بھلا ہوا ہے یا نہیں۔ تو اگر تو آپ کی مراد مادی اور ڈالری بھلے سے ہے تو اس سوچ کے ساتھ سائنس کبھی پروان نہیں چڑھتی۔ اگر قرآن خدا کا قول ہے تو سائنس خدا کا فعل۔ اور خدا کا فعل اپنی تمام مخلوق کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے نہ کہ کسی خاص علاقے کے لوگوں کےلئے۔ جہاں کہیں جو بھی خدا کے فعل پر غور و فکر کرے گا نہ صرف خود اسکا فائدہ اٹھائے گا بلکہ تمام بنی نوع انسان تک اسکے فوائد پہنچتے ہیں۔

قرآن نے کائنات پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہیں بھی اس نیت کا ذکر نہیں کیا کہ کوئی ملکی فائدہ مدنظر ہو۔ بلکہ کھلی دعوت عام ہے۔ اس لئے کہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ جس چیز پر تحقیق کررہا ہے وہ آئندہ کب اور کسطرح انسانیت کے کام آئے گی۔ ڈھیروں ایسی تحقیقات ہیں جن سے اس وقت انسان نے فائدہ اٹھایا جب تحقیق کرنے والا بھی دنیا سے گزر چکا تھا۔ ڈاکٹر عطاالرحمان یا دوسرے پاکستانی سائنسدانوں کی تحقیقات کیا معلوم کب کہاں کن مفید کاموں میں استعمال ہوجائیں۔

ایٹم کی اندرونی ساخت پر صدیوں سے تحقیق جاری ہے۔ ہر بعد میں آنے والے سائنسدان نے پہلے سے کئے گئے کام کو ہی بنیاد بنا کر اپنی تحقیق جاری رکھی لیکن کسی کو بھی نہیں علم تھا کہ اس تحقیق کا فائدہ کب اور کیسے ہوگا۔ بس علم کی پیاس اور تحقیق کی لگن تھی۔ صدیوں بعد وہ تحقیق آج اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ اب جبکہ آئندہ کچھ عرصے تک توانائی کا ایک بڑا ذخیرہ یعنی تیل ختم ہونے کو ہے تو اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی نیوکلئیر توانائی انسان کے لئے مسخر کردی گئی ہے۔ ذرا تصور تو کریں اگلے آنے والے کچھ برسوں کا کہ اگر تیل آپ کی زندگی میں ہی ختم ہوجاتا اور کسی نے ایٹم پر تحقیق کرنے کی زحمت نہ کی ہوتی تو توانائی کا کیسا خطرناک بحران جنم لیتا۔ پاکستان میں ہمیں تو یہ سب دیکھنے کے لئے چشم تصور کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور پھر یہی صدیوں سے ہونے والی تحقیق ہی آج پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناگئی ہے۔ اس تحقیق کو ذرا صفحہ ہستی سے مٹادیں اور پھر اپنے کسی انجینئر سے کہیں کہ اب ایٹم بم کا صرف خاکہ ہی بناکردے۔

ڈاکٹر عبدالسلام کا کیا گیا کام آج سرن میں گاڈ پارٹیکل کی دریافت میں مددگار ثابت ہوا ہے اور انہوں نے اسکا کھل کر اعتراف کیا ہے اور پاکستان کا نام بھی اس گاڈ پارٹیکل کی تحقیق کے ساتھ لیا گیا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس کا فائدہ کیا ہے تو یہ ایسا ہی سوال ہوگا جیسا کہ کوئی صدیوں پہلے ایٹم کی تحقیق پر کام کرنے والے کسی سائنسدان سے کہتا کہ بھائی کیوں وقت برباد کررہے ہو اسکا فائدہ تو بتاؤ۔
محترم رانا بھائی​
پرانا اصول ہے کہ شاگرد محنت​
کرتے استاد سے آگے نکل جاتا ہے ۔ اور استاد کا نام مشہور کر دیتا ہے ۔​
محترم ڈاکٹر صاحب نے اس عمل کو پیشہ ورانہ بنیادوں پہ نبھایا ہے ۔

میرے محترم بھائی اس میں تو ذرہ برابر شک نہیں کہ قران پاک وحی الہی کا مجموعہ اور سچا کلام الہی ہے ۔
اس بارے اگر کا صیغہ ؟؟؟؟؟؟؟
اور جہاں تک سائنس کو خدا کا فعل قرار دینے کی بات ہے تو " خدا " بذات خالق ہے ۔ سائنسدان نہیں ۔
جو تجربات میں الجھا رہے ۔ وہ سمیع العلیم ہے ۔

باقی جہاں تک بات ہے پاکستانی مشہور ساسئنسدانوں کی تو قدیر خان کے علاوہ سب ہی وہ مقالے لکھتے رہے
جن کا ان کے ملک ان کے ہم وطنوں کو درپیش چیلنجز سے دور کا بھی تعلق نہ رکھتے تھے ۔
غیر ملکی سائنسدان جو بھی تجربات کریں جو بھی نظریات پیش کریں جو بھی ایجادات کریں ۔ وہ پہلی نظر میں ان کے ملک سے منسوب ہوتی ہیں ۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیئے آسانی کا باعث ہوتی ہیں ۔ اور ہمارے سائنسدان بجلی پانی گیس کی مینیجمنٹ میں الجھتے " لوڈ شیڈنگ " پر مقالات لکھتے رہے ۔
ان سے بہت حد تک وہ" گلی کے مداری " کا خطاب پانے والا آغا وقار ہی بہتر رہا ۔
جس کی سچے دل کی گئی اس کوشش کو جو اس نے ہم وطنوں کی آسانی کے لیئے ایجاد کی ۔
اور " علماء سائنس " سے اپنی ایجاد ناممکن قرار پاتے جھوٹے کا لقب پایا ۔
قوم کو بیدار تو کر گیا کہ کچھ ایجاد کرو ۔ یوں نہ غیروں کے بھروسے پہ رہو ۔
 

سید ذیشان

محفلین
محترم بھائی ۔ آپ کی دلیل سے متفق ہوتے عرض یہ ہے کہ
نیوٹن اور آئن سٹائن نے زمانے کے سامنے کچھ نظریات اپنے پورے یقین کے ساتھ پیش کئے تھے ۔
اور یہ نظریات اک عرصہ تک زیر تجربہ رہے ۔ اور تجربوں کی کسوٹی سے گزر "اصول و قانون " کا درجہ پائے ۔
اور یہ نظریات " اصول و قانون " کا مقام پانے سے پہلے زمانے میں عام گفتگو کا موضوع بنے رہے ۔
کیا کسی پاکستانی سائنسدان نے بھی کوئی ایسا نظریہ پیش کیا ہے جس پر گفتگو ہوتی ہو ۔ ؟
صاف سیدھی بات کہ عبدالقدیر خان کو چھوڑ کر پاکستانی کی زمین پر
جنم لینے سائنسدانوں نے پاکستان کے لیئے کچھ نہیں کیا ۔
کھاد سے لیکر سوئی تک درآمد ہوتی ہے پاکستان میں ۔
اگر کچھ کیا تو پاکستان کے پیسے پر بیرون ممالک کانفرنسز
اندرون ملک پاکستان میں دوسروں کی ایجاد کی نقالی ۔

خیر یہ تو آپ کا اپنا نظریہ ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں سائنس کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں لیکن شائد آپ بھول رہے ہیں کہ مسلمان ممالک میں سے واحد نوبل انعام یافتہ (فزکس میں) سائنسدان، عبدالسلام پاکستانی تھے۔ اور ان کا نظریہ فزکس کے بنیادی نظریوں میں سے شمار ہوتا ہے۔ اور higgs boson یا god particle جس کا آجکل اتنا چرچا ہے، اس کی دریافت میں بھی عبدالسلام کی تھیوری کا کلیدی کردار ہے۔ اس کے علاوہ بھی سلام نے پاکستان کے لئے بہت کام کئے (اٹامیک انرجی کمیشن، سپارکو وغیرہ انہوں نے ہی بنائے)۔
لیکن چونکہ وہ احمدی تھے تو اسلئے ان کا ہم ذکر نہیں کرتے۔ ہمیں تو خالص پاکستانی سنی مسلمان سائنسدان چاہیے۔ جبکہ سائنس کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا۔
 

نایاب

لائبریرین
خیر یہ تو آپ کا اپنا نظریہ ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان میں سائنس کے حالات بہت زیادہ خراب ہیں لیکن شائد آپ بھول رہے ہیں کہ مسلمان ممالک میں سے واحد نوبل انعام یافتہ (فزکس میں) سائنسدان، عبدالسلام پاکستانی تھے۔ اور ان کا نظریہ فزکس کے بنیادی نظریوں میں سے شمار ہوتا ہے۔ اور higgs boson یا god particle جس کا آجکل اتنا چرچا ہے، اس کی دریافت میں بھی عبدالسلام کی تھیوری کا کلیدی کردار ہے۔ اس کے علاوہ بھی سلام نے پاکستان کے لئے بہت کام کئے (اٹامیک انرجی کمیشن، سپارکو وغیرہ انہوں نے ہی بنائے)۔
لیکن چونکہ وہ احمدی تھے تو اسلئے ان کا ہم ذکر نہیں کرتے۔ ہمیں تو خالص پاکستانی سنی مسلمان سائنسدان چاہیے۔ جبکہ سائنس کا کوئی دین و مذہب نہیں ہوتا۔
محترم بھائی
ڈاکٹر عبدالسلام نے جس تھیوری میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس تھیوری کی بنیاد کیا ہے ۔ ؟
اور اس تھیوری سے کسی مسلمان ملک یا پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ۔ ؟
اور جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام کہ ذکر کو آپ نے " احمدیت " سے نسبت دی ہے ۔
تو میرے محترم ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان میں کبھی بھی احمدیت کی بنیاد پر معطون نہیں ٹھہرے ۔
پاکستان نے ہمیشہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کی جائے پیدائیش کو بھی اہمیت دیئے رکھی ۔
لیکن ڈاکٹر صاحب جان بوجھ کر اپنے بیانات سے پاکستان مخالف فرقہوارانہ نظریات کا ببانگ دہل اعتراف کرتے رہے ۔
ڈاکتر صاحب اپنی" معطونی " کے خود ذمہ دار ہیں ۔
 

سید ذیشان

محفلین
محترم بھائی
ڈاکٹر عبدالسلام نے جس تھیوری میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس تھیوری کی بنیاد کیا ہے ۔ ؟
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ بنیاد سے آپ کی کیا مراد ہے۔
ان کی تھیوری کا خلاصہ یہاں پر دیکھ سکتے ہیں۔

اور اس تھیوری سے کسی مسلمان ملک یا پاکستان کو کیا فائدہ ہوا ۔ ؟
سائنس کی ترقی ہوئی۔ پاکستان کا نام روشن ہوا۔ بہت سے پاکستانی بچے اس فیلڈ کی طرف جانے لگے۔ یہ کیا کم ہے؟
ویسے عبدالسلام نے تھیوریٹیکل فزکس میں کام کیا۔ یہ فزکس کی وہی برانچ ہے جس میں آینسٹائن نے کام کیا۔

اور جہاں تک ڈاکٹر عبدالسلام کہ ذکر کو آپ نے " احمدیت " سے نسبت دی ہے ۔
تو میرے محترم ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان میں کبھی بھی احمدیت کی بنیاد پر معطون نہیں ٹھہرے ۔
پاکستان نے ہمیشہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کی جائے پیدائیش کو بھی اہمیت دیئے رکھی ۔
لیکن ڈاکٹر صاحب جان بوجھ کر اپنے بیانات سے پاکستان مخالف فرقہوارانہ نظریات کا ببانگ دہل اعتراف کرتے رہے ۔
ڈاکتر صاحب اپنی" معطونی " کے خود ذمہ دار ہیں ۔
سیدھی سی بات ہے جب آپ نے اپنے پوسٹ میں یہ بات کہیں گے:
صاف سیدھی بات کہ عبدالقدیر خان کو چھوڑ کر پاکستانی کی زمین پر​
جنم لینے سائنسدانوں نے پاکستان کے لیئے کچھ نہیں کیا ۔​
تو اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عبد السلام کو، جنہوں نے پاکستان کو ایٹمک انرجی کمیشن اور سپارکو جیسے تحفے دیئے، آپ کوئی گھاس ہی نہ ڈالیں تو یہ معلوم کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ آپ نے کس وجہ سے سب سے بڑے سائنسدان کا ذکر نہیں کیا۔
احمدیت والی بات کو میں آگے نہیں بڑھانا چاہوں گا کہ اس کا اس دھاگے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور بات بہت آگے بڑھ جائے گی۔
 

رانا

محفلین
میرے محترم بھائی اس میں تو ذرہ برابر شک نہیں کہ قران پاک وحی الہی کا مجموعہ اور سچا کلام الہی ہے ۔
اس بارے اگر کا صیغہ ؟؟؟؟؟؟؟

محترم! جلدی میں آپ "اگر" کے ایک ہی استعمال کو ذہن میں لاکر بات کرگئے۔ یہ لفظ صرف شک کے لئے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ برعکس معنوں میں شک کی نفی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مذید سیاق و سباق اور نفس مضمون کے مطابق بات میں زور پیدا کرنے کے لئے اور اسکے علاوہ بھی مختلف معنی دیتا ہے۔ اس کی مثالیں اپنے اردگرد کی زندگی میں ہی تھوڑا سا غور کرلیں تو نظر آجائیں گی۔ لیکن اگر کبھی اس لفظ کا کوئی دوسرا استعمال نظر سے نہ گزرا ہو تو بلاجھجک اظہار کردیجئے گا میں ہی کچھ مثالیں پیش کردوں گا۔

اور جہاں تک سائنس کو خدا کا فعل قرار دینے کی بات ہے تو " خدا " بذات خالق ہے ۔ سائنسدان نہیں ۔
جو تجربات میں الجھا رہے ۔ وہ سمیع العلیم ہے ۔
سر! آپ کی نظرصرف الفاظ کا ہی احاطہ کرنے کی کوشش کررہی ہے، مفاہیم کی باری ہی نہیں آپارہی۔ سائنس خدا کا فعل ہے اور سائنسدان وہ ہے جو اس فعل کو سمجھنے میں اپنی زندگی خرچ کررہا ہے۔ سائنس کے قوانین خدا نے کن کہہ کر بنادیئے اور انسان انہیں دریافت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس پر آپ کا یہ تبصرہ کہ خدا سائنسدان نہیں جو تجربات میں الجھا رہے، اس پر کیا کہا جائے۔۔۔
قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان مضبوطی سے بند تھے۔ اور ہم نے انہیں کھول دیا (مفہوم)۔ یہ خدا کا فعل تھا۔ اور اسکے بعد سے سائنسدان اسی فعل کو سمجھنے میں زندگیاں صرف کیے جارہے ہیں۔ ابھی سرن میں جو گاڈ پارٹیکل کی کھوج لگائی گئی وہ کیا تھا؟
 

محمد امین

لائبریرین
جب عقل جذبات اور خواہشات کے تابع ہوجائے تو جتنا بھی علم حاصل کرلیا جائے ایسی ہی باتیں منہ سے نکلتی ہیں۔ ایسے دانشوروں کےنزدیک ان کے کام سے پاکستان اور امت مسلمہ کو کوئی نفع اور جوئی خیر نہیں حاصل ہوتی لہذا یہ چاہے رائل سوسائٹی آف لندن کے فیلو ہی کیوں نہ ہوں ان کا کام ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کے لائق ہے۔ ہلاکو خان بھی شائد ایسے ہی خیالات کا حامی تھا لیکن بے چارے کو اتنی بڑی ڈسٹ بن نہیں ملی لہذا اس نے ایسی "فضول" تحقیقات سے دنیا کو نجات دلانے کے لئے آگ اور دریا کا سہارا لیا۔ ہلاکو خان تو چلا گیا لیکن اپنے خیالات کو پتہ نہیں کیسے اگلی نسلوں تک پھیلا گیا۔ لہذا آپ کا یہ سوال بالکل فضول ہے کہ اس کا منہ سیدھی طرف سے توڑا جائے یا الٹی طرف سے؟؟

ڈاکٹر عطاالرحمان کا یا ڈاکٹر سیلم الزماں صدیقی کا کام بھی کوئی کام ہے؟ کام صرف وہ ہوتا ہے جس سے پاکستان یا امت مسلمہ کو نفع حاصل ہو۔ جابر بن حیان نے شورے کا تیزاب ایجاد کرڈالا یا مسلمان سائنسدانوں نے زمین کا قطر معلوم کرلیا یا اور سینکڑوں کارہائے نمایاں انجام دے ڈالے تو یہ کوئی کام تونہیں۔ اس سے پاکستان کو یا امت مسلمہ کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ فائدہ البتہ حاصل ہوا لیکن غیر مسلموں کو کہ انہوں نے ہمارے اجداد کی ان ہی تحقیقات کو آگے بڑھا کر آج مریخ پر کیوروسٹی اتار دی۔ لیکن مسئلہ پھر وہی کہ کیوروسٹی کے مریخ پراترنے سے پاکستان اور امت مسلمہ کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ کیوروسٹی ہمارے ہاتھ تو آجائے ذرا اس کے لئے تو دریا کی بجائے لیاری ندی ہی کافی ہے۔ البتہ ان کی علم سے بھرپور بڑی بڑی لائبریریوں کا کچھ سوچنا پڑے گا کہ ہمارے دریاوں میں تو اتنا پانی ہی نہیں کہ اس فضول علم کے ڈھیر کو غرق کیا جاسکے؟؟؟

میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکا۔۔ آپ سنجیدہ ہیں یا طنز فرما رہے ہیں؟؟

قرآن میں کہیں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ کام کرو جس سے پاکستان کا فائدہ ہو؟؟ کسی بھی دریافت، ایجاد یا سائنسی پیش رفت کا فائدہ کسی امت یا قوم سے مشروط نہیں ہوتا۔ اگر مغربی سائنسدان لاؤڈ اسپیکر ایجاد نہ کرتے تو ہم امتِ مسلمہ کے دیرینہ مفاد کی خاطر لاوڈ اسپیکر پر دین کا کام بھی نہ کرسکتے۔ اگر ٹی وی ایجاد نہ ہوتا تو سیٹلائٹ کے ذریعے پیغامِ اسلام دنیا کے کونے کونے میں نہ پہنچ رہا ہوتا بلکہ علماء اپنی اپنی کٹیاؤں میں بیٹھے یا پیدل سفر کر کے دین کا کام کر رہے ہوتے۔

اس ساری گفتگو کو پڑھ کر اک سوال ذہن میں ابھرا ہے کہ
1947 سے لیکر آج 2012 تک پاکستان نے کتنے انجینئرز پیدا کیئے ۔
اور ان انجینئرز نے پاکستان کے لیئے کیا کیا ایجادات کی ہیں ۔ ؟
عام مشاہدہ تو یہی ہے کہ یہ انجینئرز صرف مینٹی نینس اور پاکستان میں درآمد ہونے والی مشینز کی نقالی ہی میں مصروف رہتے ہیں ۔
ابھی ڈاکلٹر عطا الرحمن کا بائیو ڈاٹا دیکھا ۔
31 مرد اور 36 خواتین کو اپنی نگرانی میں پی ایچ ڈی کروانے کے ساتھ ساتھ کوئی بیرون ملک ستر کانفرنسوں میں شریک ہوئے ۔
کوئی ایجاد نظر سے نہیں گزری ۔

نایاب بھائی آپ کی بات سر آنکھوں پر، مگر ہر سائنسدان مؤجد نہیں ہوسکتا۔ اور پھر ایجاد اور پیٹنٹ ورک میں بھی فرق ہوتا ہے۔ جیسا کہ فی زمانہ برقی گیجٹس ہوتے ہیں، یہ کلی طور پر ایجاد نہیں ہوتے۔ بلکہ مختلف ایجادات سے مل کر کوئی نئی شئے یا انقلابی آلہ ہو تو اسے پیٹنٹ ورک کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

عطاءالرحمٰن صاحب ایک کیمیاء دان ہیں اور انہوں نے یقیناً دنیائے سائنس کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ ہزاروں طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنا بھی بذاتِ خود ایک بڑا کام ہے۔ بیرونِ ملک پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کا نام روشن کرنا بھی ایک بہت بڑی اچیومنٹ ہے۔ واضح رہے عطاء الرحمٰن صاحب ڈوکٹر سلیم الزماں کے شاگرد ہیں جن کے اکیلے کی ایجاد کردہ کیمیاوی ادویات (پودوں سے حاصل شدہ) کی تعداد کسی اور پاکستانی کیمیادان سے کہیں زیادہ ہے۔ جامعہ کراچی کے ممتاز تحقیقی ادارے حسین ابراہیم جمال کے ڈائریکٹر رہے ہیں جو کہ دنیا بھر میں مشہور ہیں اپنی کیمیاگری اور کیمیادانی کے حوالے سے۔

عطاء الرحمٰن اس عمل کا بہت بڑا حصہ ہیں کہ جو حکیم اجمل خان اور سلیم الزماں صدیقی نے شروع کیا تھا۔ طبیہ کولج دہلی سے جامعہ کراچی تک ایک بہت بڑا سفر ہے تحقیق کی ترویج کا۔ ہم تو اسی کو سوچ کر خوش ہوتے ہیں پاکستان نے اگر کچھ کیا ہے تو کیمیا کے میدان میں۔
 

رانا

محفلین
میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکا۔۔ آپ سنجیدہ ہیں یا طنز فرما رہے ہیں؟؟

قرآن میں کہیں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ کام کرو جس سے پاکستان کا فائدہ ہو؟؟ کسی بھی دریافت، ایجاد یا سائنسی پیش رفت کا فائدہ کسی امت یا قوم سے مشروط نہیں ہوتا۔ اگر مغربی سائنسدان لاؤڈ اسپیکر ایجاد نہ کرتے تو ہم امتِ مسلمہ کے دیرینہ مفاد کی خاطر لاوڈ اسپیکر پر دین کا کام بھی نہ کرسکتے۔ اگر ٹی وی ایجاد نہ ہوتا تو سیٹلائٹ کے ذریعے پیغامِ اسلام دنیا کے کونے کونے میں نہ پہنچ رہا ہوتا بلکہ علماء اپنی اپنی کٹیاؤں میں بیٹھے یا پیدل سفر کر کے دین کا کام کر رہے ہوتے۔


اور پھر وہ شخص اگر روئل سوسائٹی اف لندن کے ایک معروف فیلو ڈوکٹر عطاالرحمٰن سے یہ کہے کہ آپ نے آج تک کیا ایجاد کیا تو اس کا منہ سیدھی طرف سے توڑا جائے یا الٹی طرف سے؟؟


میری پوسٹ کا پہلا جملہ ان انجینئر صاحب کے متعلق تھا اور وہ پوسٹ واٹر کٹ والے انجینئر صاحب کے اس طرح کے کمنٹس کے حوالے سے تھی جو وہ ڈاکٹر عطا الرحمان کو لتاڑتے ہوئے پیش کرتے رہے ہیں۔ اور نام نہاد دانشوروں کے ان احمقانہ رویوں سے شاکی ہوکر لکھی گئی تھی کہ ان کے نزدیک کام صرف وہ ہے جس کا فائدہ پاکستان اور امت مسلمہ کو ہو۔ اس کے علاوہ یہ لوگ کسی کام کو کام ہی نہیں سمجھتے۔ ایسے دانشور اگر چودہ سو سال پہلے ہوتے تو ضرور اعتراض کر بیٹھتے کہ حضور چین جانے سے امت مسلمہ کو کیا فائدہ پہنچے گا؟
اس بات پر معذرت چاہتا ہوں کہ میری پوسٹ سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے آپ کے خلاف لکھی گئی ہے۔ بعد میں مجھے ایک بار خیال بھی آیا تھا کہ اس کا کہیں غلط مطلب نہ لے لیا جائے اس لئے پوسٹ کو تدوین کرنے کی کوشش کی کہ یہ الفاظ ہائی لائٹ کردوں لیکن اس نئے سسٹم میں معلوم نہیں کیوں بعد میں تدوین کا آپشن ہی نہیں آتا۔
 

نایاب

لائبریرین
ویسے اس دھاگے کی کروٹیں بھی خوب ہیں۔۔۔ پانی والی کار سے انجینئرز کی بحث پھر مذہب اور پھر احمدیت۔۔۔

بہتر یہی کہ میں بھی کروٹ بدلوں اور کسی دوسرے دھاگے کا رخ کروں ۔،
اللہ ہم سب کو انتشاروافتراق سے دور رکھتے مل بیٹھ قابل برداشت گفتگو کی توفیق سے نوازے آمین
 

تلمیذ

لائبریرین
مجھے یہ سن کر انتہائی دکھ محسوس ہو رہا ہے کہ سائنس کو امب پکانے والا مصالحہ خیال کیا جا رہا ہے۔

واہ شاکر جی، واہ جی واہ، 'امب پکانے والے والے مصالحے' کی اصطلاح سے کیا استعارے کا استعمال کیا ہے۔ اس بحث سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے جس کا اظہار آپ نے کیا ہے!!
 
Top