ٹھہراؤ از قلم نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
ٹھہراؤ​

اُس کے سینے پر عجیب سا دباؤ تھا اور سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ وہ ایک تالاب میں ڈوب رہا ہے۔ گھبراہٹ کا طاری ہونا ایک فطری عمل تھا سو ڈوبنے سے بچاؤ کی بڑی کوشش کی۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے۔لیکن جتنی کوشش کرتااتنا ہی دھنستا چلا جاتا۔ تالاب کا پانی کسی کہسار سے نکلتے دریا کی مانند بھپرا لگ رہا تھا۔اٹھا اٹھا کر بے رحمی سے پٹخ رہا تھا۔ کنارے پر پہنچنے کی ، ڈوبنے سے بچنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آتی تھی۔ کوئی سہارا ہاتھ نہ آرہا تھا۔ ڈوبنے ابھرنے کے درمیان کیا دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کنارے پر موجود ہیں۔ باہرسکون سے کھڑے ہیں۔ سب سے بےنیاز۔ جیسے ان کو کوئی پرواہ ہی نہیں کہ کوئی ڈوب رہا ہے۔ ان کو مدد کے لیے پکارنے کی کوشش کی تو پانی حلق سے نیچے تک چلا گیا۔ آواز گھٹ گئی۔ اور منظر دھندلا سا گیا۔ اعصاب شل ہوتے جا رہے تھے۔ اور جسم ٹوٹ رہا تھا۔اس کی کوششیں دم توڑتی جاتی تھیں۔ اور ایسے میں جو عجب چیز اس کو محسوس ہوئی جیسے کوششوں کے دم توڑنے کے ساتھ طغیانی بھی کم ہوئی جاتی ہے۔ اجل کسی بھی لمحے میزبانی کو آنے والا تھا۔ آخر تھک کر اس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اور خود کو تالاب کے حوالے کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کو سکون سا محسوس ہوا۔ تالاب کی طغیانی بالکل ختم ہوگئی۔ اور ٹھہراؤ آتا چلا گیا۔ اس نےاپنی مایوس آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ اس کا جسم ہلکے ہلکے دائروں پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ اس کو یہ سکون رگ و پے میں اترتا محسوس ہونے لگا۔ اک عجب سکون کے إحساس نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ اور گزشتہ تمام واقعات محض ایک ڈراؤنا خواب محسوس ہونے لگے۔ وہ تالاب کے اندر ہی تیرنے لگا۔ اس نے تالاب سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو تالاب نے واپس کھینچ لیا۔ لیکن آہستہ آہستہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ تالاب کے پانی پر اسکا مکمل کنڑول ہوگیا تھا۔ اب وہ جب چاہتا طغیانی لے آتا۔ جب چاہتا سمندر کی طرح سطح کو پرسکون کر لیتا۔اس نے یہ راز پا لیا تھا کہ اس تالاب کی مرضی کے خلاف جدوجہد طغیانی کو جنم دیتی ہے۔ اور اس کے بہاؤ کے ساتھ بہنا سکون لاتا ہے۔ پھر وہ باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ کتنے ہی تالاب بنے ہوئے ہیں۔ ہر تالاب پر کسی نہ کسی کا نام لکھا ہے۔ بہت سے تالاب بپھرے پڑے ہیں۔ اور بہت سے ساکت ہیں۔ کچھ درمیانی کیفیات میں ہیں۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جو لوگ تالاب میں مسلسل جدوجہد کر کے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ اور طغیانی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اور نہ اس کا وجود ماننے کو۔ وہ ڈوبتے جاتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ پرسکون ہیں۔ وہ اپنے اپنے تالاب پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اس کی اپنے تالاب سے بہت دوستی ہوگئی۔ کوئی کام ہو نہ ہو۔ وہ اپنے تالاب کا چکر ضرور لگا لیتا۔ اور وہاں بیٹھ کر اپنی کیفیات سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ جب وہ طغیانی سے لڑا کرتا تھا۔ کبھی مستی میں کچھ لہروں کو پیدا کر کے دیکھتا۔ اور پھر بھیگتا رہتا۔ زندگی کے اس تالاب میں ٹھہراؤ ہی اس کی سب سے بڑی فتح تھی۔


کچھ منتشر خیالات پیش خدمت ہیں۔ بے ربط جملوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کی درخواست ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
ٹھہراؤ​

اُس کے سینے پر عجیب سا دباؤ تھا اور سانس رکتا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ وہ ایک تالاب میں ڈوب رہا ہے۔ گھبراہٹ کا طاری ہونا ایک فطری عمل تھا سو ڈوبنے سے بچاؤ کی بڑی کوشش کی۔ بہت ہاتھ پاؤں مارے۔لیکن جتنی کوشش کرتااتنا ہی دھنستا چلا جاتا۔ تالاب کا پانی کسی کہسار سے نکلتے دریا کی مانند بھپرا لگ رہا تھا۔اٹھا اٹھا کر بے رحمی سے پٹخ رہا تھا۔ کنارے پر پہنچنے کی ، ڈوبنے سے بچنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی نظر آتی تھی۔ کوئی سہارا ہاتھ نہ آرہا تھا۔ ڈوبنے ابھرنے کے درمیان کیا دیکھتا ہے کہ کچھ لوگ کنارے پر موجود ہیں۔ باہرسکون سے کھڑے ہیں۔ سب سے بےنیاز۔ جیسے ان کو کوئی پرواہ ہی نہیں کہ کوئی ڈوب رہا ہے۔ ان کو مدد کے لیے پکارنے کی کوشش کی تو پانی حلق سے نیچے تک چلا گیا۔ آواز گھٹ گئی۔ اور منظر دھندلا سا گیا۔ اعصاب شل ہوتے جا رہے تھے۔ اور جسم ٹوٹ رہا تھا۔اس کی کوششیں دم توڑتی جاتی تھیں۔ اور ایسے میں جو عجب چیز اس کو محسوس ہوئی جیسے کوششوں کے دم توڑنے کے ساتھ طغیانی بھی کم ہوئی جاتی ہے۔ اجل کسی بھی لمحے میزبانی کو آنے والا تھا۔ آخر تھک کر اس نے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اور خود کو تالاب کے حوالے کرتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کو سکون سا محسوس ہوا۔ تالاب کی طغیانی بالکل ختم ہوگئی۔ اور ٹھہراؤ آتا چلا گیا۔ اس نےاپنی مایوس آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ پانی کی سطح پر تیر رہا تھا۔ اس کا جسم ہلکے ہلکے دائروں پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ اس کو یہ سکون رگ و پے میں اترتا محسوس ہونے لگا۔ اک عجب سکون کے إحساس نے ہر طرف سے گھیر لیا۔ اور گزشتہ تمام واقعات محض ایک ڈراؤنا خواب محسوس ہونے لگے۔ وہ تالاب کے اندر ہی تیرنے لگا۔ اس نے تالاب سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو تالاب نے واپس کھینچ لیا۔ لیکن آہستہ آہستہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ تالاب کے پانی پر اسکا مکمل کنڑول ہوگیا تھا۔ اب وہ جب چاہتا طغیانی لے آتا۔ جب چاہتا سمندر کی طرح سطح کو پرسکون کر لیتا۔اس نے یہ راز پا لیا تھا کہ اس تالاب کی مرضی کے خلاف جدوجہد طغیانی کو جنم دیتی ہے۔ اور اس کے بہاؤ کے ساتھ بہنا سکون لاتا ہے۔ پھر وہ باہر نکل آیا۔ اس نے دیکھا کہ کتنے ہی تالاب بنے ہوئے ہیں۔ ہر تالاب پر کسی نہ کسی کا نام لکھا ہے۔ بہت سے تالاب بپھرے پڑے ہیں۔ اور بہت سے ساکت ہیں۔ کچھ درمیانی کیفیات میں ہیں۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ جو لوگ تالاب میں مسلسل جدوجہد کر کے نکلنا چاہ رہے ہیں۔ اور طغیانی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اور نہ اس کا وجود ماننے کو۔ وہ ڈوبتے جاتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ پرسکون ہیں۔ وہ اپنے اپنے تالاب پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ اس کی اپنے تالاب سے بہت دوستی ہوگئی۔ کوئی کام ہو نہ ہو۔ وہ اپنے تالاب کا چکر ضرور لگا لیتا۔ اور وہاں بیٹھ کر اپنی کیفیات سے لطف اندوز ہوا کرتا۔ جب وہ طغیانی سے لڑا کرتا تھا۔ کبھی مستی میں کچھ لہروں کو پیدا کر کے دیکھتا۔ اور پھر بھیگتا رہتا۔ زندگی کے اس تالاب میں ٹھہراؤ ہی اس کی سب سے بڑی فتح تھی۔


کچھ منتشر خیالات پیش خدمت ہیں۔ بے ربط جملوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کی درخواست ہے۔

میں اتنا گھاگ نہیں کہ آپ کے فن پارے کی ساختہ باریک بینی کر سکوں ،، لیکن ذولقرنین بھائی ،، بہت پریشان تھا ابھی ، آپ کی تحریر نے ڈھیر دلاسہ دیا اور امید بھی ، ہیجان سے بچنے کا راستہ،، شکریہ تو نہیں کہوں گا کیونکہ آپ کو بھائی مانتا ہوں مگر آئندہ اگر خود کو کم سن کے زمرے لکھا ، پڑھا یا بولا تو اس تحریر کا حوالہ ہمیشہ تیار رکھوں گا ،، :) :)
 

سلمان حمید

محفلین
بہت خوب لالے، کمال کر دیا۔ عرصے بعد مختصر مگر جامع تحریر پڑھی جو کہ با مقصد بھی ہے اور میرے لیے اصلاح کا باعث بھی بنی۔ واقعی ہم اکثر پریشانیوں میں سب بھول کر فقط ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔ میں جب پہلی بار گہرے پانی میں اترنے لگا تھا تو مجھے ایک ماہر تیراک نے بتایا تھا کہ پانی میں سب سے پہلے جو چیز قابو کرنی ہے وہ یہ کہ آپ کے پاس ڈوب کر مرنے سے پہلے چند منٹ ہوتے ہیں تو پانی میں گرتے ہی گھبرا نہیں جانا اور نہ ہی پاگلوں کی طرح ہاتھ پیر مارنے شروع کر دینے ہیں، خود کو تھوڑا وقت دینا ہے، خود بخود اوپر آ جاؤ گے۔ اور اس کے بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے تالاب میں سولہ فٹ نیچے تک گیا اور ڈوبا نہیں حالانکہ مجھے تیرنا نہیں آتا :)
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
یہ لفاظی تو نہیں بلکہ " ہڈ بیتی " لاگے رے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں حق تعالی یونہی حقیقتوں سے روشناس فرمائے آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں اتنا گھاگ نہیں کہ آپ کے فن پارے کی ساختہ باریک بینی کر سکوں ،، لیکن ذولقرنین بھائی ،، بہت پریشان تھا ابھی ، آپ کی تحریر نے ڈھیر دلاسہ دیا اور امید بھی ، ہیجان سے بچنے کا راستہ،، شکریہ تو نہیں کہوں گا کیونکہ آپ کو بھائی مانتا ہوں مگر آئندہ اگر خود کو کم سن کے زمرے لکھا ، پڑھا یا بولا تو اس تحریر کا حوالہ ہمیشہ تیار رکھوں گا ،، :) :)
جناب۔۔۔۔ جو خود منتشر ہو دوسروں کو یکسوئی کا کیا درس دے گا۔ آداب عرض ہے۔ اس محبت پر تشکر بسیار :)

بہت خوب لالے، کمال کر دیا۔ عرصے بعد مختصر مگر جامع تحریر پڑھی جو کہ با مقصد بھی ہے اور میرے لیے اصلاح کا باعث بھی بنی۔ واقعی ہم اکثر پریشانیوں میں سب بھول کر فقط ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔ میں جب پہلی بار گہرے پانی میں اترنے لگا تھا تو مجھے ایک ماہر تیراک نے بتایا تھا کہ پانی میں سب سے پہلے جو چیز قابو کرنی ہے وہ یہ کہ آپ کے پاس ڈوب کر مرنے سے پہلے چند منٹ ہوتے ہیں تو پانی میں گرتے ہی گھبرا نہیں جانا اور نہ ہی پاگلوں کی طرح ہاتھ پیر مارنے شروع کر دینے ہیں، خود کو تھوڑا وقت دینا ہے، خود بخود اوپر آ جاؤ گے۔ اور اس کے بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے تالاب میں سولہ فٹ نیچے تک گیا اور ڈوبا نہیں حالانکہ مجھے تیرنا نہیں آتا :)
اور میں آج تک اس بات پر یقین نہیں کر پایا کہ آدمی کے پاس دو چار منٹ ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اترتے ہی موت ہے۔۔۔ :)
شکریہ سلمانے :)

ایک خوبصورت تمثیلی تحریر
آپ کی محبت ہے سر :)

ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور پُر فکر تحریر ۔۔۔ ۔!

لاجواب ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !

شاد آباد رہیے۔ :)
آپ کا کیا شکریہ ادا کریں کہ ہمیشہ ہی حوصلہ افزائی کرنے والوں میں آپ پیش رہتے ہیں۔ اور نتیجہ کہ ہم اہل محفل پر مظالم ڈھاتے جاتے ہیں۔۔۔ :)

مجھے پہلے ہی شک تھا یہ بندہ اوپر سے دنیا دار اور اندر سے صوفی مزاج ہے۔ :)
آج راز کھل ہی گیا جناب کا۔
ماشآاللہ :)
ہم اور صوفی۔۔۔ بھئی ہم تو کھرے رند ہیں۔۔۔ کدھر کی کدھر ملا رہے ہیں۔۔۔
تشکر بسیار :)

سبحان اللہ
یہ لفاظی تو نہیں بلکہ " ہڈ بیتی " لاگے رے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بہت دعائیں حق تعالی یونہی حقیقتوں سے روشناس فرمائے آمین
آپ سے کیا کہیں ماسوائے اس کے
کبیر جِہہ مارَگ پَنڈت گئے پاچھے پَری بَہیر
اِک اَوگھٹ گھاٹی رام کی تہہ چڑھ رَہیو کِبیر
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب لالے، کمال کر دیا۔ عرصے بعد مختصر مگر جامع تحریر پڑھی جو کہ با مقصد بھی ہے اور میرے لیے اصلاح کا باعث بھی بنی۔ واقعی ہم اکثر پریشانیوں میں سب بھول کر فقط ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔ میں جب پہلی بار گہرے پانی میں اترنے لگا تھا تو مجھے ایک ماہر تیراک نے بتایا تھا کہ پانی میں سب سے پہلے جو چیز قابو کرنی ہے وہ یہ کہ آپ کے پاس ڈوب کر مرنے سے پہلے چند منٹ ہوتے ہیں تو پانی میں گرتے ہی گھبرا نہیں جانا اور نہ ہی پاگلوں کی طرح ہاتھ پیر مارنے شروع کر دینے ہیں، خود کو تھوڑا وقت دینا ہے، خود بخود اوپر آ جاؤ گے۔ اور اس کے بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے تالاب میں سولہ فٹ نیچے تک گیا اور ڈوبا نہیں حالانکہ مجھے تیرنا نہیں آتا :)
زبردست۔ مزید گہرا ٹرائی کیجئے :p
 

سلمان حمید

محفلین
زبردست۔ مزید گہرا ٹرائی کیجئے :p
اول تو اس سے زیادہ گہرا جانے پر کان پھٹ جائیں گے، دوئم یہ کہ میں اتنا سانس روک نہیں سکتا (گو کہ سولہ فٹ نیچے پیر لگانے کے لیے بھی کزن حضرات اوپر کھڑے ہو کر کندھے پر پیر رکھ کر زور سے دھکا دیتے تھے نیچے کی جانب، تبھی پہنچ پاتا تھا اورزمین کو پیر لگا کر فاتح قرار پاتا تھا) کیونکہ سولہ فٹ تک بھی جلدی جلدی جاتا تھا جلدی جلدی آ جاتا تھا :p
 
Top