جاسم محمد

محفلین
ٹرین مارچ میں ’کرائے کے جیالے‘ خبر دینے والے صحافی کا پراسرار قتل
عزیز میمن 35 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 برس سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔
امر گرُڑو نامہ نگار amarguriro@
اتوار 16 فروری 2020 19:30

70181-472410631.jpg



وائرل ویڈیو میں عزیز میمن بتا رہے تھے کہ ’اس ویڈیو کے بعد ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور مقامی جیالوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے پناہ لینے اسلام آباد پہنچا ہوں۔‘ (فائل فوٹو: امر گرڑو)

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز میں سندھی زبان کے ٹیلیویژن چینل ’کے ٹی این نیوز‘ اور روزنامہ کاوش کے صحافی 56 سالہ عزیز میمن کے لاش ایک نہر سے برآمد کی گئی۔

مقامی پولیس کے مطابق انھیں کسی تار سے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ محراب پور تھانے کے ایس ایچ او عظیم راجپر کے مطابق سینئرصحافی عزیز میمن کی لاش شہر سے باہر ہندوؤں کے شمشان گھاٹ کے نزدیک روہڑی کینال سے نکلنے والی نہر گودو شاخ سے ملی۔

ایس ایچ او کے مطابق ’مقتول صحافی کے گلے میں کیبل کی تارپھنسی ہوئی تھی۔ خدشہ ہے کہ انہیں مذکورہ تار سے گلا گھونٹ کرقتل کرنے کے بعد نہر میں پھینکا گیا ہے، نعش پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہسپتال منتقل کر دی گئی ہے اور پولیس تفتیش جاری ہے۔‘

تحصیل ہسپتال کے میڈیکل آفیسرنے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی طور کچھ بتانا قبل از وقت ہوگا کہ عزیز میمن کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی ہے یا حرکت قلب بند ہونے یا کسی اور وجہ سے ہوئی۔ ان کے گلے میں پائی گئی تار کے نشانات گلے پر نہیں ملے ہیں۔

مقامی صحافی سلیم مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس علاقے سے لاش ملی وہ شہر سے باہر ایک نواحی گاؤں ہے۔ صبح وہ ایک شخص کے ساتھ وہاں گئے اور اپنے ساتھ آنے والے نوجوان کو واپس بھیج دیا تھا، جس کے بعد ان کی لاش ملنے کی اطلاع آئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔‘

عزیز میمن 35 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 برس سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔

واضح رہے ایک روز قبل اسی ضلع میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپیلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی کو ملکیت کے تکرار پر گولیاں مارکر ہلاک کردیا گیا تھا۔

کی ٹی این نیوز کی سیئنر اینکر اور نیوزکاسٹر ناجیہ میر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ’ہم اپنے ساتھی صحافی عزیز میمن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نوشہروفیروز میں جنگل راج قائم ہے۔‘

کے ٹی این سے وابستہ سینئر صحافی اور اینکرپرسن ناز سہتو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’بالکل سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ میں نے بہت لوگوں سے بات کی مگر کوئی اندازہ نہیں۔‘

ان کی لاش ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی ان کی ایک وائرل ویڈیو میں وہ بتا رہے ہیں کہ گزشتہ سال جب پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ’ٹرین مارچ‘ کا آغاز کیا تب انھیں محراب ریلوے سٹیشن بھی آنا تھا۔ وہاں عزیز میمن نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں انھوں مارچ میں شرکت کرنے والوں کے انٹرویو کیے تھے جس میں جیالوں کی شکل میں آنے والے لوگوں نے انھیں بتایا تھا کہ انھیں ایم این اے ابرار علی شاہ نے دہاڑی دے کر بلایا ہے۔ ان کی جانب سے مقامی لوگوں کو 25 ہزار روپے دے کر دہاڑی پر پارٹی کارکن بن کر آنے کو کہا گیا اور ہر ایک کو دو ہزار ملنے تھے مگر بعد میں پیسے بھی نہیں دیے۔‘

وائرل ویڈیو میں عزیز میمن بتا رہے تھے کہ ’اس ویڈیو کے بعد ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور مقامی جیالوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے پناہ لینے اسلام آباد پہنچا ہوں۔‘

اس خبر کے بعد مقامی جیالوں نے ان پر الزام لگایا کہ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور انھوں نے یہ خبر سیاسی مخالفت کی بنا پر لگائی تھی مگر اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں عزیز میمن کا کہنا تھا کہ ’میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں ایک غیرجانب دار بندہ ہوں۔ میں ایک صحافی ہوں۔ بلاول والی سٹوری کے بعد ایس ایس پی نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ مجھے تحفظ دیا جائے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے عزیز میمن کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ کے یو جے کے صدر حسن عباس، جنرل سیکرٹری عاجز جمالی اور ایگزیکٹو کونسل کے اراکین کی جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نوشہرو فیروز پولیس کی جانب سے صحافی کو تحفظ دینے کے بجائے تنگ کرنے اور دن دہاڑے صحافی کا قتل ہونا پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نوشہروفیروز ضلع میں ایک ہی دن حکمران پارٹی کی خاتون ایم پی اے قتل ہوگئیں اور دوسرے دن سینئر صحافی قتل ہوگئے۔‘

کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ ’عوام کے تحفظ میں ناکام پولیس افسران کو گرفتار کیا جائے۔ صحافی عزیز میمن نے خود اپنی ویڈیو میں ایس ایس پی نوشہرو فیروز پر الزام عائد کیا تھا اور نشاندہی کی تھی کہ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بالآخر اتوار کے روز صحافی کو قتل کرنے کے بعد نعش نہر میں پھینک دی گئی۔‘

’کے یو جے صحافی کے قتل پر شدید احتجاج کرتی ہے اور سندھ حکومت کو متنبہ کرتی ہے کہ اگر تین دن کے اندر صحافی عزیز میمن کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو صحافتی تنظیموں کے ہمراہ ملک بھر میں عزیز میمن کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔‘

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے فیروز جمالی صدر پیپلز پارٹی نوشہرو فیروز سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ایک سال پرانا ہے۔ اس وقت کوئی ری ایکشن کیوں نہیں آیا۔ اب کوئی ایسا کیوں کریں گے؟ مرحوم جرنلسٹ ہمارے ساتھی تھے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اس قتل کو غلط سمت میں لے کر جا رہے ہیں۔ یہ ایک جرنلسٹ کے خون کو غلط ڈائریکشن میں لے جانے کی کوشش ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں میڈیا کوآرڈینیٹر بلاول بھٹو زرداری، عثمان غازی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کے ٹی این کے رپورٹر عزیز میمن کا قتل ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی خود میڈیا ورکرز کی پارٹی ہے اور ہمیشہ میڈیا ورکرز کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہ نامناسب ہے کہ بغیر کسی انکوائری کے معاملے کو کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے جوڑ دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صحافی عزیز میمن گزشتہ تین مہینوں کے دوران چھ بار نوشہروفیروز کے ایس ایس پی فاروق سے ملے، ان کے قتل کو ایک سال پہلے کی ایک خبر کے تناظر میں پاکستان پیپلزپارٹی سے جوڑنا محض سیاسی مہم جوئی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صحافی عزیز میمن کے قتل میں پولیس مختلف افراد پر شبہے کا اظہار کررہی ہے، تمام افراد سے تفتیش جاری ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ معاملے کی شفاف انکوائری ہونا چاہیے تاکہ قاتل کیفرکردار تک پہنچیں۔‘
 

عدنان عمر

محفلین
ٹرین مارچ میں ’کرائے کے جیالے‘ خبر دینے والے صحافی کا پراسرار قتل

امر گرُڑو نامہ نگار amarguriro@
اتوار 16 فروری 2020 19:30

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز میں سندھی زبان کے ٹیلیویژن چینل ’کے ٹی این نیوز‘ اور روزنامہ کاوش کے صحافی 56 سالہ عزیز میمن کے لاش ایک نہر سے برآمد کی گئی۔

مقامی پولیس کے مطابق انھیں کسی تار سے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ محراب پور تھانے کے ایس ایچ او عظیم راجپر کے مطابق سینئرصحافی عزیز میمن کی لاش شہر سے باہر ہندوؤں کے شمشان گھاٹ کے نزدیک روہڑی کینال سے نکلنے والی نہر گودو شاخ سے ملی۔

ایس ایچ او کے مطابق ’مقتول صحافی کے گلے میں کیبل کی تارپھنسی ہوئی تھی۔ خدشہ ہے کہ انہیں مذکورہ تار سے گلا گھونٹ کرقتل کرنے کے بعد نہر میں پھینکا گیا ہے، نعش پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہسپتال منتقل کر دی گئی ہے اور پولیس تفتیش جاری ہے۔‘

تحصیل ہسپتال کے میڈیکل آفیسرنے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی طور کچھ بتانا قبل از وقت ہوگا کہ عزیز میمن کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی ہے یا حرکت قلب بند ہونے یا کسی اور وجہ سے ہوئی۔ ان کے گلے میں پائی گئی تار کے نشانات گلے پر نہیں ملے ہیں۔

مقامی صحافی سلیم مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس علاقے سے لاش ملی وہ شہر سے باہر ایک نواحی گاؤں ہے۔ صبح وہ ایک شخص کے ساتھ وہاں گئے اور اپنے ساتھ آنے والے نوجوان کو واپس بھیج دیا تھا، جس کے بعد ان کی لاش ملنے کی اطلاع آئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔‘

عزیز میمن 35 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 برس سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔

واضح رہے ایک روز قبل اسی ضلع میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپیلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی کو ملکیت کے تکرار پر گولیاں مارکر ہلاک کردیا گیا تھا۔

کی ٹی این نیوز کی سیئنر اینکر اور نیوزکاسٹر ناجیہ میر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ’ہم اپنے ساتھی صحافی عزیز میمن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نوشہروفیروز میں جنگل راج قائم ہے۔‘
کے ٹی این سے وابستہ سینئر صحافی اور اینکرپرسن ناز سہتو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’بالکل سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ میں نے بہت لوگوں سے بات کی مگر کوئی اندازہ نہیں۔‘

ان کی لاش ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی ان کی ایک وائرل ویڈیو میں وہ بتا رہے ہیں کہ گزشتہ سال جب پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ’ٹرین مارچ‘ کا آغاز کیا تب انھیں محراب ریلوے سٹیشن بھی آنا تھا۔ وہاں عزیز میمن نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں انھوں مارچ میں شرکت کرنے والوں کے انٹرویو کیے تھے جس میں جیالوں کی شکل میں آنے والے لوگوں نے انھیں بتایا تھا کہ انھیں ایم این اے ابرار علی شاہ نے دہاڑی دے کر بلایا ہے۔ ان کی جانب سے مقامی لوگوں کو 25 ہزار روپے دے کر دہاڑی پر پارٹی کارکن بن کر آنے کو کہا گیا اور ہر ایک کو دو ہزار ملنے تھے مگر بعد میں پیسے بھی نہیں دیے۔‘

وائرل ویڈیو میں عزیز میمن بتا رہے تھے کہ ’اس ویڈیو کے بعد ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور مقامی جیالوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے پناہ لینے اسلام آباد پہنچا ہوں۔‘

اس خبر کے بعد مقامی جیالوں نے ان پر الزام لگایا کہ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور انھوں نے یہ خبر سیاسی مخالفت کی بنا پر لگائی تھی مگر اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں عزیز میمن کا کہنا تھا کہ ’میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں ایک غیرجانب دار بندہ ہوں۔ میں ایک صحافی ہوں۔ بلاول والی سٹوری کے بعد ایس ایس پی نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ مجھے تحفظ دیا جائے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے عزیز میمن کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ کے یو جے کے صدر حسن عباس، جنرل سیکرٹری عاجز جمالی اور ایگزیکٹو کونسل کے اراکین کی جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نوشہرو فیروز پولیس کی جانب سے صحافی کو تحفظ دینے کے بجائے تنگ کرنے اور دن دہاڑے صحافی کا قتل ہونا پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نوشہروفیروز ضلع میں ایک ہی دن حکمران پارٹی کی خاتون ایم پی اے قتل ہوگئیں اور دوسرے دن سینئر صحافی قتل ہوگئے۔‘

کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ ’عوام کے تحفظ میں ناکام پولیس افسران کو گرفتار کیا جائے۔ صحافی عزیز میمن نے خود اپنی ویڈیو میں ایس ایس پی نوشہرو فیروز پر الزام عائد کیا تھا اور نشاندہی کی تھی کہ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بالآخر اتوار کے روز صحافی کو قتل کرنے کے بعد نعش نہر میں پھینک دی گئی۔‘

’کے یو جے صحافی کے قتل پر شدید احتجاج کرتی ہے اور سندھ حکومت کو متنبہ کرتی ہے کہ اگر تین دن کے اندر صحافی عزیز میمن کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو صحافتی تنظیموں کے ہمراہ ملک بھر میں عزیز میمن کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔‘

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے فیروز جمالی صدر پیپلز پارٹی نوشہرو فیروز سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ایک سال پرانا ہے۔ اس وقت کوئی ری ایکشن کیوں نہیں آیا۔ اب کوئی ایسا کیوں کریں گے؟ مرحوم جرنلسٹ ہمارے ساتھی تھے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اس قتل کو غلط سمت میں لے کر جا رہے ہیں۔ یہ ایک جرنلسٹ کے خون کو غلط ڈائریکشن میں لے جانے کی کوشش ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں میڈیا کوآرڈینیٹر بلاول بھٹو زرداری، عثمان غازی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کے ٹی این کے رپورٹر عزیز میمن کا قتل ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی خود میڈیا ورکرز کی پارٹی ہے اور ہمیشہ میڈیا ورکرز کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہ نامناسب ہے کہ بغیر کسی انکوائری کے معاملے کو کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے جوڑ دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صحافی عزیز میمن گزشتہ تین مہینوں کے دوران چھ بار نوشہروفیروز کے ایس ایس پی فاروق سے ملے، ان کے قتل کو ایک سال پہلے کی ایک خبر کے تناظر میں پاکستان پیپلزپارٹی سے جوڑنا محض سیاسی مہم جوئی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صحافی عزیز میمن کے قتل میں پولیس مختلف افراد پر شبہے کا اظہار کررہی ہے، تمام افراد سے تفتیش جاری ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ معاملے کی شفاف انکوائری ہونا چاہیے تاکہ قاتل کیفرکردار تک پہنچیں۔‘
 

جاسم محمد

محفلین
ٹرین مارچ میں ’کرائے کے جیالے‘ خبر دینے والے صحافی کا پراسرار قتل

امر گرُڑو نامہ نگار amarguriro@
اتوار 16 فروری 2020 19:30

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز میں سندھی زبان کے ٹیلیویژن چینل ’کے ٹی این نیوز‘ اور روزنامہ کاوش کے صحافی 56 سالہ عزیز میمن کے لاش ایک نہر سے برآمد کی گئی۔

مقامی پولیس کے مطابق انھیں کسی تار سے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ محراب پور تھانے کے ایس ایچ او عظیم راجپر کے مطابق سینئرصحافی عزیز میمن کی لاش شہر سے باہر ہندوؤں کے شمشان گھاٹ کے نزدیک روہڑی کینال سے نکلنے والی نہر گودو شاخ سے ملی۔

ایس ایچ او کے مطابق ’مقتول صحافی کے گلے میں کیبل کی تارپھنسی ہوئی تھی۔ خدشہ ہے کہ انہیں مذکورہ تار سے گلا گھونٹ کرقتل کرنے کے بعد نہر میں پھینکا گیا ہے، نعش پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہسپتال منتقل کر دی گئی ہے اور پولیس تفتیش جاری ہے۔‘

تحصیل ہسپتال کے میڈیکل آفیسرنے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی طور کچھ بتانا قبل از وقت ہوگا کہ عزیز میمن کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی ہے یا حرکت قلب بند ہونے یا کسی اور وجہ سے ہوئی۔ ان کے گلے میں پائی گئی تار کے نشانات گلے پر نہیں ملے ہیں۔

مقامی صحافی سلیم مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس علاقے سے لاش ملی وہ شہر سے باہر ایک نواحی گاؤں ہے۔ صبح وہ ایک شخص کے ساتھ وہاں گئے اور اپنے ساتھ آنے والے نوجوان کو واپس بھیج دیا تھا، جس کے بعد ان کی لاش ملنے کی اطلاع آئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔‘

عزیز میمن 35 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 برس سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔

واضح رہے ایک روز قبل اسی ضلع میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپیلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی کو ملکیت کے تکرار پر گولیاں مارکر ہلاک کردیا گیا تھا۔

کی ٹی این نیوز کی سیئنر اینکر اور نیوزکاسٹر ناجیہ میر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ’ہم اپنے ساتھی صحافی عزیز میمن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نوشہروفیروز میں جنگل راج قائم ہے۔‘
کے ٹی این سے وابستہ سینئر صحافی اور اینکرپرسن ناز سہتو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’بالکل سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ میں نے بہت لوگوں سے بات کی مگر کوئی اندازہ نہیں۔‘

ان کی لاش ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی ان کی ایک وائرل ویڈیو میں وہ بتا رہے ہیں کہ گزشتہ سال جب پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ’ٹرین مارچ‘ کا آغاز کیا تب انھیں محراب ریلوے سٹیشن بھی آنا تھا۔ وہاں عزیز میمن نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں انھوں مارچ میں شرکت کرنے والوں کے انٹرویو کیے تھے جس میں جیالوں کی شکل میں آنے والے لوگوں نے انھیں بتایا تھا کہ انھیں ایم این اے ابرار علی شاہ نے دہاڑی دے کر بلایا ہے۔ ان کی جانب سے مقامی لوگوں کو 25 ہزار روپے دے کر دہاڑی پر پارٹی کارکن بن کر آنے کو کہا گیا اور ہر ایک کو دو ہزار ملنے تھے مگر بعد میں پیسے بھی نہیں دیے۔‘

وائرل ویڈیو میں عزیز میمن بتا رہے تھے کہ ’اس ویڈیو کے بعد ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور مقامی جیالوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے پناہ لینے اسلام آباد پہنچا ہوں۔‘

اس خبر کے بعد مقامی جیالوں نے ان پر الزام لگایا کہ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور انھوں نے یہ خبر سیاسی مخالفت کی بنا پر لگائی تھی مگر اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں عزیز میمن کا کہنا تھا کہ ’میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں ایک غیرجانب دار بندہ ہوں۔ میں ایک صحافی ہوں۔ بلاول والی سٹوری کے بعد ایس ایس پی نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ مجھے تحفظ دیا جائے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے عزیز میمن کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ کے یو جے کے صدر حسن عباس، جنرل سیکرٹری عاجز جمالی اور ایگزیکٹو کونسل کے اراکین کی جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نوشہرو فیروز پولیس کی جانب سے صحافی کو تحفظ دینے کے بجائے تنگ کرنے اور دن دہاڑے صحافی کا قتل ہونا پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نوشہروفیروز ضلع میں ایک ہی دن حکمران پارٹی کی خاتون ایم پی اے قتل ہوگئیں اور دوسرے دن سینئر صحافی قتل ہوگئے۔‘

کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ ’عوام کے تحفظ میں ناکام پولیس افسران کو گرفتار کیا جائے۔ صحافی عزیز میمن نے خود اپنی ویڈیو میں ایس ایس پی نوشہرو فیروز پر الزام عائد کیا تھا اور نشاندہی کی تھی کہ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بالآخر اتوار کے روز صحافی کو قتل کرنے کے بعد نعش نہر میں پھینک دی گئی۔‘

’کے یو جے صحافی کے قتل پر شدید احتجاج کرتی ہے اور سندھ حکومت کو متنبہ کرتی ہے کہ اگر تین دن کے اندر صحافی عزیز میمن کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو صحافتی تنظیموں کے ہمراہ ملک بھر میں عزیز میمن کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔‘

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے فیروز جمالی صدر پیپلز پارٹی نوشہرو فیروز سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ایک سال پرانا ہے۔ اس وقت کوئی ری ایکشن کیوں نہیں آیا۔ اب کوئی ایسا کیوں کریں گے؟ مرحوم جرنلسٹ ہمارے ساتھی تھے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اس قتل کو غلط سمت میں لے کر جا رہے ہیں۔ یہ ایک جرنلسٹ کے خون کو غلط ڈائریکشن میں لے جانے کی کوشش ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں میڈیا کوآرڈینیٹر بلاول بھٹو زرداری، عثمان غازی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کے ٹی این کے رپورٹر عزیز میمن کا قتل ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی خود میڈیا ورکرز کی پارٹی ہے اور ہمیشہ میڈیا ورکرز کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہ نامناسب ہے کہ بغیر کسی انکوائری کے معاملے کو کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے جوڑ دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صحافی عزیز میمن گزشتہ تین مہینوں کے دوران چھ بار نوشہروفیروز کے ایس ایس پی فاروق سے ملے، ان کے قتل کو ایک سال پہلے کی ایک خبر کے تناظر میں پاکستان پیپلزپارٹی سے جوڑنا محض سیاسی مہم جوئی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صحافی عزیز میمن کے قتل میں پولیس مختلف افراد پر شبہے کا اظہار کررہی ہے، تمام افراد سے تفتیش جاری ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ معاملے کی شفاف انکوائری ہونا چاہیے تاکہ قاتل کیفرکردار تک پہنچیں۔‘
یہ خبر کل پوسٹ کی جا چکی ہے
ٹرین مارچ میں ’کرائے کے جیالے‘ خبر دینے والے صحافی کا پراسرار قتل
محمد تابش صدیقی
 

فرقان احمد

محفلین
ٹرین مارچ میں ’کرائے کے جیالے‘ خبر دینے والے صحافی کا پراسرار قتل
عزیز میمن 35 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 برس سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔
امر گرُڑو نامہ نگار amarguriro@
اتوار 16 فروری 2020 19:30

70181-472410631.jpg



وائرل ویڈیو میں عزیز میمن بتا رہے تھے کہ ’اس ویڈیو کے بعد ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور مقامی جیالوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے پناہ لینے اسلام آباد پہنچا ہوں۔‘ (فائل فوٹو: امر گرڑو)

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز میں سندھی زبان کے ٹیلیویژن چینل ’کے ٹی این نیوز‘ اور روزنامہ کاوش کے صحافی 56 سالہ عزیز میمن کے لاش ایک نہر سے برآمد کی گئی۔

مقامی پولیس کے مطابق انھیں کسی تار سے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا ہے۔ محراب پور تھانے کے ایس ایچ او عظیم راجپر کے مطابق سینئرصحافی عزیز میمن کی لاش شہر سے باہر ہندوؤں کے شمشان گھاٹ کے نزدیک روہڑی کینال سے نکلنے والی نہر گودو شاخ سے ملی۔

ایس ایچ او کے مطابق ’مقتول صحافی کے گلے میں کیبل کی تارپھنسی ہوئی تھی۔ خدشہ ہے کہ انہیں مذکورہ تار سے گلا گھونٹ کرقتل کرنے کے بعد نہر میں پھینکا گیا ہے، نعش پوسٹ مارٹم کے لیے تحصیل ہسپتال منتقل کر دی گئی ہے اور پولیس تفتیش جاری ہے۔‘

تحصیل ہسپتال کے میڈیکل آفیسرنے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی طور کچھ بتانا قبل از وقت ہوگا کہ عزیز میمن کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی ہے یا حرکت قلب بند ہونے یا کسی اور وجہ سے ہوئی۔ ان کے گلے میں پائی گئی تار کے نشانات گلے پر نہیں ملے ہیں۔

مقامی صحافی سلیم مغل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس علاقے سے لاش ملی وہ شہر سے باہر ایک نواحی گاؤں ہے۔ صبح وہ ایک شخص کے ساتھ وہاں گئے اور اپنے ساتھ آنے والے نوجوان کو واپس بھیج دیا تھا، جس کے بعد ان کی لاش ملنے کی اطلاع آئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔‘

عزیز میمن 35 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ تھے اور پچھلے 27 برس سے سندھی روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز چینل کے رپورٹر تھے۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دوبیٹیاں شامل ہیں۔

واضح رہے ایک روز قبل اسی ضلع میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپیلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی کو ملکیت کے تکرار پر گولیاں مارکر ہلاک کردیا گیا تھا۔

کی ٹی این نیوز کی سیئنر اینکر اور نیوزکاسٹر ناجیہ میر نے اپنی فیس بک پوسٹ میں لکھا ’ہم اپنے ساتھی صحافی عزیز میمن کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نوشہروفیروز میں جنگل راج قائم ہے۔‘

کے ٹی این سے وابستہ سینئر صحافی اور اینکرپرسن ناز سہتو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’بالکل سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔ میں نے بہت لوگوں سے بات کی مگر کوئی اندازہ نہیں۔‘

ان کی لاش ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی ان کی ایک وائرل ویڈیو میں وہ بتا رہے ہیں کہ گزشتہ سال جب پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ’ٹرین مارچ‘ کا آغاز کیا تب انھیں محراب ریلوے سٹیشن بھی آنا تھا۔ وہاں عزیز میمن نے ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں انھوں مارچ میں شرکت کرنے والوں کے انٹرویو کیے تھے جس میں جیالوں کی شکل میں آنے والے لوگوں نے انھیں بتایا تھا کہ انھیں ایم این اے ابرار علی شاہ نے دہاڑی دے کر بلایا ہے۔ ان کی جانب سے مقامی لوگوں کو 25 ہزار روپے دے کر دہاڑی پر پارٹی کارکن بن کر آنے کو کہا گیا اور ہر ایک کو دو ہزار ملنے تھے مگر بعد میں پیسے بھی نہیں دیے۔‘

وائرل ویڈیو میں عزیز میمن بتا رہے تھے کہ ’اس ویڈیو کے بعد ایس ایس پی نوشہرو فیروز اور مقامی جیالوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ وہ مجھے اور میرے بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس لیے پناہ لینے اسلام آباد پہنچا ہوں۔‘

اس خبر کے بعد مقامی جیالوں نے ان پر الزام لگایا کہ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور انھوں نے یہ خبر سیاسی مخالفت کی بنا پر لگائی تھی مگر اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں عزیز میمن کا کہنا تھا کہ ’میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں ایک غیرجانب دار بندہ ہوں۔ میں ایک صحافی ہوں۔ بلاول والی سٹوری کے بعد ایس ایس پی نے میرا جینا حرام کردیا ہے۔ مجھے تحفظ دیا جائے۔‘

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے عزیز میمن کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ کے یو جے کے صدر حسن عباس، جنرل سیکرٹری عاجز جمالی اور ایگزیکٹو کونسل کے اراکین کی جانب سے جاری شدہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نوشہرو فیروز پولیس کی جانب سے صحافی کو تحفظ دینے کے بجائے تنگ کرنے اور دن دہاڑے صحافی کا قتل ہونا پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نوشہروفیروز ضلع میں ایک ہی دن حکمران پارٹی کی خاتون ایم پی اے قتل ہوگئیں اور دوسرے دن سینئر صحافی قتل ہوگئے۔‘

کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ ’عوام کے تحفظ میں ناکام پولیس افسران کو گرفتار کیا جائے۔ صحافی عزیز میمن نے خود اپنی ویڈیو میں ایس ایس پی نوشہرو فیروز پر الزام عائد کیا تھا اور نشاندہی کی تھی کہ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ بالآخر اتوار کے روز صحافی کو قتل کرنے کے بعد نعش نہر میں پھینک دی گئی۔‘

’کے یو جے صحافی کے قتل پر شدید احتجاج کرتی ہے اور سندھ حکومت کو متنبہ کرتی ہے کہ اگر تین دن کے اندر صحافی عزیز میمن کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو صحافتی تنظیموں کے ہمراہ ملک بھر میں عزیز میمن کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔‘

اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے فیروز جمالی صدر پیپلز پارٹی نوشہرو فیروز سے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ ایک سال پرانا ہے۔ اس وقت کوئی ری ایکشن کیوں نہیں آیا۔ اب کوئی ایسا کیوں کریں گے؟ مرحوم جرنلسٹ ہمارے ساتھی تھے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے اس قتل کو غلط سمت میں لے کر جا رہے ہیں۔ یہ ایک جرنلسٹ کے خون کو غلط ڈائریکشن میں لے جانے کی کوشش ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس بارے میں میڈیا کوآرڈینیٹر بلاول بھٹو زرداری، عثمان غازی سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کے ٹی این کے رپورٹر عزیز میمن کا قتل ایک افسوس ناک واقعہ ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی خود میڈیا ورکرز کی پارٹی ہے اور ہمیشہ میڈیا ورکرز کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ یہ نامناسب ہے کہ بغیر کسی انکوائری کے معاملے کو کسی سیاسی جماعت یا سیاسی شخصیت سے جوڑ دیا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’صحافی عزیز میمن گزشتہ تین مہینوں کے دوران چھ بار نوشہروفیروز کے ایس ایس پی فاروق سے ملے، ان کے قتل کو ایک سال پہلے کی ایک خبر کے تناظر میں پاکستان پیپلزپارٹی سے جوڑنا محض سیاسی مہم جوئی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’صحافی عزیز میمن کے قتل میں پولیس مختلف افراد پر شبہے کا اظہار کررہی ہے، تمام افراد سے تفتیش جاری ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ معاملے کی شفاف انکوائری ہونا چاہیے تاکہ قاتل کیفرکردار تک پہنچیں۔‘
اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر کسی پارٹی کے کسی بھی سطح کے عہدے دار کا نام سامنے آئے تو کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ ایک انسان کا قتل ایسا واقعہ نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کسی طور بھی اس قابل نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ وفاقی حکومت اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنائے تو شاید معاملہ کھلے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر کسی پارٹی کے کسی بھی سطح کے عہدے دار کا نام سامنے آئے تو کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ ایک انسان کا قتل ایسا واقعہ نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کسی طور بھی اس قابل نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ وفاقی حکومت اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنائے تو شاید معاملہ کھلے۔
‏خدا نخواستہ اگر یہ قتل اسلام آباد یا پنجاب میں کسی صحافی کا ہوتا تو حامد میر، منصور اور صافی جیسے لفافوں نے ریاست کو دھمکیاں اور دنیا بھر کی صحافتی تنظمیوں کو پیغام بھیجنے شروع کر دینے تھے۔ کیونکہ قتل میں سندھ حکومت ملوث ہے اس لئے اسی کے ترلے کر رہے ہیں کہ آپ خود ہی تحقیق کرلیں
 

جاسم محمد

محفلین
اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر کسی پارٹی کے کسی بھی سطح کے عہدے دار کا نام سامنے آئے تو کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ ایک انسان کا قتل ایسا واقعہ نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کسی طور بھی اس قابل نہیں کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ وفاقی حکومت اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنائے تو شاید معاملہ کھلے۔
گذارش ہے کہ بغیر ثبوت کسی کو مجرم نہ ٹھہرائیں۔ ہاں شک ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
دال میں کچھ کالا نہیں۔ ساری دال ہی کالی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
دال میں کچھ کالا نہیں۔ ساری دال ہی کالی ہے۔
پیپلز پارٹی تو ایک لحاظ سے اس معاملے میں فریق بن چکی ہے۔ مرحوم صحافی نے اپنے خدشات کا اظہار کر دیا تھا جن کو وزن ملنا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن بنانے کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی مخالفت بہت سے اندیشوں کو جنم دے رہی ہے۔ اگر ان کے ہاتھ صاف ہیں تو اس معاملے میں رکاوٹ ڈالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
 
Top