کاشفی

محفلین
غزل
(جناب حکیم آزاد انصاری صاحب)

وہ دل کہاں سے لاؤں شکیبا کہیں جسے
باقی بھی ہو، شکیب کا یارا کہیں جسے

وہ درد دے کہ درد تمنّا کہیں جسے
وہ دکھ عطا ہو، عین مداوا کہیں جسے

سُن مجھ سے سُن، وہ کیا ہے؟ فقط ربط حسن و عشق
اس دہر کی حقیقت کبریٰ کہیں جسے

اے مرکز اُمید! خبر لے، کہ مٹ چلی
وہ آس زندگی کا سہارا کہیں جسے

ترے نثار، تو نے مجھے دل عطا کیا
اور دل وہ دل کہ شوق سراپا کہیں جسے

دیدار حسن دوست کی حسرت بجا، مگر
وہ دیدہ لا کہ دیدہء بینا کہیں جسے

تکمیل ربط مرکز اعلٰی کی دیر ہے
خود کھینچ لےگا مرکز اعلٰی کہیں جسے

اب میں کہاں ہوں، جلوہ گہ حسن دوست میں
اب میں وہاں ہوں، حسن کی دنیا کہیں جسے

اک ہم کہ بندگان تمنّا میں بھی ذلیل
اک تم کہ سب خدائے تمنّا کہیں جسے

تدبیر کیا ہے، آپ کی جانب سے حکم کار
تقدیر کیا ہے آپ کا منشا کہیں جسے

اے جستجوئے منزل عالی! ادب، ادب
زیر قدم ہے عرش معلّیٰ کہیں جسے

اے فلیسوفِ خام تجھے یہ خبر نہیں
خود فلسفہ ہے عشق کا سودا کہیں جسے

پیری میں شغلِ بادہ و شاہد وہ شغل ہے
لطف شباب رفتہ کا احیا کہیں جسے

نادان! جا، تمام بُروں کو برا نہ کہہ
اچھا وہی نہیں ہے سب اچھا کہیں جسے

کیا آپ جانتےنہیں؟ آزاد کون ہے
بندہ نواز! آپ کا بندہ کہیں جسے
 

کاشفی

محفلین
فرخ منظور صاحب، فرحت کیانی صاحبہ، ابوشامل صاحب اور محمد امین بھائی ، آپ تمام محفلین کا بیحد شکریہ۔
 
Top