کاشفی

محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
وہ تصّور میں گائے جاتے ہیں
نغمہء غم سُنائے جاتے ہیں

مستقل مُسکرائے جاتے ہیں
روح کو جگمگائے جاتے ہیں

روح و دل میں سمائے جاتے ہیں
وہ تو ہستی پہ چھائے جاتے ہیں

مجھ سے دامن چھڑائے جاتے ہیں
شوق کو آزمائے جاتے ہیں

سازِ راز و نیاز چھیڑ کے وہ
مست و بیخود بنائے جاتے ہیں

رخصت اے کاروانِ ہوش کہ وہ
مجھ سے نظریں ملائے جاتے ہیں

جان و دل خاک ہوچکے کب کے
اور وہ مسکرائے جاتے ہیں

میری سُنتے نہیں کوئی دیکھے
مجھ کو اپنی سُنائے جاتے ہیں

ہوشیار اے فریبِ گُم شدگی
آج وہ مجھ کو پائے جاتے ہیں

میں مجسّم رمیدگی ہوں مگر
وہ مسلسل بُلائے جاتے ہیں
ِ
پیکرِ کُفر بن کے وہ ساغر
دین و دنیا پہ چھائے جاتے ہیں
 
Top