وہ اردو اشعار جن میں فارسی گو شعراء کا ذکر ہے

حسان خان

لائبریرین
سودا بقولِ حضرتِ بیدل بکوئے دوست
'خطِ جبینِ ماست ہم آغوشِ نقشِ پا'
(مرزا محمد رفیع سودا)
 
غالب کے بیشتر شارحین کا خیال ہے کہ یہاں "خسرو" بادشاہ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اور "خسروِ شیریں سخن" سے مراد بہادر شاہ ظفر ہیں- اس وقت میرے سامنے غلام رسول مہر کی شرح دیوان غالب موجود نہیں ہے جس میں انہوں نے اس بات کا ذکر کر کے اس سے اختلاف کیا ہے، اور کہا ہے کہ "خسرو شیریں سخن" سے غالب کی مراد امیر خسرو ہیں-
غلام رسول مہر نے کہا ہے کہ غزل 1841 کی ہے یعنی ملازمت سے پہلے کی ہے.
 

حسان خان

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔
سنا نہ ہووے جو سودا یہ مصرعِ صائب
تو پوچھ خلق سے میں کیا کروں بیاں تنہا
کہ ایک دن میں اُسے راہ میں اکیلا دیکھ
کہا کدھر چلے اے فخرِ شاعراں تنہا
دیا جواب دلم سیرِ باغ می خواہد
کہا میں ہو متبسم کہ مہرباں تنہا
جو ہووے امر تو میں بھی چلوں رکاب کے بیچ
رکھے ہے لطف بھی کچھ سیرِ بوستاں تنہا
سنا یہ مجھ سے تو کہنے لگا کہ پوچ مگو
گرفتہ ایم اجازت ز باغباں تنہا
(مرزا محمد رفیع سودا)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔
سودا سے کہا میں کہ ترے شہرے کو سن کر
دیکھا جو تجھے آ کے تو اے بے سر و پا ہیچ
بولا کہ تجھے یاد ہے وہ مصرعِ بیدل
'عالم ہمہ افسانۂ ما دارد و ما ہیچ'
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
بلبلوں کو دوں ہوں دیوانِ فغانی کا میں درس
ورنہ گلشن میں ہے میرے کون سی جانے کی طرح
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
پوچھنا اشعار کا سودا کے کیا ہے شاعرو
گفتگو میں اُس کی پاتا ہوں نظیری کا دماغ
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
کم ہے ناصر علی سے نعمت خاں
اُس سے مرغوب تر ہے اس کا خیال
(مرزا محمد رفیع سودا)

× ناصر علی = ناصر علی سرہندی
× نعمت خاں = نعمت خان عالی
 

حسان خان

لائبریرین
۔۔۔۔۔۔
سودا سخن کو جامی کے میں اس میں کر نصب
مشہور اس غزل کو کراں تا کراں کروں
اُس کا یہ گھر ہے مجھ کنے اختر مرا بہ چرخ
'نیکاں نمودہ میل بہ عالی بداں بہ دوں'
(مرزا محمد رفیع سودا)
 

حسان خان

لائبریرین
دماغ اصلاح دینے کا نہیں کہہ دو ہلالی کو
کہ فکرِ شعر ہے اس وقت میرے طبعِ عالی کو
(مرزا محمد رفیع سودا)

× یہاں شاید ہلالی جغتائی کی طرف اشارہ ہے۔
 

طالب سحر

محفلین
غلام رسول مہر نے کہا ہے کہ غزل 1841 کی ہے یعنی ملازمت سے پہلے کی ہے.

جی بالکل۔ لیکن کالی داس گپتا رضا کے مطابق غالب نے یہ غزل 1838 میں کہی تھی ۔ کچھ مزید حوالے:

- دیوانِ غالب ، نسخہء عرشی کے اشاریہ سے ایک اندراج:
خسروِ شیریں سخن -- ظفر
- آغا محمد باقر "بیانِ غالب" میں اس شعر کی تشریح یوں کرتے ہیں: "اپنے کلام کو مزیدار کہنے کے لئے بادشاہ کو خسرو شیریں سخن کہا ہے"-
- نظم طباطبائی کہتے ہیں کہ "شیریں سخن خسرو کے ضلع کا لفظ ہے" -
- یوسف سلیم چشتی نے بھی اپنی مرتب کی ہوئی شرح میں خسرو شیریں سخن کے ساتھ بہادر شاہ ظفر کا نام لکھا ہے-
- بیخود دہلوی نے مرات الغالب میں اس شعر کی تشریح اس طرح کی ہے: "خسرو شیریں سخن کا اشارہ بہادر شاہ ثانی المتخلص بہ ظفر آخر بادشاہ دہلی کی طرف ہے- باقی شعر صاف ہے-"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عرفی کی زمین میں کہے گئے قصیدے سے ایک شعر:
تا کجا شرح کروں میں کہ بقولِ عرفی
'اخگر از فیضِ ہوا، سبز شود در منقل'
(مرزا محمد رفیع سودا)
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
جاوید سے
(۲)

سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم
رہ جاتی ہے زندگی میں خامی
نخچیر اگر ہو زِیرک و چُست
آتی نہیں کام کُہنہ دامی
ہے آبِ حیات اسی جہاں میں
شرط اس کے لیے ہے تَشنہ کامی
غیرت ہے طریقتِ حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی تمامی
اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرَو کی غلامی
نایاب نہیں متاعِ گُفتار
صد انوریؔ و ہزار جامیؔ!
ہے میری بساط کیا جہاں میں
بس ایک فغانِ زیر بامی
اک صدقِ مقال ہے کہ جس سے
مَیں چشمِ جہاں میں ہُوں گرامی
اﷲ کی دین ہے، جسے دے
میراث نہیں بلند نامی
اپنے نورِ نظر سے کیا خوب
فرماتے ہیں حضرتِ نظامیؔ
"جاے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندی من نداردت سود"

-- اقبال، ضربِ کلیم
 

طالب سحر

محفلین
خودی

خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شُعلہ دیتے شرر کے عوض
یہ کہتا ہے فردوسیِ دیدہ وَر
عجَم جس کے سُرمے سے روشن بصر
"ز بہرِ درم تُند و بدخو مباش
تُو باید کہ باشی، درم گو مباش"

--اقبال، بالِ جِبریل
 

طالب سحر

محفلین
خاقانیؔ

وہ صاحبِ ’تُحفۃالعراقَین،
اربابِ نظر کا قُرّۃالعَین
ہے پردہ شگاف اُس کا اِدراک
پردے ہیں تمام چاک در چاک
خاموش ہے عالَمِ معانی
کہتا نہیں حرفِ ’لن ترانی‘!
پُوچھ اس سے یہ خاک داں ہے کیا چیز
ہنگامۀ این و آں ہے کیا چیز
وہ محرمِ عالَمِ مکافات
اک بات میں کہہ گیا ہے سَو بات
"خود بوے چنیں جہاں تواں برُد
کابلیس بماند و بوالبشر مُرد!"

-- اقبال، ضربِ کلیم
 

طالب سحر

محفلین
رومی

غلَط نِگر ہے تری چشمِ نیم باز اب تک
ترا وجُود ترے واسطے ہے راز اب تک
ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک
گُسَستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تُو ہے نغمۀ رومیؔ سے بے نیاز اب تک!

-- اقبال، ضربِ کلیم
 

حسان خان

لائبریرین
میکدے میں بادۂ نظمِ ظہوری پی منیر
پڑھ کے ساقی نامے کو لکھ، خطِ ساغر کا جواب
(منیر شِکوہ آبادی)
 

حسان خان

لائبریرین
نشۂ اشعارِ حافظ میں بڑھی عقل، اے منیر
تھا کفِ مغزِ فلاطوں، بادۂ شیراز میں
(منیر شِکوہ آبادی)
 
Top