نیو ایر منانا

نیو ایر منانا

تجویز پیش کی گئی :
’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں‘‘
وحی نازل ہوئی:

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾ سورة الكافرون
’’ کہہ دو کہ اے کافرو، میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘

آج کچھ مادہ پرست، حواس باختہ سیکولر قسم کے مسلمان جو اپنا ایمان یہی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ پہلا محرم کو اسلامی نیو ایر اور یکم جنوری کو عیسائی نیو ایر مناؤ‘‘ اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ قباحت تو سورہ الکافرون میں چودہ سو سال پہلے ہی بیان کر دی گئی ہے لیکن افسوس کہ ان سیکولروں کو وہ قباحت نظر نہیں آتی۔ تو ذرا آؤ نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیتے ہیں‘ شاید کہ قباحت نظر آجائے۔

”جینس“ یا ”جانوس“ (Janus) نامی قدیم رومیوں کا ایک دیوتا تھا۔ جس کیلئے رومیوں نے ایک شاندار معبد بنایا ہوا تھا جہاں جنگ و جدل کے دوران وہ سب اس دیوتا کی پوجا کرتے تھے اور امن کے زمانے میں اس کا دروازہ بند رہتا تھا۔ رومی بت پرست کوئی کام شروع کرنے سے پہلے اس دیوتا سے منت مانگتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جینس دیوتا کی منت ماننے سے ہر کام بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ اپنے گھروں کے دروازوں کی حفاظت کے لیے اسی دیوتا سے دعائیں مانگتے تھے۔ رومیوں کے عقیدے کے مطابق اس کے دو چہرے تھے جن سے وہ ایک ہی وقت میں آگے اور پیچھے دیکھ سکتا تھا۔ اہل روم اسے تبدیلی کا دیوتا بھی کہتے تھے۔ جنوری کا نام اس جینس دیوتا کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ جینس کو لا طینی نے جینرس کہا گیا ، جینرس بعد میں جینوری بنا ۔
( Janus – Januarius – January)
بعض مشرکوں کے عقیدے کے مطابق دسمبر کے بعد جس دن بدروحوں کو بھگانے کیلئے شور شرابے غل غپاڑے کئے جاتے تھے اسی دن کو جنوری کی پہلی تاریخ اور سال کے آغاز کا دن چنا گیا۔

یہ ہیں بت پرستی و باطل عقائد و نظریات پر مبنی نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ جسے آج عالمی سطح پرعیاشی و فحاشی اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔

کیا اس میں کوئی قباحت نظر آئی؟

رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہﷺکے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺنے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر ۔) سنن ابوداؤد(

اس سے واضح ہوا کہ ایک مسلمان کا ان مشرکانہ مراسم و مقامات سے دور رہنا شریعت کو کس حد تک مطلوب ہے۔

نئے سال کے آغاز پر خوشی منانا اور سال کے پہلے دن کو اہمیت دینا، اس کو عہد و پیماں کا دن ماننا، تحائف کا تبادلہ کرنا وغیرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن ہے تو یہ رومی بت پرستوں کی بت پرستی کا حصہ جسے عیسائیوں نے گود لیا جو آج ایک بگڑے ہوئے سرکش اور بدمعاش لڑکے کی شکل و صورت اختیار کر چکا ہے۔

نیو ایر میں ہوتا کیا ہے ؟
غل غپاڑے‘ شور شرابے‘ ناچ گانے‘ مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاظ‘ کثرت سے شراب نوشی‘ جنسی آوارگی ‘ بے حیائی‘ بیہودگی و فحاشی وغیرہ ؟
پھر کیا اسلام نیو ایر منانے کی اجازت دے سکتا ہے؟
کیا کوئی مسلمان جس میں ایمان کی رمق ہو کسی بھی صورت نیو ایر منانے کی سوچ سکتا ہے؟
کیا نیو ایر منانے کیلئے سڑکوں پر‘ سمندر کنارے یا کسی یسی محفل میں جانے کا سوچ سکتا ہے؟

لیکن بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے نیو ایر کی تہنیتی میسج بھیج رہے ہیں۔
پھر کہتے ہیں کہ ہم تو صرف نیو ایر کی کارڈ یا میسج بھیجتے ہیں تو یاد رکھیں شیطان اسی طرح گھیرتا ہے۔

اسلامی سال تو پہلا محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن اسلام میں اس دن کو منانے کا بھی رواج نہیں صرف خیر و برکت کی دعا کرنا مسنون ہے پھر مشرکوں سے مستعار لئے ہوئے عیسائیت کے نیو ایر کو ہم کیسے منائیں ؟

اس لئے ہم ان سیکولر ذہنیت کے مسلمان جو نیو ایر کی رنگینی کو دیکھ کر رال ٹپکاتے ہیں‘ ان سے کہتے ہیں:

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾

ہمارے نبی ﷺ نے مشرکوں کی ’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرنے ‘‘ کی پیش کش کو ٹھکرایا تھا۔ ہم بھی تمہاری اسلامی نیو ایر اور عیسائی نیو ایر منانے کی خواہش کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں۔


لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾

اللہ تعالٰی ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو نیو ایر منانے کی خرافات بچائے۔ آمین

تحریر : محمد اجمل خان
۔۔
 
آخری تدوین:
نئے سال کی مبارکبادی لڑی موجود ہے۔ بہتر ہے کہ مبارکباد کے لیے اسے ہی استعمال کیا جائے۔
مضمون نگار سے اختلاف ہے تو احسن انداز سے دلائل دیے جا سکتے ہیں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ ہیں بت پرستی و باطل عقائد و نظریات پر مبنی نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ جسے آج عالمی سطح پرعیاشی و فحاشی اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔
دلچسپ تحریر ہے لیکن اگر کوئی متعلقہ پیش کردہ حقائق کی بابت حوالہ جات سے مزین ہو تو مؤثر ہو ۔
 

سید عمران

محفلین
جس پیرایے میں لکم دینکم و لی دین کو لیا جارہا ہے کیا خود صاحب کتاب کا اس پر اسی طرح عمل رہا تھا؟؟؟
کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخر وقت تک وعظ و نصیحت نہیں فرماتے رہے؟؟؟
 
آج کچھ مادہ پرست، حواس باختہ سیکولر قسم کے مسلمان جو اپنا ایمان یہی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ پہلا محرم کو اسلامی نیو ایر اور یکم جنوری کو عیسائی نیو ایر مناؤ‘‘ اس میں قباحت ہی کیا ہے۔
اسی ایک جملے میں اتنی بنیادی غلطیاں ہیں کہ دیگر مضمون پڑھنے کے قابل ہی نہیں۔
  • سیکولرازم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملکی امور میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ آپ لوگ اسکا پتا نہیں کیسے کیسے مطالب نکال لیتے ہیں
  • محرم یقینا اسلامی نیا سال ہے البتہ یکم جنوری مسیحی نیا سال نہیں ہے۔ یہ ایک غیرمذہبی دنیاوی تہوار ہے۔ اسکو اگر آپ مذہبی بنا کر نہیں منا رہے تو قباحت کیا ہے؟ کیا دیگر دنیاوی تہوار جیسے سالگرہ کو بھی مسیحی کا لیبل لگا کر اسی طرح شور مچاتے ہیں؟
 
کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخر وقت تک وعظ و نصیحت نہیں فرماتے رہے؟؟؟
پھر کہتے ہیں کہ ہم تو صرف نیو ایر کی کارڈ یا میسج بھیجتے ہیں تو یاد رکھیں شیطان اسی طرح گھیرتا ہے۔
فرق یہ ہے کہ آپؐ کی نصائح ہر دنیاوی تہوار کو ’’شیطانی‘‘ بنا کر پیش نہیں کرتیں۔
 
اسی ایک جملے میں اتنی بنیادی غلطیاں ہیں کہ دیگر مضمون پڑھنے کے قابل ہی نہیں۔
  • سیکولرازم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملکی امور میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ آپ لوگ اسکا پتا نہیں کیسے کیسے مطالب نکال لیتے ہیں

  • اور ملک عزیز میں بیٹھے سیکولروں کا دین اسلام میں کیڑے نکالنا نظر نہیں آتا۔
 

فاخر رضا

محفلین
نیو ایر منانا

تجویز پیش کی گئی :
’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں‘‘
وحی نازل ہوئی:

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾ سورة الكافرون
’’ کہہ دو کہ اے کافرو، میں اُن کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں اُن کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے، اور نہ تم اُس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘

آج کچھ مادہ پرست، حواس باختہ سیکولر قسم کے مسلمان جو اپنا ایمان یہی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ پہلا محرم کو اسلامی نیو ایر اور یکم جنوری کو عیسائی نیو ایر مناؤ‘‘ اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ قباحت تو سورہ الکافرون میں چودہ سو سال پہلے ہی بیان کر دی گئی ہے لیکن افسوس کہ ان سیکولروں کو وہ قباحت نظر نہیں آتی۔ تو ذرا آؤ نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیتے ہیں‘ شاید کہ قباحت نظر آجائے۔

”جینس“ یا ”جانوس“ (Janus) نامی قدیم رومیوں کا ایک دیوتا تھا۔ جس کیلئے رومیوں نے ایک شاندار معبد بنایا ہوا تھا جہاں جنگ و جدل کے دوران وہ سب اس دیوتا کی پوجا کرتے تھے اور امن کے زمانے میں اس کا دروازہ بند رہتا تھا۔ رومی بت پرست کوئی کام شروع کرنے سے پہلے اس دیوتا سے منت مانگتے تھے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ جینس دیوتا کی منت ماننے سے ہر کام بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ اپنے گھروں کے دروازوں کی حفاظت کے لیے اسی دیوتا سے دعائیں مانگتے تھے۔ رومیوں کے عقیدے کے مطابق اس کے دو چہرے تھے جن سے وہ ایک ہی وقت میں آگے اور پیچھے دیکھ سکتا تھا۔ اہل روم اسے تبدیلی کا دیوتا بھی کہتے تھے۔ جنوری کا نام اس جینس دیوتا کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔ جینس کو لا طینی نے جینرس کہا گیا ، جینرس بعد میں جینوری بنا ۔
( Janus – Januarius – January)
بعض مشرکوں کے عقیدے کے مطابق دسمبر کے بعد جس دن بدروحوں کو بھگانے کیلئے شور شرابے غل غپاڑے کئے جاتے تھے اسی دن کو جنوری کی پہلی تاریخ اور سال کے آغاز کا دن چنا گیا۔

یہ ہیں بت پرستی و باطل عقائد و نظریات پر مبنی نیو ایر یا نئے سال کی تہوار منانے کی تاریخ جسے آج عالمی سطح پرعیاشی و فحاشی اور نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔

کیا اس میں کوئی قباحت نظر آئی؟

رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہﷺکے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں پھر آپ نے پوچھا کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺنے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر ۔) سنن ابوداؤد(

اس سے واضح ہوا کہ ایک مسلمان کا ان مشرکانہ مراسم و مقامات سے دور رہنا شریعت کو کس حد تک مطلوب ہے۔

نئے سال کے آغاز پر خوشی منانا اور سال کے پہلے دن کو اہمیت دینا، اس کو عہد و پیماں کا دن ماننا، تحائف کا تبادلہ کرنا وغیرہ کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن ہے تو یہ رومی بت پرستوں کی بت پرستی کا حصہ جسے عیسائیوں نے گود لیا جو آج ایک بگڑے ہوئے سرکش اور بدمعاش لڑکے کی شکل و صورت اختیار کر چکا ہے۔

نیو ایر میں ہوتا کیا ہے ؟
غل غپاڑے‘ شور شرابے‘ ناچ گانے‘ مرد و زن کا بے حجابانہ اختلاظ‘ کثرت سے شراب نوشی‘ جنسی آوارگی ‘ بے حیائی‘ بیہودگی و فحاشی وغیرہ ؟
پھر کیا اسلام نیو ایر منانے کی اجازت دے سکتا ہے؟
کیا کوئی مسلمان جس میں ایمان کی رمق ہو کسی بھی صورت نیو ایر منانے کی سوچ سکتا ہے؟
کیا نیو ایر منانے کیلئے سڑکوں پر‘ سمندر کنارے یا کسی یسی محفل میں جانے کا سوچ سکتا ہے؟

لیکن بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے نیو ایر کی تہنیتی میسج بھیج رہے ہیں۔
پھر کہتے ہیں کہ ہم تو صرف نیو ایر کی کارڈ یا میسج بھیجتے ہیں تو یاد رکھیں شیطان اسی طرح گھیرتا ہے۔

اسلامی سال تو پہلا محرم سے شروع ہوتا ہے لیکن اسلام میں اس دن کو منانے کا بھی رواج نہیں صرف خیر و برکت کی دعا کرنا مسنون ہے پھر مشرکوں سے مستعار لئے ہوئے عیسائیت کے نیو ایر کو ہم کیسے منائیں ؟

اس لئے ہم ان سیکولر ذہنیت کے مسلمان جو نیو ایر کی رنگینی کو دیکھ کر رال ٹپکاتے ہیں‘ ان سے کہتے ہیں:

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾

ہمارے نبی ﷺ نے مشرکوں کی ’’ ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرنے ‘‘ کی پیش کش کو ٹھکرایا تھا۔ ہم بھی تمہاری اسلامی نیو ایر اور عیسائی نیو ایر منانے کی خواہش کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں۔


لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾

اللہ تعالٰی ہمیں اور ہمارے اہل و عیال اور تمام مسلمانوں کو نیو ایر منانے کی خرافات بچائے۔ آمین

تحریر : محمد اجمل خان
۔۔
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِىَ دِينِ
 
اسی ایک جملے میں اتنی بنیادی غلطیاں ہیں کہ دیگر مضمون پڑھنے کے قابل ہی نہیں۔
  • محرم یقینا اسلامی نیا سال ہے البتہ یکم جنوری مسیحی نیا سال نہیں ہے۔ یہ ایک غیرمذہبی دنیاوی تہوار ہے۔ اسکو اگر آپ مذہبی بنا کر نہیں منا رہے تو قباحت کیا ہے؟ کیا دیگر دنیاوی تہوار جیسے سالگرہ کو بھی مسیحی کا لیبل لگا کر اسی طرح شور مچاتے ہیں؟

European Christians celebrated the New Year, they exchanged Christmas presents because New Years' Day fell within the twelve days of the Christmas season in the Western Christian liturgical calendar; the custom of exchanging Christmas gifts in a Christian context is traced back to the Biblical Magi who gave gifts to the Child Jesus
 

امان زرگر

محفلین
اسی ایک جملے میں اتنی بنیادی غلطیاں ہیں کہ دیگر مضمون پڑھنے کے قابل ہی نہیں۔
  • سیکولرازم کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملکی امور میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ آپ لوگ اسکا پتا نہیں کیسے کیسے مطالب نکال لیتے ہیں
  • محرم یقینا اسلامی نیا سال ہے البتہ یکم جنوری مسیحی نیا سال نہیں ہے۔ یہ ایک غیرمذہبی دنیاوی تہوار ہے۔ اسکو اگر آپ مذہبی بنا کر نہیں منا رہے تو قباحت کیا ہے؟ کیا دیگر دنیاوی تہوار جیسے سالگرہ کو بھی مسیحی کا لیبل لگا کر اسی طرح شور مچاتے ہیں؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

( وَلَن تَرْضَیٰ عَنْکَ الْیَہُودُ وَلَا النَّصَرَیٰ حَتَّیٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ )(البقرۃ ( 2/120)
"یہ یہودی اور عیسائی اس وقت تک ہرگز آپ سے خوش نہ ہونگے جب تک کہ آپ ان کے طریقے پر نہ چلیں ۔"

لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوْا جُحَرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اﷲ ِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ فَمَنْ ؟ ۔
(صحیح البخاری ، کتاب الاعتصام باب قول النبی[صلی اللہ علیہ وسلم] لتتبعن سنن ومن کان قبلکم حدیث : 7320 ،
صحیح مسلم ، کتاب العلم باب اتباع سنن الیھود والنصاری: ح 2669)
"تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طور وطریقوں کی اس طرح پیروی کروگے جس طرح ایک بالشت دوسری کے برابر ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے لگوگے ۔ہم نے کہا ،یا رسول اﷲ کیا وہ یہودی اور عیسائی ہیں ،آپ[صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا ،تو اور کون ہیں؟"۔

"مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ"
(أبو داؤد ، ح : 4031)
"جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔"

صحیح الجامع میں علامہ البانی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث ’’ من تشبہ بقوم فھو منهم‘‘ کو صحیح قرار دیا ہے۔
 

دوست

محفلین
البقرہ اور آلِ عمران میں بنیادی طور پر نبی ﷺ کے زمانے کے یہود و نصاریٰ مخاطب ہیں۔ انہیں دعوت بھی دی گئی کہ آؤ توحید پر اکٹھے ہو جائیں، اور ان کی غلطیاں بھی واضح کی گئیں۔ ایک آیت یہاں پیسٹ کر کے کیا ثابت کیا جا رہا ہے؟
پہلی حدیث اخبار کے ذیل میں آتی ہے۔ اس سے آپ کون سا حکم ثابت کر رہے ہیں؟
من تشبہ قوم والی روایت جنگ کے تناظر میں آتی ہے اور یہ صرف ایک جُملہ نہیں ہے۔ اگر خوفِ خدا ہو تو قولِ رسول ﷺ کو ایسے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے مطلب کے معانی نہ نکالے جائیں۔
 

امان زرگر

محفلین
البقرہ اور آلِ عمران میں بنیادی طور پر نبی ﷺ کے زمانے کے یہود و نصاریٰ مخاطب ہیں۔ انہیں دعوت بھی دی گئی کہ آؤ توحید پر اکٹھے ہو جائیں، اور ان کی غلطیاں بھی واضح کی گئیں۔ ایک آیت یہاں پیسٹ کر کے کیا ثابت کیا جا رہا ہے؟
پہلی حدیث اخبار کے ذیل میں آتی ہے۔ اس سے آپ کون سا حکم ثابت کر رہے ہیں؟
من تشبہ قوم والی روایت جنگ کے تناظر میں آتی ہے اور یہ صرف ایک جُملہ نہیں ہے۔ اگر خوفِ خدا ہو تو قولِ رسول ﷺ کو ایسے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے مطلب کے معانی نہ نکالے جائیں۔
تو آپ کا کہنا یہ ہے کہ یہود و نصارٰی کی پیروی کی جائے۔۔۔۔۔۔
 
Top