نیو ایر منانا

دوست

محفلین
آپ تو ماشاءاللہ نتائج اخذ کیے بیٹھے ہیں۔ کسی کے کہنے یا نہ کہنے سے کیا فرق پڑے گا۔
 

دوست

محفلین
چونکہ فیس بُک سے یہاں کاپی پیسٹ کی برسات جاری ہے، تو ہم نے سوچا لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
سال اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتے

قدیم زمانے سے انسانوں نے موسمی تغیرات کا مطالعہ کر کے سال کو برابر بارہ اکائیوں میں تقسیم کر دیا تھا. تاہم ماضی اور مستقبل کے واقعات کا تعین کرنے کے لیے کسی نہ کسی نقطہ آغاز کی ضرورت رہتی تھی اس لیے مختلف علاقوں اور زمانوں میں مختلف نقطہ ہائے آغاز رائج رہے.

شمسی کیلنڈر موسموں سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور زرعی شعبے سے وابستہ ہے اس لئے دنیا کے اکثر حصوں میں یہی رائج رہا لیکن اس کا آغاز و اختتام جاننے کی ایسی واضح علامات نہیں ہیں جیسی قمری کیلنڈر کی ہیں اس لیے عربوں نے قمری کیلنڈر اختیار کر لیا البتہ اسے موسموں کے مطابق کرنے کے لیے اس میں ردوبدل کرتے رہتے تھے جسے قرآن نے منع کر دیا.
عرب میں یہی کیلنڈر رائج تھا اس لیے مسلمانوں نے اسے اسلامی کیلنڈر کہنا شروع کر دیا ورنہ اسلامی عبادات میں سے کچھ عبادات سورج اور کچھ چاند سے وابستہ ہیں
مثلاً نمازوں کے اوقات کا تعین، روزے کی ابتدا اور انتہا کا تعین، قیام عرفہ کے وقت کا تعین سورج سے اور رمضان اور حج کے مہینوں اور تاریخوں کا تعین چاند سے ہوتا ہے.
شمسی کیلنڈر کو غیر اسلامی اور قمری کیلنڈر کو اسلامی سمجھنا ایک غیر علمی
رویہ ہے.
از استاذ الاساتذہ ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب
Tufail Hashmi
 

دوست

محفلین
من تشبہ بقوم فھو منھم ۔

مرد کی داڑھی اور عورت کی بھنویں !!
داڑھی مشت سے کم رکھنے والوں پہ عام طور پر کافروں کی مشابہت کی دفعہ لگائی جاتی ہے ، جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہود کی مخالفت میں جوتوں سمیت نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی ھے اور صحابہؓ نے بھی جوتوں سمیت پڑھی ھے ، یہاں ذرا جوتوں سمیت پڑھ کر دیکھئے یا جوتوں سمیت صرف مسجد میں گھس کر دیکھئے مسجد تو مسجد ،کھیتوں میں پڑھے جانے والے جنازے میں بھی جوتے پہن کر کھڑے ھوں تو جاھل سب کے سامنے بے عزت کر دیتے ہیں ،، حالانکہ جنازہ نماز نہیں دعائے جنازہ ھے ،صلاۃ دعا کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کریم میں جگہ جگہ صلاۃ کو دعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ الغرض جہاں مشابہت کا اطلاق کر کے رسول اللہ ﷺ نے عملا دکھا دیا اس پر عمل نہیں کرتے ،، البتہ داڑھی اور کپڑوں کو خواہ مخواہ مشابہت میں شامل کر لیتے ہیں ، شلوار قمیص ،شیروانی اور واسکٹ ھندو چوھدریوں اور راجوں کا لباس ہے صحابہ کا لباس نہیں ،، مگر یہاں مشابہت نہیں ھوتی ، داڑھی کاٹنا سکھوں کے یہاں جرم اور رکھنا فرض ھے ، ھم نے ان کی مشابہت میں بالکل داڑھی کو فرض بنا لیا ہے ،،

محدثین نے جب ایک مکمل حدیث کو توڑ کر اسکریپ کی شکل دی اور اس میں سے اسپئر پارٹس لے کر اپنے اپنے عنوان دیئے تو بات کو مزید گھما دیا ،،کسی خطاب میں جو مرکزی نقطہ ھوتا ھے ھر جملہ اور ھر مثال ، ھر وعدہ اور ھر وعید اسی سے متعلق ھوتی ھے ،،مگر جب آپ اس جملے کو مرکزی نقطے سے الگ لے جا کر ٹانک دیتے ھیں تو پھر وہ خود مرکزی نقطہ بن جاتا ھے ،،

من تشبہ بقومٍ فھو منھم ،، کو ایک مکمل حدیث کے طور پر پیش کیا جاتا ھے گویا حضورﷺ نے جب یہ حدیث بیان کی تو آپ کی گفتگو کا مرکزی موضوع ھی تشبہ بالکفار تھا ، اور آپ ﷺ مسلمانوں کو اس مشابہت سے روک رھے تھے ،،، اور پھر علماء نے اسی کو مرکزی موضوع قرار دے کر لمبی چوڑی کتابیں تصنیف فرما دیں ، اور مختلف چیزوں کو تشبہہ بالکفار کہہ کر ان پر فتوؤں کی چاند ماری کی گئ ،، مگر اسی جملے کو واپس اس حدیث میں لے کر دیکھئے تو آپ کا پتہ چلے گا کہ تشبہہ بالکفار سرے سے گفتگو کا موضوع ھی نہیں تھا اور نہ ھی اللہ کے رسول ﷺ اس وقت لباس یا کلچر کی مشابہت کو موضوع بنا کر گفتگو فرما رھے تھے ،،

آپ ﷺ کی گفتگو کا موضوع جہاد کے قوانین تھے ، انہیں کے دوران آپ نے فرمایا کہ جب ھم کسی قوم پر حملہ آور ھوں اور اس قوم میں کوئی ایسا آدمی مکس اپ ھے جو کسی دوسرے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا ھے جس سے ھماری جنگ نہیں یا اس کے ساتھ ھمارا کوئی امن کا معاہدہ ھے ، تو اگر وہ مشتبہ بندہ بھی اس یلغار میں مارا گیا ھے تو ھمارے ذمے نہ تو اس کا قصاص ھے اور نہ دیت ھے ،کیونکہ وہ ھمارے دشمنوں میں مکس اپ تھا اور ھمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعے ھم اس کو جان کر الگ کر سکتے ، اس کو اس قوم میں نہیں ھونا چاھئے تھا ،، اس حدیث میں تشبہ اصل میں مکس اپ ھونے کے معنوں میں استعمال ھوا ھے ،،

عورتوں کے ابرو بنانے کی حدیث کے ساتھ بھی یہی واردات ھوئی ھے ، پوری حدیث میں ابرو کو رکھ کر دیکھ لیجئے وھاں صاف نظر آ رھا ھے کہ اللہ کے رسولﷺ کی گفتگو کا موضوع " طوائفیں " ھیں جو بن سنور ی گاھک پٹانے نکلتی ھیں ، مائل ھوتی ھیں اور مائل کرتی ھیں ، بال اونٹ کی کوھان کی طرح کر کے نکلتی ھیں ،ابرو بناتی اور مرد پھنساتی ھیں ، ان کی سرینوں پہ شیطان بیٹھا ھوتا ھے جو ھر نظر ڈالنے والے کو ٹریپ کرتا ھے ،،،، اس روایت میں سے ابرو کو نکال کر گھریلو عورتوں پر اطلاق کرنے والوں پہ جب خود اپنے اوپر نفاق کا اطلاق کیا جائے تو بلبلا اٹھتے ھیں کہ نہیں جناب اس سے وہ والا منافق مراد نہیں ھے ،، اعتقادی منافق مراد نہیں ھے ،، عملی منافق اور ھیں اعتقادی منافق اور ھیں ،، ھم بھی آپ سے یہی گزارش کرتے ھیں کہ طوائفوں کا بال بنانا ، ابرو بنانا ، اعتقادی چیز ھے نیت ھی جب بری ھے تو ان کا ایک ایک قدم گناہ ھے ،مگر آپ ان نشانیوں کو گھریلو عورت پہ تھوپ کر جب اسے لعنت کا مستحق ٹھہراتے ھیں تو کونسے
دین کی خدمت کرتے ھیں ؟ انما الاعمال بالنیات نہیں ھے ؟

ایک لڑکی کی کل پرسوں شادی ھے ، اس کے ابرو مردوں کی طرح ھیں گھر والے اصرار کرتے ھیں کہ وہ انہیں ھلکا کر لے مگر وہ کہتی ھے کہ اللہ کی لعنت ھوتی ھے ، اللہ کی لعنت ان پر نہیں ھوتی جنہوں نے ھزاروں مسلمان تہہ تیغ کر دیئے ھیں اور چند بال اکھاڑ پھینکنے والی پر اللہ کی لعنت ھو جائے گی ، جب زینت عورت کا حق ھے اور اللہ کا حکم ھے ،، اور اسے اپنے شوھر کے لئے اس کی اجازت ھے ،،زنا کرنے والی کو صرف سو کوڑا اور پھر وہ بخشی بخشائی ،مگر ابرو اکھاڑ پھینکنے والی پر اللہ کی لعنت بلکہ خوشبو لگانے والی پر بھی اللہ کی لعنت ،، عورت نہ ھو گئ اڈیالہ جیل کی قیدی ھو گئ ،،

ابن شیبہ رحمہ اللہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمر، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ جعل رزقی تحت رمحی وجعل الذلۃ والصغار علی من خالف أمری، من تشبہ بقومٍ فہو منہم. (رقم ۳۳۰۱۶، ۶/ ۴۷۱)
’’ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘
مسند احمد بن حنبل کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت بالسیف حتی یعبد اللّٰہ لا شریک لہ، وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذلۃ، والصغار علی من خالف أمری، ومن تشبہ بقوم فہو منہم.(رقم۵۱۱۴)
’’ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔کہ میں تلوار کے ساتھ جہاد کروں حتیٰ کہ صرف اللہ ، جس کا کوئی شریک نہیں کی عبادت کی جائے۔ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا، اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘

اسی طرح عورت کے چہرے کے کسی حصے سے بھی بال اکھاڑنے کے بارے میں مالکیہ حنفیہ اور شافعیہ علماء کے نزدیک یہ ممانعت اجنبی مردوں کے لئے زیب و زینت اختیار کرنے کی وجہ سے ھے ، اپنے شوھر کے اپنے چہرے کو صاف کرنے سے کسی نے منع نہیں کیا ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک عورت نے آ کر پوچھا کہ کیا میں اپنے شوھر کے لئے اپنے چہرے کے بال اکھاڑ سکتی ھوں تو آپؓ نے فرمایا تو اس گند کو جتنا اتار سکتی ھے اتار دے ،، جہاں تک تعلق ھے کہ عورت کے بھنوؤں کے بال اتارنے سے رب کی تخلیق میں تبدیلی ھوتی ھے ، ان سے گزارش ھے کہ یہ بال تو ھفتے دس دن میں پھر آ جاتے ھیں ،، یہ جو ختنہ کرتے ھیں اور اللہ کی تخلیق کا بیڑہ غرق کر دیتے ھیں اصلی بگاڑنا تو اس کو کہتے ھیں ،جبکہ دوسری حدیث بیان کرتی ھے کہ قیامت کے دن اللہ لوگوں کے ساتھ وہ ختنے والا گوشت بھی پھر جوڑ دے گا اور لوگ غیر مختون اس کے سامنے کھڑے ھونگے ،، تو جب اس نے چمڑی کے ساتھ بھیجا اور چمڑی کے ساتھ اٹھائے گا تو آپ نے یہ چمڑی چوری ھی کیوں کی ؟ پھر شوافع تو لڑکی کے بھی ختنے کراتے ھیں ، بال اتارے تو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ھو جائے اور آپ اس کا ختنہ بھی کر دو تو خلقت اسی طرح برقرار رھے ؟

ختنے کے عمل سے یہ ثابت ھوا کہ تبدیل خلقت کا لفظ رسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ راوی کا اپنا وضاحتی بیان ھے جس کو بریکٹ میں ھونا چاھئے تھا ، تبدیل خلقت جیسے اھم لفظ کو بھنوؤں کے بالوں تک محدود کر دینا نبئ کریم ﷺ کا ویژن ھر گز نہیں ھو سکتا کیونکہ سورہ نساء میں یہ لفظ شرک کرنے ، جانوروں کو اللہ کے بجائے مخلوق کے آگے قربان کرنے ، ان پر مختلف نشان بنا کر غیراللہ کے نام پر مختص کرنے اور اللہ کی بجائے شیطان کی غلامی کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ھے - سنت میں بچے کے سر کے بال کاٹنے کا ذکر ھے اگرچہ وہ بچہ ھو یا بچی اسی طرح بچے اور بچی دونوں کے ختنے کا ذکر ھے ،اگر ان کو تبدیل خلقت نہیں کہا گیا تو پھر اس معاملے کو بھی تبدیل خلقت رسول اللہ ھر گز نہیں کہہ سکتے ، یہ محترم راوی کا اپنا فہم اور اپروچ ھے ،، (
وَلأُضِلَّنَّهُمْ وَلأُمَنِّیَنَّهُمْ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الأَنْعَامِ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّهِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیناً .النساء-119 ))
اور انھیں گمراہ کروں گا _ امیدیں دلاؤں گا اور ایسے احکام دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان کاٹ ڈالیں گے پھر حکم دوں گا تو الله کى مقررہ خلقت کو تبدیل کردیں گے اور جو خدا کو چھوڑکر شیطان کو اپنا ولى اور سرپرست بنا ئے گا و ہ کھلے ہوئے خسارہ میں رہے گا_

( وأجاز المالكية والحنفية والشافعية والحنابلة ما لو فعلته المرأة لتتزين به لزوجها بإذنه، فإن كانت صغيرة لا زوج لها، أو توفي عنها زوجها، أولم يأذن زوجها، أوتفعله لتتزين به للأجانب ، فلا يجوز.
قال الشيخ النفراوي المالكي : وَالتَّنْمِيصُ هُوَ نَتْفُ شَعْرِ الْحَاجِبِ حَتَّى يَصِيرَ دَقِيقًا حَسَنًا، وَلَكِنْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا جَوَازُ إزَالَةِ الشَّعْرِ مِنْ الْحَاجِبِ وَالْوَجْهِ وَهُوَ الْمُوَافِقُ لِمَا مَرَّ مِنْ أَنَّ الْمُعْتَمَدَ جَوَازُ حَلْقِ جَمِيعِ شَعْرِ الْمَرْأَة مَا عَدَا شَعْرَ رَأْسِهَا، وَعَلَيْهِ فَيُحْمَلُ مَا فِي الْحَدِيثِ عَلَى الْمَرْأَةِ الْمَنْهِيَّةِ عَنْ اسْتِعْمَالِ مَا هُوَ زِينَةٌ لَهَا كَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا وَالْمَفْقُودِ زَوْجُهَا . اه۔ الفواكه الدواني
قال العلامة ابن عابدين الحنفي :النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بُعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين إلا أن يُحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. اه۔ حاشية ابن عابدين
وقال الشيخ سليمان الجمل الشافعي : وَيَحْرُمُ أَيْضًا تَجْعِيدُ شَعْرِهَا وَنَشْرُ أَسْنَانِهَا ... وَالتَّنْمِيصُ وَهُوَ الْأَخْذُ مِنْ شَعْرِ الْوَجْهِ وَالْحَاجِبِ الْمُحَسَّنِ فَإِنْ أَذِنَ لَهَا زَوْجُهَا أَوْ سَيِّدُهَا فِي ذَلِكَ جَازَ لَهَا ؛ لِأَنَّ لَهُ غَرَضًا فِي تَزَيُّنِهَا لَهُ كَمَا فِي الرَّوْضَةِ وَأَصْلِهَا وَهُوَ الْأَوْجُهُ وَإِنْ جَرَى فِي التَّحْقِيقِ عَلَى خِلَافِ ذَلِكَ فِي الْوَصْلِ وَالْوَشْرِ فَأَلْحَقَهُمَا بِالْوَشْمِ فِي الْمَنْعِ مُطْلَقًا . اه۔ حاشية الجمل
وقال العلامة ابن مفلح الحنبلي في كتاب الفروع : وَأَبَاحَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ النَّمْصَ وَحْدَهُ ، وَحَمَلَ النَّهْيَ عَلَى التَّدْلِيسِ، أَوْ أَنَّهُ كَانَ شِعَارَ الْفَاجِرَاتِ. وَفِي الْغُنْيَةِ يَجُوزُ بِطَلَبِ زَوْجٍ . وَلَهَا حَلْقُهُ وَحَفُّهُ، نَصَّ عَلَيْهِمَا وَتَحْسِينُهُ بِتَحْمِيرٍ وَنَحْوِهِ، وَكَرِهَ ابْنُ عَقِيلٍ حَفَّهُ كَالرَّجُلِ، كَرِهَهُ أَحْمَدُ لَهُ، وَالنَّتْفَ وَلَوْ بِمِنْقَاشٍ لَهَا .اه۔
وقال ابن حجر : قال النووي: يستثنى من النماص ما إذا نبت للمرأة لحية أو شارب أو عنفقة فلا يحرم عليها إزالتها بل يستحب. قلت: وإطلاقه مقيد بإذن الزوج وعلمه، وإلا فمتى خلا عن ذلك منع للتدليس.
وقد أخرج الطبري من طريق أبي إسحاق عن امرأته أنها دخلت على عائشة وكانت شابة يعجبها الجمال فقالت: المرأة تحف جبينها لزوجها فقالت: أميطي عنك الأذى ما استطعت. والله أعلم )
جناب قاری حنیف ڈار صاحب
 

سید عمران

محفلین
البقرہ اور آلِ عمران میں بنیادی طور پر نبی ﷺ کے زمانے کے یہود و نصاریٰ مخاطب ہیں۔ انہیں دعوت بھی دی گئی کہ آؤ توحید پر اکٹھے ہو جائیں، اور ان کی غلطیاں بھی واضح کی گئیں۔ ایک آیت یہاں پیسٹ کر کے کیا ثابت کیا جا رہا ہے؟
تفقہ اور فہم و فراست سے عاری دلیل...
 

سید عمران

محفلین
پہلی حدیث اخبار کے ذیل میں آتی ہے۔ اس سے آپ کون سا حکم ثابت کر رہے ہیں؟
من تشبہ قوم والی روایت جنگ کے تناظر میں آتی ہے اور یہ صرف ایک جُملہ نہیں ہے۔ اگر خوفِ خدا ہو تو قولِ رسول ﷺ کو ایسے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے مطلب کے معانی نہ نکالے جائیں۔
سطحی اور ناقص علم کی عکاس دلیل!!!
 

سید عمران

محفلین
دھاگے والے پائین سے اگلی پوسٹ 14 فروری، اور اس سے اگلی پوسٹ یکم اپریل کو آنے کی توقع ہے۔
میرا خیال فیس بک پر 22 ویں گریڈ کے دانشور ہیں اور پارٹ ٹائم میں وہی پوسٹیں یہاں کاپی پیسٹ مار کر اردو محفل کو بھی کور کرتے ہیں۔
تاہم امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے برس انہیں ایام کے لیے ان کے پاس پرانی پوسٹوں کی جُگالی کے علاوہ کچھ نیا بھی ہو گا۔
اگر فسق و فجور کو بار بار دہرایا جاسکتا ہے تو اس کا بطلان بار بار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟؟؟
 

  • اور ملک عزیز میں بیٹھے سیکولروں کا دین اسلام میں کیڑے نکالنا نظر نہیں آتا۔
یہ سیکولر نہیں صرف اسلام مخالف لوگ ہیں۔ سیکولر کو کسی خاص دین یا مذہب سے کوئی تکلیف نہیں، ہاں اسکے ملکی امور میں ٹانگ اڑانے پر تشویش ہوتی ہے۔
 
European Christians celebrated the New Year, they exchanged Christmas presents because New Years' Day fell within the twelve days of the Christmas season in the Western Christian liturgical calendar; the custom of exchanging Christmas gifts in a Christian context is traced back to the Biblical Magi who gave gifts to the Child Jesus
یہ حوالہ مسیحی کرسمس سے متعلق ہے۔ ایران اور اسکے ملحقہ ممالک میں زمانہ اسلام سے بھی قبل نئے سال کا تہوار"نوروز" منایا جاتا رہا ہے۔انکے اسلام قبول کر لینے کے بعد بھی یہ تہوار آج بھی اسی شوق و ولولہ سے منایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس تہوار کا ماخذ قدیم زرتشت مذہب سے ملتا ہے۔ البتہ آمد اسلام کے باوجود اس تہوار کو ترک نہیں کیا گیا۔ مسلمان آج بھی نوروز مناتے ہیں لیکن غیرمذہبی ، دنیاوی تہوار کے طور پر۔ اسپر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ پھر مغربی نئے سال پر کیوں شور مچا رکھا ہے؟
Nowruz - Wikipedia
 
چلیں اگر آپ کی بات مان لیں کہ یہ دنیاوی تہوار ہے۔تو کیا اسے منانے کی دلیل آپ قرآن و سنت سے پیش کر سکتے ہیں؟
کسی بھی دنیاوی تہوار کو منانے کیلئے "اسلامی" دلیل کی کیا ضرورت ہے؟ سالگرہ ایک دنیاوی تہوار ہے اور ظہور اسلام کے وقت اسکا کوئی وجود نہیں تھا۔ آج دنیا بھر کے لوگ بشمول مسلمان اسے مناتے ہیں۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

( وَلَن تَرْضَیٰ عَنْکَ الْیَہُودُ وَلَا النَّصَرَیٰ حَتَّیٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ )(البقرۃ ( 2/120)
"یہ یہودی اور عیسائی اس وقت تک ہرگز آپ سے خوش نہ ہونگے جب تک کہ آپ ان کے طریقے پر نہ چلیں ۔"

لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوْا جُحَرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اﷲ ِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ فَمَنْ ؟ ۔
(صحیح البخاری ، کتاب الاعتصام باب قول النبی[صلی اللہ علیہ وسلم] لتتبعن سنن ومن کان قبلکم حدیث : 7320 ،
صحیح مسلم ، کتاب العلم باب اتباع سنن الیھود والنصاری: ح 2669)
"تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طور وطریقوں کی اس طرح پیروی کروگے جس طرح ایک بالشت دوسری کے برابر ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے لگوگے ۔ہم نے کہا ،یا رسول اﷲ کیا وہ یہودی اور عیسائی ہیں ،آپ[صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا ،تو اور کون ہیں؟"۔

"مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ"
(أبو داؤد ، ح : 4031)
"جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔"

صحیح الجامع میں علامہ البانی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث ’’ من تشبہ بقوم فھو منهم‘‘ کو صحیح قرار دیا ہے۔
پچھلے 3000 سال سے ایران اور اس کے زیر اثر اقوام قدیم پارسی تہوار نوروز بڑی دھوم دھام سے مناتی چلی آرہی ہیں۔ کیا اس کے باعث یہ لوگ پارسیوں کے مشابہ ہو گئے؟ کچھ ہوش عقل کے ناخن لیں۔
نوروز - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
 
تو آپ کا کہنا یہ ہے کہ یہود و نصارٰی کی پیروی کی جائے۔۔۔۔۔۔
پہلے پیروی ہے کیا اسکی تعریف کریں۔ زمانہ قدیم سے جو تہوار چلے آ رہے ہیں وہ اسلام لانے کے بعد ختم نہیں ہو جاتے ہیں۔ ہمارے برصغیر میں شادیوں پر بے شمار ایسی رسم و رواج ہیں جنکا اسلام کے ظہور کے وقت کوئی وجود نہیں تھا۔ اس بنیاد پر کہ یہ سابقہ قوموں سے ہیں انکو ترک کر دیں؟ نہ مہندی، نہ بینڈ باجا سب ختم۔ عجیب منطق ہے۔
 

ہادیہ

محفلین
جن صاحب نے یہ تھریڈ شروع کیا۔ ان کی تصویر دیکھیں ۔انہوں نے "ٹائی" لگائی ہے۔ یہ بھی تو انگریزوں کے لباس کا حصہ ہے۔ مسلمانوں کا لباس کرتا شلوار یا شلوار قمیض ہے۔دیکھا جائےتو ہم تو چھوٹی سے چھوٹی بات میں دوسروں کی تقلید زیادہ کررہے ہیں ۔ نیو ایئر کہہ دیں گے تو دائرہ اسلام سے ہی خارج ہوجائیں گے کیا؟ باقی کسی چیز کا کوئی حساب کتاب نہیں؟
 

سید عمران

محفلین
یہ حوالہ مسیحی کرسمس سے متعلق ہے۔ ایران اور اسکے ملحقہ ممالک میں زمانہ اسلام سے بھی قبل نئے سال کا تہوار"نوروز" منایا جاتا رہا ہے۔انکے اسلام قبول کر لینے کے بعد بھی یہ تہوار آج بھی اسی شوق و ولولہ سے منایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس تہوار کا ماخذ قدیم زرتشت مذہب سے ملتا ہے۔ البتہ آمد اسلام کے باوجود اس تہوار کو ترک نہیں کیا گیا۔ مسلمان آج بھی نوروز مناتے ہیں لیکن غیرمذہبی ، دنیاوی تہوار کے طور پر۔ اسپر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔ پھر مغربی نئے سال پر کیوں شور مچا رکھا ہے؟
Nowruz - Wikipedia
کسی بھی دنیاوی تہوار کو منانے کیلئے "اسلامی" دلیل کی کیا ضرورت ہے؟ سالگرہ ایک دنیاوی تہوار ہے اور ظہور اسلام کے وقت اسکا کوئی وجود نہیں تھا۔ آج دنیا بھر کے لوگ بشمول مسلمان اسے مناتے ہیں۔
پچھلے 3000 سال سے ایران اور اس کے زیر اثر اقوام قدیم پارسی تہوار نوروز بڑی دھوم دھام سے مناتی چلی آرہی ہیں۔ کیا اس کے باعث یہ لوگ پارسیوں کے مشابہ ہو گئے؟ کچھ ہوش عقل کے ناخن لیں۔
نوروز - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
پہلے پیروی ہے کیا اسکی تعریف کریں۔ زمانہ قدیم سے جو تہوار چلے آ رہے ہیں وہ اسلام لانے کے بعد ختم نہیں ہو جاتے ہیں۔ ہمارے برصغیر میں شادیوں پر بے شمار ایسی رسم و رواج ہیں جنکا اسلام کے ظہور کے وقت کوئی وجود نہیں تھا۔ اس بنیاد پر کہ یہ سابقہ قوموں سے ہیں انکو ترک کر دیں؟ نہ مہندی، نہ بینڈ باجا سب ختم۔ عجیب منطق ہے۔
اس ساری ہرزہ سرائی اور بدحواسی پر مبنی لایعنی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے نبی نے مدینے کے انصاریوں کو ان کے تہوار نوروز اور مہرجان منانے سے منع فرمادیا...
اور مسلمانوں سے یہ ارشاد فرمایا کہ ان کے بدلے اللہ نے تمہیں عیدین کے تہوار دئیے ہیں...
ویسے بھی دنیا میں سینکڑوں قسم کے تہوار ہیں، سب تہوار کیوں نہیں مناتے صرف امریکی تہواروں پر ہی بدحواسی کے دورے کیوں پڑتے ہیں؟؟؟
 
اس ساری ہرزہ سرائی اور بدحواسی پر مبنی لایعنی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے نبی نے مدینے کے انصاریوں کو ان کے تہوار نوروز اور مہرجان منانے سے منع فرمادیا...
مدینہ میں کونسے ایرانی تھے جن کو نوروز منانے سے منع فرمایا؟ اور ویسے بھی اگر اسکی واضح حرمت کی گئی ہے تو ایران فتح ہونے کے بعد خود مسلمانوں نے اسے بڑھا چڑھا کر منانا شروع کیوں کیا؟
 

ربیع م

محفلین
البتہ داڑھی اور کپڑوں کو خواہ مخواہ مشابہت میں شامل کر لیتے ہیں ،
قاری حنیف ڈار صاحب کی علمی قابلیت کو 21 توپوں کی سلامی.
ویسے تو اس پورے مضمون کا ہی پوسٹ مارٹم کرنے کو جی چاہ رہا ہے لیکن بہرحال ان دو نکات پر اکتفا کیجئے کہ یہ خوامخواہ مشابہت میں شامل کیا جا رہا ہے یا قاری صاحب اس سے ناواقف ہیں یا علمی خیانت کے مرتکب!
((خالفوا المشركين: أحفوا الشوارب وأوفوا اللحى)) (6) رواه البخاري و مسلم

، اس حدیث میں تشبہ اصل میں مکس اپ ھونے کے معنوں میں استعمال ھوا ھے ،،

یہاں بھی قاری صاحب نے اپنے مطلب کی حدیث لے کر اپنا من پسند مطلب نکال لیا جبکہ مشابہت سے متعلق دوسری کئی روایات کو فراموش کر گئے جہاں سیاق و سباق میں جہاد کا ذکر ہی نہیں.
عندالطلب وہ احادیث پیش کی جا سکتی ہیں.
 
Top