نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 175
ربانی نور اور ایک خدائی روشنی کا ظہور دیکھتے اور اس کے بلند مناروں کو رحمت الہی کا مہبط اور فرشتوں کی فرودگاہ سمجھتے ہیں ، اور ایمان و یقین کے جذبے سے سرشار ہو کر فرماتے ہیں کہ مسلمان بھی زندہ و جاوداں ، لافانی اور لا زوال ہے ، اس لئے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام و موسی علیہ السلام اور تمام انبیاء کے اس لافانی پیغام کا حامل و امین ہے جسے اللہ نے بقائے دوام اور ابدی استحکام عطا کیا ہے ، اور یہ امت دنیا مین جس کی داعی و نقیب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ملت اسلامیہ کے افکار و خیالات ، اس کے عزائم اور معتقدات کی ایک تجلی ہونے کی وجہ سے اس کی نمائندہ ہے ، جس طرح یہ ملت ملک و وطن ، نسل و قومیت کے غیر حقیقی اور محدود تصورات سے بری ہے، اسی طرح یہ مسجد بھی عرب عجم کے حسین امتزاج اور آفاتی میل ملاپ کا نمونہ ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ مومن کا وطن ، زمینی حدود سے بے نیاز اور اس کے آفاق بے کراں ہیں ، اور اس کے پیغام کا سوزو ساز مشرق و مغرب دونوں کو محیط ہے ، عراق کے دجلہ و فرات ، ہندوستان کے گنگ و جمن ، یورپ کے ڈینوب و بحرروم اور مصر کا دریائے نیل اس کے بحر بیکراں اور محیط اعظم کی ایک موج خوش خرام ہیں ، تاریخ میں اس کے شاندار اور عظیم الشان کارناموں اور فتح و ظفر کی داستانوں کی مثالیں نایاب ہیں ، اسی امت نے عصر کہن کو اذن رخصت دے کر دور جدید کا آغاز اور عہد نو کا ا فتتاح کیا ۔
اس امت کے افراد محبت و انسانیت کے نمائندے اور امام ، اور ایمان و اخوت کے سچے نمونے اور مثال ہیں ، مومن کی زبان ابر گوہر بار اور اس کے سیف و سنان جوہر دار ہیں ، وہ دل کا غنی ، اور تلوار کا دھنی ہے ، وہ میدان جنگ اور تلاروں کی چھاؤں میں بھی توحید و رسالت اور ایمان و توکل کا پیامبر اور خدا طلبی کی رارہ میں
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 176
گرم سفر رہتا ہے ، حق و باطل کے معرکے میں قوت ایمانی اس کا اوزار اور خدا پر اعتمارد اس کا ہتھیار ہوتا ہے ، وہ کس والہانہ اور حقیقت پسندانہ انداز میں کہتے ہیں:۔
تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائدار تیرے ستوں بیشمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے دروبام پر وادئ ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اسکی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
اسکی زمیں بے حدود اس کا افق بے ثغور
اسکے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل
اسکے زمانے عجیب اسکے فسانے خریب
عہد کن کو دیا اس نے پیام رحیل!
ساقی ارباب ذوق ، فارس میدان شوق
بادہ ہے اس کا رحیق ، تیغ ہے اسی اصلی
مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لا الہ
سایہ شمشیر میں اس کی پنہ لا الہ
پھر مسجد قرطبہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تو دنیا میں مومن کے خواب کی تعبیر اور اس کی اولوالعزمیں کی تشریح و تفسیر ہے ، اور خشت و سنگ اور تعمیری رنگ و آہنگ میں مون کی روح کا ظہور ہے تو اپنے وجود میں ستر مومن کا افشائے راز ، اور اس کے لیل و نہار کا سوزو گداز ہے اور تیرے پیکر جمیل سے اس کے بلند احوال و مقامات اور ارجمند افکار و خیالت کی چہرہ کشائی ہو رہی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مومن کا ہاتھ اپنی کارکشائی اور کارسازی ، اپنی مشکل کشائی اور تازہ کاری ، فتح و ظفر ، قوت و سطوت ، اور غلبہ و اقتدار کے لئے دنیا میں خدا کا ہاتھ اور قدرت الہی کا ایک ذریعہ ہے۔
مومن بظاہر خاکی لیکن دراصل نور ہے ، اس کی ذات میں اخلاق الہیہ اور

___________________________
ایک حدیث قدسی بھی اس معنی کی احادیث کے ذخیرے میں ملتی ہے (مترجم)
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 177
صفات عالیہ کا پر تو اور اس کا عکس جمیل ہے ، اس لئے وہ دنیا سے مستغنی اور مادیت سے بے نیاز ہے ، اس کی امیدیں اور آرزوئیں ، اس کی خواہشات اور تمنائيں بہت معصوم سادی اور قلیل ، لیکن اس کے مقاصد و نصب العین اس کے اغراض اور پروگرام ، اس کا عزم و حوصلہ ، اس کی ہمت اور اس کا ولولہ بہت عظیم و جلیل ہیں ، وہ بیک وقت جلال و جمال ، محبت و ہیبت کا جامع اور نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو کی مثال ہے ، صلح و امن میں حریر و پریناں اور حرب و ضرب میں شمشر و سناں! وہ صلح جنگ ہر حال میں معصوم اور پاکیزہ شخصیت کا مالک ہے۔
اس کا ایمان وہ مرکزی نقطہ ہے ، جس کے گرد دائرہ عالم گھومتا ہے ، اس کی ذات کائنات کی اصل و حقیقت اور اس کے سوا سب طلسم و مجاز، اور وہم و گماں ہے، وہ عقل و فکر کی غایت اور ایمان و محبت کی نہایت ہے ، اس کے وجود سے کائنات میں خوشنمائی و رعنائی اور زندگی میں قوت و بہجت کا اجتماع ہے ، وہ عشق کی منزل محبت کا حاصل ، اور جسم و وجود کا دل ہے:۔
تجھ سے ہوا آشکار ر بندہ مومن کا راز
اسکے دلوں کی تپش اسکی شبوں کا گداز
اس کا مقام بلند ، اس کا خیال عظیم
اس کا سرور اسکا شوق اسکا نیاز اسکا ناز
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کا ر کشا ، کار ساز
خاکی و نوری نہاد بندہ مولی صفات
ہر دو جہاں سے غنی اسکا دل بے نیاز!
اسی امیدیں قلیل ، اسکے مقاصد جلیل
اسکی اوا دلفریب اسکی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام و ہم طلسم و مجاز!
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 178
عشق کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق میں گرئ محفل ہے وہ
وہ دوبارہ مسجد قرطبہ سے مخاطب ہو تے اور کہتے ہیں کہ کہ تو ارباب فن کا کعبہ ، نیاز مندان عشق کا قبلہ اور اسلامی عظمت کا نشان ہے ، تیری وجہ سے اہل نظر کی نظر میں زمین قرطبہ فلک منزلت اور حرم مرتبت ہوئی ، تیری رعنائی و برنائی ، دلکشی اور دل کشائی کی اگر کوئی مثال مل سکتی ہے تو صرف قلب مسلم اور دل مومن میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال یہاں پہنچ کر بے اختیار ہو جاتے ہیں ، اور ماضی کی طرف والہانہ دیکھتے ہیں ، اور تخیل کے پروں سے اڑ کر صدیوں کی تاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی دور کے اندلس میں پہنچ جاتے ہیں ، اور رومانویت و کلاسکیت کو فکر و فن کا جامہ پہناتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ وہ مردان خدا ، اور ارباب صفا ، خلق عظیم و لطف عمیم کے جامع اور صداقت و اسلامیت کے حامل عربی شہسوار کہاں گئے ، اور ان کا قافلہ سخت جاں ، عشق شور انگیز کی کس منزل میں ہے؟ وہ عرب خلفا اور حکمراں کہاں گئے ، جن کی حکومت ، خدمت انسانیت کا دوسرا نام اور جنکی بادشاہی و جہانگیری رفاہ عام و فلاح عوام تھی ، جو مشرق و مغرب کے مربی اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بانی تھے اور جن کی بصیرت کی روشنی یورپ کے فزون مظلم (Dark Ages)کے لئے روشنی کا مینار کا حکم رکھتی تھی ، اور جن کا وجود یورپ کے لئے پیام رحمت بنا ہوا تھا۔
اقبال کہتے ہیں ، اسپین میں باوجود مغربیت کے عربی خون کی لالہ کاری اس کی چمن بندی میں مصروف ہے ، اور اندلسیوں میں آج بھی عربوں کے اثر سے روح کی لطافت و خوشدلی ، مہماں نوازی و گرمجوشی ، سادگی اور مشرقیت کا جمال باقی ہے ، خوشبوئے نجد و یمن سے آج بھی اسکی ہوائیں معطر ، اور فضائیں معنبر ہیں ، اور آہنگ حجاز و عراق کی صدائے بار گشت
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 179
وہاں اب بھی سنی جا سکتی :۔
کعبہ ارباب فن اسطوت دین مبین
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیر ی نظیر
قلب مسلماں میں ہے اور نہیں ہے کہیں
آہ وہ مردان حق وہ عربی شہسوار
حامل خلق عظیم ، صاحب صدق و یقیں
جنکی حکومت سے ہے فاش یہ مز غریب
سلطنت اہل دل نقر ہے شاہی نہیں
جنکی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جنکی خردراہ میں
جنکے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوشدل و گرم اختلاط سادہ و روشن جبیں
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دلنشیں
بوئے یمن آج بھی اسکی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اسکی نواؤں میں ہے
ماضی کی ان حسرتناک یادوں کے بعد وہ انقلاب کی تمنا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اندلس کی سر زمیں ہمدوش فلک ہوتے ہوئے بھی صدیوں سے اذانوں سے محروم چلی آ رہی ہے اور باوجود اس کے کہ عالم میں انقلاب کی ہوا چل رہی ہے ، یہاں صورت حال میں کوئي تبدیلی نہیں پیدا ہوتی ! جرمنی میں لوتھر کی تحریک تجدید و اصلاح (Reformation)کا ظہور ہوا جس نے تہذیب و ثقافت اور علم و ادب دونوں کو متاثر کیا اور یورپ کی عصمت اور کلیسا کی وہ عظمت دلوں میں نہیں باقی رہ گئی ، آزاد خیالی کی رونے فکر و فلسفہ کی تقلیدی بند ھنوں سے آزاد کر دیا ، یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے ہر طرف نئی زندگی کی لہر دوڑا دی ، روسو اور والیٹر کے زیر انقلاب فرانس نے صنعتی دور کو جنم دیا ، اور قدامت پرست روما بھی انقلاب کے لئے تیار ہو گيا ۔

______________________
یہ نظم دوسری جنگ عظیم سے پہلے کہی گئی تھی جب مسو لینی نے اہل الطالیہ میں قومی مخرو منخوت کی روح پھونک دی تھی ، اور اٹلی فاشٹرم کی راہ پر چل پڑاتھا۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 180
اس پس منظر میں اقبال اسلامی انقلاب کی تمنا کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بھی انقلاب کی روح بے چین ہے ، لیکن کوئي پیشگوئی نہیں کی جا سکتی وہ بڑے رومانی انداز میں قرطبہ کی نہر وادئ الکبیر سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تیرے کنارے کوئی غریب الدیار ماضی کے آئینے میں مستقبل کو دیکھ رہا ہے اور آنے والے زمانے کا تصور اتنا حیرت زا ہے اور یورپ کے لئے اتنا نا گوار کہ یورپ میری صاف گوئی اور دور اندیشی کو صبر و سکون کے ساتھ نہیں سن سکتا ، پھر وہ اپنا نظریہ حیات واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انقلاب تجدید اور خیر و شر کی کشمکش سے قومں کی موت و حیات کا فیصلہ ہوتا رہتا ہے ، کارگاہ حیات میں جو قومیں پھونک پھونک کر قدم رکھتی اور اپنے ہر نفس کا محاسبہ کرتی رہتی ہیں ، وہ زندگی کی مستحق قرار پاتی ہیں ، اور دنیا میں ان کا وجود فیصلہ کن طاقت بن جاتا ہے ، آخر میں شعر و ادب اور فکر و فن کے بارے میں اپنی منفرد رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو فلسفہ خون جگر سے نہیں لکھا جاتا اور جو صرف دماغ سوزی کی پیداوار ہوتا ہے ، اس میں زندگی نہیں ہوتی ، اور ہر وہ فنی شہ پارہ فنا پذیر اور سریع الزوال ہے جس میں فن کار کا خون دل شامل نہیں ، اور وہ نغمہ جاوداں نہیں بن سکتا جس میں نے نواز کا سوز دروں اور دل کی آنچ نہیں ، جو دل کی گہرائیوں سے نہیں پھوٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نظریہ فن نہیں بلکہ نظریہ حیات بھی ہے ، ادب و زندگی دونوں کے لئے خون دل و جگر ہمیشہ ضروری رہا ہے :۔
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
کون سی وادی میں ہے کونسی منزل میں ہے
عشق بلا خیر کا قافلہ سخت جاں
دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دین
جسے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں
حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 181
چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگر گوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذب تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے یہ کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھئے اس بحر کی تہ سے چھلتا ہے کیا
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
وادئ کہسار میں غرق شفق ہے سراب
لعل بد خشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اسکی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ مری نواؤں کی تاب
جس میں نہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب!
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
(بال جبریل)

نظم پر ایک عمومی تبرہ
اگر اقبال کی چند منتخب اور نمائندہ نظموں کا نام لیا جائے تو مسجد قرطبہ ان میں سے ایک اور سر فہرست ہو گی ، اور شاید یہ کہنا صحیح ہو گا کہ اقبال کے فن و شخصیت ، اور ان کے مجموعی ورثے میں یہ نظم ان کے واحد شاہکار کا حکم رکھتی ہے اور اردو ادب کے ناقدین کا متفقہ فیصلہ بھی اسی خیال کے حق میں ہے، نظم کے مختلف حصوں میں شاعر بڑے حسن ترتیب کے ساتھ اپنے خیالات کو سامنے لایا ہے ، پوری نظم بتدریج اپنی انتہا اور ارتقا کو پہنچتی ہے

______________________________
از مترجم
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 182
اور بیچ بیچ میں اگرچہ جملہ معترضہ اور مختلف موڑ (Climaxes)بھی آتے رہتے ہیں لیکن ان کی حیثیت سنگ میل اور نقش و نگار راہ گزر ہی کی ہے ، اور وحدت و اثر اور مجموعی تاثر کے لحاظ سے یہ نظم بھی ہے ، اور مختلف سلسلہ ہائے خیال اور حلقہ ہائے فکر کی یکجائی کے اعتبار سے غزلوں کا مجموعہ بھی (اور ایسا اقبال کی تمام نظموں میں ہوا ہے کہ ان کی نظم کئی غزلوں کا مجموعہ ہوتی ہے) سب سے پہلے نظم کے تدریجی ارتقا اور فطری دروبست اور ترتیب کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے جذبات و خیالات کی ابتداء عروج اور خاتمہ اور ان کے درمیانی اتار چڑھاؤ کو اپنی طبعی حالت پر برقرار رکھا ہے اور فکر کو جذبے سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ، نظم کی تمہید سلسلہ روز و شب پر ایک فلسفیانہ نظر اور تاریخ کے واضح شعور کے پس منظر میں شروع ہوتی ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ عشق و ایمان کی قوت کائنات کی استثنائی طاقت ہے ، جس پر زوال و فنا نہیں ، عشق و ایمان وہ پارس پتھر ہیں ، جو مٹی کو سونا اور یہ آب حیات فانی کو غیر فانی بنا دیتا ہے ، اقبال نے تاریخ فلسفہ میں شاید پہلی بار اتنی وضاحت اور یقین کے ساتھ فلسفہ تاریخ کے اس پہلو پر زور دیا ہے کہ مرد خدا کا عمل (رنگ ثبات و دوام لئے ہوتا ہے اور اس کا عمل عشق سے صاحب غروغ ہوتا ہے)۔یعنی عالمی سچائیوں اور عالمگیر اقدار و حقائق کی طرح ایمان و یقین اور عشق و محبت کے انسانی جذبات بھی لافانی ہوتے ہیں اور کسی عمل میں ان کا سبب رنگ دوام پیدا ہو جاتا ہے اب فلسفہ سائنس میں بھی یہ نظریہ مسلمہ بن گیا ہے کہ اصل حیات اور اساس وجود ذہن (‏Mind) ہے نہ کہ مادہ (Matter) یعنی معنوی اقدار ہی کائنات میں فیصلہ کن ہستی رکھتی ہیں ذہن و خیال اور جذبہ و فکر ہی حقیقی وجود رکھتے ہیں اور مادی نقوش صرف اس کا ظہور ہیں ، اقبال بھی فلسفہ کے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 183
اسی روحانی مکتب فکر کے حامی تھے ، ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسجد قرطبہ کے خشت و سنگ فنا پذیر ہو سکتے ہیں ، لیکن اس کا معنوی وجود اس کا پیغام اور اس کے پیچھے چھپا ہوا جذبہ و ایمان اس کے معماروں اور بانیوں کا عشق و خلوص زندہ جاوداں ہے ، مسجد قرطبہ زمانے کے حوادث کا شکار ہو سکتی ہے ، اور اس کا ظاہری وجود مٹ سکتا ہے ، لیکن تاریخ انسانیت میں اس کا نام انمٹ ہے اور جریدہ علم پر اس کے لئے بقائے دوام کی مہر ثبت ہو چکی ہے ، اقبال کا کہنا ہے کہ چیزوں کی قدرو قیمت کمیت (Quantity)میں نہیں بلکہ کیفیت (Quality)میں ہے اور فانی سے فانی چیز ابدی حقائق سے مل کر لافانی بن جاتی ہے، مسجد قرطبہ کے ان معنوی اسباب دوام کے ذکر کے ساتھ مرد مومن کی باطنی صفات اور ذاتی خصوصیات کا تذکرہ ناگزیر اور فطری تھا ، چنانچہ اقبال نے اپنے مرد مومن اور انسان کامل کا پورا تعارف کرایا اس کے ایمان و خلوص ، روحانیت و محبت اور جلال و جمال کی تصویر کشی کی اور اپنے فلسفہ خودی کے بنیادی نکات کو ایمانی صفات کا رنگ دیدیا اور پھر تاریخ کے مختلف ادراو سے گزرتے ہوئے مستقبل تک پنچ گئے اقبال کا اس نظم میں سب سے بڑا فنی کمال یہ ہے کہ موضوع اگرچہ یاس انگیز و حسرت خیز اور مکسر قنوطی تھا ، لیکن اقبال نے اسے پورے طور پر رجائی انداز سے ٹچ (Touch)کیا ہے ، اور ان کا طرز استدلال Approachمکمل طورسے خوش آئند و بشارت آمیز ہے ، نظم کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آفاق اور اس کا دائرہ تخیل بہت ہمہ گیر اور محیط اور اس کا (Canvas)بہت وسیع اور اس کے پس منظر کا تاریخی شعور بہت طویل و عریض ہے ، اور تقریبا فتح اندلس سے لیکر زمانہ حال تک کے تاریخی حوادث و انقلاب اور فکر و فلسفہ کے اہم تحریکات کا ذکر آگیا ہے ، اس کے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 184
ساتھ ہی اقبال کا نظریہ حیات و کائنات ، ان کا فلسفہ خود ، مرد مومن کا تخیل ، ایمان و عشق کے بارے میں واضح تصورات ، ان کا فلسفہ تاریخ ، ان کا نظریہ شعر و ادب ، فنون لطیفہ کے بارے میں ان کا طرز عمل زندگی کے تخلیقی و تحریکی عناصر اور ان کے علاوہ بہت سے واضح نظریات اس نظم میں آگئے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسجد قرطبہ کے آئینے میں ہم اقبال کی ہشت پہل شخصیت کے خط و خال دیکھ سکتے ہیں ، اور ان سے مل سکتے ہیں!
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 185
ذوق و شوق
1931ء (1250ھ) کی ایک حسین صبح تھی ، جب موتمر اسلامی کا قافلہ بیت المقدس کی مبارک و منور فضاؤں میں داخل ہوا، تمام ماحول کیف آور اور ہوا روح پرور تھی ، آفتاب جہاں تاب کی سنہری کرنیں اس طرح ابھر رہی تھیں جیسے وہ نور کے چشمہ سے نکلی ہوئی نہریں ہیں ، طلوع آفتاب کا منظر اور صبح کا سہانا سماں ہمیشہ سے شعرا کے لئے ذوق پرور اور نشاط و انبساط کا باعث رہا ہے ، جس سے وہ قلب و نظر کی زندگی اور فکر و خیال کی تروتازگی کا سامان پاتے رہے ہیں۔
مکان و زمان کے حسن و جمال نے ہمارے عظیم شاعر و فلسفی ڈاکٹر محمد اقبال کو (جو یورپ سے اسلامی ہند کی طرف سے مؤتمر میں نمائندگی کرنے آرہےتھے) بہت متاثرو مسحور کیا انہوں نے بڑے انہماک اور غور سے ان دلفریب و دلکشا مناظر کر دیکھا اور دام نظر کو اس رنگ و بو کی گلچینی کے لئے پھیلا دیا ، متاع نگاہ کو دل کی راہ میں لٹا کر قلب و روح کی تسکین و تسلی کا سرو سامان کیا۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 186
اقبال کےلئے سر زمین فلسطین پر رنگ برنگ کے اڑتے ہوئے بادل وہاں کے سبز پوش پہاڑ ، وہاں کے سرو سمن ، نسیم صبح کی خوشخرامی ، رات کی بارش سے دھلے ہوئے برگ نخیل اور وہ ریگ رواں جو نرم میں حریر و پرنیاں ہو ، یقینا دلچسپی کا باعث ہوئی ہو گی ، ان کی نگاہوں کے سامنے عربوں کی سادہ زندگی کے مناظر ، بجھی ہوئی آگ ، خیمے کی ٹوٹی ہوئی رسیاں ، اور اکھڑ ے ہوئے خیموں اور چھولداریوں کا نشان ، گذرے ہوئے کاروانوں کی خبر دے رہے تھے ، وہ اس حسن فطرت اور اس جنت ارضی سے اسقدر خوش ہوئے کہ وہیں طرح اقامت ڈالنے کی خواہش کی ، پیغمبروں کی اس سر زمین کے مناظر نے (جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے آرہے ہیں) اس موقع پر بھی شاعر کے سوئے ہوئے جذبات اور نا آسودہ آرزؤں اور تمناؤں کو ایک بار پھر جگا دیا اور احساس کی شدت نے اسلام اور مسلمانوں کی محبت کو صوت و نغمہ کا آہنگ بخشدیا ، اور یہ دل سے لگا ہوا محبوب موضوع ان کے احساسات کی فضا پر چھا گیا اور ان کی توجہات و میلانات کا واحد مرکز بن گیا ، اور ان کو وہی صورت حال پیش آئی جو عرب شاعر کے سامنے آئی تھی ، اور اس نے کہا تھا

(جب ہم شبنم نے شاداب مقام اور گل و غنچہ سے مہکے ہوئے باغ میں اترے تو حسن مقام نے ہمارے دل میں چند آرزوئیں پیدا کر دیں اور ان آرزوؤں کی جان تمہیں تھے)
وہاں ان میں وہ بلند خیالات و احساسات پیدا ہوئے جو زمان و مکان کی سرحدوں سے پرے اور حد درجہ غیر معمولی تھے ، انہوں نے اندازہ کیا کہ یہ عالم پیران کے تازہ دم اسلامی جذبات و خیالات کی بات نہیں لا سکتا ، اور اس کا جامد اور تقلیدی ذہن آئے دن
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 187
قومیت و وطنیت ، جنس و جغرافیہ اور رنگ و نسل کے بت تراشتا اور پوجتا رہتا ہے ، اور خواہشات و نفسانیت کے لئے حیلے تلاش کرتا رہتا اور انہیں تقدس کا رنگ دیتا ہے یہاں انہیں اسی دور جدید کا ابراہیم یاد آتا ہے ، جواٹھے اور اٹھ کر دنیا کو ان اصنام خیالی سے پاک اور خالی کر دے۔
اس موقع پر وہ عالم اسلام کو دیکھتے ہیں تو وہاں ظاہری افلاس و پسماندگی کے ساتھ ہی عقل و شعور اور فکر و وجدان کا وقدان اور ذہنی افلاس نظر آتا ہے ، وہ دیکھتے ہیں کہ عالم عربی بھی ایمان و عقیدہ کی پختگی اور روح و جذبہ کی برشتگی کھو چکا ہے اور عرب کے ساتھ عجم بھی جدت افکار سے محرو ہو چکا ہے ، اور موجودہ مادی نظار بھی کسی انقلابی مرد خدا کے انتظار میں ہے ، جو حق و صداقت کا عالمی رول ادا کرے اور حالات کو یکسر بدل دے اور حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہ کا حق پسندانہ کردار ایک بار پھر تازہ کر دے عالم اسلامی اس انقلاب کے لئے عالم عربی کی طرف توقع کی نظریں اٹھائے ہوئے ہے ، اور دنیا گہوارہ اسلام ۔۔۔۔۔ حجاز ۔۔۔۔۔ کی طرف حسرت سے دیکھ رہی ہے ، لیکن اس کی دستگیری کے لئے کوئی ہاتھ نہیں بڑھتا اور ساحل دجلہ و فرات پر کوئی کربلائے حق نہیں ظاہر ہوتا ، انسانیت کی پکار پر کسی طرف سے لبیک کی صدا نہیں آتی اور عالم اسلامی میں کوئی مرد خدا نہیں دکھائی دیتا ۔
یہاں پہنچ کر اقبال اس جمود و انحطاط کا سبب عالم اسلام کی دینی غیرت اور ایمانی جوش و محبت کی کمی کو قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ عقل و دل و نگاہ ہر چیز کو محبت کا خادم اور عشق کا مصاحب و ملازم ہونا چاہئے اور دین کی بنیادوں کو ایمان و محبت کے عناصر سے مضبوط کیا جائے جب تک دین کے ساتھ مسلمانوں کا جذباتی لگاؤ اور
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 188
اس کے عشق و محبت کا جھکاؤ نہیں ہوتا دین صرف مظاہر و رسوم اور بے جان احکام کے مجموعے کا نام رہے گا جو زندگی کی توانائی اور اس کی رعنائی و برنائی سے خالی اور اثر و نفوذ سے عاری ہوتا ہے۔
اقبال کی نگارہ میں معجزات و خوارق کا ظہور عشق ہی کے ہاتھوں ہوتا ہے ، عشق کبھی صدق خلیل ہے ، کبھی صبر حسین اور کبھی غازی بدرو حنین!
قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمہ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسن ازل کی ہے نمو د چا کے پردہ وجود
دل کیلئے ہزار سود ایک نگاہ کازیاں
سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا صحاب شب
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کا ظمہ نرم ہے مثل پرنساں
آگ بجھی ہوئی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کاررواں
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لئے عیش دوام ہے یہی
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لئے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات!
کیا نہیں اور غزنوی کارگر حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات!
ذکر عرب کے سوز میں فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات!
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
عقل و دل نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات
صدق خلیل بھی ہے عشق ، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق!
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 189
پھر شاعر اپنے انسان کامل اور مرد مومن کی طرف متوجہ ہوتا اور اسے خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تیرا وجود کائناتی وجود کی غایت اولی ہے ، تو ہی راز کن فیکون ہے ، تو ہی وہ فردوس گم شدہ اور متاع ربودہ ہے ، جس کی آرزو اور جستجو میں روح عالم سر گرم سفر ہے ۔
اس کے ساتھ ہی عالم اسلام کے حقیقت پسندانہ جائزے سے شاعر دل گرفتہ نظر آتا ہےکہ وہاں کوتاہ نظری ، بے ذوقی اور رجال دین کی کم ہمتی اور ذہنی ووجدانی بے بضاعتی عام ہے، دانشکدوں اور درسگاہوں اور دینی تعلیم کے مرکزوں میں بھی نظر کی گہرائی و گیرائی ، ذوق کی صحت ، بیدار مغزی اور وہ عالی ظرفی و بلند مشربی عنقا ہے ، جو ان اداروں کا امتیاز تھی ، اور جو آج عالم اسلام کی قیادت کے علمبردار ہیں۔
اقبال کہتے ہیں کہ اس شعلہ حیات کے پیچھے سرگرداں ہوں جس نے کبھی زندگی کوتب و تاب اور نورو سرور بخشا تھا ، میں ان ابطال کر ڈھونڈتا ہوں جو ماضی کے دھندلکے میں گم ہو گئے ہیں ، اور اس آتش رفتہ کے سراغ میں ہوں جو زمانے کی خاکستر میں چھپ گئی۔
اقبال کو اپنے کلام و پیام کی اہمیت کا اندازہ ہے ، اس لئے وہ کہتے ہیں کہ باد صبا خس و خاشاک کی پرورش کرتی ہے ، لیکن میری مسیحا نفسی دلوں کے لئے ذوق و آرزو کا پیام ہے ، اور یہ اثر و نفوذ اس لئے ہے کہ میری نواؤں میں خون دل و جگر شامل ہے اور میری رگ نے میں میرا لہو رواں دواں ہے:۔
آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
بھلوتیان مدرسہ کور نگارہ و مرہ ذوق
خلوتیان میکدہ کم طلب و تہی کدو
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سر گذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
بادصبا کی موج سے نشوونما خارو خس
میرے نفس کی موج سے نشوونما ئے آرزو
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 190
خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو!
فرصت کشمکش مدہ ایں دل بیقرارر!
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدارر!
اس تخاطب سے خدا کی طرف گریز ہوتا اور شاعر کے ذوق و شوق کا رخ بارگہ قدس کی جانب ہو جاتا ہے اور مقام عبدیت سے شاعر اپنے محبوب و معبود کے حضور اس طرح لب کشا ہوتا ہے کہ تیری تجلی کائنات کو محیط ہے اور دنیا تیری قدرت کے صحرا سے بیکراں کا ایک ذرہ اور وجود و زندگی ، تیرے وجود لا محدود کے بحربے بایاں کا ایک قطرہ ہیں ، تیرے نور کی تجلی سے ذرہ میں آفتاب کی نمود اور قطرہ میں سمندر کا وجود ممکن ہو جاتا ہے ، تیرے جلال کے ظہور سے سلاطین عالم اور فاتحین اقوام و امم کی ہستی مستعار اورتیرے جمال کے نور سے زاہدوں ، عابدوں اور نوع انسانی کے محسنوں کے دل سر مست و سر شار ہمیں وہ کہتے ہیں تیرا شوق ہی میری روح کا حدی خواں اور میرے دل کا ترجمان ہے اور وہی میری عبادت اور میری نماز میں لذت و روحانیت پیدا کرتا ہے ، اور جب وہ اس ذوق و شوق سے خالی ہوتی ہے تو حضوری کے بجائے دوری و مہجوری اور وصال کی جگہ بعد و انفصال کا پیام بن جاتی ہے ، عشق و عقل دونوں ہی کو حسب توفیق غیاب و حضور کی خدمت سپرد ہوئی ، عقل کو بحث و جستجو ، غور و فکر ، اور اعتماد نفس و خودداری ملی اور عشق کو اضطراب و التہاب ، شورش و سوزش ، ذوق و شوق اور لذت حضوری میسر ہوئی دنیا میں پھیلی ہوئی روشنی نور آفتاب کے سبب نہیں بلکہ تیرے جہمال جہاں آرا اور حسن گیتی فروز کا پر توفیض ہے۔
آخر میں اقبال اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی طویل علمی تحقیقات ، عالم سعادت کا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 200
تری دوانہ جنیو میں نہ لندن میں
رنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے ۔
-------------
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 201
مسافر غزنی و افغانستان
اقبال نے ؁1933ء سنہ میں افغانستان کے شہید و مجاہد بادشاہ نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان کی سیاحت اور سلطان محمدد غزنوی کی راجدھانی غزنی کی زیارت کی تھی ، جہاں وہ حکیم سنالی کے مزار پر بھی حاضر ہوئے ۔ اقبال کو سنائی کوروی کے بعد شعر و حکمت میں اپنا دوسرو استاد مانتے تھے، اس نادر اور زریں موقع نے ان کی طبیعت پر مہمیز جا جام کیا وہاں انھوں نے جو شعر کہے وہ ندرت و مفویت کے ساتھ ان کے ذوق و شوق، حسرتوں اور امیدوں کی سچ تصویر ہیں ان نظموں میں انہوں نے اپنے عہد پر ایک فلسفی شاعر اور انقلابی مسلمان کی طرح نظر ڈالی ہے ، اور اپنی زیارت کی تاریخی حیثیت دیدی ہے ۔​
----------------------------------------------------------------------​
سنائی عہد غزنوی کے مشہور شعرا میں ہیں ، ان کی شاعری کا ارتقا غزل گوئی سے ہوا وہ دربار میں ملک الشعار تھے ، لیکن توفیق الٰہی نے انھیں جب اپنا لیا تو دینا اور شاہی درباروں سے قطع تعلق کرکے حقائق و معارف نظم کرنے لگے ، 525 ھ میں ان کا سنہِ وفات ہے۔​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 202
نظم کے شروع میں اقبال نے ہمرہان سست عناصر کا گلہ اور دنیا کی تنگ دامانی کا شکوہ کیا ہے، جو ان کے آفاقی جذبات اور نظریات کے لئے تنگنائے بن گئی ہے اور اس کے کوہ بیاباں وادی و کہسار وشت وصحرا بھی ان کے "جنوں" کے لئے کافی نہیں ہے وہ کہتے ہیں نا کہ اللی نے جس بندے کو علوئے ہمت ، بلند مشرقی اور سوزِ عشق دیا ہو اس کے لئے یہ کائنات یقیناِ ناکافی ہو گی یہی وجہ ہے کہ مردان خدا، اور خود آگاہ اپنے کو اس عالم مادی سے آزاد کر لیتے ہیں ، اور اپنے لیے نئے آفاق فراہم کو لیتے ہیں ، اسے توحید کاراز کہتے ہیں ، جو اہل نظر پر خدا بینی کا دروازہ گھول دیتا ہے اور دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دوسری دنیا کے مشاہدات و تجلیات سامنے کر دیتا ہے ۔
سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شاید تیرا انداز صحرا
خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جسکو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا
یہاں اقبال "طریقت و شریعت "کے پرانے معرکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم و معرفت اور دین و محبت میں کوئی تضاد اور عناد نہیں ، یہ تو مدعیان شریعت وحقیقت کی غلط اندیشیاں ہیں ، اور یہ فقیہانہ پندار ہے جس نے معرفت و محبت کو اپنا رقیب بنا لیا ہے ، وہ یہآں ایک دوسرا نکتہ بھی بتاتے ہیں کہ شریعیت و حقیقت کے پرستاروں کے لئے اصل چیز استغناء اور بے نیازی ہے ، جو ان دونوں کی آبرو ہے ، مادیت کے پرستاروں اور حکومت کے علمبرداروں سے کنارہ کسی کے بعد اہل دل استغناء ہی کے قلعے میں پناہ لے سکتے ہیں، اس موقع پر انھیں اہل حق کا مجاہدہ ان کی سرفروشیاں اور سرگرمیاں یاد آجاتی ہیں تو روح الامین سے بھی چشمک کر لیتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ فرشتے انسان کی عبدیت اور جوش محبت کی تقلید کہاں کر سکتے ہیں :-
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 203
رقابت علم و عرفان کی غلط بینی ہی منبر کی
کہ وہ علاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغناء
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذوب مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر تسبیح و طواف اولیٰ
ییہاں شاعر اپنے عہد کی طرف توجہ ہوتا اور مشرق و مغرب دونوں پر تنقید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے دونوں کو اپنی چشم کہاں میں سے دیکھا ہے اور پرکھا ہے ، اور دونوں کو خوبیوں اور خرابیوں ، مشکلات و مسائل سے واقف ہوں ، پھر وہ اپنی حکیمانہ روئے اور تجربات کی روشنی مین کہتے ہیں کہ مشرق میں استعداد و صلاحیت بہت ہے لیکن اس کو قیادت و صحیح رہنمائی نہیں مل رہی ہے ، اور مغرب کا حال یہ ہے کہ قوت نشہ اور سامان اور وسائل کی فراوانی کا خمار اس پو چھایا ہوا ہے ، اور اس افراط نے اس کی زندگی میں تلخی و بدمزگی پیدا کر دی ہے ، اس موقع پر انھیں مشرق کے وہ رجال یاد آجاتے ہیں جہنوں نے قیصر و کسری کو چیلنج کیا اور فقر پر غیور سے بادشاہوں کو بھی لرزہ براندام کر دیا تھا اور ان کو وجود ہی باطل کی موت اور حق و صداقت کی فتح بن گیا تھا ، شاعر عالم عربی کے حالات دیکھ کر اور زیادہ حزیں و غمگین ہوتا ہے اور عرب حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بلا و عربیہ سے نا وفاداری اور خود فریبی ، لذات و شہوات میں انہماک اور غفلت عیش کو شمی پر ایمان و حمیت کے جذبہ سے سرشار ہو جاتا ہے اور سخت گرفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ شیوخ و امرا گلیم بوذر رضی اللی عنہ ، دلق اویس وحمت اللہ علیہ اور چادر زہرا رضی اللی عنہ بھی بیچ سکتے اور وہ مقامات ِ مقدسہ بھی غیروں سے پامال کرا سکتے ہیں جو دین و ملت اور خودان کی آبرو ہیں ۔
شاعر عالم اسلامی میں اجنبی اثرات اور موجودہ حالت کو آشموب قیامت سمجھتا ہ اور سنائی کا وہ مصرع دہراتا ہے جو انھوں نے تاتاری حملوں کے وقت میں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top