اشتیاق علی
لائبریرین
صفحہ نمبر 175
ربانی نور اور ایک خدائی روشنی کا ظہور دیکھتے اور اس کے بلند مناروں کو رحمت الہی کا مہبط اور فرشتوں کی فرودگاہ سمجھتے ہیں ، اور ایمان و یقین کے جذبے سے سرشار ہو کر فرماتے ہیں کہ مسلمان بھی زندہ و جاوداں ، لافانی اور لا زوال ہے ، اس لئے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام و موسی علیہ السلام اور تمام انبیاء کے اس لافانی پیغام کا حامل و امین ہے جسے اللہ نے بقائے دوام اور ابدی استحکام عطا کیا ہے ، اور یہ امت دنیا مین جس کی داعی و نقیب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ملت اسلامیہ کے افکار و خیالات ، اس کے عزائم اور معتقدات کی ایک تجلی ہونے کی وجہ سے اس کی نمائندہ ہے ، جس طرح یہ ملت ملک و وطن ، نسل و قومیت کے غیر حقیقی اور محدود تصورات سے بری ہے، اسی طرح یہ مسجد بھی عرب عجم کے حسین امتزاج اور آفاتی میل ملاپ کا نمونہ ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ مومن کا وطن ، زمینی حدود سے بے نیاز اور اس کے آفاق بے کراں ہیں ، اور اس کے پیغام کا سوزو ساز مشرق و مغرب دونوں کو محیط ہے ، عراق کے دجلہ و فرات ، ہندوستان کے گنگ و جمن ، یورپ کے ڈینوب و بحرروم اور مصر کا دریائے نیل اس کے بحر بیکراں اور محیط اعظم کی ایک موج خوش خرام ہیں ، تاریخ میں اس کے شاندار اور عظیم الشان کارناموں اور فتح و ظفر کی داستانوں کی مثالیں نایاب ہیں ، اسی امت نے عصر کہن کو اذن رخصت دے کر دور جدید کا آغاز اور عہد نو کا ا فتتاح کیا ۔
اس امت کے افراد محبت و انسانیت کے نمائندے اور امام ، اور ایمان و اخوت کے سچے نمونے اور مثال ہیں ، مومن کی زبان ابر گوہر بار اور اس کے سیف و سنان جوہر دار ہیں ، وہ دل کا غنی ، اور تلوار کا دھنی ہے ، وہ میدان جنگ اور تلاروں کی چھاؤں میں بھی توحید و رسالت اور ایمان و توکل کا پیامبر اور خدا طلبی کی رارہ میں
ربانی نور اور ایک خدائی روشنی کا ظہور دیکھتے اور اس کے بلند مناروں کو رحمت الہی کا مہبط اور فرشتوں کی فرودگاہ سمجھتے ہیں ، اور ایمان و یقین کے جذبے سے سرشار ہو کر فرماتے ہیں کہ مسلمان بھی زندہ و جاوداں ، لافانی اور لا زوال ہے ، اس لئے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام و موسی علیہ السلام اور تمام انبیاء کے اس لافانی پیغام کا حامل و امین ہے جسے اللہ نے بقائے دوام اور ابدی استحکام عطا کیا ہے ، اور یہ امت دنیا مین جس کی داعی و نقیب ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد ملت اسلامیہ کے افکار و خیالات ، اس کے عزائم اور معتقدات کی ایک تجلی ہونے کی وجہ سے اس کی نمائندہ ہے ، جس طرح یہ ملت ملک و وطن ، نسل و قومیت کے غیر حقیقی اور محدود تصورات سے بری ہے، اسی طرح یہ مسجد بھی عرب عجم کے حسین امتزاج اور آفاتی میل ملاپ کا نمونہ ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ مومن کا وطن ، زمینی حدود سے بے نیاز اور اس کے آفاق بے کراں ہیں ، اور اس کے پیغام کا سوزو ساز مشرق و مغرب دونوں کو محیط ہے ، عراق کے دجلہ و فرات ، ہندوستان کے گنگ و جمن ، یورپ کے ڈینوب و بحرروم اور مصر کا دریائے نیل اس کے بحر بیکراں اور محیط اعظم کی ایک موج خوش خرام ہیں ، تاریخ میں اس کے شاندار اور عظیم الشان کارناموں اور فتح و ظفر کی داستانوں کی مثالیں نایاب ہیں ، اسی امت نے عصر کہن کو اذن رخصت دے کر دور جدید کا آغاز اور عہد نو کا ا فتتاح کیا ۔
اس امت کے افراد محبت و انسانیت کے نمائندے اور امام ، اور ایمان و اخوت کے سچے نمونے اور مثال ہیں ، مومن کی زبان ابر گوہر بار اور اس کے سیف و سنان جوہر دار ہیں ، وہ دل کا غنی ، اور تلوار کا دھنی ہے ، وہ میدان جنگ اور تلاروں کی چھاؤں میں بھی توحید و رسالت اور ایمان و توکل کا پیامبر اور خدا طلبی کی رارہ میں