25 اور 26
کچھ ترجمہ کے بارے میں
مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کی "روائع اقبال" کے اردو ترجمے کی کئی حیثیتوں سے ضرورت تھیم اردو دنیا اقبال اور مولانا سے تعلق رکھنے والوں کا اصرار بڑھتا جارہا تھا کہ روائع کا اردو ترجمہ ہو، اس لیے کہ اقبال اور مولانا مدظلہ کی فکری ہم آہنگی کا یہ فطری تقاضا تھا کہ ایک زندہ جاوید ہستی پر ایک زندہ شخصیت کے خیالات سے استفادہ کیا جائے۔
مولانا کے قلم سے نکلی ہوئی کسی چیز کی اہمیت علمی و ادبی قدر و قیمت کے ساتھ اس کی اسلامیت اور ان کے دعوتی طرز نگاہ کے پہلو سے بھی ہوتی ہے، اردو میں اقبال پر ڈاکٹر یوسف حسین خان کی"روح اقبال" مولانا عبد السلام صاحب ندوی کی "اقبال کامل" اور خلیفہ عبد الحکیم کی "فکر اقبال" بہت اہم سمجھی جاتی ہیں، جن میں اقبال کے افکار کی تنقید و تحلیل بڑے عالمانہ انداز میں ہوچکی ہے، لیکن خلیفہ عبد الحکیم نے صحیح لکھا ہے کہ اقبال کا موضوع ایسا ہے کہ اس پر مزید کچھ لکھنے کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کو خاص طور پر ان کے دینی رحجان اور دعوتی میلان کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش اب تک بہت کم ہوئی ہے، روائع اقبال میں کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اقبال کے قلب و روح تک پہنچنے اور اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، تنقید و تحلیل، علمی تشریح و تجزیہ اور کسی حاشیہ آرائی کے بجائے اقبال کی ترجمانی کے لیے کلامِ اقبال کو رہنما بنایا گیا ہے، یہ طرز جدید تنقید کے معیار پر بالکل پورا نہ بھی اترتا ہو تو بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کسی مفکر کے قلب و نظر تک رسائی کے لیے یہ سب سے اچھا طریقہ ہے کہ براہ راست اس کے کلام سے استدلال کیا جائے اور اسے اس کے پیام میں دیکھا جائے،
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
اقبال کے ہاں جذبہ اور خیال کی مثالی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، ان کے قلب و نظر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ایمان و یقین کے نور سے روشن نہ ہو، اور جس پر اسلامیت کی چھاپ نہ لگی ہوئی ہو، اقبال نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، علم و ادب، مذہب و تہذیب، معیشت و معاشرت، تاریخ و سیاست کے ہر پہلو سے بحث کی ہے اور انھیں اپنے افکار کا موضوع بنایا ہے، لیکن ان سب میں اگر کوئی چیز قدرِ مشترک کہی جاسکتی ہے تو وہ ان کی اسلامیت اور مومنانہ اندازِ نظر ہے جو ان کے علوم و فنون کی ہر شاخ میں اس طرح رواں دواں ہے کہ
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کانم!
اسلام نے انھیں شدت سے متاثر ہی نہیں کیا ہے بلکہ وہ ان کا آخری اور قطعی عقیدہ و ایمان بھی بن گیا ہے اور اس ایمان نے انھیں زندگی کے ہر مسئلے میں ایک واضح ہدایت دی ہے۔