نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 5 اور 6

دیباچہ طبع چہارم
از
مصنف​

الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی اشرف المرسلین محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین۔
مصنف کو "نقوش اقبال" کی اس پذیرائی پر جو برصغیر ہند و پاک میں اس کو حاصل ہوئی، مسرت بھی ہے، اور ایک گونہ حیرت بھی۔
مسرت اس بات پر کہ مصنف کے نقوش قلم نے اقبال کے نقوش جادواں کے ساتھ ہم آغوش ہو کر تابانی اور درخشانی پائی، اور ان کا ستارہ اقبال بھی بلند ہوا
؂ جمال ہم نشیں درمن اثر کرد
وگرنہ نہ من ہماں خاکم کہ ہستم
حیرت اس پر کہ اقبالیات کے اس عظیم و جلیل ذخیرہ میں جو عصر حاضر کے کسی مفکر، شاعر و ادیب کو میسر نہیں آیا، اس کتاب کو نہ صرف شامل ہونے کی عزت حاصل ہوئی، بلکہ اس کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا، اور شوق و قدر دانی کے ہاتھوں سے لیا گیا، مترجم کتاب مولوی شمس تبریز خان نے پہلی مرتبہ مصنف کی عربی کتاب "روائع اقبال" کے ترجمہ کی تجویز پیش کی، تو مصنف کو اجازت دینے میں بڑا تردد تھا، اس لیے کہ یہ کتاب ان مضامین اور خطبات کا مجموعہ ہے، جو عرب نوجوانوں، اور عرب ممالک کے فضلاء، اور اقبال کے نادیدہ قدر دانوں، اور ان کے کلام کے شائقین کے لیے تیار کئے گئے تھے، اور ان کا مقصود ان لوگوں کو کلام و پیام اقبال سے آشنا کرنا تھا، جو فارسی، اردو سے نابلد ہیں، اور جن کے لیے عربی زبان کے سوا اافہام و تفہیم کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔
کلام اقبال کی سوغات ان لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری اور ہوتی ہے، جو اس کے مبادی تک سے نا واقف ہیں، اور ان لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی اور، جن کا دن رات کا وظیفہ کلام اقبال ہے، مصنف کو اندیشہ تھا کہ اگر اس کتاب کے مضامین کو اردو کے قالب ہیں پیش کیا گیا تو اس تحتی براعظم کے اہل ذوق یہ کہہ کر اس کی بے وقعتی نہ کریں کہ "بضاعتنا رُدت الینا" (ہماری ہی سوغات ہم کو واپس کردی گئی) اس کو اس کا بھی احساس تھا کہ وہ اس کتاب کے ذریعہ (جس کا بیشتر حصہ مسافرت کی حالت میں لکھا گیا، جہاں ، اقبالیات تو درکنار، خود اقبال کا پورا کلام بھی موجود نہیں تھا) اس ملک کے ادبیات و تحقیقات میں کچھ اضافہ نہیں کرسکے گا، جہاں لوگوں کی عمریں اقبال کے مطالعہ و تحقیق میں گذر گئی ہیں۔
لیکن مصنف کے لیے یہ ایک مسرت بخش انکشاف تھا کہ اس کتاب کا اس حلقہ میں استقبال ہوا، جو اقبال کے کلام و پیام کا رمز آشنا، اور ادا شناس ہے، اور جس کے شب و روز کلام اقبال کی صحبت میں گذرتے ہیں، ہندوستان اور پاکستان کے ممتاز ترین اہل نظر اور اہل ذوق کے اس کتاب پر جن تاثرات کا اظہار کیا ، وہ مصنف کی توقع سے بہت زیادہ، اور اس کی حیثیت سے بہت بلند ہے، مصنف کے لیے اسی گھر کے چشم و چراغ فاضل گرامی جاوید اقبال صاحب کے یہ الفاظ ایک طرح کی سند کا درجہ رکھتے ہیں کہ "آپ نے فکر اقبال کے مختلف پہلوؤں کو ایسے​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 7 اور 8

انداز میں پیش کیا ہے، جیسے اغلباََ اقبال محسوس کرتے، یا چاہتے تھے۔"

اس موقعہ پر اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ لائق مترجم نے (جو دبستان اقبال کے ایک لائق طالب علم اور تربیت یافتہ ہیں) اشعار کی مناسب تشریح، اور جابجا کچھ نئے اشعار کا اضافہ کرکے کتاب کی تاثیر و دل آویزی میں اضافہ کردیا، اور اس کے حسن کو بڑھا دیا ہے۔
دوسرے ایڈیشن میں مخدومی پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مقدمہ کا اضافہ کیا گیا، یہ مضمون بجائے خود اقبال کے کلام پر نقد و تبصرہ کے ذخیرے میں گرانقدر
اضافہ کرتا ہے، اور فکر انگیز اور خیال افروز ہونے کے ساتھ رشید صاحب کے ادب و انشاء اور اقبال شناسی کا بہترین نمونہ ہے۔
عرصہ سے مصنف کو اپنی دوسری مصروفیتوں کی بناء پر کلام اقبال اور فکر اقبال کے کسی نئے پہلو پر کچھ لکھنے کی نوبت نہیں آئی تھی، اور وہ ان مضامین میں باجود خواہش کے کوئی اضافہ نہ کرسکا تھا، لیکن دفعتاََ اس کی ایک تقریب پیش آگئی، اور اس نے "کلام اقبال میں تاریخی حقائق و اشارات" کے عنوان سے بیرون ہند کی ایک مؤقر علمی مجلس کے لیے ایک مقالہ مرتب کیا، جو اصلاََ اردو ہی میں لکھا گیا، وہ اس کتاب میں شامل کردیا گیا ہے، یہ ایک نئے زاویہ نظر سے کلام اقبال کا جائزہ ہے، جس میں ان کی فکر و مطالعہ کا ایک نیا گوشہ سامنے آگیا ہے، جو شاید اس وضاحت کے ساتھ اس سے پہلے نہیں آیا تھا۔
اب نظر ثانی اور اس جدید مضمون کے اضافہ کے ساتھ "نقوش اقبال" کا جدید ایڈیشن اہل ذوق کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔
ابو الحسن علی ندوی
11 رجب 1395ھ 21 جولائی ؁1975
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 9 اور 10


دیباچہ طبع دوم

دل حمد و شکر سے لبریز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نقوش اقبال کو مقبولیت عطا فرمائی اور ملت کو اقبال کے پیغام میں دلچسپی لینے کی توفیق ارزانی کی اور اقبال کی یہ توقع ایک بار پھر دوسرے انداز میں پوری ہوئی کہ ؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
اس کتاب کا موضوع اور ملت کے لیے اقبال کا ورثہ ان کا "سوزِ نہاں" ہے جس کے لیے انھوں نے کہا تھا۔
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا!
تقریباََ سال بھر کے عرصہ میں کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا اس دوسرے ایڈیشن کی خصوصیات یہ ہیں کہ مترجم اور حضرت مولانا الوالحسن علی ندوی صاحب مدظلہ نے "نقوش اقبال" پر نظر ثانی کی اور مترجم نے دو نئے مضمون "اقبال اور وطنیت" اور "عورت اقبال کے کلام میں" اضافہ کیے اور سب سے بڑھ کر یہ ادارہ کی درخواست پر جناب پروفیسر رشید احمد صاحب صدیقی نے گراں قدر مقدمہ ۔۔۔ ۔۔۔ لکھا ہے، ان اضافوں کے بعد کتاب کی افادیت اور بڑھ گئی ہے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ملت کو قدر دانی کی توفیق مزید بخشے گا۔
شمس تبریز خان، لکھنؤ
یکم مئی ؁1972 ، 12 ربیع الاول 1392ھ​
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 71
انہیں ان تعمیری قدروں کا بھی خیال پیدا ہوا جن سے یہ تہذیب خالی تھی ، اور اس کے راہنما بھی ان سے غافل تھے، خرابی کی وہ تمام صورتیں ان کی نگاہ میں آئیں جو اس تہذیب کو گھن کی طرح کھا ئے جا رہی تھیں ، لیکن شروع سے وہ اس کے بنیادی عناصر اور اس کے خمیر میں موجود تھیں۔ اس ماحول میں ان لوگوں میں فکری بیداری اور کچھ سوچنے اور کام کرنے کا جو حوصلہ پیدا ہوا وہ قیام یورپ کے بغیر ممکن نہ تھا ، اس رد عمل کے لئے مغربی فکر و فلسفہ سے گہری واقفیت ، جرات مندانہ نقطہ نظر اور غیر تقلیدی ذہن کی ضرورت تھی۔
ایمان کی دبی ہوئی چنگاری آخر جب بھڑکی تو جدید تعلیم یافتہ طبقے میں مغرب کی طرف سے مایوسی پیدا ہوئی اور گہری، صحیح اور جراتمندانہ تنقید کی طاقت بیدار ہوئی جو مبالغہ اور واقعات و حقائق کے انکار سے خالی تھی۔
اقبال ان باغی ناقدین کی صف اول میں تھے، عالم اسلامی نے اس سو سال میں جدید طبقہ میں شاید ان سے بڑا کوئی دیدہ ور نہیں پیدا کیا بلکہ وہ عصر حاضر کے مشرق کے سب سے بڑے مفکر و فلسفی ہیں ، ہم دوسرے تمام مشرقی فضلاء میں مغربی تہذیب پر اقبال کی طرح گہری نگاہ اور ان جیسا جرات مندانہ تنقیدی نقطہ نظر ڈھونڈھے سے بھی نہیں پا سکتے۔
اقبال نے فرنگی تہذیب کی بنیادی کمزوریوں ، اس کے دبے ہوئے پہلوؤں اور اس عنصری فساد اور بگاڑ کو دیکھ لیا تھا ، جو اس کی سرشت اور اس کی طینت میں موجود تھے ، انہوں نے دیکھا کہ مغربی تہذیب سے متاثر ذہن مذہب اور اخلاقی و روحانی اقدار کے ساتھ کیسا معاملہ کرتا ہے، انہوں نے فساد و قلب و نظر کو اس تہذیب کی روح کی
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 72
نا پاکی کا ثمر بتایا ہے، جس نے اس سے قلب سلیم کی دولت چھین لی :-
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے نا پید
ضمیر پاک و خیال بلند ذوق لطیف
وہ کہتے ہیں کہ تہذیب کی رونق و بہار حکومتوں کی وسعت اور اقتدار کے باوجود اس تہذیب کے زیر سایہ دوامی بے چینی و اضطراب سے چھٹکارا نہیں ، برق و بخارات اس کی پوری فضا پر دھند کی طرح چھا گئے ہیں ، بجلی کی روشنی ضرور ہے ، لیکن اس سے کوئی فکری راہ روشن نہیں ہوتی اور نہ عالم غیب کی نورانیت کی اس میں کوئی جھلک ملتی ہے:-
یہ عیش فرواں یہ حکومت یہ تجارت
دل سینہ بے نور میں محروم تسلی
تاریک ہے ! فرنگ مشینوں کے دھوئیں سے
یہ وادئ ایمن نہیں شایان تجلی
ہے نزع کی حالت میں تہذیب جوانمرگ
شاید ہوں کلیسا کہ یہودی متولی
(یورپ ___)
اقبال نے اس پر بہت زور دیا ہے کہ لا دینی تہذیب کی اساس ہی دین و اخلاق کی دائمی دشمنی پر ہے اور ہر زمانے میں مادیت کے بتکدے میں نئے بت تراشنا اس کا محبوب مشغلہ ہے ، "ثمنوی پس چہ باید کرد"میں فرماتے ہیں کہ یہ بے خدا تہذیب ہمیشہ اہل حق کے ساتھ نبرد آزما رہی ہے یہ فتنہ رزگار حرم میں لات و عزی کے صنم کو جگہ دے کر ہمیشہ نئے نئے فتنے پیدا کرتا ہرا ہے قبل اس کے سحر سے بے بصیرت اور روح سراب تشنگی سے ہلاک ہو کر رہ جاتی ہے اس سے دل کی تب و تاب نہی نہیں ختم ہوتی بلکہ قالب ہی اس سے خالی ہو جاتی ہے۔
یہ وہ زد دلاور ہے ، جو دن دہاڑے ڈاکہ ڈالتا اور انسان کو بے روح اور بے قیمت بنا کر رکھ دیتا ہے۔
لیکن از تہذیب لا دینی گریز
زاں کہ اوبا اہل دل واردستیز
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 73
فتنہ ہا ایں فتنہ پروانہ آورد
لات و عزی در حرم باز آورد
از نسونش دیدہ دل نابصیر
روح ازبے آبی اوتشنہ میر
لذت بے تابی از دل می بردا
بلکہ دل زیں پیکر گل می برد
کہنہ وزد ے غارت اوبرملاست
لالہ می نالد کہ داغ من کجاست
وہ کہتے ہیں کہ اس تہذیب کا شعار انسانیت کی تباہی ، اور نوع بشری کی ہلاکت اور اس کا پیشہ تجارت ہے ، مغربی تہذیب کے ہوتے دنیا میں امن و اطمینان ، پاک محبت اور خالص خدا پرستی ممکن نہیں۔
آہ یورپ زیں مقام آگاہ نیست
چشم او بنظر بنور اللہ نیست!
اوند انداز حلال و از حرام
حکمتش خام است وکارش نا تمام
امتے برامتے دیگر چرد
دانہ ایں می کاردآں حاصل برد
از ضعیفاں ناں ربودن حکمت است
از تن شاں جاں ربودن حکمت است
وہ اسی مثنوی میں مزید فرماتے ہیں کہ نئی تہذیب کا خاص نشانہ وہی انسان ہے جو اسکی گرمی بازار کا سبب اور اس کی تجارت کا آلہ کار ہے ، یہ بلند معیار زندگی اور بڑھتے ہوئے مصارف ان چالاک یہودیوں کے مکرکی پیداوار ہیں جس نے نبی آدم کے دل سے حق کی روشنی چرالی ہے، عقل ، تہذیب اور دین و مذہب اس وقت تک محض خواب ہیں، جب تک یہ موجودہ نظام سرے سے نہیں بدل دیا جاتا :-
شیوہ تہذیب نو آدم دری است
پردہ آدم دری سوداگری است
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 74
ایں نبوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق از سینہ آدم ربود!
تاتہ دبا لا نہ گرود ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سوداگے خام
وہ فرماتے ہیں کہ تہذیب حاضر اپنی عمر کے لحاظ سے جوان ہے ، لیکن در اصل عالم نزع میں موت کی ہچکیاں لے رہی ہے :-
ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جوانمرگ
شاید ہوں کلیسا کہ یہودی متولی!
اور اگر وہ اپنی طبعی موت نہیں مر سکتی تو اپنے ہی خنجر سے اپنا کام تمام کر لے گی شاخ نازک پر جو آشیانہ بنے گا وہ ضرور نا پائیدار ہو گا ، اس تہذیب کی اساس نہایت کمزور نا مستحکم ہے ، اس کی بلوریں دیواریں حالات و حوادث کے سنگین حملوں کا مقابلہ نہیں کس سکتیں ، یورپ کی سائنسی تحقیقات خود مغرب اور انسانیت کے لئے چیلنج بن گئی ہیں۔
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اسکا آشیانہ
اس دنیا سے ایک نئی دنیا نکلنے کے لئے بیقرار ہے ، اور وہ پرانی دنیا (جسے فرنگیوں نے امن عالم اور عزت بنی آدم کو داؤں پر چڑھانے کے لئے قمار خانہ بنا رکھا تھا) آخری سانس لے رہی ہے۔
جہان نوہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ
یہ تہذیب اپنے اندر بڑی چمک دمک رکھتی ہے ، اور اس کا شعلہ حیات بہت
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 70
اقبال اور مغربی تہذیب و ثقافت
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مسلم نوجوانوں میں مغربی تعلیم اور تربیت کا شوق ہوا جس کے نتیجے میں وہ یونیورسٹیوں کا رخ کرنے لگے اس سے اتنا فائدہ ہوا کہ فاتح قوم کا خوف اور دہشت ان کے دل سے نکل گئی، علمی روابط بڑھے ، ثقافتی تعلقات پیدا ہوئے اور مغربی تعلیم گاہوں میں مقیم رہ کر اونچی سے اونچی تعلیم حاصل کی جانے لگی اور اس طرح مغربی ماہرین کی نگرانی میں انہوں نے مغرب کو بہت قریب سے دیکھا اور پرکھا ، اور مغربی زندگی کی ہر قدر کو پہچاننے کی کوشش کی ۔
فلسفہ ، شعر و ادب ، اور دوسرے نظام فکر کے ذریعہ مغربی تہذیب کے اسرار و رموز اسکا مادہ پرستانہ مزاج ، خود پسند قومیت ، اور جانبدارانہ وطنیت کو بھی دیکھا مغربی تہذیب کے دوسرے کمزور پہلو افلاس اقدار اور تہذیب کے زوال کے آثار بھی ان کے سامنے آئے

________
یہ مضمون مصنف کی کتاب " مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش "سے ماخوذ ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 11 اور 12

نقوش اقبال
مبصرین کی نظر میں

مولانا عبد الماجد درپا آبادی مدظلہ
"مولانا ابوالحسن علی میاں نے اقبال پر ایک کتاب "روائع اقبال" کے نام سے عربی میں لکھی تھی، اب یہ نظر ثانی اور اضافوں کے بعد!۔۔۔ ۔۔ اردو کے قالب میں ڈھلکر آگئی ہے، جو ہر اقبال پسند کے دیکھنے کے قابل ہے۔
اس کتاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی میاں صاحب نے اقبال کو عالم عربی کے سامنے کن کن پہلوؤں سے پیش کیا ہے، ترجمہ یا ترجمانی جو کچھ بھی ہے اسلیس و
شگفتہ ہے۔"
(صدق جدید لکھنؤ 18 ستمبر ؁1970)

مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی
"مولانا کو اقبال کے کلام پر لکھنے کا سب سے زیادہ حق تھا اور انہوں نے اس کتاب میں اس کو بڑی خوبی سے ادا کیا ہے۔۔۔ ۔۔۔ انہوں نے ان اہم نظمون اور متفرق اشعار سے اسلام کی بنیادی تعلیمات، ان کی روح اور ملت اسلامیہ کی تجدید و اصلاح، مغربی تہذیب اور اس کے علوم وغیرہ کے متعلق اقبال کے افکار و خیالات کا خلاصہ اور لب لباب پیش کردیا ہے جس سے اس کے اہم رخ سامنے آجاتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ اگرچہ یہ کتاب مختصر ہے، لیکن اقبال کے مقصد، پیام اور افکار و تصورات کو سمجھنے کے لیے بالکل کافی ہے۔ عربی میں مصنف کا حسن انشا مسلم ہے لائق مترجم نے اس کی ساری خوبیوں کو ترجمہ میں منتقل کردیا ہے، اور ترجمہ اتنا سلیس ہے کہ ترجمہ نہیں معلوم ہوتا۔۔۔ ۔۔۔ "
ماہنامہ معارف مارچ؁1971

جناب ماہر القادری
مولانا علی میاں نے علامہ اقبال کی نظموں اور شعروں کے انتخاب میں بڑی خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے، انہوں نے اس خریطہ جواہر سے سب سے زیادہ تابناک لعل و گہر چنے ہیں، فاضل مصنف نے جس حسن نزاکت اور دیدہ وری کے ساتھ اشعار اقبال کی تشریح و ترجمانی کی ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابن تیمیہ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کارفرما ہے، ترجمہ انتہائی سلیس اور شگفتہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مولوی شمس تبریز خان صاحب نے ترجمہ کا حق ادا کردیا ہے۔۔۔ ۔۔۔
اقبال پر بڑی اچھی کتابیں آئی ہیں، مگر یہ کتاب اس مجاہد عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے مرد مومن کا مصداق ہے اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ "نقوش اقبال" میں خود اقبال کی فکر اور روح اس طرح گھل مل گئی ہیں جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی"
ماہنامہ فاران:۔ کراچی ہئی؁1971​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 13 اور 14​
مقدمہ
از
پروفیسر رشید احمد صاحب صدیقی​

مولانا سید ابوالحسن علی صاحب ندوی جس گھرانے کے چشم و چراغ ہیں وہ صدیوں سے اب تک غیر منقطع طور پر مذہب و اخلاق، رشد و ہدایت، تصنیف و تالیف اور زبان و ادب کو گہوارہ رہا ہے، ان حسنات کی جلوہ گری ان کی شخصیت ہی میں نہیں علمی و ادبی اور دینی خدمات میں بھی ملتی ہے، عربی زبان و ادب، نیز تحریر و تقریر میں موصوف کو جو غیر معمولی درک ہے، اور عالم اسلام کے دینی و ثقافتی مسائل پر جیسا عبور ہے، اس کے سبب سے موصوف کے فرمودات کو ہندوستان ہی نہیں باہر کے ممالک اسلامیہ میں جو وزن اور وقعت حاصل ہے، وہ موجودہ ہندوستان کے شاید ہی کسی عالم دین کے حصہ میں آئی ہو، اس بنا پر سید صاحب کو ملت کو سفیر کبیر بننے کا حق پہنچتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ مولانا پہلے عالم دین ہیں جس نے موجودہ صدی کی اردو شاعری کے سب سے بڑے نمایندہ اور عظیم شاعر اقبال کی شاعری اور شخصیت کا مطالعہ غیر معمولی شوق اور بصیرت سے کیا ہے، ورنہ بیشتر علماء ہر جدید کو بالعموم مشتبہ ورنہ بڑی احتیاط سے دیکھنے کی طرف مائل رہے ہیں، علمائے کرام کو اقبال کے سمجھنے کی کوشش کرنا خود ان کے لیے نہایت ضروری اور نیک فالی ہے، اس لیے کہ اب مذہب اور زندگی کی تفہیم اسی طرح او اسی سیاق و سباق میں کی جائے گی جو ہم کو اقبال کے یہاں ملتی ہے، سید صاحب کا ذہن جدید ذہن کے تقاضوں سے آشنا ہے، اور اس کا لحاظ اور احترام کرتا ہے، یہی انداز ندوہ کے ایک دوسرے مایہ ناز فرزند سید سلیمان ندوی مرحوم و مغفور کا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف مذہب و اخلاق سے دلچسپی رکھنے والے ایسے ابھی کافی تعداد میں مل جاتے ہیں، جو جدید ذہن اور اپنی ذہنیت میں فرق نہیں دیکھ پاتے!
اقبال اور حالی کے کلام کا سنجیدگی اور احترام سے مطالعہ کئے بغیر ملت اور ملت کے بخشے ہوئے فضائل کا ادراک و احساس آسان نہیں ہے، یہ فیضان ہے عشق رسول کا جس نے ان شعراء کے کلام کو گرا نمایہ اور لازوال بنادیا ہے، نعت گوئی انتہائی مشکل اور معظم فن اور عبادت ہے، جتنی عظیم و مکرم و شخصیت ہے، جسکے طفیل یہ وجود میں آئی، اس کی تصدیق اور اس کا اعتراف عرفی جیسے شاعر نے کیا ہے جو اپنے پندار شاعری کے سامنے مشکل سے کسی اور کی بڑائی خاطر میں لاتا ہے، اور اپنے دعویٰ کی تائید میں رہ رہ کر لوح و قلم کی شہادت پیش کرتا ہے، لیکن نعت کی وادی میں قدم قدم پر اپنے کو باخبر رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ مثلاََ :۔

عرفی مشتاب این رہِ نعت ست، یا آستہ کہ رہ بردم تیغ ست قدم را
پھر کہتا ہے:۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
15 اور 16

ہشدار! کہ نتواں بیک آہنگ سرددن
نعتِ شہِ کونین و مدیح کے و جم را!
یہ کچھ شاعروں ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کی مذہبی اور تہذیبی منزلت کا معیار یہ ہے کہ اس زندگی اور اس کا کردار کس حد تک عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف و مستنیر ہے، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور ہمارے ذہنوں میں میں میلاد ناموں اور میلاد خانوں کا دیا ہوا تھا حالی اور اقبال نے اس کو وہاں سے نکال کر مذہب و ملت کے اعلیٰ اقدار و روایات کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کا حوصلہ دیا، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا احترام اور اس پر عمل کرنے کی توفیق کلیتہ اللہ کی دین ہے، لیکن ان او امرو نواہی کو بتانا اور دلنشین کردینا ان برگزیدہ شعراء کے حصے میں آیا ہے جن کے حرف شریں کی طرف اقبال نے اپنے بے مثل پیرایہ بیان میں اشارہ کیا۔؎
محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجمان تیرا ہے یا میرا!
یہ وہ عظیم شاعری ہے، جو صحف سماوی کی مانند لا زوال ہوتی ہے اس لیے کہ انہی صحائف کی دی ہوئی اور انہی کی ترجمان ہوتی ہے، یہ شاعری مذہب کو تہذیب سے تہذیب کو مذہب سے اور دونوں کو زندگی سے مربوط، مستحکم اور تازہ کار رکھتی ہے، اردو شاعری میں اقبال کا یہی مرتبہ ہے، عرض حال اور مسدس میں حالی نے، اور ارمغانِ عجاز اور اپنی دوسری نظموں میں جابجا اقبال نے جس سپردگی اور شیفتگی سے "خاصہ خاصبان رسل" کو پکارا ہے، اور"حضور آیہ رحمت" میں نظر آتے ہیں اس کو اردو شاعری میں ادب عالیہ کا درجہ حاصل ہے، کیا مبارک یہ اتفاق ہے کہ عربی زبان میں عرب قوم کو اقبال کے پیغام سے آشنا کرنے کا امتیاز سید صاحب کے حصہ میں آیا۔ موصوف نے اقبال کے کلام اور شخصیت اور ان کی بعض مقبول ترین اور اردو میں شاہکار نظموں، بالخصوص، ارمغان حجاز پر اپنے خیالات و تاثرات کا جس خوبی اور خوبصورتی سے اظہار کیا ہے، اس کا صحیح اندازہ "نقوش اقبال" یا عربی ایڈیشن "روائع اقبال" سے ہوسکتا ہے۔ عرب کاریگزار پارے مارا پرنیاں آیدہمی اقبال جیسے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ طیبہ کا تصوراتی سفر تیز ترک گام زن مادور نیست کے زیرو بم پر اونٹنی کا خرام، اپنے حالات و تاثرات کا طرح طرح سے اظہار اور اسی اعتبار سے اس سے چلنے کی فرمائش کرنا اور ترغیب دیتے جانا، ان سب کو کلام و خرام کے مطابق عربی میں ڈھالنا سید صاحب کی عربی انشا پردازی کا مکمل اور قابل آفریں نمونہ ہے۔
بہت دن ہوئے لاہور میں علامہ اقبال کی زبان سے ایک گفتگو سنی تھی، موضوع کچھ اس طرح کا تھا، اسلام عرب کی سرزمین پر کیوں نازل ہوا؟ فرمایا تھا کہ عرب سفر نصیب و صحرا گرد بدوی کبھی متمدن نہیں ہوئے، تمدن و تہذیب بالآخر امتوں کے زوال کا باعث ہوئی ہے، اس لیے اسلام کی امانت کسی ایسی قوم یا سر زمین کو نہیں سونپی جاسکتی تھی جو تمدن کے لائے ہوئے عیش و عشرت کا شکار ہوسکتی تھی، چنانچہ عرب سے باہر مسلمان جب کبھی زوال کی زد میں آئیں گے، روشنی حرارت اور حرکت حاصل کرنے کے لیے عرب کے ریگزار اور اس کے سخت جان اور سخت کوش بادیہ پیماؤں کی طرف رجوع کریں گے، آج یہ مقولہ یاد آرہا ہے، عرب کے ان صحرا نشینوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتا، بحر بازی گاہ تھا جن کے سفینوں کا کبھی لیکن خودعرب کے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
17 اور 18

دیوان ہائے حکومت، عشرت کدوں، باہر کے لوگوں اور حکومتوں میں ان کی جیسی اور جتنی وقعت رہ گئی ہے، اسے دیکھ کر بڑی غیرت آتی ہے اور عبرت ہوتی ہے۔ بایں ہمہ اس سے ایمان تازہ ہوتا ہے اور امید بندھتی ہے کہ جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسریٰ اور اس دین اور اس کے حلقہ بگوشوں نے، عرب سے نکل کر دنیا کے دور دراز خطوں میں سچائی، سخاوت اور سلامتی کا پیغام پہونچایا تھا، اس بھلائے ہوئے پیغام کو ایک برہمن زاد نے جس کے آبا لاتی و مناتی تھے، ایک سید زادہ کی وساطت سے خود عرب اور عربوں کو آشنا کرانے کا قرض ادا کردیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ بلاد عربیہ ہی نہیں دنیائے اسلام اس برہمن زاد کے اس اعلان حق سے کہ ؎
محمد عربی سے ہے عالم عربی!
کس طرح تازگی و توانائی حاصل کرتی ہے، میر عرب کا یہ فرمانا کہ ہندوستان کی سمت سے مجھے ٹھنڈی ہوا آتی محسوس ہوتی ہے، ایسا تو نہیں اسی طرح بشارت ہو، لیکن کسے خبر کہ عالم عربی کا تصور ممالک عربیہ میں کیا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی کا یا عرب طوائف الملوکی کا!
نعت شہِ کونین کی طرح شہادت سید الشہداء اور سانحہ کربلا کو اقبال نے جو نئی جہت، وسعت اور رفعت دی ہے، وہ بھی اردو شاعری میں ایک اہم اور گرانقدر اضافہ ہے، مرثیہ خوانی اور مرثیہ نگاری کو جو اہمیت ہمارے ادب اور زندگی میں ہے، اس کو اقبال نے ایک نئے تصور اور تجربے سے آشنا کیا اور ربط دیا، اس طور پر اردو شاعری اور ادب میں "مقام شبیری" ایک نئی معنویت، دعوت یا سمبل (علامت) ظہور میں آئی اور مقبول ہوئی، اور وہ تصور جو نسبتاََ محدود تھا لامحدود ہوگیا، مثلاًً :۔
ریگ عراق منتظر، کشت حجاز تشنہ کام ۔۔۔ ۔ خونِ حسین بازدہ کوفہ و مصر و شام را
غریب و سادہ رنگیں ہے داستان حرم ۔۔۔ ۔۔ نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسمٰعیل
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔گرچہ ہے تا بدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق۔۔۔ معرکہ وجود میں، بدر و حنین بھی ہے عشق
زمانہ قدیم سے عورتوں کے ساتھ عام طور پر جیسا ناروا سلوک کیا جاتا تھا اور ان کی عزت و عافیت کی طرف سے جو افسوسناک غفلت برتی جاتی رہی، یا دو عالمی جنگوں کے بعد دفعتاََ تمام بندھنوں کے ٹوٹ جانے سے ان کو جو آزادی ملی اس کا اظہار یا مظاہرہ انھوں نے جس طرح کیا اس کا واضح نقشہ حالی و اقبال کے کلام میں ملتا ہے، اقبال نے آزادی میں ان کی خواری دیکھ کر ضرب کلیم اور جابجا دوسری نظموں میں ان کے احترام میں جو کچھ فرمایا ہے اس سے کون اتفاق نہ کریگا، مثلاََ :۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ۔۔۔ ۔ اسی کے سوز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے خاک ہے اسکی۔۔۔ ۔ کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن ۔۔۔ ۔۔ اسی کے شعلہ سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
زموزِ بیخودی کے آخر میں انھوں نے نوع کوا مومت پر مبنی بتایا ہے اور مسلمان عورتوں کے لیے حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے اسوہ کو تین نسبتوں سے کامل قرار دیا ہے،
(الف) نور چشم رحمتہ للعالمین
(ب) بانوئے مرتضیٰ مشکل کشا
(ج) ماردِ حسین سید الشہداء
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
19 اور 20


حقوق وحدودلنواں کا ایسا منشور شاید ہی کسی اور نے کہیں دیا ہو!
اپنے اور گذرے ہوئے عہد کے نوع بنوع مسائل، حالات و حوادث اور اہم شخصیتوں پر جس گہری بصیرت سے ترشے ہوئے اشعار، مصرعوں اور فقروں میں اقبال نے اظہار خیال کیا ہے، وہ اردو شاعری میں ایک گرانقدر اضافہ ہے۔ یہ آواز، انداز اور امتیاز اردو شاعروں کے کلام میں کم نظر آئیگا، جن کے یہاں بھرتی کے اشعار کہیں بھرتی کی غزلیں تک مل جاتی ہیں۔
اقبال کا کلام حشو و زوائد سے یکسر پاک ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا ذوق کتنا انتخابی اور ذہن کتنا اختراعی تھا کہ معمولی کو غیر معمولی سے بے تکلف بدل سکتا تھا، وہ اعلیٰ کو جانتے ہوئےادنیٰ پر کبھی اکتفا نہیں کرسکتے تھے، میرا خیال ہے کہ غالب، حالی، اکبر اور اقبال نے اردو شعر و ادب کے حسب و نسب اور معیار و موقف کو پورے طور پر مستحکم نہ کردیا ہوتا تو اس دورِ رسوائی و شکست و ریخت میں، جب پچھلی تمام قدریں ٹھکرائی جارہی ہیں، شعر و ادب کے ہر روز نئے تجربے اور تحریکیں، جیسا کہ دیکھنے میں آرہا ہے، اردو شاعری کو معلوم نہیں کس ناگفتنی تک پہنچا دیتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیئت، موضوع، مواد اور حسن زبان و بیان کے اعتبار سے اقبال کا کلام نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے، ایسا نمونہ جس تک پہنچنا ناممکن نہیں تو نہایت درجہ دشوار ہونے میں شک نہیں۔
ایک مکتبہ فکر کے اصحاب کا اقبال پر یہ اعتراض ہے کہ وہ عقابی یا شاہینی مسلک خونریزی کی تبلیغ اور فرد کو جماعت پر مسلط کرنے اور رکھنے کی تائید کرتے ہیں، سوال بہت پرانا ہے، لیکن جواب نہایت مختصر ہے، یعنی خونریزی اور سفاکی کی وہ شخص کیسے تائید کرے گا جو رحمتہ لعالمین کے صفِ اول کے عاشقوں میں ہو، جس کی تفصیل "نقوش اقبال" میں بڑے شرح و بسط سے کی گئی ہے، فرد اور جماعت کے باہمد گررشتہ اور ذمہ داری کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے معترض کو اسرارِ خودی اور رموزِ بیخودی کا مطالعہ غور و فکر سے کرنا چاہیے، اقبال نے فرد کی دوگونہ تربیت پر زور دیا ہے، ایک بحیثیت فرد کے دوسرے بحیثیت جماعت کے ایک رکن کے، بالفاظ دیگر جب تک فرد اور جماعت ایک بڑے مقصد کے لیے فکر و عمل دونوں طرح سے مربوط و متحد نہ ہوں گے سو سائٹی مستحکم، صالح اور صحت مند نہیں رہ سکتی شائستگی، دانشوری اور آرزو مندی جس پر سو سائٹی کے قیام و ترقی کا مدار ہے، شروع فرد سے ہوتی ہے، ختم جماعت پر ہوتی ہے، دونوں کی تربیت کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ اور دور رکھنے کے لیے نہیں بلکہ ان کو ہم خیال ہم مقصد اور ہم آہنگ رکھنے کے لیے ہوتی ہے، فرد کی ہدایت اور قیادت کے بغیر جماعت بڑی قابلِ رحم ہوتی ہے، اتنی ہی خطرنات بھی، فرد کی تربیت اس لیے کی جاتی ہے اور اس کا فرض یہ ہے کہ وہ جماعت کو صراط ِ مستقیم پر چلائے اور رکھے، نہ یہ کہ اپنی غرض اور ہوس کا آلہ کار بنائے، اقبال کا بتایا ہوا فرد اور جماعت کا رشتہ ایسا ہے، جس سے دونوں ایک دوسرے سے باہر نہ ہوسکیں ، اور ایک دوسرے کا جبر قبول نہ کرسکیں
جبر و تشدد کے الزام کی تائید میں اکثر اقبال کے دو ایک شعر پیش کیے جاتے ہیں، جن کا مفہوم عقاب یا شاہیں کا کبوتر پر جھپٹنے اور جھپٹ کر پلٹنے یا عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد وغیرہ قسم کا ہے لیکن اس کے ساتھ اقبال کی اس
ٍ
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
21 اور 22

تجدید و تاکید کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے، جس کے ذکر سے وہ کبھی نہیں تھکتے :۔
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر
شبستاںِ محبت میں حریر و پریناں ہوجا
زندگی اور زمانہ جیسا کچھ ہے، اس میں عزت، عافیت اور فراغت کے ساتھ زندہ اور کارآمد رہنے کا اس سے زیادہ معتبر اور کیا فارمولا ہوسکتا ہے، تواضع بغیر طاقت کے خوئے گدا گری ہے، طاقتور ہونا فرائض میں ہے، اس کا بے جا استعمال بزدلی یعنی شقاوت ہے، مشکل کشا فرد ہوتا ہے، جماعت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کلیمی بغیر عصا کے فعل عبث ہے جس کی سب سے نمایاں مثال اقوام متحدہ کی تنظیم ہے!
سید صاحب کے ایک متجر اور روشن خیال عالم دین اور شعر و ادب کے مبصر ہونے کی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا، موصوف نے اقبال کی تائید و ترجمانی جس خوبی سے کی ہے، اس سے میرے ایک دیرینہ خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ اقبال کا کلام ہمارے لیے اس صدی کا علم کلام ہے، جو ایک نامعلوم اور طویل مدت تک تازہ کار رہے گا، اس لیے کہ وہ ایک عظیم شاعری میں ڈھل چکا ہے، اسلامی عقائد، شعائر اور روایات کا جس عالمانہ، عارفانہ اور شاعرانہ انداز سے اپنے بے مثل کلام میں اقبال نے وکالت کی ہے، اس سے معاشرہ حیرت انگیز طور پر متاثر ہوا ہے، ایسی صحت مند اور بامقصد بیداری کا امتیاز شاید ہی کسی اور عہد کے علم کلام کے حصہ میں آیا ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی کتب کے براہ راست مطالعہ سے بعض طبائع اور اذہان اتنے متاثر نہیں ہوتے جتنا انہی حقائق کو اقبال کے کلام میں مطالعہ کرکے مطمئن ہوگئے ہیں، یہاں تک کہ اقبال کے مشہور لکچرز اسلام کی تشکیل نو میں جو باتیں کہی گئی ہیں، ان کو جہاں تہاں تسلیم کرنے میں اکثر علماء کو تامل ہوا ہے لیکن انہی حقائق کو اقبال کی شاعری میں سن یا پڑھ کر بے ساختہ قائل ہوجاتے ہیں، اس طرح جیسے وہ نکتے اپنے تمام معارف و بصائر کے ساتھ براہ راست ان پر منکشف ہوگئے ہوں۔
اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے اور خود ان کے بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ انھوں نے تمام عمر مغربی فلسفہ کے مطالعہ میں گزاری ہے اس مطالعہ نے ان کے سوچنے اور کہنے کو کس طرح متاثر کیا اس پر یہاں بحث کرنا مقصود نہیں، کہنا یہ ہے کہ اقبال نے ہمارے جذبہ تخیل اور فکر جس خوبی سے غیر معمولی حدک تک متاثر کیا وہ ان کا فلسفہ نہیں ہے ان کی شاعری ہے۔
اس میں جہاں کہیں تنوع یا تضاد ملتا ہے، وہ اس کا ثبوت ہے۔ تنوع یا تضاد شاعری کا حسن یا مزاج ہے اور فلسفہ کا نقص یا نارسائی، اقبال نے فلسفہ کو شاعری کا منافی نہیں بتایا ہے، بلکہ ان کو ایک دوسرے کی محرمی اور مشاطگی پر مامور کیا ہے، فلسفہ کی اہمیت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی اور آخر کار فلسفہ کو گوارا اور فقال شاعر اور اس کی شاعری ہی بناتی ہے۔
اطالوی فلاسفر کروچے (Crocha) (؁1856 تا ؁1952) مذہب کو علم الاصنام سے تعبیر کرتا ہے، لیکن یہ تعبیر ان قدیم تر مذاہب پر صحیح اترتی ہے جو دیوی دیوتاؤں کی کارفرمائی اور کارناموں سے مملو اور مزین ہیں۔ جہاں بقول اقبال
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
23 اور 24

خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر "ان مذاہب پر صادق نہیں آتی، جہاں ان دیکھنے خدا" کو مانتے ہیں، البتہ جارج سنتیانا (GEORGE SANTYANA) امریکی فلاسفر (؁1863۔ ؁1952 ) کے اس قول کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مذہب شاعری کی ایک صنف ہے، یہ نظریہ صحیح ہے یا نہیں، یہ حقیقت مسلم ہے کہ دورِ جاہلیت کے عرب پہلی بار کلام الٰہی کی زد میں آئے تو اس کی اصلاحی و اخلاقی احکام سے اتنے متاثر نہیں ہوئے جتنے اس کے اسلوب و آہنگ اور فصاحت و بلاغت سے مرعوب ہوئے اور بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ شاعری نہیں ساحری ہے! یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ صحائف سماوی نیم صحائف سماوی اپنے عہد کے بہترین کلام شمار کیے گئے ہیں، خواہ ان کا مصنف کوئی رہا ہو، ایسا نہ ہو تو ان کا لایا ہوا دین ذہنوں کو متاثر نہ کرسکتا، مذہب شاعری نہیں ہوتا، لیکن شاعری سے علیٰحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ مذہب کے اوامر و نواہی کو جس طرح صلحا واتقیا اپنے عمل سے تعمیل کی ترغیب دیتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ اسی طرح بڑے شعراء اپنے کلام سے ان کو مؤثر کرتے اور دقیع بناتے ہیں، کبھی کبھی تو یہاں تک خیال آیا ہے کہ ہم پر عام طور سے آج مذہب کا جو اثر ہے، بالخصوص ان پر جو مذہب کو اتنا اعتقاد سے نہیں جتنا عقل سے دیکھنے پرکھنے کے شائق ہیں، وہ براہ راست اتنا مذہبی تصانیف کا نہیں ہے جتنا اقبال کے اس کلام کا جس میں مذہب، اخلاق اور تاریخ کے تقاضوں کی طرف سید صاحب سے ایک التماس یہ ہے کہ موصوف اقبال کے پورے کلام کو عربی میں منتقل کرکے اس کا خوبصورت ایڈیشن مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کی طرف سے ان ممالک میں شائع کرنے کا اہتمام فرمائیں جہاں عربی مادری، علمی اور تصنیفی زبان کی حیثیت رکھتی ہے، یہ مجلس کے پروگرام میں بڑا مفید اور مبارک اضافہ ہوگا۔ سید صاحب کو دین سے جو شغف ہے، عربی زبان و ادب کے جیسے مزاج داں ہیں، ممالک عربیہ اسلامیہ میں ان کا جیسا اعتبار ہے، اقبال سے جیسی عقیدت اور ان کے کلام میں جو درک و بصیرت ہے ان کا تقاضا ہے کہ موصوف اس منصب کی ذمہ داری قبول فرمائیں، یہ ایسا کام ہے جو ہر روز ہر شخص کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔
رشید احمد صدیقی
ذاکر باغ، مسلم یونیورسٹی۔ علی گڑھ
19 اپریل ؁1972
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
25 اور 26

کچھ ترجمہ کے بارے میں

مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کی "روائع اقبال" کے اردو ترجمے کی کئی حیثیتوں سے ضرورت تھیم اردو دنیا اقبال اور مولانا سے تعلق رکھنے والوں کا اصرار بڑھتا جارہا تھا کہ روائع کا اردو ترجمہ ہو، اس لیے کہ اقبال اور مولانا مدظلہ کی فکری ہم آہنگی کا یہ فطری تقاضا تھا کہ ایک زندہ جاوید ہستی پر ایک زندہ شخصیت کے خیالات سے استفادہ کیا جائے۔
مولانا کے قلم سے نکلی ہوئی کسی چیز کی اہمیت علمی و ادبی قدر و قیمت کے ساتھ اس کی اسلامیت اور ان کے دعوتی طرز نگاہ کے پہلو سے بھی ہوتی ہے، اردو میں اقبال پر ڈاکٹر یوسف حسین خان کی"روح اقبال" مولانا عبد السلام صاحب ندوی کی "اقبال کامل" اور خلیفہ عبد الحکیم کی "فکر اقبال" بہت اہم سمجھی جاتی ہیں، جن میں اقبال کے افکار کی تنقید و تحلیل بڑے عالمانہ انداز میں ہوچکی ہے، لیکن خلیفہ عبد الحکیم نے صحیح لکھا ہے کہ اقبال کا موضوع ایسا ہے کہ اس پر مزید کچھ لکھنے کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کو خاص طور پر ان کے دینی رحجان اور دعوتی میلان کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش اب تک بہت کم ہوئی ہے، روائع اقبال میں کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اقبال کے قلب و روح تک پہنچنے اور اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، تنقید و تحلیل، علمی تشریح و تجزیہ اور کسی حاشیہ آرائی کے بجائے اقبال کی ترجمانی کے لیے کلامِ اقبال کو رہنما بنایا گیا ہے، یہ طرز جدید تنقید کے معیار پر بالکل پورا نہ بھی اترتا ہو تو بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
کسی مفکر کے قلب و نظر تک رسائی کے لیے یہ سب سے اچھا طریقہ ہے کہ براہ راست اس کے کلام سے استدلال کیا جائے اور اسے اس کے پیام میں دیکھا جائے،
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
اقبال کے ہاں جذبہ اور خیال کی مثالی ہم آہنگی پائی جاتی ہے، ان کے قلب و نظر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ایمان و یقین کے نور سے روشن نہ ہو، اور جس پر اسلامیت کی چھاپ نہ لگی ہوئی ہو، اقبال نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، علم و ادب، مذہب و تہذیب، معیشت و معاشرت، تاریخ و سیاست کے ہر پہلو سے بحث کی ہے اور انھیں اپنے افکار کا موضوع بنایا ہے، لیکن ان سب میں اگر کوئی چیز قدرِ مشترک کہی جاسکتی ہے تو وہ ان کی اسلامیت اور مومنانہ اندازِ نظر ہے جو ان کے علوم و فنون کی ہر شاخ میں اس طرح رواں دواں ہے کہ
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کانم!
اسلام نے انھیں شدت سے متاثر ہی نہیں کیا ہے بلکہ وہ ان کا آخری اور قطعی عقیدہ و ایمان بھی بن گیا ہے اور اس ایمان نے انھیں زندگی کے ہر مسئلے میں ایک واضح ہدایت دی ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
27 اور 28

اقبال فلسفی پہلے ہوں یا شاعر بہرحال انھوں نے شعر ہی کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا ہے اس لیے اب ان کے افکار کو جب بھی سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو فنی نقطہ نظر کو مقدم رکھنا ضروری ہوگا، اس لیے شعر کے لیے فکر کی اتنی اہمیت نہیں جتنی جذبہ کی شدت احاس کی واقعیت اور خلوص کی حرارت کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام سے اقبال کا لگاؤ صرف فکری ہی نہیں بلکہ جذباتی بھی ہے، فکر کی مئے مینا گدازان کے ہاں جذبہ کی آنچ سے دو آتشہ ہوگئی ہے، اقبال کو خالص عقلی سطح سے سمجھنے کی کوشش کرنا برگ گل کی کیمیائی تشریح و تجزیہ کرنے کے مرادف کہا جاسکتا ہے، اقبال کے سوز و ساز اور درودگداز ان کے دنوں کی تپش اور ان کی شبوں کی خلش کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی غلامی آزاد دل کی رہنمائی میں ان کے احوال و مقامات کی سیر کی جائے۔
اقبال ولایت عشق کے سپاہی اور دیار مہر و وفا کے راہی ہیں، انہوں نے عالمی ادبیات کی تاریخ میں پہلی بار اتنے شور و شعور اور اتنے جوش و ہوش کے ساتھ عقل کے خلاف آواز اٹھائی اور عشق کی حیثیت عرفی بحال کی۔
انہوں نے دور جدید کے عقلی آزرکدوں میں از سر نو رومی و سنائی اعطار اور جامی کے دلوں کا سوز عام کیا، انہوں نے عقل کی زیاں کاریوں کا علاج عشق و محبت کی دوائے دل سے کیا، ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ عہد حاضر میں انہوں نے انسان کے قلب و ضمیر، اس کی روحانیت و معنویت اور اسکی باطنی قوت کی بازیافت کی۔ اور عقل و دماغ فکر و نظر کے مسلسل سفر کے بعد بھی انسان کو جو منزل نہیں میسر آسکی تھی اسے عشق کی ایک جست میں وہاں پہنچا دیا اقبال کے کارنامے کی دہری حیثیت اس وقت ہمارے سامنے آجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے فلسفہ و سائنس کے عہد میں انسان کو اس کے باطنی سر چشمہ تک پہنچایا اور اس کی طرف متوجہ کیا، دوسرے مسلمانوں کے سامنے عشق و محبت کی شاہراہ مقصود کھول کر اسلام کو از سر نو روشناس کیا اور اس کے روحانی اور اخلاقی انقلاب کی عظمت بھی دوبالا کی۔
سپاہ تازہ برانگیزم از ولایتِ عشق
کہ در حرم خطرے از بغاوتِ خرد است!
اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ روائع میں اقبال کے باطن، ان کی اندرونی شخصیت اور ان کے قلب و روح کو اس کی فطری حالت میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں وہ خدا کی حمد کرتا ہے اور اس کا دل خدا و رسول کی محبت میں سرشار اور بے قرار نظر آتا ہے، جہاں وہ اسلام کی عظمت رفتہ پر آنسو بہاتا ہے، جہاں وہ تاریخ اسلام کے عروج و زوال پر نظر باز پسیں ڈالتا ہے، جہاں وہ اسلامی نظام حیات کے غم میں گھلتا ہے، جہاں وہ مومن کے جلال و جمال کے ترانے گاتا ہے، جہاں وہ اسلام کے مستقبل سے پر امید نظر آتا ہے، اس کے دل کی دھڑکنوں پر اگر کان لگائے جائیں تو یہی آوازیں اس میں گونجتی سنائی دیں گی، اس کا کلام انہیں دھڑکنوں کی روداد اور ان کا ریکارڈ ہے۔
فیضی کماں مبرکہ غمِ دل نہفتہ ماند
اسرارِ عشق آنچہ تواں گفت، گفتہ ایم!
اس کتاب میں آپ کو جگہ جگہ اقبال کے عشق رسول کا تذکرہ شوق انگیز ملے گا، اس بوئے گل سے ان کا نفس نفس مشکبار اور ان کی سطر سطر عطر آگیں ہے۔ اقبال کی شخصیت کے عناصرِ اربعہ کی اگر تلاش کی جائے تو شاید خدا پر ایمان، رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق، اسلام کی ابدیت پر یقین اور مرد مومن کے امکانات سے توقع اور اس کی ذات سے بے پایاں محبت ہی کی دریافت ہوگی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 51​
اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر​

اقبال کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جس نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گوناگوئی رنگا رنگی پیدا کر دی اور جس نے اقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز ، باعث کشش اور جازب نظر بنا دیا چند ایسے عناصر ہیں جن کا تعلق اقبال کی علمی ادب اور تعلیمی کوششوں سے بہت ہی کم ہے، اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت، بلندی، فکرو خیال ، سوز ، درد ، کشش اور جاذبیت نظرآتی ہے ان کا تعلق اقبال کی زندگ کے اس رخ سے ہے جسے ہم یقین کا ایمان کہتے ہیں ۔

-----------------------------------​
یہ مقالہ 28 مارچ 1951 کو قاہراہ کے مشہور تعلیمی مرکز اور دانش گاہ دارالعلوم میں پڑھا گیا ، جو اپنی بہت سی خصوصات کے لئے مشہور ہے۔ اور جس نے فضلا میں شیخ حسن مینا مرحوم سید قطب شہید تھے ۔ کالج کی تعلیمی فضا اور طلبا، استاتذہ کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے اس میں علامہ اقبال کے تعلیمی اور تربیتی عناصر کا تجزیہ اور ان کی شخصیت کا ارتقا پیش کیا گیا۔ یہ مقالہ بڑے ذوق و شوق اور جوش و خروش کے ساتھ سنا گیا۔​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 52
دراصل اقبال کی شخصیت کے بنانے ، سنوارنے اور پروان چڑھانے میں عصر حاضر کے صرف ان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا ہاتھ نہیں ہے جن میں اقبال نے داخل ہو کر علوم عصریہ اور مغربی تعلیم حاصل کی ، گرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال علومِ جدیدہ اور مغربی تعلیم کا حصول ہندوستان ، انگلستان اور جرمنی میں ماہر استاتذہ سے کرتے رہے اور وہاں کے علم و فن کے چشموں سے سیراب ہوتے رہے ، یہاں تک کہ وہ عالم اسلامی میں مغربی علوم و افکار اور تہذیب و تمدن کے ماہرین میں منفرد شخصیت کے مالک ہو گئے ، مغربی فلسفہ و اجتماّع، اخلاق اور سیاست و معشیت میں یورپ کے ایک متخصص کی حیثیت حاصل کی، اور علومِ جدید و قدیم میں بڑی گہری نگاہ حاصل کی۔ لیکن اگر اقبال اس مقام پر پہنچ کر ٹھہر جاتے اور موجودہ تعلیمی ادارں کے پھولوں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو کر صرف اس حلاوت و مزہ سے لطف اندوز ہوتے رہتے تو پھر آج وہ ہمارا موضوع گفتگو نہین بن سکتے تھے ۔اورنا اوبِ اسلامی اور تاریخ ادب اسلامی ان کے شعر و ادب کے نغموں سے گونجتی رہتیں، اور نا عملی صدارت ، فکری خدمات اور اسلامی ذہن ان کے لئے اپنا دامن وسیع کرتا اور نا انہیں اس بلند مقام پر بیٹھا کر فخر محسوس کرتا، اس کے لئے بڑی بلند شرطیں ہیں، کوئی شخص محض درس و تدریس علوم میں تنوع اور کثرت تالیف و تصنیف کی وجہ سے اس بلند مقام تک نہین پہنچ سکتا بلکہ اقبال اگر ان تعلیمی اداروں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو جاتے اور انہیں علوم و فنون کی علمی موشگافیوں میں اپنی دلچسبیوں کو محدود رکھتے تو زیادہ سے زیادہ فلسفہ ، معاشیات ادب اور تاریخ میں ماہر استاد اور پروفیسر کی جگہ پاتے یا ایک بڑے پایہ کے مصنف علوم عصریہ کے ماہر فن ، صاحب اصلوب ، ادیب یا ایک اچھے شاعر ہوتے اور بس پھر ایک کامیاب بیرسٹر ، ایک اچھے جج یا حکومت کے ایک اچھے وزیر بنا دئیے جاتے ،لیکن
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top