نعیم صدیقی نعت: صاحبِ رایت، صبحِ ہدایت ، رٲفت ہی رٲفت، رحمت ہی رحمت ٭ نعیم صدیقیؒ

صاحبِ رایت، صبحِ ہدایت ، رٲفت ہی رٲفت، رحمت ہی رحمت
آیت بہ آیت، سنت بہ سنت، حکمت ہی حکمت، رحمت ہی رحمت

نورِ صداقت، روحِ امانت، جان شجاعت، بحرِ سخاوت
تو ہے سراپا نعمت ہی نعمت، شفقت ہی شفقت، رحمت ہی رحمت

اسرار تیرے، افکار تیرے، گفتار تیری، رفتار تیری
اخلاق تیرا، کردار تیرا، عظمت ہی عظمت، رحمت ہی رحمت

کرنیں لپکتی، کلیاں چٹکتی، غنچے مہکتے، لالے دمکتے
سارے چمن میں نزہت ہی نزہت، نکہت ہی نکہت، رحمت ہی رحمت

تیری محبت، تیری اطاعت، تیری رفاقت، تیری معیت
امت کی قسمت، یاں بھی شفاعت، واں بھی شفاعت، رحمت ہی رحمت

اہلِ عرب بھی، اہلِ عجم بھی، اسود کہ احمر، منعم کہ بے زر
یکساں سب انساں، تعلیمِ وحدت، درسِ اخوت، رحمت ہی رحمت

مسجد کے اندر ذکر و دعا بھی، جنگاہ میں ہے رزم و وِغا بھی
یاں بھی شہادت، واں بھی شہادت، سب کچھ عبادت، رحمت ہی رحمت

تلقينِ احساں، عفو کی دعوت، اک سمت نافذ حکمِ عدالت
یہ بھی شریعت، وہ بھی شریعت، خدمت کی خدمت، رحمت ہی رحمت

خدامِ حق سے لطف و محبت، باطل کے حق میں شدت و غلظت
یوں بھی عنایت، یوں بھی عنایت، ہر شے کی غایت، رحمت ہی رحمت

تیرا تکلم، تیرا تبسم، تیری نگاہیں، تیری دعائیں
تیری اشارت، تیری عبارت، تیری بشارت، رحمت ہی رحمت

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 

یاقوت

محفلین
صاحبِ رایت، صبحِ ہدایت ، رٲفت ہی رٲفت، رحمت ہی رحمت
آیت بہ آیت، سنت بہ سنت، حکمت ہی حکمت، رحمت ہی رحمت

نورِ صداقت، روحِ امانت، جان شجاعت، بحرِ سخاوت
تو ہے سراپا نعمت ہی نعمت، شفقت ہی شفقت، رحمت ہی رحمت

اسرار تیرے، افکار تیرے، گفتار تیری، رفتار تیری
اخلاق تیرا، کردار تیرا، عظمت ہی عظمت، رحمت ہی رحمت

کرنیں لپکتی، کلیاں چٹکتی، غنچے مہکتے، لالے دمکتے
سارے چمن میں نزہت ہی نزہت، نکہت ہی نکہت، رحمت ہی رحمت

تیری محبت، تیری اطاعت، تیری رفاقت، تیری معیت
امت کی قسمت، یاں بھی شفاعت، واں بھی شفاعت، رحمت ہی رحمت

اہلِ عرب بھی، اہلِ عجم بھی، اسود کہ احمر، منعم کہ بے زر
یکساں سب انساں، تعلیمِ وحدت، درسِ اخوت، رحمت ہی رحمت

مسجد کے اندر ذکر و دعا بھی، جنگاہ میں ہے رزم و وِغا بھی
یاں بھی شہادت، واں بھی شہادت، سب کچھ عبادت، رحمت ہی رحمت

تلقينِ احساں، عفو کی دعوت، اک سمت نافذ حکمِ عدالت
یہ بھی شریعت، وہ بھی شریعت، خدمت کی خدمت، رحمت ہی رحمت

خدامِ حق سے لطف و محبت، باطل کے حق میں شدت و غلظت
یوں بھی عنایت، یوں بھی عنایت، ہر شے کی غایت، رحمت ہی رحمت

تیرا تکلم، تیرا تبسم، تیری نگاہیں، تیری دعائیں
تیری اشارت، تیری عبارت، تیری بشارت، رحمت ہی رحمت

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ

بڑا ارمان ہے کہ نعیم صدیقیؒ کا کوئی مجموعہ پی ڈی ایف میں پڑھنے کو مل جائے۔۔۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
چلیں پھر ظہیراحمدظہیر بھائی کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ یہ گتھی سلجھائیں۔ :)
تابش بھائی ، تعمیلِ ارشاد میں مختصراً عرض کرتا ہوں ۔ یہ بحرمتقارب کا وہ وزن ہے کہ جسے ہندی بحر بھی کہا جاتاہے ۔عموماً ہندی بحر ساڑھے سات رکنی ہوتی ہے لیکن آٹھ رکنی بھی ملتی ہے ۔ یہ نعت آٹھ رکنی ہے۔ اس نعت کے اکثر مصرع فعل فعولن (چاربار) پر تقطیع ہوتے ہیں ۔ یعنی اس کا بنیادی وزن فعل فعولن چاربار ہے ۔ لیکن نعیم صدیقی صاحب نے کہیں کہیں فعل فعولن کو فعلن فعولن سے بدل دیا ہے ۔ ( بعض مصرعے تو پورے کے پورے فعلن فعولن کے وزن پر ہیں ) ۔ میرے ناقص علم کے مطابق تو ان دو اوزان کا اجتماع ایک نظم میں جائز نہیں ہے اور میں نے کہیں دیکھا بھی نہیں ہے۔ فعل فعولن والے مصرعوں میں اسباب کی تعداد سولہ بنتی ہے لیکن فعلن فعولن والے مصرعوں میں تعداد سولہ سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے ۔ ان اوزان کے اجتماع کی ایک توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر نے ہی کا "ہ" گرایا ہے اور رحمت ہی رحمت اور اسی طرح کی دیگر تراکیب کو عام بول چال کی طرز پر "رحمتی رحمت" پڑھا ہے ۔ اگر اس توجیہہ کو مان لیا جائے تو پھر وزن کے اختلاف کا مسئلہ نہیں رہتا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

بحر زمزمہ (متدارک مخبون) بالکل ہی الگ بحر ہے ۔ اس کا وزن فعِلن چار بار ہے یعنی عین متحرک کے ساتھ ۔ اس میں کسی بھی فعِلن کوتسکینِ اوسط کے استعمال سے فعلن بھی بناسکتے ہیں یعنی عین ساکن کے ساتھ۔ زمزمہ کو ہندی بحر سے پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس میں سبب ثقیل ہمیشہ طاق نمبر پر آتا ہے جبکہ ہندی بحر میں سبب ثقیل ہمیشہ جفت نمبر پر ہوگا ۔ زمزمہ کی مثال کے لئے یہ مشہور غزل دیکھئے:
انشا جی اٹھو - اب کوچ کرو -اس شہر میں دل -کو لگا نا کیا
فعلن فعِلن - فعلن فعِلن - فعلن فعِلن - فعِلن فعلن
 
تابش بھائی ، تعمیلِ ارشاد میں مختصراً عرض کرتا ہوں ۔ یہ بحرمتقارب کا وہ وزن ہے کہ جسے ہندی بحر بھی کہا جاتاہے ۔عموماً ہندی بحر ساڑھے سات رکنی ہوتی ہے لیکن آٹھ رکنی بھی ملتی ہے ۔ یہ نعت آٹھ رکنی ہے۔ اس نعت کے اکثر مصرع فعل فعولن (چاربار) پر تقطیع ہوتے ہیں ۔ یعنی اس کا بنیادی وزن فعل فعولن چاربار ہے ۔ لیکن نعیم صدیقی صاحب نے کہیں کہیں فعل فعولن کو فعلن فعولن سے بدل دیا ہے ۔ ( بعض مصرعے تو پورے کے پورے فعلن فعولن کے وزن پر ہیں ) ۔ میرے ناقص علم کے مطابق تو ان دو اوزان کا اجتماع ایک نظم میں جائز نہیں ہے اور میں نے کہیں دیکھا بھی نہیں ہے۔ فعل فعولن والے مصرعوں میں اسباب کی تعداد سولہ بنتی ہے لیکن فعلن فعولن والے مصرعوں میں تعداد سولہ سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے ۔ ان اوزان کے اجتماع کی ایک توجیہہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاعر نے ہی کا "ہ" گرایا ہے اور رحمت ہی رحمت اور اسی طرح کی دیگر تراکیب کو عام بول چال کی طرز پر "رحمتی رحمت" پڑھا ہے ۔ اگر اس توجیہہ کو مان لیا جائے تو پھر وزن کے اختلاف کا مسئلہ نہیں رہتا ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

بحر زمزمہ (متدارک مخبون) بالکل ہی الگ بحر ہے ۔ اس کا وزن فعِلن چار بار ہے یعنی عین متحرک کے ساتھ ۔ اس میں کسی بھی فعِلن کوتسکینِ اوسط کے استعمال سے فعلن بھی بناسکتے ہیں یعنی عین ساکن کے ساتھ۔ زمزمہ کو ہندی بحر سے پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس میں سبب ثقیل ہمیشہ طاق نمبر پر آتا ہے جبکہ ہندی بحر میں سبب ثقیل ہمیشہ جفت نمبر پر ہوگا ۔ زمزمہ کی مثال کے لئے یہ مشہور غزل دیکھئے:
انشا جی اٹھو - اب کوچ کرو -اس شہر میں دل -کو لگا نا کیا
فعلن فعِلن - فعلن فعِلن - فعلن فعِلن - فعِلن فعلن
اس بات کا اظہار محترم نعیم صدیقیؒ نے نعتیہ مجموعۂ کلام ”نور کی ندیاں رواں“ کے پیش لفظ میں بھی کیا ہے اور دیگر جگہوں پر بھی کیا ہے کہ وہ جدت پسندی کے قائل ہیں، اور کئی تجربات بھی کیے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی کوئی ایسا تجربہ کارفرما ہو۔ :)
 
20200202-123052.jpg
 
Top