ایم اے راجا

محفلین
نثری نظم کیا ہے؟
اسکی اردو ادب میں کیا حیثیت ہے؟
کیا نثری نظم کے لیئے کوئی پابندیِ سخن موجود ہے یا اپنے خیال کو من و عن ( بیبحر ) لفظوں کا جامہ پہنا دینا اور اپنی مرضی کے پیرائے میں بیان کر دینا ہی نثری نظم ہے؟
اساتذہ کرام سے درخواست ہیکہ اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں تا کہ طالبِ ادب مستفید ہو سکیں۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین

راجا صاحب، بالتحقیق کوئی ثقہ شاعر اور نقاد، نثری نظم کو شاعری نہیں مانتا کیونکہ وہ شاعری کی بجائے نثر کا حصہ ہے۔

ہاں لیکن، یہ بات ضرور ہے کہ نثری نظم کو آزاد نظم کے ساتھ "مکس" نہیں کرنا چاہیئے، آزاد نظم ایک بالکل الگ چیز ہے جس میں بحر اور وزن کا خیال رکھا جاتا ہے اور قافیے کو چھوڑ دیا جاتا ہے مثلاً بحر متقارب (جو کہ آپ بخوبی سمجھتے ہیں) اس طرح سے ہے

فعولن فعولن فعولن فعولن

یہ ترتیب غزل یا پابند نظم کیلیئے ہے لیکن آزاد نظم میں آپ اسے ایسے بھی استعمال کر سکتے ہیں

فعولن فعولن
فعولن
فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن
فعولن فعولن فعولن

وغیرہ وغیرہ، یعنی مصرعوں کی ترتیب کچھ بھی ہو، لیکن سب بحر اور وزن میں ہونگے، قافیہ چاہے ہو نہ ہو، یہ آزاد نظم ہے۔

لیکن "نثری نظم" (میں بہ امر مجبوری اس چیز کو نظم لکھ رہا ہوں) میں تو محنت سے محبت نہ کرنے والے بزعمِ خود شعرا، شاعری کے اصولوں سے مادر پدر آزادی مانگتے ہیں، نہ بحر، نہ وزن، نہ قافیہ، نہ کوئی ترتیب بس جو اول فول ذہن میں آیا لکھ مارا۔

کسی ثقہ شاعر نے نثری نظم نہیں لکھی ہوگی، ہاں آزاد نظم سبھی جدید شعراء نے لکھی ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
کیا آزاد نظم کسی بھی بحر میں لکھی جاسکتی ہے؟
کیا ایک مصرع میں ایک ارکان اور دوسرے میں کئی ارکان بھی باندھ سکتے ہیں؟
کیا ہر مصرع الگ بحر و وزن میں بھی باندھا جاسکتا ہے، یا پوری نظم میں ایک ہی بحر ہوتی ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا آزاد نظم کسی بھی بحر میں لکھی جاسکتی ہے؟
کیا ایک مصرع میں ایک ارکان اور دوسرے میں کئی ارکان بھی باندھ سکتے ہیں؟
کیا ہر مصرع الگ بحر و وزن میں بھی باندھا جاسکتا ہے، یا پوری نظم میں ایک ہی بحر ہوتی ہے؟


آزاد نظم کسی بھی بحر میں کہی جا سکتی ہے۔

آزاد نظم بھی غزل اور پابند نظم کی طرح صرف ایک ہی بحر میں ہوتی ہے، بحریں مختلف کریں گے تو وہ شاعری نہیں رہے گی۔

آزاد نظم میں مصرعوں کی طوالت اور ارکان کی تعداد کا تعین شاعر کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ جیسے مرضی کہے۔

مزید وضاحت کیلیئے ن م راشد کی خوبصورت نظم "حسن کوزہ گر" کے کچھ مصرعے اور انکی تقطیع دیکھیتے ہیں، بحر متقارب ہے۔

جہاں زاد نیچے گلی میں ترے در کے آگے
جہاں زا (فعولن) د نیچے (فعولن) گلی میں (فعولن) ترے در (فعولن) کے آگے (فعولن)

-----------
تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی

تو تیری (فعولن) نگاہوں (فعولن) میں وہ تا (فعولن) ب ناکی (فعولن)

----------
یہ وہ دور تھا جس میں مَیں نے
یہ وہ دو (فعولن) ر تھا جس (فعولن) میں میں نے (فعولن)

----------
پلٹ کر نہ دیکھا
پلٹ کر (فعولن) نہ دیکھا (فعولن)

-----------
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہارِ فن کے سہارے
مری ہی (فعولن) چ مایہ (فعولن) معیشت (فعولن) کے اظہا (فعولن) ر فن کے (فعولن) سہارے (فعولن)

---------

تُو چاہے تو مَیں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب

تو چاہے (فعولن) تو میں پھر (فعولن) پلٹ جا (فعولن) ؤں ان اپ (فعولن) نے مہجو (فعولن) ر کوزوں (فعولن) کی جانب (فعولن)

-----------

واضح ہو گیا ہوگا کہ نہ صرف ایک ہی بحر پوری نظم میں چل رہی ہے بلکہ ارکان کی تعداد مختلف مصرعوں میں مختلف ہے جب کہ اگر اسی بحر میں غزل یا پابند نظم کہیں گے تو ہر مصرعے میں ارکان کی تعداد چار ہوگی لیکن اس نظم میں اوپر کی مثالوں میں دو سے لیکر سات تک 'فعولن' آیا ہے۔

مزید وضاحت کیلیئے

ن م راشد کی ایک اور خوبصورت نظم ہے "زندگی سے ڈرتے ہو؟" یہ نظم بحر ہزج مثمن اشتر میں ہے، اسکا وزن "فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن" ہے، کچھ مصرعے دیکھتے ہیں:

زندگی سے ڈرتے ہو
زندگی (فاعلن) سے ڈرتے ہو (مفاعیلن)

------------
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں
زندگی (فاعلن) تو تم بھی ہو (مفاعیلن) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

--------
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ
حرف او (فاعلن) ر معنی کے (مفاعیلن) رشتہ ہا (فاعلن) ئے آہن سے (مفاعیلن) آدمی (فاعلن) ہے وابستہ (مفاعیلن)

--------
جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو
جو ابھی (فاعلن) نہیں آئی (مفاعیلن) اس گھڑی (فاعلن) سے ڈرتے ہو (مفاعیلن)

-------
تم ابھی (فاعلن) سے ڈرتے ہو (مفاعیلن)

اور یہ آخری بات میں نے نہیں، راشد نے کہی ہے :)
 

الف عین

لائبریرین
یوں تو آزاد نظم جس بحر میں شروع ہوتی ہے، اسی کے مختلف ارکان کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ لیکن ایسے تجربے بھی کئے گئے ہیں کہ کسی نظم کا ایک حصہ ایک بحر میں ہو، اور اس کا دوسرا حصہ دوسری بحر میں ہو۔۔ لیکن یہ درست کوئی نہیں مانتا کہ ایک مصرعہ یا سطر آپ بحر الف میں کہیں اور دوسرا مصرع بحر با میں۔
میں نے طویل نظم ’صاد‘ میں اس کو روا رکھا ہے۔ اس کا ہر حصہ ایک الگ نظم کے طور پر بھی قبول کیا جا سکتا ہے۔ دو ایک جگہ ایک ہی ’باب‘ میں پہلے حصے میں ایک بحر ہے، دوسرے میں دوسری۔ ہاں ’صاد‘ میں پہلے میں مصرعوں کی تعداد کا التزام رکھ رہا تھا کہ 1976 مصرعے ہوں، اس لئے بہت سے مصرعے نثری بھی شامل کر دئے تھے۔ اس کے علاوہ میری کوئی نثری نظم نہیں ہے کہ خود مجھے پسند نہیں۔ اس قسم کے کچھ حصے میں نے پھر صاد سے نکال بھی دئے تھے۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ بابا جانی ۔۔ آپ نے تفصیل سے تحریر فرما کر میرے کج علمی کو یکسر نئی راہ دکھا دی ہے ۔۔۔
بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔
 
اساتذہ کرام،
سارے شہر میں دھونڈ رہا تھا، اور یہاں رکھی تھی اتنی واضع تفصیل نظم کے بارے میں۔ آپ سب کا بے حد ممنون و مشکور ہوں کے اتنے اچھے سے بیان فرمایا- راجہ صاحب بھی تحسین کے مستحق کہ موضوع چھیڑا
جزاکم اللہ خیرا
اظہر
 
نثری نظم کیا ہے؟
اسکی اردو ادب میں کیا حیثیت ہے؟
کیا نثری نظم کے لیئے کوئی پابندیِ سخن موجود ہے یا اپنے خیال کو من و عن ( بیبحر ) لفظوں کا جامہ پہنا دینا اور اپنی مرضی کے پیرائے میں بیان کر دینا ہی نثری نظم ہے؟
اساتذہ کرام سے درخواست ہیکہ اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں تا کہ طالبِ ادب مستفید ہو سکیں۔ شکریہ۔

السلام علیکم! ایم اے راجا صاحب۔ نثری نظم پر ڈاکٹر طارق ہاشمی صاحب نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/tariq.hashmi.39?fref=ts
اس پر بھارت سے عبدالسمیع نے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/abdussami0543?fref=ts
اس کے علاوہ اس پر اردو نظم کی تیسری جہت کے نام سے طارق ہاشمی صاحب کی کتاب موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی کتب اور مقالہ جات لکھے جارہے ہیں۔ نثری نظم تیزی سے پروان چڑھتی صنف ہے۔ اس کا جواز بھی ہے اور قبولیت بھی۔ یہی وجہ ہےکہ فیس بک کے اردو فورم نئی روایت جیسے فورمز پر نا صرف اس کے مقابلہ جات کا انتظام کیا جا رہاہے بلکہ سندِ قبولیت بھی بخشی جا رہی ہے۔ لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/
امجد اسلام امجد ہوں یا جمیل الرحمن صاحب۔ کشور ناہید ہوں یا سرور خان سرور۔ سبھی اس میں مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف ڈاکٹر ریاض مجید کے نجی ادارے قرطاس سے اس کی اڑسٹھ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ اس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ جمیل الرحمن صاحب کا لنک یہ ہے۔
https://www.facebook.com/jameel.urrahman.7?fref=ts
اس پر فیصل آباد حلقہ اربابِ ذوق کے تحت جو تنقیدی نشستیں ہوئیں ہیں ان میں سے بیس کے قریب میں بندہ خود شامل رہا ہے باقی نجانے اور کتنی ہوئیں ہوں۔ اس پر لمبی بات اور بحث ہوسکتی ہے۔ جو کہ کچھ لوگوں کو گراں گزرےگی اس لیے ہم علیحدہ سے مکالمہ شروع کرسکتے ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
السلام علیکم! ایم اے راجا صاحب۔ نثری نظم پر ڈاکٹر طارق ہاشمی صاحب نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/tariq.hashmi.39?fref=ts
اس پر بھارت سے عبدالسمیع نے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/abdussami0543?fref=ts
اس کے علاوہ اس پر اردو نظم کی تیسری جہت کے نام سے طارق ہاشمی صاحب کی کتاب موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی کتب اور مقالہ جات لکھے جارہے ہیں۔ نثری نظم تیزی سے پروان چڑھتی صنف ہے۔ اس کا جواز بھی ہے اور قبولیت بھی۔ یہی وجہ ہےکہ فیس بک کے اردو فورم نئی روایت جیسے فورمز پر نا صرف اس کے مقابلہ جات کا انتظام کیا جا رہاہے بلکہ سندِ قبولیت بھی بخشی جا رہی ہے۔ لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/
امجد اسلام امجد ہوں یا جمیل الرحمن صاحب۔ کشور ناہید ہوں یا سرور خان سرور۔ سبھی اس میں مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف ڈاکٹر ریاض مجید کے نجی ادارے قرطاس سے اس کی اڑسٹھ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ اس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ جمیل الرحمن صاحب کا لنک یہ ہے۔
https://www.facebook.com/jameel.urrahman.7?fref=ts
اس پر فیصل آباد حلقہ اربابِ ذوق کے تحت جو تنقیدی نشستیں ہوئیں ہیں ان میں سے بیس کے قریب میں بندہ خود شامل رہا ہے باقی نجانے اور کتنی ہوئیں ہوں۔ اس پر لمبی بات اور بحث ہوسکتی ہے۔ جو کہ کچھ لوگوں کو گراں گزرےگی اس لیے ہم علیحدہ سے مکالمہ شروع کرسکتے ہیں۔
وعلیکم اسلام۔ بہت شکریہ خرم یاسین صاحب
 
السلام علیکم! ایم اے راجا صاحب۔ نثری نظم پر ڈاکٹر طارق ہاشمی صاحب نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/tariq.hashmi.39?fref=ts
اس پر بھارت سے عبدالسمیع نے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کا فیس بک لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/abdussami0543?fref=ts
اس کے علاوہ اس پر اردو نظم کی تیسری جہت کے نام سے طارق ہاشمی صاحب کی کتاب موجود ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی کتب اور مقالہ جات لکھے جارہے ہیں۔ نثری نظم تیزی سے پروان چڑھتی صنف ہے۔ اس کا جواز بھی ہے اور قبولیت بھی۔ یہی وجہ ہےکہ فیس بک کے اردو فورم نئی روایت جیسے فورمز پر نا صرف اس کے مقابلہ جات کا انتظام کیا جا رہاہے بلکہ سندِ قبولیت بھی بخشی جا رہی ہے۔ لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/
امجد اسلام امجد ہوں یا جمیل الرحمن صاحب۔ کشور ناہید ہوں یا سرور خان سرور۔ سبھی اس میں مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف ڈاکٹر ریاض مجید کے نجی ادارے قرطاس سے اس کی اڑسٹھ کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ اس سے اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ جمیل الرحمن صاحب کا لنک یہ ہے۔
https://www.facebook.com/jameel.urrahman.7?fref=ts
اس پر فیصل آباد حلقہ اربابِ ذوق کے تحت جو تنقیدی نشستیں ہوئیں ہیں ان میں سے بیس کے قریب میں بندہ خود شامل رہا ہے باقی نجانے اور کتنی ہوئیں ہوں۔ اس پر لمبی بات اور بحث ہوسکتی ہے۔ جو کہ کچھ لوگوں کو گراں گزرےگی اس لیے ہم علیحدہ سے مکالمہ شروع کرسکتے ہیں۔
جناب شاعری انسان کو لطف اندوز کرنے کے لیے ہوتی ہے اور اس کے لیے بحور اور روانی ضرور ہونی چاہیے ۔
ایسی غزل پڑھنے کا دل نہیں کرتا جس کی بحر شاندار اور روانی بہترین نہ ہو۔نثری شاعری کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ میرے نزدیک تو عوام کی کور ذوقی ہے۔(اگر ایسا واقعی ہو رہا ہے)
 
جناب شاعری انسان کو لطف اندوز کرنے کے لیے ہوتی ہے اور اس کے لیے بحور اور روانی ضرور ہونی چاہیے ۔
ایسی غزل پڑھنے کا دل نہیں کرتا جس کی بحر شاندار اور روانی بہترین نہ ہو۔نثری شاعری کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ میرے نزدیک تو عوام کی کور ذوقی ہے۔(اگر ایسا واقعی ہو رہا ہے)

ریحان قریشی صاحب۔ امکانات سے انکار ممکن نہیں۔ آپ دنیا بھر کی شاعری اٹھا کر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ پابندِ بحور شاعری کی حیثیت کتنی ہے یا اس کی مقدار کتنی ہے۔ نظم میں خواہ یہ نثری ہو یا آزاد کسی ایک خیال کے تحت لکھا جاتاہے، مقصدیت ہوتی ہے جبکہ غزل میں ایسے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ غزل میں محض قافیہ پیمائی میں کسی بات کا سر اور کسی کا پیر جوڑ دینا بھی اچھا نہیں۔بیشترغزلوں میں توبھرتی کے اشعار داخل کرکے محض گنتی پوری کی جاتی ہے۔ میں غزل کے خلاف نہیں، خود غزل کہتا ہوں لیکن حقائق سے بھی منہ نہیں موڑجا سکتا۔
 
آخری تدوین:
ریحان قریشی صاحب۔ امکانات سے انکار ممکن نہیں۔ آپ دنیا بھر کی شاعری اٹھا کر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ پابندِ بحور شاعری کی حیثیت کتنی ہے یا اس کی مقدار کتنی ہے۔ نظم میں خواہ یہ نثری ہو یا آزاد کسی ایک خیال کے تحت لکھا جاتاہے، مقصدیت ہوتی ہے جبکہ غزل میں ایسے امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ غزل میں محض قافیہ پیمائی میں کسی بات کا سر اور کسی کا پیر جوڑ دینا بھی اچھا نہیں۔بیشترغزلوں میں توبھرتی کے اشعار داخل کرکے محض گنتی پوری کی جاتی ہے۔ میں غزل کے خلاف نہیں، خود غزل لکھتا ہوں لیکن حقائق سے بھی منہ نہیں موڑجا سکتا۔
جناب اگر آپ "لکھی" ہوئی غزلیں پڑھیں گے محض تو قافیہ پیمائی ہی ملے گی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
البتہ غزل میں محض قافیہ پیمائی میں کسی بات کا سر اور کسی کا پیر جوڑ دینا بھی اچھا نہیں

مطلب جو بےشمار استاد و غیر استاد شعرا کا کلام موجود ہے وہ سب قافیہ پیمائی ہے؟ کسی بات کر سر اور پیر جوڑا ہوا ہے؟ یا حیرت!!!!!

تاہم جو بھی آپ لکھنا چاہتے ہیں لکھیے بصد شوق لکھیے اگر اس تحریر میں دم خم ہوا تو وہ اپنا آپ خود منوالے گی کسی کو اس کی وکالت نہیں کرنا پڑے گی۔
 
آخری تدوین:
مطلب جو بےشمار استاد و غیر استاد شعرا کا کلام موجود ہے وہ سب قافیہ پیمائی ہے؟ کسی بات کر سر اور پیر جوڑا ہوا ہے؟ یا حیرت!!!!!

دوبارہ پڑھیے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ نظم کسی نقطہ نظر، کسی عنوان کسی موضوع کے تحت لکھی جاتی ہے، مقصدیت اصل چیز ہے۔ اگر نثری نظم اتنی ہی بری ہے تو غزل میں بھی کئی بار محض قافیہ پیمائی اور بھرتی کے اشعار داخل کیے جاتے ہیں، اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں غزل کے خلاف نہیں، پھر کہہ رہا ہوں بات مقصدیت کی ہے۔ اور میں نے جو کہا وہ اس بات کا جواب تھا کہ عوام بد ذوق ہوگئی ہے، ایسا نہیں ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
دوبارہ پڑھیے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ نظم کسی نقطہ نظر، کسی عنوان کسی موضوع کے تحت لکھی جاتی ہے، مقصدیت اصل چیز ہے۔ اگر نثری نظم اتنی ہی بری ہے تو غزل میں بھی کئی بار محض قافیہ پیمائی اور بھرتی کے اشعار داخل کیے جاتے ہیں، اس بارے میں کیا خیال ہے؟ میں غزل کے خلاف نہیں، پھر کہہ رہا ہوں بات مقصدیت کی ہے۔ اور میں نے جو کہا وہ اس بات کا جواب تھا کہ عوام بد ذوق ہوگئی ہے، ایسا نہیں ہے۔
تاہم جو بھی آپ لکھنا چاہتے ہیں لکھیے بصد شوق لکھیے اگر اس تحریر میں دم خم ہوا تو وہ اپنا آپ خود منوالے گی کسی کو اس کی وکالت نہیں کرنا پڑے گی۔

آپ سونار کی دکان پر لوہا بیجنا چاہتے ہیں یا لوہار کی دکان پر سونا یہ دونوں ہی کام درست نہیں۔ جو جہاں مروج یا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اسے وہیں پر پیش کیا جانا ہی بہتر ہے
 
کوئی نثری نظم اگر آپ دکھائیں جس میں مضامین میر و غالب کے ہم پلہ ہوں تو شاید میں آپ کی بات مان لوں۔

مجھے اپنی بات منوانے کا کوئی شوق نہیں، یہ وسیع مطالعے کی بات ہے۔ آپ بھی میر و غالب کا کوئی خیال ایسا نہیں دکھا سکتے جو ان سے پہلے موجود نا ہو۔ بات صرف اتنی ہے کہ یہ اردو ادب میں نیا اضافہ ہے اور غزل ارتقا کی انتہائی منازل پر ہے، آپ ان دونوں کا موازنہ کیسے کر سکتے ہیں؟ رہی بات میر و غالب کی تو نثری نظم میں جو لوگ میر و غالب کے رتبے کو پہنچیں گے ان ہی سے موازنہ کیا جائے گا۔
 
Top