نئی صدی کا پیغام

جی مشورہ تو ہے مگر لگتا نہیں قابلِ قبول ہو گا۔ میرے خیال میں آپ راجا تخلص ہی بدل لیں۔ آپ ما شاء اللہ اچھی شاعری کرتے ہیں، لیکن لفظ 'راجا' بحیثیتِ تخلص کم از کم مجھ سے کم ذوق کے کانوں کو تو بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک سبب شاید یہ ہے کہ یہ لفظ خالص ہندی کا ہے۔ آگے آپ کی مرضی ہے اور یہ صرف میری رائے اور مشورہ ہے۔ آپ با اختیار ہیں۔ اگر مشورہ پسند نہ آیا ہو پہلے ہی معافی بھی چاہتا ہوں۔


منیب بھیا! مشورہ بہت اچھا دیا آپ نے، اور معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، ہم سب یہاں اسی لئے تو اکھٹے ہوئے ہیں کہ ہم میں کچھ بہتری آسکے، آپ کا مشورہ قبول کرتا ہوں، قابلِ عمل ہونے کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا، کافی مشکل فیصلہ ہوگا، آپ سمجھ سکتے ہیں۔
یہاں میں استادِ محترم @الف عین صاحب کا مشورہ لینا انتہائی ضروری سمجھتا ہوں۔
پہلے میرا تخلص مضطر تھا، معلوم ہوا کہ میرے علاقے (مانسہرہ) میں ایک اور شاعر بھی یہ تخلص استعمال کر رہے ہیں، اس لئے احباب نے تخلص بدلنے کا مشورہ دیا۔ میرا ارادہ بنا کے "کاوش" تخلص کرلوں لیکن چونکہ دوستوں میں راجہ کے نام سے مشہور ہوں اور یہ تخلص (میرے خیال میں) کبھی کسی نے استعمال بھی نہیں کیا تودوستوں کے بھرپور اسرار پر راجا تخلص رکھ لیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اس تخلص کے ساتھ ایک کتاب بھی چھپ چکی ہے "اضطراب" کے نام سے، اب ایسی صورت میں تخلص بدلنا ٹھیک ہوگا؟ اس بارے میں مجھے استادِ محترم الف عین کی رہنمائی چاہیئے۔ الف عین۔
 
راجا تخلص ہے اس لئے اس کے ساتھ اضافت لگائی جا سکتی ہے، اس ‘جانِ راجا‘ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ویسے یہ اصلاح سخن میں تو نہیں ہے، لیکن پھر بھی اس کے مطلع میں ردیف دونوں مصرعوں میں درست نہیں لگ رہی ہے مجھے۔
استادِ محترم منیب بھیا کا مشورہ اور میرا جواب پڑھنے کے بعد رہنمائی فرمادیں۔ اور مطلع بھی درست فرما دیں، اصلاحِ سخن کسی فورم کی پابند تو نہیں نا :)
 
بہت خوبصورت تخلیق مبارکباد قبول کیجیے(حالانکہ آپ نے ہمیں دعوت نہیں دی تھی:) )
بہت نوازش عبدالقدوس بھیا، آپ ہمیشہ اپنے آپ کو مدعو سمجھیں، مسئلہ کچھ ایسا بھی ہے کہ 10 دوستوں سے زیادہ ٹیگ کرنی کی سہولت میسر نہیں اس لئے آپ جیسے کرم فرما دوستوں تک دعوت پہنچنے میں دشواری ہو جاتی ہے، اس کا حل یہ ہے کہ میں آپ کو ایڈوانس میں میرے تمام دھاگوں کی دعوت پیش کرتا ہوں۔ شکریہ
 

ساجد

محفلین
بہت نوازش عبدالقدوس بھیا، آپ ہمیشہ اپنے آپ کو مدعو سمجھیں، مسئلہ کچھ ایسا بھی ہے کہ 10 دوستوں سے زیادہ ٹیگ کرنی کی سہولت میسر نہیں اس لئے آپ جیسے کرم فرما دوستوں تک دعوت پہنچنے میں دشواری ہو جاتی ہے، اس کا حل یہ ہے کہ میں آپ کو ایڈوانس میں میرے تمام دھاگوں کی دعوت پیش کرتا ہوں۔ شکریہ
اس کا ایک حل یہ ہے کہ ایک مراسلہ بھیجنےکے بعد اگر دیگر مراسلے بھی اسی زمرے میں بھیج رہے ہیں تو ہر مراسلے میں نئے لوگوں کا ٹیگ لگا دیجئے اور پھر مراسلات کو تدوین کر کے ٹیگز ختم بھی کر دیں گے تو متعلقہ لوگوں کو اطلاع مل چکی ہو گی۔
 
اس صدی کو چاہیئے اک صاحبِ کردار اُٹھ
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اُٹھ

ظلمتوں نے کردیا انسان کو لاچار اُٹھ
ظلمتوں میں پھر مثالِ حیدرِکرار اُٹھ

نعرہِ تکبیر ہے طاقت ترے ایمان کی
اے مسلماں جذبہءِ ایمان سے سرشار اُٹھ

ساری دنیا کو دکھا دے قوتِ ایمان پِھر​
تیری خاطر آتشِ نمرود ہے تیار اُٹھ​

ظلمتوں سے جنگ کر ہتھیار تیرے پاس ہیں​
ڈھال ہے کردار کی، ایمان کی تلوار اُٹھ

اُٹھ کہ پھر تسخیر کر ہمت سے ساری کائنات​
لے نہ جائیں تجھ سے بازی پھر تیرے اغیار اُٹھ​

دین کی خاطر مشقت فرض ہے، اک قرض ہے​
توڑ دے ہر جامِ عشرت، چھوڑ دے گلزار اُٹھ​

در پہ دستک دے رہی ہے یہ صدی کچھ ہوش کر​
پھر نہ کہنا ہو نہ پائے نیند سے بیدار اُٹھ​

زندگی کی مشکلوں کے سامنے جھک جائے تُو​
جانِ راجا! تُو نہیں ہے اس قدر لاچار اُٹھ​
لال: معیوب، سیاہ: ٹھیک، نیلا: خوب
چونکہ ردیف 'اٹھ' ہے جو کہ فعلَ امر ہے سو جب تک آپ اشعار میں سامع کو مخاطب نہیں کریں گے، مصرعے معیوب ہوں گے۔ کیونکہ حکم تو مخاطب و حاضر کو دیا جاتا ہے۔ لال رنگ کے مصرعے دیکھیں۔ مثلا:
اس صدی کو چاہیئے اک صاحبِ کردار اٹھ
گویا پہلے آپ ایک بات بتا رہے ہیں کہ اس صدی کو اک صاحبِ کردار چاہیئے پھر آپ اچانک کہہ دیتے ہیں "اٹھ"۔ کون اٹھے؟
اس کے مقابلے میں یہ مصرعہ دیکھیں:
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اٹھ
آپ نے تیرے کا لفظ استعمال کر کے گویا سامع کو متوجہ کیا ہے تو ایسے مصرعے بہتر اور قابلِ قبول معلوم ہوتے ہیں۔ اور جب آپ حرفِ ندا کو استعمال کریں گے تو شعر کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ جیسے:
اے مسلماں جذبہ ایمان سے سرشار اٹھ
دیکھئے مزا آ گیا۔ ردیف کا حق ادا ہو گیا۔ (ویسے یہاں جذبہ ایمان صحیح نہیں)
محترم الف عین صاحب نے بھی شاید اسی وجہ سے مطلعوں کو ناپسند کیا ہے۔
 

عمراعظم

محفلین
واہ ! ماشا اللہ ،راجا صاحب۔۔۔ آپ نے جو پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے وہ صرف داد کی طالب نہیں ہے بلکہ جذب کی بھی متقاضی ہے۔
 
لال: معیوب، سیاہ: ٹھیک، نیلا: خوب
چونکہ ردیف 'اٹھ' ہے جو کہ فعلَ امر ہے سو جب تک آپ اشعار میں سامع کو مخاطب نہیں کریں گے، مصرعے معیوب ہوں گے۔ کیونکہ حکم تو مخاطب و حاضر کو دیا جاتا ہے۔ لال رنگ کے مصرعے دیکھیں۔ مثلا:
اس صدی کو چاہیئے اک صاحبِ کردار اٹھ
گویا پہلے آپ ایک بات بتا رہے ہیں کہ اس صدی کو اک صاحبِ کردار چاہیئے پھر آپ اچانک کہہ دیتے ہیں "اٹھ"۔ کون اٹھے؟
اس کے مقابلے میں یہ مصرعہ دیکھیں:
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اٹھ
آپ نے تیرے کا لفظ استعمال کر کے گویا سامع کو متوجہ کیا ہے تو ایسے مصرعے بہتر اور قابلِ قبول معلوم ہوتے ہیں۔ اور جب آپ حرفِ ندا کو استعمال کریں گے تو شعر کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ جیسے:
اے مسلماں جذبہ ایمان سے سرشار اٹھ
دیکھئے مزا آ گیا۔ ردیف کا حق ادا ہو گیا۔ (ویسے یہاں جذبہ ایمان صحیح نہیں)
محترم الف عین صاحب نے بھی شاید اسی وجہ سے مطلعوں کو ناپسند کیا ہے۔

منیب بھیا! بہت مہربانی کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا، اور آج کا سبق انشاءاللہ آگے لکھے جانے والے ہر کلام میں یاد رہے گا، جزاک اللہ
جب اتنی مہربانی فرما دی ہے تو لال رنگ کے مصرعوں کو نیلے رنگ لانے کی تکلیف بھی اٹھا ہی لیں، میں تو کہوں گا ک کالے رنگ کا کیا کام، سارا نیلا ہی کردیں :) (الفاظ کی تبدیلی سے)
استادِمحترم الف عین صاحب کی نظرِکرم کا شدت سے منتظر ہوں۔ استادِ محترم م م م م م م م م م !
 
؎
منیب بھیا! بہت مہربانی کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا، اور آج کا سبق انشاءاللہ آگے لکھے جانے والے ہر کلام میں یاد رہے گا، جزاک اللہ
جب اتنی مہربانی فرما دی ہے تو لال رنگ کے مصرعوں کو نیلے رنگ لانے کی تکلیف بھی اٹھا ہی لیں، میں تو کہوں گا ک کالے رنگ کا کیا کام، سارا نیلا ہی کردیں :) (الفاظ کی تبدیلی سے)
لال کو سیاہ یعنی ٹھیک کر سکتا ہوں لیکن نیلا یعنی خوب کرنا تو میری قدرت میں نہیں، خیر چند ایک اشعار دیکھئے:

ہو کے اے غافل جہاں میں صاحبِ کردار اٹھ
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اٹھ

کب تلک ضعفِ یقیں او بندہِ لاچار اُٹھ​
ظلمتوں میں پھر مثالِ حیدرِکرار اُٹھ​

ظالموں سے جنگ کر ہے ڈھال بھی کردار کی
اور لئے تو ہاتھ میں ایمان کی تلوار اٹھ

در پہ دستک دے رہی ہے یہ صدی کچھ ہوش کر​
جلد ہو کر نیند سے بیدار اے بیکار اٹھ

زندگی کی مشکلوں کے سامنے جھک جائے تُو​
جانِ امجد! تُو نہیں ہے اس قدر لاچار اُٹھ​
 
؎لال کو سیاہ یعنی ٹھیک کر سکتا ہوں لیکن نیلا یعنی خوب کرنا تو میری قدرت میں نہیں، خیر چند ایک اشعار دیکھئے:

ہو کے اے غافل جہاں میں صاحبِ کردار اٹھ
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اٹھ

کب تلک ضعفِ یقیں او بندہِ لاچار اُٹھ​
ظلمتوں میں پھر مثالِ حیدرِکرار اُٹھ​

ظالموں سے جنگ کر ہے ڈھال بھی کردار کی
اور لئے تو ہاتھ میں ایمان کی تلوار اٹھ

در پہ دستک دے رہی ہے یہ صدی کچھ ہوش کر​
جلد ہو کر نیند سے بیدار اے بیکار اٹھ

زندگی کی مشکلوں کے سامنے جھک جائے تُو​
جانِ امجد! تُو نہیں ہے اس قدر لاچار اُٹھ​

بہت خوب فاتح بھیا! آپ کے قیمتی مشورے کا شکریہ
 
اس صدی کو چاہیئے اک صاحبِ کردار اُٹھ
اس صدی کی رہبری تیرے لئے تیار اُٹھ

ظلمتوں نے کردیا انسان کو لاچار اُٹھ
ظلمتوں میں پھر مثالِ حیدرِکرار اُٹھ

نعرہِ تکبیر ہے طاقت ترے ایمان کی
اے مسلماں جذبہءِ ایمان سے سرشار اُٹھ

ساری دنیا کو دکھا دے قوتِ ایمان پِھر
تیری خاطر آتشِ نمرود ہے تیار اُٹھ

ظلمتوں سے جنگ کر ہتھیار تیرے پاس ہیں
ڈھال ہے کردار کی، ایمان کی تلوار اُٹھ

اُٹھ کہ پھر تسخیر کر ہمت سے ساری کائنات
لے نہ جائیں تجھ سے بازی پھر تیرے اغیار اُٹھ

دین کی خاطر مشقت فرض ہے، اک قرض ہے
توڑ دے ہر جامِ عشرت، چھوڑ دے گلزار اُٹھ

در پہ دستک دے رہی ہے یہ صدی کچھ ہوش کر
پھر نہ کہنا ہو نہ پائے نیند سے بیدار اُٹھ

زندگی کی مشکلوں کے سامنے جھک جائے تُو
جانِ راجا! تُو نہیں ہے اس قدر لاچار اُٹھ
ماشاء اللہ !
بہت عمدہ پیغام ،زبردست فکری سوچ ۔
 
Top