کاشفی

محفلین
غزل
(انور مرزا پوری)
میں تو سمجھا تھا جس وقت مجھ کو وہ ملیں گے تو جنت ملے گی
کیا خبر تھی رہِ عاشقی میں ساتھ اُن کے قیامت ملے گی


میں نہیں جانتا تھا کہ مجھ کو یہ محبت کی قیمت ملے گی
آنسوؤں کا خزانہ ملے گا، چاکِ دامن کی دولت ملے گی


پھول سمجھے نہ تھے زندگانی اس قدر خوبصورت ملے گی
اشک بن کر تبسم ملے گا، درد بن کر مسرت ملے گی


میری رسوائیوں پہ نہ خوش ہو، میری دیوانگی کو دعا دو
تم کو جتنی بھی شہرت ملے گی صرف میری بدولت ملے گی


دل ہمارا نہ توڑو خدارا، ورنہ کھو دو گے اپنا سہارا
ذرّے ذرّے میں اس آئینے کے تم کو اپنی ہی صورت ملے گی


اُن کے رُخ سے نقاب آج اُٹھے گی، اب نظاروں کی معراج ہوگی
ایک مدّت سے آج اہلِ غم کو مُسکرانے کی مہلت ملے گی


کیسے ثابت قدم وہ رہے گا، اس کی توبہ کا کیا حال ہوگا
جس کو سُنتے ہیں شیخِ حرم سے مے کشی کی اجازت ملے گی
 
Top