واصف میں آرزوئے دید کے کِس مرحلے میں ہوں --- واصف علی واصف

الف نظامی

لائبریرین
میں آرزوئے دید کے کِس مرحلے میں ہوں
خود آئینہ ہوں یا میں کسی آئینے میں ہوں

رہبر نے کیا فریب دیئے ہیں مجھے نہ پوچھ
منزل پہ ہوں نہ اب میں کسی راستے میں ہوں

اِس دم نہیں ہے فرق ، صبا و سموم میں
اِحساس کے لطیف سے اِک دائرے میں ہوں

تیرے قریب رہ کے بھی تھا تجھ سے بے خبر
تجھ سے بچھڑ کے بھی میں تیرے رابطے میں ہوں

ہر شخص پوچھتا ہے میرا نام کِس لیے
تیری گلی میں آ کے عجب مخمصے میں ہوں

میں کِس طرح بیاں کروں حرفِ مدعا
جِس مرحلے میں کل تھا اُسی مرحلے میں ہوں

واصف مجھے ازل سے ملی منزلِ ابد
ہر دور پر محیط ہوں جِس زاویے میں ہوں

واصف علی واصف
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ شئیر کرنے کے لئے۔ پہلے مصرع میں د کی بجائے و ڈال دیجیے۔
اِس دم نہیں ہے فرق ،صبا و سموم میں
 

جیلانی

محفلین
ماشا ء اللہ ۔۔۔۔سخنور ۔۔۔۔ نگاہ خوب کام کرتی ہے اللہ اس میں مزید ترقی دےاور سو سال بعد بھی ایسے ہی دیکھا کرے :)
بہت شکریہ شئیر کرنے کے لئے۔ پہلے مصرع میں د کی بجائے و ڈال دیجیے۔
اِس دم نہیں ہے فرق ،صبا و سموم میں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
رہبر نے کیا فریب دیئے ہیں مجھے نہ پوچھ
منزل پہ ہوں نہ اب میں کسی راستے میں ہوں

واہ۔ عمدہ انتخاب۔
شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
فاخر رضا
جس کسی کو کوئی منزل ملتی ہے وہ عطا کرنے والے سے ملتی ہے۔ شعر میں ملنے کا ذکر ہے۔ اور عطا کرنے والا ازل سے بھی پہلے موجود تھا۔ وہ ازل اور ابد کا خالق ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
واصف مجھے ازل سے ملی منزلِ ابد
ہر دور پر محیط ہوں جِس زاویے میں ہوں
یہاں شاعر واصف کہ رہے ہیں کہ ازل یعنی کائنات کی ابتدا کے وقت مجھے ابد یعنی اس کائنات کی آخری حد ملی. اگلے مصرعہ میں اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہ رہے ہیں کہ میرے لئے ماضی حال مستقبل سب ایک ہیں اور میں سب پر محیط ہوں یعنی ان کا احاطہ کرتا ہوں
بنیادی طور پر یہ خصوصیات خداوند عالم کی ہیں.
بہت سے شعراء وحدت الوجود کے قائل ہیں اور اپنے اشعار میں اسکا اظہار کھل کر اور اشاروں کنایوں میں کرتے رہے ہیں
 

فاخر رضا

محفلین
فاخر رضا
جس کسی کو کوئی منزل ملتی ہے وہ عطا کرنے والے سے ملتی ہے۔ شعر میں ملنے کا ذکر ہے۔ اور عطا کرنے والا ازل سے بھی پہلے موجود تھا۔ وہ ازل اور ابد کا خالق ہے۔
معذرت کے ساتھ میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا. یہ نہیں کہ آپ غلط کہ رہے ہیں. آپ بالکل ٹھیک کہ رہے ہیں مگر یہاں شاعر کا یہ مطلب نہیں ہے.
 

الف نظامی

لائبریرین
یہاں شاعر واصف کہ رہے ہیں کہ ازل یعنی کائنات کی ابتدا کے وقت مجھے ابد یعنی اس کائنات کی آخری حد ملی. اگلے مصرعہ میں اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہ رہے ہیں کہ میرے لئے ماضی حال مستقبل سب ایک ہیں اور میں سب پر محیط ہوں یعنی ان کا احاطہ کرتا ہوں
بنیادی طور پر یہ خصوصیات خداوند عالم کی ہیں.
بہت سے شعراء وحدت الوجود کے قائل ہیں اور اپنے اشعار میں اسکا اظہار کھل کر اور اشاروں کنایوں میں کرتے رہے ہیں
کائنات کی ابتدا کے "وقت" کچھ ملنا خداوند عالم کی خصوصیت نہیں ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
ابد اور ازل خدا کے لیے absolute terms میں ممکن نہیں. اس کے لئے ابتدا اور انتہا نہیں کیونکہ
وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا
رہ گیا بندہ تو اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ eternal ہوجائے. اس کا واحد راستہ خدا میں ضم ہونا ٹھہرا لہٰذا انسان کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی نظریے کا سہارا لے کر (یہاں وحدت الوجود) خود کو ازل اور ابد سے جوڑتا ہے
 
Top