میاں ، بیوی اور وہ ۔۔۔ !

باذوق

محفلین
میاں ، بیوی اور وہ ۔۔۔ !
ادب ، نقاد اور جنس ۔۔۔ !

مرزا نے کہا :
"یہ بتاؤ کہ تمہیں کتاب میں الزبتھ نظر آئی ، جوڈی اور باربرا دکھائی دیں ، مگر کیا وجہ ہے کہ کسی مرد پر نگاہ نہیں ٹھہری؟
مثلاً وہ پنڈی والے جناب خونخوار ، وہ کراچی والے آغا میخوار ، وہ تاج محل والے یوسفی ، وہ جہاں گرد ابن انشا ، وہ کالے چشمے والے حکیم محمد سعید ، وہ انگلستان والے گولڈہل ، میجر جیٹکن اور کرنل کومب ، وہ استنبول والے چچا چقماگلو ، وہ ایران والے پرویز اعتمادی اور بھائی کرپال سنگھ اور وہ پاکستان والے اپنے سید ضمیر جعفری ۔۔۔ یہ بیسیوں ہٹے کٹے مرد ۔۔۔ کیا انہیں دیکھنے کے لیے تمہیں خوردبیں درکار تھی ؟"
۔۔۔۔۔۔
مرزا نے گفتگو جاری رکھیں ۔۔۔
"دیکھو خارش ! کبھی کسی کتاب میں عورت کا ذکر آ جائے تو تم چلا اٹھتے ہو کہ مصنف کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ مرد اور عورت کے درمیان ازلی اور فطری رشتہ ہے یا نہیں؟"
تابش بولے : "ہے۔"
"اور یہ بھی مانتے ہو کہ فطرت ہی نے انہیں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہونے کے احساس دے رکھا ہے؟"
"بالکل مانتے ہیں ۔۔۔"
"اور یہ کہ اس کلیہ سے دنیا کی محترم ترین ہستیاں بھی مستثنیٰ نہیں؟"
"یہ بھی درست ہے۔"
"اگر یہ سب درست ہے تو گستاخی معاف ، خارش میاں ، جس مرد کے اعصاب پر عورت سوار نہیں وہ یا تو نامرد ہے اور یا جھوٹا ہے۔"

ہرچند کہ مرزا کی دلیل جاندار تھی ، تاہم جن الفاظ میں بیان کی گئی تھی ، ضرورت سے زیادہ جاندار تھے اور نقص امن کا اندیشہ تھا۔ میں نے مرزا کا بازو تھاما اور کہا :
"شانتی ، مرزا ، شانتی !"
مرزا بولے :
ان سخت الفاظ کی معافی چاہتا ہوں کہ بقول اقبال
گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

تابش بولے:
"لو ، یہ بےاعتدالی بھی اقبال کے کھاتے میں گئی۔ یہ اندازِ گفتگو اور گلہ کرتے ہو نقادوں کا؟"
"صرف تم جیسے بےاصول نقادوں کا۔ ورنہ شائستہ ناقدین کو تو سلام کرتا ہوں۔"
"یہ شائستہ نقاد بھلا کیا جنس ہوتی ہے خفقان میاں؟ اس کی پہچان؟"
"شائستہ نقاد کی پہچان ، میرے پیارے خارش ، یہ ہوتی ہے کہ وہ مصنف سے اختلاف تو کرتا ہے ، مگر اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ یعنی اس کی تنقید ہمدردانہ ہوتی ہے ، مخاصمانہ نہیں ہوتی۔ اب سمجھے ہو اختلاف اور مخالفت کا فرق یا ڈکشنری لا دوں؟"
"تو میں نے کیا مخالفت کی ہے؟"
"کسی کو کہنا کہ تمہارا یہ فعل شنیع ہے، فلاں حرکت قبیح ہے، تم پر فلاں شے سوار ہے۔ کیا یہ قصیدے کے بند ہیں؟ کیا کسی کو شریعت کورٹ میں لے جانا پیار کی علامت ہے؟"
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرزا تابش کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر اچانک مجھ سے سوال پوچھا :
"کرنل صاحب۔ خارش نے ابھی کہا تھا کہ آپ کی "بجنگ آمد" تو اچھی خاصی کتاب تھی ، مگر "بسلامت روی" لکھ کر آپ نے عزت سادات گنوا دی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟"
کہا :
"مرزا ، بطور مصنف تو میں سمجھتا ہوں کہ اسلوب بیان اور اندازِ فکر کے اعتبار سے 'بسلامت روی' ، 'بجنگ آمد' سے بہتر ہے۔
لیکن 'بسلامت روی' کی کچھ باتیں جو صیغہ واحد متکلم میں لکھے جانے کی وجہ سے خود ستائی سی لگتی ہیں، بعض نقاد دوستوں کو خوش نہیں آئیں۔ مثلاً ۔۔۔
باربرا ، ، مسز 'ش' اور جوڈی وغیرہ سے ہمارے مکالمات و معاملات۔
اگر یہی باتیں ہم اپنی جگہ کسی اصلی یا فرضی دوست کے کھاتے میں ڈال دیتے تو یہی نقاد دوست ہماری خوش بیانی کی داد دیتے۔ آخر 'بجنگ آمد' میں بھی ایسے ہی مکالمات اور معاملات تھے مگر وہ تمام تر ورما ، انکل ن اور دوسرے دوستوں سے منسوب تھے اور ہمیں محض خوش بیان راوی سمجھ کر نقادوں نے سونے کا تمغہ بخش دیا ۔۔۔ یہ سارا کام صیغہ واحد متکلم یعنی 'میں' نے خراب کیا ہے۔"

"یہ صیغوں والی بات آپ نے بالکل ٹھیک کہی"
مرزا نے پُرجوش تائید کی۔
"افسانہ نویسوں کو ، جو بیشتر صیغہ غائب میں لکھتے ہیں ، یہ خارش برادری سب کچھ معاف کر دیتی ہے۔ ایک افسانہ نگار ایک خوبصورت ہیروئین کو ایک زشت رو اجنبی کے ساتھ اُٹھا ، بٹھا بلکہ بھگا بھی سکتا ہے مگر نقادوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آخر یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ ہر روز کی واردات ہے۔ چلیں یوں ہی سہی۔
مگر ایک سفرنامہ نگار دورانِ سفر کسی لڑکی سے ہنس کر بات کرنے کا تذکرہ بھی کر بیٹھے تو اسے غیرشرعی فعل سمجھتے ہیں کہ مصنف صیغہ واحد متکلم میں بزبان خود اقرارِ گناہ کر رہا ہے۔
چنانچہ خارش ایسے نقادوں سے اگر مستنصر حسین تارڑ کو 100 میں سے 100 نمبر لینے ہیں تو اسے چاہئے کہ کسی ہسپانوی حسینہ کو دیکھتے ہی دو رکعت نفل نیت لے ورنہ اگر اس نے لڑکی کو ہیلو کہہ دیا تو مستنصر کا کردار مشکوک ہے اور عاقبت مخدوش۔
ادھر منٹو اپنے افسانے میں کسی رئیس زادی کو اس کے نوکر کے بستر میں سلائے رکھے تو یہ زندگی ہے ، آرٹ ہے ، لیکن کوئی رقیق القلب زولا سفر فرانس کے تھکے ہارے مسافر عطاالحق قاسمی کی کمر مل دے اور وہ اس واقعہ کو اپنے سفرنامے میں چند خوبصورت جملوں میں بیان کر دے تو یہ آرٹ نہیں ، زندگی بھی نہیں ۔۔۔ فحاشی ہے !
ہماری اردو کی ایک مشہور افسانہ نویس اور ناول نگار خاتون ہیں جن کی کسی ہیروئین کی عصمت ان کے قلم سے محفوظ نہیں اور اگر ان کی تمام تر متاثرہ ہیروئینوں کو حساب میں لیا جائے تو مصنفہ نے عصمت دریوں کی سنچری مکمل کر لی ہے ، لیکن آج تک کسی ادبی امپائر کو توفیق نہیں ہوئی کہ اپنی انگلی اٹھا کر محترمہ کو ایل بی ڈبلیو قرار دے دے۔
اس کے برعکس جب محمد کاظم نے اپنے سفرنامے میں لکھا کہ میں جرمنی میں ایک مخلوط کیو میں کھڑا تھا کہ پشت پر دو نرم ابھاروں کا لمس محسوس ہوا ۔۔۔ تو جملہ ناقدین کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے اور محمد کاظم کو عریاں نویسی کے طعنے دینے لگے۔
الغرض یہ خارشی نقاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "

---------
اقتباسات بحوالہ مضمون : مصنف بیتی
"بزم آرائیاں" - کرنل محمد خان

کمپوزنگ : باذوق
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم
مراسلہ نگار نے درج بالا مراسلہ تو ہمت کر کے پوسٹ کر دیا مگر اب سوچ رہا ہے کہ واردانِ بیٹھکِ ادبِ مردانہ یا پھر بقول کرنل خان، خارشی نقاد برادری کہیں مراسلے کے "تیز و تند" فقروں کو بطور اقتباس لگا کر یہ نہ کہنا شروع کر دے کہ حضور یہ کیا خلافِ شرع حرکت کر ڈالی؟ آپ تو اچھے بھلے عزت سادات کے ساتھ براجمان تھے اسلامیات کے سیکشن میں۔۔۔
اور کہیں برادرم نبیل سلمہ حساب بےباق کرنے کی خاطر یہ نہ مشورہ دے ڈالیں کہ جناب محترم ، اگر اس قدر کھل کر لکھنے کی جراءت پیدا کر ہی لی تو کوئی نئی آئی-ڈی بنا لی ہوتی مثلاً بقول دلاور فگار "عاشق ناشاد" (فیڈرل ون بی ایریا۔۔۔) ;) وغیرہ۔

عرض خدمت ہے کہ بقول عادل بھائی (عادل-سھیل) یہ راقم کے دورِ جاہلیت کا مطالعہ ہے (اب بھی کبھی دورۂ جاہلیت اگر پڑتا ہے تو یہ ایک قطعاً مختلف فیہ معاملہ ہے اس کا شرعی مباحث سے بہرحال کوئی تعلق نہیں بنتا ;) )۔ اور یہ تحریر بھی کوئی چار پانچ برس قبل کی اِن پیج کمپوز شدہ ہے جب ایک فورم کے ہمارے ادب دوست ساتھی نے شعر و ادب سیکشن میں ابن صفی پر سلسلہ وار تحاریر کی پیشکشی دیکھ کر احتجاج کیا تھا کہ حضور آپ نے اسلامیات کے بالمقابل اردو ادب کے ساتھ سوتیلانہ رویہ روا رکھ کر انصاف نہیں کیا ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
تو پندرہ بیس مراسلے کمپوز کر ڈالے تھے مگر ان میں سے چند کو پوسٹ کرنے کی ہمت مردانہ جراءتِ رندانہ پیدا نہ ہو سکی۔ لہذا اب اس بیٹھکِ مردانہ میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
گرقبول افتد ۔۔۔۔۔ ;) :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
باذوق، آپ بلاوجہ گھبرا رہے ہیں، اور میرے خیال میں تو اس تحریر کو پسندیدہ تحاریر میں بھی پوسٹ کیا جا سکتا تھا۔ بحرحال باقی دوست کی آراء کا انتظارکرتے ہیں۔
 

باذوق

محفلین
محمد وارث ، سخنور ، الف عین صاحبان کے تاثرات کا انتظار ہے کہ ۔۔۔۔
کرنل محمد خان نے اس مضمون میں اردو ادب کے نقادان کی جو کھنچائی کی ہے کیا وہ واقعی میں سچ اور قابلِ غور ہے؟
ویسے میرا مطالعہ تو اسے حقیقت ہی سمجھتا ہے اور اردو کے نقاد حضرات کا یہ دہرا رویہ اب تک بھی میرے لیے حیرت انگیز رہا ہے۔
جس خاتون مصنفہ کا ذکر ہے ، میرے خیال سے یہاں‌ عصمت چغتائی کی جانب اشارہ ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور محترمہ ہیں ممبئی سے۔ شائد آج انہیں کم ہی لوگ جانتے ہوں۔ واجدہ تبسم ! یہ اپنی " نتھ سیریز" کے حوالے سے کافی مشہور رہی ہیں۔ حیدرآبادی (دکن) نوابی ماحول کو انہوں نے خوب برتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں نے اب پڑھا ہے کہ آپ اسے اپنے دور۔۔۔ سے شمار کرتے ہیں۔
اور میں سمجھ رہا تھا کہ شاید ذہنی بلوغت کی جانب رواں دواں ہیں۔ :grin:
 

باذوق

محفلین
میں نے اب پڑھا ہے کہ آپ اسے اپنے دور۔۔۔ سے شمار کرتے ہیں۔
اور میں سمجھ رہا تھا کہ شاید ذہنی بلوغت کی جانب رواں دواں ہیں۔ :grin:
ذہنی بلوغت ۔۔۔ ہاہاہا
دورِ جاہلیت ۔۔۔۔ دراصل ایک مخصوص استعارہ ہے عادل بھائی حفظہ اللہ کی بیٹھکوں کے درمیان کا۔ جب عبداللہ حیدر بھائی کی رگِ شعرانہ پھڑکتی تھی تو ایک آدھ چبھتا ہوا رومانی شعر سنجیدہ گفتگو میں دخل در معقولات کر دیتے تھے کہ حضرت شادی کے لئے پر تول رہے تھے (اب تو ہو بھی گئی ہے) ۔۔۔۔ اور جواب میں ہم سنتے تھے کہ یہ کیا دورِ جاہلیت کا تماشہ لے بیٹھے؟ :)
یہ الگ بات ہے کہ یہی دورِ جاہلیت کا بخار باحثین پر چڑھ جاتا اگر کسی بہانے عمران نوازی کا ذکر چل نکلتا ۔۔۔ :grin:
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث ، سخنور ، الف عین صاحبان کے تاثرات کا انتظار ہے کہ ۔۔۔۔
کرنل محمد خان نے اس مضمون میں اردو ادب کے نقادان کی جو کھنچائی کی ہے کیا وہ واقعی میں سچ اور قابلِ غور ہے؟
ویسے میرا مطالعہ تو اسے حقیقت ہی سمجھتا ہے اور اردو کے نقاد حضرات کا یہ دہرا رویہ اب تک بھی میرے لیے حیرت انگیز رہا ہے۔
جس خاتون مصنفہ کا ذکر ہے ، میرے خیال سے یہاں‌ عصمت چغتائی کی جانب اشارہ ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور محترمہ ہیں ممبئی سے۔ شائد آج انہیں کم ہی لوگ جانتے ہوں۔ واجدہ تبسم ! یہ اپنی " نتھ سیریز" کے حوالے سے کافی مشہور رہی ہیں۔ حیدرآبادی (دکن) نوابی ماحول کو انہوں نے خوب برتا ہے۔

دیکھیے مزاح نگاروں یا سفرنامہ نگاروں نے اکثر اس موضوع کو اٹھایا ہے، کرنل صاحب نے تو افسانہ اور سفر نامہ وغیرہ کی تقسیم کی ہے جبکہ (شاید) یوسفی اس سے بھی آگے نثر اور نظم کی تقسیم کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ شعر میں جو بات دھڑلے سے کہہ دی جاتی ہے وہی اگر نثر میں رقم کر دی جائے تو نقاد تو بعد میں، پہلے گھر والے ہی سر پھاڑ دیں گے۔

لیکن قربان جایئے جوش کے کہ 'یادوں کی برات' لکھ کر سب کا منہ بند کر دیا ہے۔

واجدہ تبسم کے بارے میں آپ نے بجا لکھا، کبھی یہ خاکسار بھی انکے افسانے فقط تلذذ کیلیے پڑھتا تھا لیکن کوئی باشعور انہیں پڑھے تو اس میں گہری حقیقتیں اور سچائیاں بیان ہوئی ہیں! کسی کا ایک لطیفہ یاد آ گیا کہ ایک امریکی ناشتے میں جوس پسند کرتا ہے، انگریز چائے، فرنچ کافی، اور نواب صاحب دوشیزہ! اور انہیں نواب صاحبان کی شبینہ وارداتوں کو افسانے کے رنگ میں بیان کر دینا کوئی فحش گوئی نہیں ہے!

مزے کی بات یہ ہے کہ اس موضوع پر یعنی عورتوں کا اعصاب پر سوار ہونے کو، کئی شعراء نے بھی مزاحیہ رنگ میں باندھا ہے!
 

arifkarim

معطل
ناروے میں فحش ناول پہلی بار 1950 کی دہائی میں لکھے گئے تھے۔ اسوقت لکھنے والوں کو طرح طرح کے مقدمات سے گزرنا پڑا۔ آج 50 سال بعد وہی یورپ کس قدر بدل گیا ہے!
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب، بہت ہی اچھا لکھا ہے۔ مزہ آیا پڑھ کر۔

باذوق بھائی آپ کے باقی کے مراسلوں کا انتظار رہے گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ناروے میں فحش ناول پہلی بار 1950 کی دہائی میں لکھے گئے تھے۔ اسوقت لکھنے والوں کو طرح طرح کے مقدمات سے گزرنا پڑا۔ آج 50 سال بعد وہی یورپ کس قدر بدل گیا ہے!
بڑی دیر کی ناروے والوں نے، برصغیر میں تو یہ بہت پہلے لکھے جانے لگے تھے۔ :yawn:
 

نبیل

تکنیکی معاون
ہاں بالکل، اور ناروے کے لوگوں جیسا با حیا تو شاید ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ :chatterbox:
 
اگر 50 سال سے بھی کم مدت میں اس حال کو پہونچ گئے ہیں تو پھر ان کی ترقی نہیں ترقی کی رفتار قابل دید ہے۔
 

arifkarim

معطل
اگر 50 سال سے بھی کم مدت میں اس حال کو پہونچ گئے ہیں تو پھر ان کی ترقی نہیں ترقی کی رفتار قابل دید ہے۔

ہاں یہ تو ہے۔۔۔۔ قریبا ۱۰۰ سال قبل انکے ہاں بھی جائنٹ فیملی سسٹم تھا اور ماں باپ ہی اپنے بچوں کی شادیاں کر واتے تھے۔۔۔۔۔۔
آجکل تو ماشاءاللہ جوان بچے اپنے ماں باپ کی پہلی شادی میں شریک ہوتے ہیں:applause:
 
Top