پینے کے لیے پانی مانگا تو کہا گیا کہ باہر واٹر کولر سے پی آیئے ۔
وہاں گئے مگر جو پانی نکلا وہ تارکول کی طرح گرم تھا۔
ممتحن سے شکایت کی تو فرمایا کہ لائٹ صبح سے بند ہے ہم کیا کر سکتے ہیں۔
پیپر کے شروع میں کہا گیا کہ جس جس کے پاس بوٹی(نقل) موبائل فون وغیرہ ہے وہ نکال کر باہر پھینک آئے ۔ تلاشی پر اگر کسی کے پاس کچھ نکل آیا تو کمرہ امتحان سے نکال باہر کیا جائے گا ۔
ہمارے پاس مو خر الذکر چیز تھی مگر کیسے باہر پھینک آتے صاحب !
ہم نے سائلنٹ لگا کر موبائل کو جیب میں رکھ لیا تھا ۔ سوچا کونسا تلاشی ہونی ہے۔ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت!
ممتحن نے تلاشی لینی شروع کر دی ۔ ہماری قمیض کو سائڈ پر دو پاکٹ لگی تھیں ۔ ایک میں بٹوا تھا اور دوسری میں موبائل فون ۔کیا ہمیں کمرہ امتحان سے بغیر پیپر جمع کروائے باہر پھینکا جائے گا؟ یہ سوچ کر ہی ہاتھ پیر سن ہونے لگے ۔ (بے عزتی کی ہمیں کوئی پروا نہیں تھی کون سا پہلی دفعہ ہونی تھی
)
آخر ممتحن صاحب ہم تک پہنچے۔
ممتحن: کھڑے ہو جائے ۔
ہم کھڑے ہو گئے ۔
ممتحن: پاکٹ میں جو کچھ ہے باہر نکالیے۔
ہم نے جس پاکت میں بٹوا تھا اس میں ہاتھ ڈالا ۔ اور بٹوا نکال لیا ۔ مگر یہ کیا ! بٹوے کے ساتھ رجسٹر کا ایک کاغذ بھی نکلا اور نیچے جا پڑا ۔ اس پر نیلے بال پین سے چھوٹے فونٹ میں بہت کچھ لکھا ہوا تھا ۔ ممتحن نے وہ کاغذ نیچے اٹھایا اور ہماری طرف طنزیہ نظروں سے دیکھا۔
ممتحن: شرم تو نہیں آتی ،ایسی حرکت کرتے ہوئے۔انہوں نے زور سے کہا ۔ تمام لڑکے ہماری طرف دیکھنے لگے ۔
میں: سر میں نہیں جانتا یہ کیا ہے اور کیسے میری جیب میں آیا ۔
( مجھے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے ۔
)
ممتحن : چور ہمیشہ ایسا ہی کہتے ہیں ۔
(پھر میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا ۔ میں اپنے پیچھے بیٹھے لڑکے کی طرف دیکھا ۔ میرے دیکھنے پر وہ گھبرا گیا ۔اور منہ نیچے کر کے لکھنے کی ادکاری کرنے لگا ۔میں سمجھ گیا یہ سب کھیل اسی نے کھیلا ہے ۔ میری نظر بچا کر نقل کا کاغذ میری جیب میں ڈال دیا تھا)
ممتحن نے مجھے ساتھ لیا اور دفتر میں دوسرے اساتذہ کے پاس لے آئے۔ اور انہیں میری کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا ۔
میں نے کہا سر میں نے یہ حرکت کبھی نہیں کی (ھالانکہ یہ سچ نہیں تھا ۔ سکول میں یہ حرکت کئی دفعہ کر چکا تھا
) کسی دوسرے نے میری پاکٹ میں اپنا جرم ڈال کر مجھے مجرم بنا دیا ہے ۔
انہوں نے پوچھا کہ میرے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے ؟
اب ثبوت میں کہاں سے دیتا؟
میری عادت ہے کہ پیپر شروع کرنے سے پہلے درود شریف اور دعا ضرور پڑھ لیتا ہوں ۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال چمکا ۔
میں نے کہا سر نقل تو وہ کرے گا جسے کچھ نہیں آتا ۔ آپ ایسا کریں کوائسچن پیپر کے تمام سوالات میں سے اپنی مرضی کے سوالات کا جواب سن لیں ۔ میرے پاس تو فی الوقت یہی ثبوت ہے ۔
انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ ایک ٹیچر نے کہا کہ بات تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہے کہ نقل وہی کرتے ہیں جن کو کچھ نہیں آتا ۔ آپ اس سے کوئی ایک دو سوال کا جواب پوچھ لیجیے اگر آ گیا تو سمجھے کہ یہ واقعی سچ کہہ رہا ہے ۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ مجھے تقریبا سارے سوالات کے جوابات یاد تھے ۔ ممتحن نے مجھ سے دو سوالات پوچھے میں نے جواب دے دیئے۔یوں مجھے امتحان میں بیٹھنے کی اجازے مل گی۔ یوں کسی کو میری دوسری پاکٹ کی تلاشی کا خیا ل نہیں آیا اور موبائل ضبط ہونے سے بچ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپر دینے کے بعد میں باہر نکل آیا اور مین گیٹ پر کھڑا ہو کر اپنے ڈیسک کے پیچھے والے لڑکے کا انتظار کرنے لگا ۔
وہ آیا ۔اور سیدھا میری طرف آیا ۔ دونوں ہاتھ جوڑے ۔اور معافی مانگی ۔ ہم نے کہا چل کوئی بات نہیں ،گرمی بہت ہے پیپسی پلا دے ۔
وہ ہمیں کالج سے باہر کنٹین پرلے آیا پیپسی پلائی ۔ پھر ایک اور پلائی ۔
بس اللہ اللہ خیر صلا۔ ہم نے کہا بھئی آئندہ ایسا کام نہ کرنا ۔ سارے ہماری طرح پیپسی سے نہیں ٹلتے۔