تعارف من این حروف نویستم

شمشاد

لائبریرین
کفایت بھائی یہاں ایک ٹیم ورک ہوتا ہے۔ اور ٹیم ورک میں ایک ٹیم لیڈر کی ہدایات کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
کفایت صاحب السلام علیکم اور محفل میں خوش آمدید
میں شمشاد کی بات کی وضاحت کردوں ۔ دراصل محفل میں ایک سیکشن لائبریری کے نام سے موجود ہے جہاں پر مختلف کتابوں کو برقیانے کا کام کیا جاتا ہے پہلے کسی بھی کتاب کو اسکین کرکے لائبریری میں بھیجا جاتا ہے پھر یہاں کی مدیر سیدہ شگفتہ صاحبہ اسکے صفحات کو لائبریری کے ارکان کے سپرد کردیتی ہیں سارے ارکان مل کر ن صفحات کو ٹائپ کرکے جلد ہی کتاب کی شکل دے دیتے ہیں۔ اگر آپ اپنی کتاب کو اسکین کرکے سیدہ شگفتہ کو دے دیں گے تو پھر اس پر ٹائپنگ کا کام انکی ترجیہات کے مطابق اپنی باری پر شروع ہوجائے گا
 

مغزل

محفلین
کفایت ہاشمی صاحب اردو محفل میں خوش آمدید ، امید ہے آپ سے مراسلت کا شرف حاصل رہے گا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ انشا اللہ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم ، کفایت ہاشمی صاحب ، اردو محفل میں خوش آمدید !

کیا آپ مذکورہ مسودہ کا اسکین ارسال کر سکتے ہیں ؟
 
السلام علیکم ، کفایت ہاشمی صاحب ، اردو محفل میں خوش آمدید !

کیا آپ مذکورہ مسودہ کا اسکین ارسال کر سکتے ہیں ؟
وعلیکم السلام
جی یہی تو مشکل ہے ۔ اصل میں ، میں نے مسودے پر نظر ثانی کے دوران خوب حذف و اضافے کیے ہیں اس لیے اس کو سکین کرنا تو دگنی مشکل ہوگی ۔ ایک میرے لیے دوسرا خود ٹائپ کرنے والے کیلئے۔ اس لیے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ میں خود ہی ٹائپ کر وں اور کوئی بندہ خدا اس کو برقیا دے ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
وعلیکم السلام
جی یہی تو مشکل ہے ۔ اصل میں ، میں نے مسودے پر نظر ثانی کے دوران خوب حذف و اضافے کیے ہیں اس لیے اس کو سکین کرنا تو دگنی مشکل ہوگی ۔ ایک میرے لیے دوسرا خود ٹائپ کرنے والے کیلئے۔ اس لیے میں نے یہ عرض کیا تھا کہ میں خود ہی ٹائپ کر وں اور کوئی بندہ خدا اس کو برقیا دے ۔

برادرم کفایت، آپ کے نزدیک برقیانے سےکیا مراد ہے؟ اگر ٹائپنگ مکمل ہو جائے تو اسی کو ہم برقیانا کہتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پیج میں ٹائپنگ مکمل کر لی ہو تو اسے یونیکوڈ میں تبدیل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔
 
برادرم کفایت، آپ کے نزدیک برقیانے سےکیا مراد ہے؟ اگر ٹائپنگ مکمل ہو جائے تو اسی کو ہم برقیانا کہتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پیج میں ٹائپنگ مکمل کر لی ہو تو اسے یونیکوڈ میں تبدیل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔
جناب من !
میری برقیانہ سے یہ مراد ہے کہ مسودے کو کتاب کی صورت دے دی جائے ۔صرف ٹائپ سے تو کتاب نہیں بن جاتی۔ اسکی سیٹنگ اور صوتی حسن کا ’’پانی ‘‘ بھی تو چڑھانا ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
کفایت بھائی جب کتاب ٹائپ ہو جاتی ہے تو اس کی پروف ریڈینگ ہوتی ہے، اس کے بعد اس کی ای بُک بنا دی جاتی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جناب من !
میری برقیانہ سے یہ مراد ہے کہ مسودے کو کتاب کی صورت دے دی جائے ۔صرف ٹائپ سے تو کتاب نہیں بن جاتی۔ اسکی سیٹنگ اور صوتی حسن کا ’’پانی ‘‘ بھی تو چڑھانا ہوتا ہے۔

کفایت، آپ کی بات اس حد تک ضرور درست ہے کہ کتاب کی شکل دینے کے لیے بہتر کمپوزنگ اور فارمیٹنگ کی ضرورت ہے۔ ای بک بنانا اہم ضرور ہے لیکن یہ واحد مقصد نہیں ہے۔ ٹائپنگ سے تحریری متن حاصل ہو جاتا ہے جو بنیادی طور پر کسی فونٹ یا فارمیٹ کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ تحریری متن سرچ انجن پر انڈکس ہو جاتا ہے جس کے بعد اسے انٹرنیٹ کی دنیا میں ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے اور یہ متن ادب کے شائقین اور محققین کے لیے قابل دسترس ہو جاتا ہے۔ آپ کے پاس اگر ان پیج ڈاکومنٹ موجود ہے تو یہ بھی ایک شکل میں ای بک ہی ہے، اگرچہ اس میں تلاش ممکن نہیں ہوگی۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جناب من !
میری برقیانہ سے یہ مراد ہے کہ مسودے کو کتاب کی صورت دے دی جائے ۔صرف ٹائپ سے تو کتاب نہیں بن جاتی۔ اسکی سیٹنگ اور صوتی حسن کا ’’پانی ‘‘ بھی تو چڑھانا ہوتا ہے۔

السلام علیکم ، ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ دونوں مراحل کے لیے اسکین / اصل کتابی متن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ٹائپنگ کے بعد پروف ریڈنگ کا مرحلہ دقیق ہوتا ہے ۔ حالیہ صورت میں ٹائپنگ کے ساتھ پروف ریڈنگ کے مراحل آپ انجام دے سکیں گے ؟
 

باذوق

محفلین
فقیر کے دادا مولانا اعظم ہاشمی اپنے وطن مالوف سے ہجرت کر آئے تھے اور سنہ 70ء کی دہائی میں ان کی داستان ہجرت ’’سمرقند و بخارا کی خونیں سرگزشت ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی اور اس لنک پر بھی دستیاب ہے :
http://www.archive.org/details/Samarqand-O-Bukhara--Ki-Khuni-Sargazisht
دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب نظر آتی ہے۔
ڈاؤن لوڈ کر کے ابھی مطالعہ شروع کیا ہے۔ شروعات کے صفحات ہی سے طرز تحریر کا سحر طاری ہونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کتاب کے سال اشاعت (1969ء) سے اندازہ ہوا تھا کہ قدیم اردو ہوگی مگر بہرحال اتنی قدیم تو نہیں ہے۔
آباد شاہ پوری نے اپنے "دیباچہ" میں جو یہ باتیں لکھی ہیں ۔۔۔ زائد از 40 سال بعد والی موجودہ صورتحال بھی کم و بیش اتنی ہی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔۔

اس داستاں کے مخاطب یوں تو وہ نام نہاد "مولانا" اور "مفتی" بھی ہیں جو سوشلزم کے گماشتوں کے ہاتھوں میں دانستہ یا نادانستہ کھیل رہے ہیں۔ اگر ان کے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہے تو خدارا سوچیں کہ وہ کیسا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور کن لوگوں کا آلۂ کار بنے ہوئے ہیں؟
تاہم اس داستان کے اصل مخاطب پاکستان کے مسلمان عوام ہیں جنہوں نے اپنے دین ، اپنی تہذیب ، اپنی روایات کو ہندوؤں کے چنگل سے بچانے اور اسلام کے سایے میں زندگی بسر کرنے کے لیے جنگ لڑی اور آگ اور خون کے وسیع اور ہولناک سمندر سے گزر کر پاکستان کے ساحلِ مراد پر پہنچے۔
یہ خونیں سرگذشت انہی کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں ، پاکستان کو سمرقند و بخارا بنانے کی تگ و دو میں جو لوگ مصروف ہیں ، ان کے نعروں اور شرعی وضع قطع سے دھوکا نہ کھائیں اور کفر و الحاد کے ان علمبرداروں کے خلاف اسی جوش و جذبے کے ساتھ بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہو جائیں جس جذبے کے ساتھ وہ ہندوؤں کے عزائم کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔ اس وقت جو خطرہ مسلمانانِ ہند کو ہندوؤں سے تھا آج وہی خطرہ پاکستان کی اسلامی مملکت کو سوشلزم کے گماشتوں اور ان کے نام نہاد شرعی رکابداروں سے ہے۔

24/دسمبر 1969ء
آباد شاہ پوری
 
السلام علیکم ، حالیہ صورت میں ٹائپنگ کے ساتھ پروف ریڈنگ کے مراحل آپ انجام دے سکیں گے ؟
وعلیکم السلام
جی بالکل میں ان شاءاللہ پروف ریڈنگ کرلوں گا۔ اور میں ہی کیوں ، آپ میں سے کوئی بھی اس میں میری مدد کرے گا تو اس کو بھی اجر ملے گا۔ان شاءاللہ
 

مغزل

محفلین
باذوق بھائی ۔۔۔ کیوں شرمندہ کرتے مجھ حقیر کو۔۔۔۔ ویسے
’’بنیانِ مرَصوص‘‘سیسہ پلائی ہوئی دیوار کو کہتے ہیں ۔۔۔
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِہ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ ﴿۴﴾
(القرآن) سورۃ : الصف
 
دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب نظر آتی ہے۔
ڈاؤن لوڈ کر کے ابھی مطالعہ شروع کیا ہے۔ شروعات کے صفحات ہی سے طرز تحریر کا سحر طاری ہونے لگتا ہے۔ جبکہ اس کتاب کے سال اشاعت (1969ء) سے اندازہ ہوا تھا کہ قدیم اردو ہوگی مگر بہرحال اتنی قدیم تو نہیں ہے۔
آباد شاہ پوری نے اپنے "دیباچہ" میں جو یہ باتیں لکھی ہیں ۔۔۔ زائد از 40 سال بعد والی موجودہ صورتحال بھی کم و بیش اتنی ہی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ ۔
ماشاء اللہ ۔ مجھے سچ مچ خوشی ہوئی کہ آپ اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں۔ محترم آباد شاہ پوری مرحوم نے اس سرگزشت کو ترتیب دیا تھا یعنی اس کو ادبی سانچے میں انھوں نے ہی ڈھالا۔اللہ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور انھیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین
میرے محترم !
یہ تو محض ایک شخص کی داستان ہے جو منظرعام پر آگئی ورنہ لاکھوں ایسی صورتحال سے دوچار ہوئے ہوں گے۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس سرگزشت کی اشاعت کے بعد سوشلسٹ حلقے اس سچائی کو برداشت نہ کرسکے اور دادا جان رحمہ اللہ پر قاتلانہ حملہ تک کروایا گیا جس میں وہ سخت زخمی ہوئے تھے۔
اللہ ہمیں آزمائش سے بھی محفوظ فرمائے ورنہ جس طرح کے ہم مسلمانوں کے حالات و اعمال ہیں، بعید نہیں کہ جو کچھ سوویٹ یونین نے ترکستان میں ظلم وستم کیا ، وہی کچھ اسلام آباد ،لاہور و کراچی کی گلی محلوں میں ہو۔
پاکستان کو بنانے کے بعد اسے کسی اور ہی ڈگر پر چلا دیا گیا ۔کبھی تو یہاں سوشلزم کے نعرے لگائے گئے تو کبھی سیکولرازم کی بات کی گئی ۔حتی کہ قائد اعظم کو بھی سیکولر ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش ہوئی ۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ کوئی چیز اپنے مقصد تخلیق سے ہٹ کر کام کرے تو اس کے وجود کا فائدہ نہیں رہتا !!!!
 
Top