مصنوعی ذہانت یا معاشرتی موت

اکمل زیدی

محفلین
ایک کالم سے اقتباس ہے ابھی کچھ عرصے پہلے یہاں بڑے زور شور سے اس پر بات ہوئی تھی وہ تازہ تھی اس پر یہ کالم پڑھا لگا کچھ حصہ آپ سے شیئر کیا جائے باقی پورا کالم پڑھنے کا لنک نیچے دے دونگا۔

----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو اپنی طرف سے، کسی بھی تخلیقی کام کو اپنے طور پر پورا کرتے وقت اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور بغیر کسی ڈیجیٹل سہارےکے اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی

چاہئے اور یہ عادت تب ہی آئے گی جب نوجوان کتابوں سے دل لگائیں گے۔ جب طالب علم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے بجائے اپنے علم اور دماغ کا سہارا لیتے ہوئے اپنا کام مکمل کرتا ہے تو اسے اپنی

بے ساختہ فنی صلاحیتوں پر فخر محسوس ہوتا ہے کیوں کہ بیج لگانے والا ہی ایک بیج سے ملنے والے پھلوں کی چاشنی کا مزہ محسوس کرسکتا ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ کا

کام حد درجے بہترین ہوکر سامنے آتا ہے جسے بہتر کرنے کے لئے آپ کو مزید کام نہیں کرنا پڑتا اور یہ آپ کو آپ کی مرضی کے نتائج دیتی ہے جس سے آپ ایک ایسے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں جو آپ کے

دماغ کی صلاحیتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سن کر دیتا ہے۔ آئیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اس نشے سےدور کریں، انھیں پابند کریں کہ وہ اپنا زیادہ وقت لائبریری میں گزاریں تاکہ علم کے سمندر میں اتر کر

انھیں کسی مصنوعی ذہانت کا سہارا نہ لینا پڑے، آئیں اپنی آنے والی نسل کو اس نشے سے بچائیں کیوں کہ جس قوم میں ریسرچ اور تخلیق کی موت ہوجائے وہ کبھی ناکامی کے سمندر سے باہر نہیں آسکتی۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
 

علی وقار

محفلین
بصد معذرت، میں تو کالم نگار کی رائے سے متفق نہیں ہوں۔ مصنوعی ذہانت سے حتی المقدور فائدہ اٹھانا چاہیے اور فی زمانہ ہم اس سے منہ موڑیں گے تو پستی کے ایک دور کا آغاز ہو جائے گا۔ مصنوعی ذہانت کی صورت ایک انقلاب بپا ہونے کو ہے، شاید ہو چکا ہے، اور ہمیں چاہیے کہ اپنی نوجوان نسل کو اس انقلاب سے مستفید ہونے دیں۔ سرقہ اور جعل سازی سے بچاؤ کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ ہمارا معاشرہ تو پہلے ہی موت یا جمود کا شکار ہے، اس لیے اس دلیل میں بھی کوئی وزن نہیں۔ ہماری معاشرتی اقدار زوال پذیر ہیں اور مصنوعی ذہانت کا یوں بھی اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے اچھے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مصنف موصوف نے تو خیر ادھر ادھر کی باتیں ہی ہیں کہ طالب علموں نے ہوم ورک کر لیا، پکا پکایا مل گیا، کتابوں سے دل لگائیں، وغیرہ وغیرہ (قریب نصف صدی سے میں یہی کچھ سن رہا ہوں) جب کہ اے آئی کے حد سے زیادہ بڑھتے ہوئے استعمال کا ایک خوف انسا ن کے ذہن میں موجود ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ اے آئی انسانوں کی ذہانت سے بھی آگے نکل جائے اور انسان اپنی اس تخلیق ہی کا اسیر نہ ہو جائے۔ اسی آئیڈیے پر کئی ایک فلموں میں بات کی گئی ہے اور موجودہ دور کے ارباب حل و عقد بھی اس پر بات کر رہے ہیں۔اور اس پر واقعی سوچنا چاہیئے۔
 

سید عمران

محفلین
اے آئی کا ہوا خدا جانے کس مقصد کے تحت پھیلایا جارہا ہے. فی الحال تو ہمارے کئی استفسارات کے آگے بالکل پھس نکلا...
انسان سے آگے نکلنا بھی فی الحال محال لگ رہا ہے...
کچھ بھی ہوجائے رہے گا تو انسان کے تابع. بنانے والے اس کو کنٹرول سے باہر ہرگز نہیں ہونے دیں گے...
انسان کی چالبازیوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے یہ مصنوعی صنعت کیا چیز ہے!!!
 
ایک کالم سے اقتباس ہے ابھی کچھ عرصے پہلے یہاں بڑے زور شور سے اس پر بات ہوئی تھی وہ تازہ تھی اس پر یہ کالم پڑھا لگا کچھ حصہ آپ سے شیئر کیا جائے باقی پورا کالم پڑھنے کا لنک نیچے دے دونگا۔

----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کو اپنی طرف سے، کسی بھی تخلیقی کام کو اپنے طور پر پورا کرتے وقت اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور بغیر کسی ڈیجیٹل سہارےکے اپنا کام خود کرنے کی عادت ڈالنی

چاہئے اور یہ عادت تب ہی آئے گی جب نوجوان کتابوں سے دل لگائیں گے۔ جب طالب علم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے بجائے اپنے علم اور دماغ کا سہارا لیتے ہوئے اپنا کام مکمل کرتا ہے تو اسے اپنی

بے ساختہ فنی صلاحیتوں پر فخر محسوس ہوتا ہے کیوں کہ بیج لگانے والا ہی ایک بیج سے ملنے والے پھلوں کی چاشنی کا مزہ محسوس کرسکتا ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آپ کا

کام حد درجے بہترین ہوکر سامنے آتا ہے جسے بہتر کرنے کے لئے آپ کو مزید کام نہیں کرنا پڑتا اور یہ آپ کو آپ کی مرضی کے نتائج دیتی ہے جس سے آپ ایک ایسے نشے کے عادی ہوجاتے ہیں جو آپ کے

دماغ کی صلاحیتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سن کر دیتا ہے۔ آئیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اس نشے سےدور کریں، انھیں پابند کریں کہ وہ اپنا زیادہ وقت لائبریری میں گزاریں تاکہ علم کے سمندر میں اتر کر

انھیں کسی مصنوعی ذہانت کا سہارا نہ لینا پڑے، آئیں اپنی آنے والی نسل کو اس نشے سے بچائیں کیوں کہ جس قوم میں ریسرچ اور تخلیق کی موت ہوجائے وہ کبھی ناکامی کے سمندر سے باہر نہیں آسکتی۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
نئی ٹیکنالوجی کو ایڈوب کرنا چاھئیے اگر ہم پرانی چیزوں پر ہی اکتفا کریں گے تو پاکستان پہلے ہی ٹیکنالوجی میں بہت سے ممالک سے پیچھے ہیں تو اور پیچھے چلیں جائیں گے رہی بات اے آئی ٹیکنالوجی کے کام میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے بہرحال انسانوں کی ضرورت ہی ہوتی ہے ۔ہمیں اِس ٹیکنالوجی سے آگے کا سوچنا ہوگا بجائے اِس ٹیکنالوجی کو ہی نا اپنائیں ۔
واللہ عالم
 

علی وقار

محفلین
اے آئی انسانوں کی ذہانت سے بھی آگے نکل جائے اور انسان اپنی اس تخلیق ہی کا اسیر نہ ہو جائے۔
ویسے تو مجھے یہ بات بعید از قیاس لگتی تھی تاہم جب عالمی سطح پر معروف کلیدی افراد نے اس حوالے سے قدرے منفی رائے کا اظہار کیا تو تشویش بڑھ گئی ہے۔ شاید وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ خودکار نظامات کچھ اس طور ترتیب پا جائیں کہ کلیدی فیصلہ سازی بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے ہو جائے اور یوں انسان اپنے ہاتھوں تباہی و بربادی کا سامان کر لے۔ اس کے علاوہ جاب مارکیٹ میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ اے آئی اب بھی انسانوں کی ذہانت سے کئی معاملات میں آگے ہے بلکہ ایک زمانے سے ایسا ہی چل رہا ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر تو محض اندیشے ہی ہیں۔ بالآخر انسان نے ہی اس سارے نظام کو کنٹرول کرنا ہے اور اس مصنوعی ذہانت کے سامنے بند باندھنے ہیں، فلٹرز لگانے ہیں۔
 
ویسے تو مجھے یہ بات بعید از قیاس لگتی تھی تاہم جب عالمی سطح پر معروف کلیدی افراد نے اس حوالے سے قدرے منفی رائے کا اظہار کیا تو تشویش بڑھ گئی ہے۔ شاید وہ اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ خودکار نظامات کچھ اس طور ترتیب پا جائیں کہ کلیدی فیصلہ سازی بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے ہو جائے اور یوں انسان اپنے ہاتھوں تباہی و بربادی کا سامان کر لے۔ اس کے علاوہ جاب مارکیٹ میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ اے آئی اب بھی انسانوں کی ذہانت سے کئی معاملات میں آگے ہے بلکہ ایک زمانے سے ایسا ہی چل رہا ہے تاہم مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر تو محض اندیشے ہی ہیں۔ بالآخر انسان نے ہی اس سارے نظام کو کنٹرول کرنا ہے اور اس مصنوعی ذہانت کے سامنے بند باندھنے ہیں، فلٹرز لگانے ہیں۔
بالکل درست ہے اے آئی صرف نام ہی لگتا ہے کام سارے انسانوں کےہی ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
مصنوعی ذہانت معاشرتی موت تو نہیں البتہ ایک نئے نظام کا احیاضرور ہو سکتا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، میٹا فزیکل ورلڈ کی طرف بھی اک عملی پیش قدمی ہے۔ یہ کائناتی فلسفے کو سمجھنے میں بھی یقیناً مددگار ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے اگلے مدارج میں یہ سائنس اور مذہب کے درمیان ایک پُل کا کام دے۔ مصنوعی ذہانت ہمیشہ اصلی ذہانت کی ہی مرہونِ منت رہے گی۔ جس طرح ایجاد کو موجد سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح تخلیقِ کائنات کی ایک سائنسی تھیوری انٹیلیجنٹ ڈیزائن کے تانے بانے بھی شاید آنے والے وقتوں میں کسی اصل خالق سے جا ملیں۔
اور کچھ ہو یا نہ ہو لیکن اتنا تو ضرور ہو گا کہ جن باتوں کو کبھی بعید از حقیقت یا “احمقوں کی جنت” میں رہنا تصور کیا جاتا تھا، مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسی کتنی ہی حماقتوں کا نظارہ اب ممکن ہو سکے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، خیال کی execution کے لیےحقیقت یا ورچوئل رئیلٹی کا کوئی نہ کوئی گوشہ ضرور ڈھونڈ نکالے گی۔ اسکی ایک ادنیٰ مثال 5D اینیمیشن ہے۔
 
سائنس ایک حد سے تجاوز نہ کرے تو بہتر ہے مطلب کے کلوننگ وغیرہ اس طرح کے عمل کرنے سے اللہ کی حد کو تجاوزکرنا ہوگا ۔
جس کے نتائج بہت بُرے نکل سکتے ہیں ۔
 
میرا خیال ہے کہ اس بحث سے کہیں بہتر ہے کہ اس موضوع پر بات کی جائے کہ فی الحال اے آئی کو کن کن مثبت مقاصد/ پیشہ ورانہ کاموں کے لیے بطور مددگار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ اس بحث سے کہیں بہتر ہے کہ اس موضوع پر بات کی جائے کہ فی الحال اے آئی کو کن کن مثبت مقاصد/ پیشہ ورانہ کاموں کے لیے بطور مددگار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اے آئی ٹیکنالوجی کو کن کن کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ؟
 

علی وقار

محفلین
اے آئی ٹیکنالوجی کو کن کن کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے ؟
آرٹیفیشل انٹیلیجنس تو انسان کے لیے مفید کام کرتی چلی آ رہی ہے۔ کچھ چیزیں تو بالکل سامنے کی ہیں، مثلاً طب (تشخیص، معالجہ وغیرہ کے معاملات میں معاونت)، مالیات میں دھوکہ دہی سے نجات، تعلیم و تدریس، گیمنگ، روبوٹکس، مارکیٹنگ، عامۃ الناس کی رہنمائی، کسٹمر سپورٹ وغیرہ کے لیے تو بے مثل ہے، دیگر کئی شعبوں میں بھی، جیسا کہ مینوفیکچرنگ میں کوالٹی کنٹرول، سپلائی چین، زراعت میں فصلوں کی دیکھ بھال، اور پیدوار کے لیے معاونت،انرجی، ہیومن ریسورس، سائبر سیکورٹی وغیرہ کے حوالے سے بھی اس ٹیکنالوجی کا بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اب تو اس کی بنیاد پر انقلابی تبدیلی نیٹ کی دنیا میں آئی ہے۔ یہ آپ کے سوالات کے جواب دے رہی ہے۔ آپ کو آرٹیکلز لکھ کر دے رہی ہے۔ ادھر آپ کے ذہن میں خیال آتا ہے، یہ اس کی صورت گری کرنے لگ جاتی ہے۔ سوال کرتے ہی تو پلک جھپکتے میں جواب سامنے آ جاتے ہیں۔ آڈیوز، ویڈیوز منٹوں میں بن رہی ہیں۔ یہ تو ہم پر منحصر ہے کہ اس کا کیسا استعمال کرتے ہیں۔
 
ادھر آپ کے ذہن میں خیال آتا ہے، یہ اس کی صورت گری کرنے لگ جاتی ہے۔ سوال کرتے ہی تو پلک جھپکتے میں جواب سامنے آ جاتے ہیں۔ آڈیوز، ویڈیوز منٹوں میں بن رہی ہیں۔ یہ تو ہم پر منحصر ہے کہ اس کا کیسا استعمال کرتے ہیں۔
علی وقار بھائی اے آئی کی یہ صلاحیتیں پڑھی تو کئی جگہ ہیں لیکن عملاً چیٹ جی پی ٹی کے علاوہ کچھ استعمال کی نوبت نہیں آئی۔ ایک دو جگہ کوشش کی تو وہاں ویزا یا ماسٹر کارڈکے ذریعے سبسکرپشن درکار ہے ۔ آپ کے یا کسی اور دوست کے علم میں دیگر ٹولز سے متعلق ویب سائٹس ہوں تو شئیر کیجیے۔
دوسری بات یہ کہ امیج جنریٹ تو پہلے پڑھا تھا، کیا اے آئی آڈیوز اور ویڈیوز بھی جنریٹ کر رہا ہے؟
تدوین: امیج جنریٹ مائیکروسافٹ ایج کی ایکسٹینشن کی بدولت آسان ہوگئی۔
 
آخری تدوین:
آرٹیفیشل انٹیلیجنس تو انسان کے لیے مفید کام کرتی چلی آ رہی ہے۔ کچھ چیزیں تو بالکل سامنے کی ہیں، مثلاً طب (تشخیص، معالجہ وغیرہ کے معاملات میں معاونت)، مالیات میں دھوکہ دہی سے نجات، تعلیم و تدریس، گیمنگ، روبوٹکس، مارکیٹنگ، عامۃ الناس کی رہنمائی، کسٹمر سپورٹ وغیرہ کے لیے تو بے مثل ہے، دیگر کئی شعبوں میں بھی، جیسا کہ مینوفیکچرنگ میں کوالٹی کنٹرول، سپلائی چین، زراعت میں فصلوں کی دیکھ بھال، اور پیدوار کے لیے معاونت،انرجی، ہیومن ریسورس، سائبر سیکورٹی وغیرہ کے حوالے سے بھی اس ٹیکنالوجی کا بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا ہے۔ اب تو اس کی بنیاد پر انقلابی تبدیلی نیٹ کی دنیا میں آئی ہے۔ یہ آپ کے سوالات کے جواب دے رہی ہے۔ آپ کو آرٹیکلز لکھ کر دے رہی ہے۔ ادھر آپ کے ذہن میں خیال آتا ہے، یہ اس کی صورت گری کرنے لگ جاتی ہے۔ سوال کرتے ہی تو پلک جھپکتے میں جواب سامنے آ جاتے ہیں۔ آڈیوز، ویڈیوز منٹوں میں بن رہی ہیں۔ یہ تو ہم پر منحصر ہے کہ اس کا کیسا استعمال کرتے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی میں جدت کی اعلٰی کارکردگی ہے ،لیکن اے آئی کی مدد سے ٹیکنالوجی میں بہت ترقی ہونے جارہی ہے ہر کام بہت جلد اور آسانی سے ہونے لگ جائے گا جیسا کہ آپ نے اپنے مراسلے میں بیان کی ہے کہ آرٹیکل لکھنا ایک اچھا آرٹیکل لکھنے میں بہت وقت درکار ہوتاہے لیکن اے آئی اینٹیلیجینٹس کی مدد سے وہ ہی کام منٹوں بلکہ کبھی کبھی سیکنڈوں میں ہوجاتا ہے ۔ کوئی آرٹیکل لکھتے وقت ہم اپنے خیال بھی اُس میں پیش کرتے ہیں لیکن اے آئی آپ کا خیال کیسے لے سکتی ہے ؟ وہ تو آپ کے ذہن میں ہی ہے ۔
 
امیج جنریٹ تو پہلے پڑھا تھا،
یہ دوسری ویب سائٹ سے امیج کو لے کر مکس کرتی ہے بس ،میں شٹراسٹاک پر کام کرتا ہوں ویکٹرز وغیرہ کامیں نے دیکھا ہے اب شٹراسٹاک میں اے آئی کی آمدنی بھی دی جاتی ہے ہر چھ ماہ کے بعد ۔
 
میرے خیال میں تو ابھی تک مصنوعی ذہانت کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو اسے فراہم کی جائیں یا اس کے بنیادی اجزاء (سکرپٹ/زبان/وغیرہ) میں پہلے سے موجود ہوں ۔ حتیٰ کہ اس کی حسابیات (کیلکیولیشنز) بھی انہی خطوط پر ہونگی جن کے متعلق اسے تربیت دی جائے گی لہذا اب تک کا وہ علمی خزانہ جو حاصل ہو چکا ہے اس کو بہترین طرح سے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے ۔ ابتدائی درجے کا مصنوعی ذہانت کا کام تو گوگل بھی کر لیتا ہے تو اساسی طاقت یا اسے چلانے میں بنیاد ی اہمیت تو انسان کی رہے گی ہی ۔کیونکہ انسانی تخلیقات میں سے اس تخلیق میں بھی خود سے سوچنے اور نتیجہ نکالنے کے لئے بھی اسے یہ خطوط جن پر اسے سوچنا ہے اور نتیجہ نکالنا ہے بتانے ہی پڑیں گے تو جہاں لکیر نہیں ہوگی وہاں لکیر کی تخلیق اس کے بس کی بات نہ ہوگی۔ اگر مصنوعی ذہانت کو یہ نہیں بتائیں گے کہ اس بات کے اتنے رخ اور اتنے مطلب ہیں اور یہاں اس منظر نامے میں یہ مزاح بن جائے گا اور اس منظر نامے میں یہ سنجیدہ ہو جائے گا تو مصنوعی ذہانت اس قابل نہیں ہو سکے گی کہ اس کا کوئی ایسا مطلب نکال سکے جو اسے بتایا ہی نہیں گیا۔ تو پھر ڈرنا کیسا۔ مخلوق کی تخلیق اپنے مخصوص دائرے میں تیز، نفیس ، دیدہ زیب کام تو کر سکتی ہے لیکن خالق حق کی تخلیق کو عطا شدہ صلاحیتوں کے برابر ہونا شاید اس کے بس میں نہیں ہوگا ۔
 
Top