مسکین پور میں شریعت کا نفاذ --------- طالبانی طریقے سے انحراف

مغزل

محفلین
مسکین پور میں شریعت کا نفاذ

پاکستان کےصوبہ سندھ کے ضلع شہداد کوٹ کےقریب ایک گاؤں میں مذہبی رہنماء نے اپنی طرز کی شریعت نافذ کر دی ہے اور ان کے شرعی احکامات نہ ماننے والے شخص کو گاؤں سے بیدخل کر دیا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر قائم شہر شہداد کوٹ کے قریب گاؤں مسکین پور علاقے میں منفرد شناخت رکھتا ہے ۔ یہ شرعی گاؤں ستر کے قریب گھروں پر مشتمل ہے۔ برسوں سےقائم اس شرعی گوٹھ کی آبادی میں وقت گزرنےکے ساتھ کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا ہے مگر گاؤں کے مذہبی رہنماؤں کو امید ہے کہ لوگ ان کی طرز شریعت کی طرف ایک روز ضرور مائل ہونگے۔

مسکین پور نامی اس گاؤں میں داخل ہوتے ہی جس بات کا ایک دم احساس ہوتا ہے وہ دیہی زندگی کی ایک شناخت ینعی پالتو کتے کا کہیں نہ نظر آنا ہے۔ گاؤں میں کتا سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جب اس کے متعلق گاؤں کے جواں سال گدی نشین فقیر حضور بخش صدیقی سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں کتا، ٹی وی، ریڈیو، تصویر یا کوئی بھی ساز رکھنا منع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شرعی گاؤں میں رہائش کے خواہش مند شخص سے وہ اپنی طرز شریعت کے تمام اصول اور شرائط ایک حلف نامے یا اسٹامپ پیپر پر لکھاوا کر ان سے پابندی کا حلف لیتے ہیں۔ مسکین پور کی شریعت کے مطابق گاؤں میں رہنے والے ہر بالغ اور نابالغ مرد کے سر پر عمامہ ہوگا اور خواتین پردہ کریں گی۔

بالغ مرد کی داڑھی ایک مشت ہوگی، چھوٹا لڑکا ہو یا بڑا مرد کوئی بھی کسی کے گھر کسی صورت میں داخل نہیں ہوگا۔ عورتوں کے ساتھ معصوم بچیاں بھی پردے کی پابندی کریں گی۔ شادی بیاہ کےموقع پر بھی کوئی ڈھول ڈانس نہیں ہو گا۔ فقیر حضور بخش نےبتایا کہ مسکین پور کی بنیاد انیس سو چوہتر میں ان کے والد غلام صدیقی غفاری نے ڈالی تھی۔ جو بلوچستان کےایک علاقے سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے تھے۔ان کے والد کا تعلق جماعت اہل سنت کے نقشبندی فرقے سے ہے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چار میں ہوا ہے۔ فقیر حضور بخش نےبتایا ہے کہ وہ ملک میں پرامن شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور طالبان کی طرز شریعت اور طریقہ نفاد سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کےمطابق پیغام محبت سے پہنچانا چاہیئے اور شریعت کی خاطر جبر یا کلاشنکوف استعمال نہیں کرنی چاہیئے۔

فقیر کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے مرشد سے احکامات ملے ہیں کہ شریعت، حکومت اور برادری ان تین چیزوں کو مظبوطی سے پکڑیں۔ وہ حکومت مخالف قدم اٹھانا نہیں چاہتے۔ مسکین پور دیہی سندھ کا واحد گاؤں ہوگا جہاں کی زندگی میں عورتیں کہیں نظر نہیں آئیں گی۔گاؤں میں عورتوں کے لیے مذہبی تعلیم کا بندوبست ہے مگر انہیں ہائی سکول جانے یا انگریزی پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔مسکین پور میں دور دراز علاقوں سے بھی چھوٹے چھوٹے بچے علم حاصل کرنے آتے ہیں۔گاؤں میں ایک نوجوان ولایت علی بھی رہتے ہیں جو سندھ یونیورسٹی جامشورو کے شعبہ کیمسٹری سے ایم ایس سی کر چکے ہیں اور قریبی نجی کالج میں لیکچرر ہیں مگر مسکین پور کی شریعت کے پابند ہیں۔ ولایت علی نے بتایا کہ انہیں گزشتہ ماہ رمضان میں اعتکاف میں بیٹھنے کے دوران ، بزرگوں کی صحبت نصیب ہوئی اور وہ مسکین پور کے مکین بن گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ گاؤں سےباہر پاکستان میں کہیں بھی اسلام کےاصولوں کےمطابق زندگی بسر نہیں کی جا رہی اور وہ اپنی مسکین پور کی شریعت سے مطمئن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ان کا خیال تھا کہ صوبہ سرحد میں طالبان جنگجو بہ زور بازو شریعت کے نفاذ کے لیے اچھا کام کر رہے ہیں۔ ’طالبان لڑ تو رہے ہیں مگر وہ کام بھی شریعت کی خاطر ہی کر رہے ہیں۔‘ مسکین پور کے گدی نشین فقیر حضور بخش کے مطابق ان کے وضع کردہ شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے کو گاؤں سے بیدخل کیا جاتا ہے۔ان سے ابتدائی طور پر درگاہ کےجمعدار شریعت کی خلاف ورزی کی وضاحت معلوم کرتے ہیں اور بعد میں انہیں گاؤں چھوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔

فقیر حضور بخش نے دعوی کیا کہ ان کی جماعت کی پذیرائی ہو رہی ہے ۔انہوں نے کراچی کے قریب قومی شاہراہ پر دادا بھائی سیمنٹ فیکٹری کے سامنے پلاٹ پر احسن آباد کے نام سے ایک شرعی بستی قائم کر دی ہے ۔ابتدائی طور پر کم لوگ وہاں رہائش پذیر ہیں مگر انہیں امید ہے کہ ان کے شرعی گاؤں کی آبادی میں اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ سندھ میں خود ساختہ شریعت کا یہ دوسرا بڑا گاؤں ہے۔ پہلا گاؤں خیرپور کے شہر گمبٹ کے قریب قائم ہے۔ نور پور نامی اس گاؤں میں عیدالفطر حکومتی اعلان کے ایک دن بعد منائی گئی تھی۔ نور پور گاؤں بھی نقشبندی اہل سنت کے لوگوں کی طرف سےقائم کیا ہوا ہے۔

20081013002830shariah_village_kids203.jpg

مسکین کے ’معصوم طالب‘ تصویر بنواتے ہوئے خوش ہیں

20081013002803maskeenpur_hazoorbukhsh.203.jpg

حضور بخش محبت کے پیغام سے شریعت لانا چاہتے ہیں

20081013002707maskeenpur_village203.jpg

مسکین پور سندھ کا دوسرا گاؤں ہے جہاں شریعت نافذ ہے
 

مغزل

محفلین
اگرچہ اس میں بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس میں جبرکا دخل نہیں، عورتوں کی تعلیم پر پابندی ازلی مردانہ انا کا شاخسانہ لگتا ہے
مذکورہ خبر بی بی سی سے لی گئی ہے اس میں رپورٹنگ کی اغلاط ہم صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔
والسلام
 

ساجد

محفلین
میں نے بار ہا اپنے مراسلات میں عرض کیا ہے کہ جب حکومت کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو سرکش عناصر سر اٹھاتے ہیں۔ تاریخ نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ کمزور حکومت کسی بھی قوم کو متحد نہیں رکھ سکتی۔ اپنے پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ شروع شروع میں بے ضرر دکھائی دینے والے عناصر مذہب کی من چاہی تشریح پر عوام کو اس طریقے سے اپنے پیچھے لگاتے ہیں کہ آخر کار ایک فتنہ بن جاتے ہیں۔
اس گاؤں کے بارے میں میں نے دو سال قبل بھی سنا تھا لیکن اس وقت ان گدی نشین کے بیانات میں اتنی کاٹ نہیں تھی۔ اب جبکہ حکومت محض نام کی ہے تو ان کا رویہ بھی بدلا ہوا ہے۔
اللہ کے بندو ، جس کو شریعت نافذ کرنی ہے کیا یہ ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرے؟؟؟۔ مجھے پتہ ہے کہ میرے اس فقرے پر بہت سی دلیلیں ٹپکائی جائیں گی اور دوسرے جرائم پیشہ افراد و گروہوں کی مثالیں پیش کر کے طالبانی اسلام کی وکالت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جن کو یہ شوق ہے وہ ضرور اپنی حسرت نکالیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ جب کوئی دوسرا فرد جرم یا گروہ جرم کرے تو وہ جرم ہے تو پھر طالبانی نظریہ کے نفاذ کے لئیے وہ جرم کون سے قانون کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟؟؟۔
جب کہ شریعت محمدی میں ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہا گیا ہے تو شریعت صوفی محمد میں یہ قتل جنت میں جانے اور حور و غلماں کے حصول کا ذریعہ کس منطق کے تحت بن جاتے ہیں؟؟؟
شریعت محمدی میں قانون کی پاسداری اور معاشرے میں امن قائم رکھنے کی تلقین ہے تو طالبانی قانون میں تشدد ، اغوا ، قتل ، لاشوں کی تذلیل اور پھر میڈیا پر ان کو فخر سے دکھا کر کون سا اسلام لایا جا رہا ہے؟؟؟۔
اسلام لوگوں کو بشارت ”خوشخبری" کے ذریعے تبلیغ کا داعی ہے تو یہ خوف و ہراس ، خود کش حملوں ، عدم رواداری اور مساجد کو اسلحہ خانوں میں تبدیل کر کے دنیا کو دین کا کون سا چہرہ دکھایا جا رہا ہے؟؟؟۔
المختصر یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عناصر کے ساتھ سختی سے پیش آئے اور عوام کا کام ہے کہ ان کی حمایت سے نہ صرف ہاتھ اٹھا لیں بلکہ ان کو خود سے علیحدہ کر دیں۔ ورنہ یہ وہ چیچک ہے جو ہمارے مذہب اور قوم کے چہرے پہ بد نمائی کے داغ چھوڑ جائے گا۔
مذکورہ بالا واقعے میں بھی وہاں کی انتظامیہ کو فوری نوٹس لینا چاہئیے مبادا کہ ہاتھ سے لگائی گئی گرہیں بعد میں دانتوں سے کھولنی پڑیں۔
 

mfdarvesh

محفلین
اس میں زبردستی کا پہلو نہیں ہے مگر وقت کے ساتھ آجائے گا جب آبادی بڑھے گی تو طاقت ملے گی اور پھر وہی ہوگا جو طالبان کررہے ہیں
 

dxbgraphics

محفلین
جہاں تک افغانستان میں طالبان کا پانچ سالہ دور ہے ایسے امن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ میرا مشاہدہ رہا ہے اس پر۔ جب میں پشاور میں تھا
 

arifkarim

معطل
جہاں تک افغانستان میں طالبان کا پانچ سالہ دور ہے ایسے امن کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ میرا مشاہدہ رہا ہے اس پر۔ جب میں پشاور میں تھا

ہاں جب تک پرندہ بھی طالبان کی اجازت کے بغیر پر نہ مارے اسوقت تک امن ہی رہے گا۔ جہاں تھوڑی سی مخالفت کی، وہیں سر قلم!
 
Top