مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب اور متین امروہوی - 2

کاشفی

محفلین
غزل
(مرزا اسد اللہ خاں‌ غالب رحمتہ اللہ علیہ)

دہر میں نقش وفا وجہِ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندہء معنی نہ ہوا

سبزہء خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریف دم افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزرگاہ خیال مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادہء سر منزل تقوی نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے میں‌بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا

کس سے محرومیء قسمت کی شکایت کیجئے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

مرگیا صدمہء یک جنبش لب سے غالب
ناتوانی سے حریف دم عیسیٰ نہ ہوا


غزل
(متین امروہوی)

جب تلک جوش جنوں عشق پہ حاوی نہ ہوا
کوئی بھی کام محبت میں مثالی نہ ہوا

مشورہ ترک تعلق کا دیا تھا اس نے
میں تو راضی تھا، مگر دل مرا راضی نہ ہوا

فیصلے میں‌بھی کیا کرتا اُسی کے حق میں
وہ تو اچھا ہوا، اُس دَور کا قاضی نہ ہوا

کیسے ہوتی مجھے محمود کی شفقت حاصل
جب کوئی حسنِ عمل میرا ایازی نہ ہوا

جام پیتا ہی رہا اس کی نظر سے میں بھی
رنگ جب تک مری آنکھوں کا گلابی نہ ہوا

منحصر غالب و اقبال پہ کیا، اہل سخن!
آج تک پیدا کوئی دوسرا حالی نہ ہوا

کاش میں ہوتا شہیدوں کی صفوں‌میں شامل
اب تو یہ غم بھی ستاتا ہے کہ غازی نہ ہوا
 
Top