مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے ۔۔۔ شیخو کی ایک پرانی تحریر

نایاب

لائبریرین
جب تک جڑ زمین سے نکال باہر نہ کی جائے ۔ لاکھ شجر کے پتے شاخیں حتی کہ تنے کو ہی کیوں نہ کاٹ دیا جائے ۔
شجر کسی نہ کسی صورت اپنی زندگی کو قائم رکھتا ہے ۔ اور مناسب موسم پاتے ہی دگنے پھیلاؤ سے سامنے آتا ہے ۔
سوچ اس بات کی ہونی چاہیئے کہ " برداشت " کیوں ختم ہوئی ۔ ؟
 

پردیسی

محفلین
جب تک جڑ زمین سے نکال باہر نہ کی جائے ۔ لاکھ شجر کے پتے شاخیں حتی کہ تنے کو ہی کیوں نہ کاٹ دیا جائے ۔
شجر کسی نہ کسی صورت اپنی زندگی کو قائم رکھتا ہے ۔ اور مناسب موسم پاتے ہی دگنے پھیلاؤ سے سامنے آتا ہے ۔
سوچ اس بات کی ہونی چاہیئے کہ " برداشت " کیوں ختم ہوئی ۔ ؟

آپ کی بات بجا ہے '' برداشت '' کیوں اور کیسے ختم ہوئی ۔۔ اب اس پر کیا رونا ، اب جبکہ ختم ہو چکی اور اس برداشت کے ختم ہونے سے بہت سی خرابیاں سامنے آ چکیں تو اب ہم ان خرابیوں کو ٹھیک ہونے بارے سوچیں اور وقت لگائیں ، کجا برداشت کی لکیر کو ہی پکڑے رہیں۔
جب خرابیاں دور ہوں گی ، سکون آئے گا ، برداشت بھی آتی چلی جائے گی
 

ساجد

محفلین
"تُسی تے مینوں کوئی کافر لگدے اوہ"

:whistle::laugh::laugh: آہو فیر ؟
کمالیہ میں ہمارے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے ۔ چونکہ مسجد ایک بند گلی میں واقع ہے اس لئے بہت محدود تعداد میں گھروں کے لوگ اس میں نماز کے لئے آتے ہیں۔ اور مسجد کے صحن میں اگر کوئی عالم صاحب تقریر فرمائیں تو کسی قسم کے سپیکر کے بغیر بھی ارد گرد کے گھروں میں آواز پہنچتی ہے۔ لیکن رسمِ دنیا نبھانے کے لئے انہوں نے سپیکر بھی لگا رکھے ہیں ...... ایک نہیں پورے 6 عدد بڑے سائز کے لاؤڈ سپیکر۔
ہمارا گھر مسجد کے بالکل سامنے واقع ہے اور جب ان چھ سپیکروں پر آذان کی اواز گونجتی تو ان کی کم بلندی کی وجہ سے ہمارے گھر میں ایک ایسی صورت ھال پیدا ہو جاتی کہ کانوں سے دھوئیں نکل جاتے۔ اوپر سے ایک نا خواندہ بابا جی ان کا آذان کا تلفظ غلط اور آواز کافی زیادہ تلخ تھی وہ آذان دیتے تو صورت ھال مزید خراب ہو جاتی۔ ایک دن بابا جی سے عرض کیا کہ حضور آپ کی آواز آذان کے لئے بہتر نہیں اور لہجہ بھی غلط ہے اس پر مستزاد کہ آپ فُل والیوم میں چھ سپیکر کھول کر آذان دیتے ہو تو اس سے آس پاس کے گھروں میں جو کوئی بیمار ہوں وہ انتہائی مشکل کا شکار ہتے ہیں ، لہذا آپ ایک سپیکر استعمال کر لیا کریں اور اس کا والیوم بھی کم رکھا کریں کیونکہ یہ چھوٹے سی آبادی کے لئے کافی ہے۔ ان دنوں میری والدہ مرحومہ بھی مرض الموت کا شکار تھیں اور ڈاکٹر نے ہمیں بھی ان کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے ، حتی کہ برتن گرنے کے شور سے بھی انہیں بچانے کی ہدایت کی ہوئی تھی ۔ لیکن میرے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ بابا جی اور مولوی صاحب باز نہ آئے۔ بلکہ ضدبازی میں پڑ گئے۔ تب میں نے اپنے ایک وکیل دوست کے ذریعے پولیس سے رابطہ کر کے پہلے سے موجود قانون کا سہارا لیا ۔ اور پولیس نے آ کر 5 سپیکر بند کروا دئے اور والیوم بھی کافی کم کروا دیا ۔
اب جناب دو دن بعد جمعہ کی تقریر میں بندہ ناچیز و پر تقصیر مولوی صاحب کے تکفیری فتووں کا نشانہ بن گیا ۔ اور جہنم کا حق دار گردانتے ہوئے حقہ پانی بند کر دینے کا سزاوار ٹھہرا دیا گیا۔ اگرچہ جمعہ کی نماز میں نے اسی مولوی کے پیچھے پڑھی لیکن باہر آ کر مسجد کے دروازے پر محترم مولوی صاحب کا انتظار کرتا رہا ۔ ان کے برآمد ہونے پر ہم نے ان کے شایان شان ان کی ”عزت افزائی“ کی اور اپنے بدستور مسلمان ہونے کا انہی کی زبان سے اقرار کروایا۔ مولوی صاحب کو اپنی بیٹھک میں بٹھا کر ان کے اساتذہ ، محلے کے عمائدین اور پولیس والوں کو بلا لیا ۔ سب کے سامنے یہ کیس رکھا اور مولوی ساحب کے تکفیری فتوے کے چشم دید اور سماع شنید گواہ پیش کر دئے۔ بالآخر مولوی صاحب کو اپنا فتوی واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا اور مسجد کے سپیکر پر آ کر اہل محلہ سے کہنا پڑا کہ یہ سب غلط فہمی کی بنا پر ہوا۔
میری والدہ مرحومہ اپنے ابدی گھر منتقل ہو گئیں اور میں لاہور منتقل ہو گیا۔ چند ماہ قبل کمالیہ گیا تو وہی کام پھر سے جاری و ساری تھا ۔ میرے دو دن قیام کے دوران سپیکوں کی آواز کم کی گئی بعد میں بھائی فون پر بتاتا رہتا ہے کہ پرنالہ پھر وہیں گر رہا ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
 

arifkarim

معطل
ان مذہبی اجتماعات کا مقصد ہی مذہبی جنونیوں کو دعوت دینا ہے کہ وہ اپنا جنتی خود کش بم یہاں آکر ٹیسٹ کر لیں!
 

یوسف-2

محفلین
اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ :laugh:
اسلام کا ”جن“ تو امن و شانتی والا ہے۔ اسلام کے معنی ہی امن کے ہیں۔ تشدد اور جنونیت در اصل ”فرقوں“ کی پیداوار ہے، جو اسلام کے نام پر بنادئے گئے ہیں۔ آپ تو قرآن و حدیث کے سننا اور پڑھنا ہی ”گوارا“ نہیں کرتے ورنہ آپ کو بخوبی معلوم ہوجاتا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو ”حبل اللہ“ کو تھامنے اور ”فرقہ بندی“ ہی سے منع کرتا ہے(وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْ‌ۚ
) جس چیز سے قرآن منع کرے، وہ ”اسلامی“ کیسے ہوسکتی ہے۔ اختلاف، تنازعہ اور لڑائی ہمیشہ ایک سے زائد ”گروپوں، گروہوں، فرقوں وغیرہ“ کے درمیان ہوتی ہے۔ اسی لئے دشمنان اسلام نے ”ملت اسلامیہ“ کو ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کے تحت مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا ہے اور ہم اتنے احمق ہیں کہ اللہ کی بات کو چھوڑ کر کفار و شیاطین کی بات کو مانتے ہوئے ”اپنے اپنے فرقے“ پر جمے ہوئے ہیں۔ جب تک ملت اسلامیہ میں ”فرقے“ موجود رہیں گے، ان میں ”مذہبی اور جنونی“ پیدا ہوتے اور پیدا کئے جاتے رہیں گے۔ ایک دین کے نام پر الگ الگ فرقوں کو قرآن و حدیث کے مطابق ختم کردیجئے، ان شاء اللہ یہ جھگڑے فساد بھی ختم ہوجائیں گے۔ لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کہ اب تو ہم لوگوں نے ”اپنے الگ حرمین“ بھی بنا لئے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا اور ماننا سو فیصد درست ہے کہ تمام مذہبی فرقے اور مسلک دراصل اسلام کے نام پر گروہ بندی کرکے اپنے اپنے ”مریدین“ کی جیب سے مال نکلوانا ہے۔ ہر مذہبی مسلک اور گروہ کے ”مذہبی پیشوا“ اور ان کے خاندان و قریبی احباب دین کے نام پر مال سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)
 

سید زبیر

محفلین
اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ :laugh:
مرا خیال ہے تمام عبادت گاہیں نیشنلائز کرلیں ۔ تعلیم یافتہ ملا کی سرکاری ملازمت ہو جس میں تبادلے بھی معمول کا حصہ ہوں ۔خطبہ سرکاری ہو ۔ مدارس سے تحقیق کے بعد ڈگریاں جاری ہوں ان کا عملہ بھی سرکاری ہو۔کوئی عبادت گاہ چندہ نہیں وصول کرے گی جس نے دینا ہو وہ صرف عبادت گاہ کے تعمیری و تزئینی کام خود کرا سکتا ہے یا مسجد کمیٹی۔۔ پیش امام یا خطیب کا مقامی آبادی سے پیسہ رشوت کے ضمن میں گردانا چاہئیے۔ حکومتی خزانے پر بوجھ تو پڑے گا مگر یہ درباروں کی آمدن سے کافی حد تک پورا ہو جائے گا ۔ مولوی کو سرکاری نوکری ملے گی تو اس کا وعظ بھی صحیح ہوگا ۔ایسے مولوی بھی دیکھے ہیں جن کا اپنا تو ایک مسلک سے تعلق ہوتا ہےمگر پیٹ کی خاطر دوسرے مسلک کی مسجد میں خدمات دے رہے ہوتے ہیں ایک ایسے بھی صاحب ہیں جن کے پاس ہر مسلک کی تقاریر لکھی ہوئی ہیں حسب موقعہ استعمال کرتے ہیں ۔انکو ان کی تعلیم کی مناسبت سے ملازمت ملے تو نہ یہ مسلک کا راگ لاپے گیں اور نہ ہی سیاسی باتیں کریں گے ۔ فیکٹریوں کارخانوں میں ملازم کتنا صحیح کام کرتے ہیں ۔مسلم ممالک سے آنے والی امداد کا بھی یا تو سد باب ہو جائے گا یا پھر حکومت کے خزانے میں جمع ھو جائے گی ۔
 

باباجی

محفلین
سید زبیر سر جی کی بات سے متفق ہوں میں
جہاں تک مجھے لگتا ہے ہماری حکومت میں دین کا عمل دخل صرف رویت ہلال کمیٹی تک ہے
باقی معاملات میں حکومت نے علماء کو اور علماء نے حکومت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے
ہر کسی نے اپنا بت خانہ بنا رکھا ہے
اور اپنے بت کو قائم رکھنے کے لیئے دوسروں کو بت شکنی کا درس دیتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔ :laugh:
اسلام نے کوئی ایسا جن بوتل سے نہیں نکالا۔ یہ خود ساختہ ملاؤں کی ایجاد ہے جو اب ان کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سید زبیر سر جی کی بات سے متفق ہوں میں
جہاں تک مجھے لگتا ہے ہماری حکومت میں دین کا عمل دخل صرف رویت ہلال کمیٹی تک ہے
باقی معاملات میں حکومت نے علماء کو اور علماء نے حکومت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے
ہر کسی نے اپنا بت خانہ بنا رکھا ہے
اور اپنے بت کو قائم رکھنے کے لیئے دوسروں کو بت شکنی کا درس دیتے ہیں
حکومت کبھی بھی اس میں دخل نہیں دے گی کیونکہ حکومت کی پالیسی ہے لڑاؤ اور حکومت کرو۔

دوسری بات ہمارے مُلا کبھی بھی نہیں مانیں گے کہ ان کے حلوے مانڈے ختم ہو جائیں گے۔

یہ اللہ کا فرمان بھول کر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔

دیہاتوں میں تو انہوں نے اور بھی اَت مچا رکھی ہے۔ وہاں پر لوگ اللہ رسول کو کم اور مسجد کے مولوی کو زیادہ مانتے ہیں۔
 
ان مذہبی اجتماعات کا مقصد ہی مذہبی جنونیوں کو دعوت دینا ہے کہ وہ اپنا جنتی خود کش بم یہاں آکر ٹیسٹ کر لیں!
یہ الگ بات ہے کہ ملکِ عدم میں موبائل کی سہولت میسر نہیں ورنہ خودکش بمبار کا میسج آتا، "ملاء جی بارود زیادہ ہوگیا تھا۔ جنت پیچھے چھوٹ گئی ہے۔":laugh:
 

قیصرانی

لائبریرین
حکومت کبھی بھی اس میں دخل نہیں دے گی کیونکہ حکومت کی پالیسی ہے لڑاؤ اور حکومت کرو۔

دوسری بات ہمارے مُلا کبھی بھی نہیں مانیں گے کہ ان کے حلوے مانڈے ختم ہو جائیں گے۔

یہ اللہ کا فرمان بھول کر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔

دیہاتوں میں تو انہوں نے اور بھی اَت مچا رکھی ہے۔ وہاں پر لوگ اللہ رسول کو کم اور مسجد کے مولوی کو زیادہ مانتے ہیں۔
بجا کہا۔ اور یہ مولوی باقاعدہ بولیوں کے تحت "بک" کر عید کی نمازیں پڑھانے دوسرے دیہاتوں کو جاتے ہیں۔ یقین کریں یہ لوگ جو زبان عید کی صبح لاؤڈ سپیکر پر استعمال کرتے ہیں، وہ میں یہاں لکھ نہیں سکتا
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ الگ بات ہے کہ ملکِ عدم میں موبائل کی سہولت میسر نہیں ورنہ خودکش بمبار کا میسج آتا، "ملاء جی بارود زیادہ ہوگیا تھا۔ جنت پیچھے چھوٹ گئی ہے۔":laugh:
ایکسیلنٹ یار :)

ویسے ملک عدم تو کیا ملکِ پاکستان میں بھی یہ سہولت موجود نہیں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ تحریر میرے دوست شیخو کی ہے ۔۔ مگر میں اس سے سو فیصد متفق ہوں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے

جہاں دیکھو میلاد ، جہاں دیکھو مجلس ، جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی محفل ۔۔۔
اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی عقیدت ہے اور آپ اس کو مانتے بھی ہیں تو ایک جگہ مقرر کرلیں ۔ پھر جو جی چاہے کریں ۔۔لوگوں کو تو قربانی کا بکرا نہ بنائیں اور نہ ہی کوئی ایسا سیکورٹی رسک پیدا کریں جس سے عام معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو۔

کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟
میرے خیال میں اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئے۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔
ہم تمام لوگوں کو سر عام مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ پاکستان کا عام مسلمان سکھ کا سانس لے سکے۔اگر پاکستان میں مذہبی اجتماعات مخصوص کردہ جگہوں پر ہونے لگے تو آپ دیکھئے گا کہ اور کچھ ہو نہ ہو پاکستان میں تفرقہ بازی ضرور ختم ہو جائے گی

بالکل ! بہت اچھی بات ہے۔ یہ بات تقریباً سبھی لوگ پسند کرتے ہیں لیکن کہتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ اس قسم کے بیانات آپ کے ایمان کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم محفل میں اس بات پر تقریباً لوگ متفق نظر آتے ہیں۔

اگر اس دھاگے میں رائے شماری بھی شامل کر دی جائے تو لوگوں کی رائے جاننے میں آسانی ہو سکتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
متفق تو سب ہیں، اصل مسئلہ پابندی کے اجرا کا ہے۔ حکومت کو اگر موثر پابندی لگانی ہے تو بلاتفریق ہر مذہبی اجتماع پر پابندی لگانی ہوگی۔ ورنہ ایسے بیانات کہ شیعہ اپنے جلوسوں پر پابندی لگائیں، یا بریلوی اپنے جلوسوں پر پابندی لگائیں فرقہ وارانہ سوچ کی عکاس ہی سمجھے جائیں گے۔ پابندی میں عیدین کے اجتماع بھی شامل ہونے چاہییں، ورنہ شیعہ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ایک اجتماع تو ملک میں جائز ہے لیکن دوسرے اجتماع پر پابندی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
متفق تو سب ہیں، اصل مسئلہ پابندی کے اجرا کا ہے۔ حکومت کو اگر موثر پابندی لگانی ہے تو بلاتفریق ہر مذہبی اجتماع پر پابندی لگانی ہوگی۔ ورنہ ایسے بیانات کہ شیعہ اپنے جلوسوں پر پابندی لگائیں، یا بریلوی اپنے جلوسوں پر پابندی لگائیں فرقہ وارانہ سوچ کی عکاس ہی سمجھے جائیں گے۔ پابندی میں عیدین کے اجتماع بھی شامل ہونے چاہییں، ورنہ شیعہ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ ایک اجتماع تو ملک میں جائز ہے لیکن دوسرے اجتماع پر پابندی۔
عیدین کے اجتماع ہمیشہ ایک ہی جگہ ہوتے ہیں، یعنی مرکزی مساجد وغیرہ
 
Top